
مراٹھی کے مشہور مُصنّف بھال چندر نموڑے کا ایک انٹرویو ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں چھپا ہے۔ کیوں چھپا ہے؟ اس لیے کہ انہیں ’’گیان پیٹھ‘‘ اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ’’گیان پیٹھ‘‘ اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے مالک ایک ہی ہیں‘ ورنہ ایسا انٹرویو کسی انگریزی اخبار میں چھپنا ممکن نہ تھا۔ نموڑے نے انگریزی بھارت کے بارے میں جو دوٹوک بات کہی‘ وہ بات آج تک کسی گیان پیٹھ اعزاز جیتنے والے نے نہیں کہی۔ کئی گیان پیٹھ اعزاز سے نوازے جانے والے میرے ذاتی دوست رہے ہیں اور انہوں نے بھارت میں انگریزی زبان کے زور پکڑنے کے خلاف کچھ نہ کچھ کہا ہے، لیکن نموڑے جی نے تو کمال ہی کر دیا۔ وہ لفظوں کے جادوگر ہیں‘ یہ ان کے اس انٹرویو نے ثابت کر دیا ہے۔
نموڑے جی نے انگریزی کو ’قاتل زبان‘ کہا ہے۔ اسے تعلیمی میدان سے بالکل نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسکولوں میں انگریزی لازمی کرنے کے بجائے انگریزی کی تدریس ختم کر دینی چاہیے۔ پہلی سے مڈل کلاس تک مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہیے۔ مادری زبانوں کی حمایت اور مخالفت کسی ایک رَو میں بہہ کر نہیں بلکہ خالص سائنسی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ نموڑے جی نے ان خیالات کا اظہار خود انگریزی کے پروفیسر رہتے ہوئے کیا۔ وہ لندن کے ’اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز‘ میں پروفیسر رہے ہیں۔
انہوں نے انگریزی کے تباہ کن کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے ایک سو پچاس سال میں انگریزی ’ڈائن‘ امریکا کی لگ بھگ ڈیڑھ سو اور آسٹریلیا کی تین سو زبانوں اور بولیوں کو ڈکار گئی ہے۔ خود برطانیہ کی پانچ زبانوں کو بھی انگریزی نے اپنی خوراک بنا لیا ہے۔ اس کے جبڑے سے صرف ’آئرش‘ زبان ہی بچ سکی ہے۔ انہوں نے یونیسکو کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر بھارت میں تعلیم کا پھیلاؤ سچ مچ کرنا ہے تو یہ صرف مادری زبانوں میں دی جانی چاہیے۔
وہ انگریزی زبان یا ادب سے نفرت نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ جسے سیکھنا ہے‘ وہ انگریزی سیکھے، لیکن اس زبان میں تعلیم کیوں دی جائے؟ اسے ہمیں جوتی کی طرح استعمال کرنا چاہیے، اسے گھر سے باہر رکھنا چاہیے، جب باہر جائیں تو پہن لیں۔ نموڑے جی کی بات کو میں تھوڑا آگے بڑھاتا ہوں۔ ہم بھارتی لوگوں نے اس جوتی کو اپنی پگڑی بنا رکھا ہے حالانکہ اس کی جگہ ہمارے پاؤں میں ہونی چاہیے‘ ہمیں اس کو سر پر نہیں سجانا چاہیے۔ ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے ارکان پارلیمان اور جج صاحبان بھی بالکل شرم محسوس نہیں کرتے۔ ملک میں کوئی دیانند سرسوتی‘ گاندھی اور لوہیا نہیں ہے، جو ان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان کھینچے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۲؍فروری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply