
کچھ راستے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیں نہ صرف مشکل لگتے ہیں بلکہ ایسے راستوں میں ابہام بھی پایا جاتا ہے، جو ہمیں گمراہ کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو راستوں کا ٹیڑھا پن سمجھنے کے بعد اپنی زندگی ان راستوں کے عین مطابق ترتیب دیتے ہیں وہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دامن بھی پاک رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقدر میں گردش ایام آتی تو ہے مگر وہ ان دکھوں اور تکلیفوں سے لڑنے کا حوصلہ نہیں چھوڑتے اور یوں زندگی سے شکوے کرنے کے بجائے وہ اس زندگی کو بہت کچھ دے جاتے ہیں جس سے آنے والی ہزاروں نسلیں مستفید ہوتی ہیں۔
ایک ایسا شخص جو مغربی معاشرے میں اس وقت پیدا ہوا جب وہاں مادہ پرستی اپنے عروج کی طرف جا رہی تھی اور ہر شخص اس مادہ پرستی میں ڈوب کر اپنا وجود تک بھلا چکا تھا۔ اس کا نام ولیم پیک تھال تھا، جو لندن میں ۱۸۷۵ء میں ایک پادری کے ہاں پیدا ہوا۔ اس کے اندر کی بے چینی نے اس وقت کروٹیں بدلنا شروع کر دیں جب اس نے عرب کی طرف سفر کیا اور ان ہوائوں میں موجود منزل کی خوشبو کو محسوس کیا۔ پھر ۱۹۱۷ء میں اسلام کو اس طرح گلے لگایا کہ آخری سانسوں تک اسلام کی خدمت کی اور محمد مرمیڈیوک پیکتھال معروف ہوا۔
محمد مرمیڈیوک پیک تھال نے ۱۹۱۹ء میں لندن میں موجود اسلامی معلوماتی بیورو میں اپنی خدمات سرانجام دیں جو ایک ہفتہ وار شائع کرتا تھا۔ ۱۹۲۰ء میں وہ آخری ناول The Early Hour مکمل کرنے کے بعد ہندوستان روانہ ہوگئے اور Bombay Chronicle کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ مرمیڈیوک کو ہندوستان پر برطانوی قبضے کا شدید دکھ تھا جس کا اظہار وہ ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی کرتے تھے۔ پیک تھال فطری طور پر حیدرآباد کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اس کی طرف سے جب ۱۹۲۵ء میں انہیں اسکول ٹیچنگ کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے قبول کر لی۔ اس وقت حیدرآباد شہر میں تقریباً ۴ لاکھ باشندے رہتے تھے اور ریاست حیدرآباد کی آبادی بھی ۱۲ لاکھ کے قریب تھی۔ میر عثمان علی خان وہاں کے حکمران تھے وہ بھی اسلام میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں نظام آف حیدرآباد کی سرپرستی میں شائع ہونے والے اسلامی ثقافت کے رسالے کے ایڈیٹر بن گئے۔ ہندوستان کے شہر مدراس (چنائی) میں “Madras Lectures on Islam” کی کمیٹی کی دعوت پر انہوں نے اسلامی تہذیب کے مختلف پہلوئوں پر لیکچر دیے۔ ان کے یہ لیکچر ۱۹۶۱ء میں “Cultural Aspect of Islam” کے عنوان سے اشرف پبلشرز نے شائع کئے۔ ہندوستان میں رہ کر انہوں نے اردو اور فارسی کا مطالعہ کیا اور کئی بار جمعہ کے خطبات بھی دیے۔
زندگی میں جس راستے کا انہوں نے انتخاب کیا تھا وہ راستہ اب منزل کے قریب پہنچ چکا تھا اب مرمیڈیوک وہ کچھ کرنے جا رہا تھا جو اس سے پہلے کسی کے نصیب میں نہیں تھا۔ ۱۹۲۸ء میں قرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ ان کی زندگی کا عظیم کارنامہ تھا۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جو انہوں نے بہت پہلے دیکھا مگر ان کے پاس اس وقت اتنا علم نہیں تھا کہ وہ یہ کارنامہ سرانجام دے سکتے۔ ترجمے میں انہوں نے دوسرے علماء کی طرح لفظ قرآن کو قرآن ہی لکھا۔ اس ترجمہ کا عنوان انہوں نے “The Meaning of Glorious Koran” رکھا جو ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے ترجمے کے دوران کئی علماء سے مشاورت کی۔ لندن کے علاوہ ۱۹۲۹ء میں تین مہینوں کے لیے مصر میں رہے اور وہاں موجود علماء سے ملاقات کی۔
۱۹۳۵ء میں انڈیا سے واپس آئے اس وقت ان کی عمر ۶۰ سال تھی۔ ایک سال بعد “St.Lves” چلے گئے۔ زندگی اب اپنا سفر مکمل کر چکی تھی اور جس کام کو انہوں نے اپنی منزل کا نام دیا تھا وہ اس منزل کو پا چکے تھے۔ جو راستہ انہوں نے زندگی گزارنے کے لیے چنا تھا وہ راستہ ایک روشن راستہ تھا۔ جس نے نہ صرف ان کی زندگی میں نور بکھیر دیا بلکہ یہ پیغام دیا کہ سچائی کا راستہ ہی کامیابی کا راستہ ہے اور یوں وہ اسلام کے خدمت گزاروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا گئے۔ وہ ۱۹ مئی ۱۹۳۶ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں ۲۳ مئی ۱۹۳۶ء کو سرے میں مسلمانوں کے قبرستان بروک وڈ میں دفن کیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں پاکستانی نظریاتی کونسل نے ان کے قرآن مجید کے ترجمے کی تصدیق کی۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’نظریہ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply