زمیں جاگتی ہے
یہ آسماں جانتا ہے
رگوں میں جو ٹھہرے وہی بہہ رہا ہے
سلام اُس پر جو اس زمیں پہ مٹا ہے
عاطف اسلم جب ان الفاظ کو اپنے مخصوص انداز میں گاتے ہیں تو ساتھ چلنے والی ویڈیو عوامی خدمت اور بہادری کی داستان سناتی ہے۔ ویڈیو میں کیپٹن احمد نامی بہادر کردار پہلے ایک بازار میں کسی نوجوان عورت کو لُٹنے سے بچاتا ہے اور پھر فوجی کارروائی کے دوران طالبان سے مشابہ جنگجوؤں کے چنگل سے عورتوں اور بچوں کو چھڑاتے ہوئے جان قربان کردیتا ہے۔ بچنے والی خاتون ایک صحافی ہوتی ہے جو احمد کی ڈائری اور رشتے داروں کے ذریعے اس کی کہانی سامنے لاتی ہے۔ یہ کہانی اگلے روز کے اخبار میں ’’پاکستان کے اصل ہیرو‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ پہلے صفحے پر شائع ہوتی ہے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے یومِ شہدا قرار دیے جانے والے دن ۳۰؍اپریل کو ۲۰۱۳ء میں جاری کی گئی اس ویڈیو میں تعلقاتِ عامہ (Public Relations) کا ہنر اپنے کئی پہلوؤں کے ساتھ نمایاں ہے۔ مثلاً: متاثر کُن موسیقی، عسکری شجاعت اور انسانی دلچسپی کی حامل خوبصورت کہانی۔ اس میں موجود پیغام کی رُو سے سپاہی ہر کسی کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امن ہو یا جنگ، عسکری حکام ہر حال میں لوگوں کی مدد اور تحفظ کے لیے تیار ہیں اور ان کی کہانیوں کو مرکزی ذرائع ابلاغ میں جگہ ملنی چاہیے۔
فوج سے متعلق معلومات کو مرکزی ذرائع ابلاغ یعنی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں جگہ دینے کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے مسلح افواج کے انتہائی متحرک شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم باجوہ (جو اب لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پاچکے ہیں)کہتے ہیں: ’’۸ جون ۲۰۱۴ء کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ جب میں نے ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ رپورٹر اور کیمرہ مین تقریباً ہوائی اڈے کے اندر کھڑے ہیں اور انہیں اس حساس مقام پر جانے سے روکنے والا کوئی نہیں، جہاں لڑائی جاری تھی اور ان کی موجودگی کئی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ میں نے وفاقی وزارت اطلاعات کے اعلیٰ اہلکار سے بات کی تو انہوں نے مجھے سندھ حکومت سے رابطہ کرنے کا کہا کیونکہ واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا۔ سندھ حکومت کے حکام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈے کا انتظام شہری ہوا بازی کے ادارے کے پاس ہے جس سے صوبے کا کوئی تعلق نہیں۔ شہری ہوابازی کے ادارے میں بات کی تو کہا گیا کہ ان کا کام تو بس اتنا ہے کہ پروازیں بروقت آتی اور جاتی رہیں‘‘۔
سخت حیرانی کا شکار باجوہ نے انتظام خود سنبھالنے کی ٹھانی۔ ’’میں نے (آرمی) چیف کو مطلع کیا اور کراچی کے اسٹیشن کمانڈر کو ائرپورٹ بھیجنے کی درخواست کی جنہوں نے فوراً ہی تمام صحافیوں کو ہوائی اڈے سے باہر منتقل کردیا۔ اسی دوران میں مَیں نے تمام ٹی وی چینلوں کے ڈائریکٹر نیوز اور اخبارات کے مدیران کو یقین دہانی کرائی کہ انہیں لمحہ بہ لمحہ آگاہی ملتی رہے گی‘‘۔ اس کے بعد ہوائی اڈے پر جو بھی کارروائی ہوئی، اُس کی روداد وہ ٹوئٹر کے ذریعے پاکستان بھر کے نیوز رومز تک پہنچاتے رہے۔ انہوں نے ایک احساسِ تفاخر کے ساتھ بتایا کہ ’’اس کے بعد جب میں نے امریکا کا دورہ کیا تو وہ لوگ اس حملے کے دوران میں میری جانب سے معلومات کی مؤثر انداز میں فراہمی پر بہت حیران تھے‘‘۔
صحافی متفق ہیں کہ فوج اور آئی ایس پی آر کے بارے میں خبرگیری کے پرانے طریقے اب افادیت کھوچکے ہیں۔ ماضی کے برعکس اب اعلیٰ فوجی افسران کے تقرر اور تبادلے کی خبریں افواہیں نہیں بنتیں، حالانکہ صحافیوں کو یاد ہے کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں اسی بارے میں خبر لیتے لیتے انہیں انٹیلی جنس افسران کے ہاتھوں کتنی بدسلوکی اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب ان تبدیلیوں کی خبریں باضابطہ پریس ریلیز، ای میل یا ٹویٹ کے ذریعے نیوز رومز تک پہنچ جاتی ہیں۔
اوپر تحریر کردہ نغمے کی طرح جب صحافیوں کو فوج کے بارے میں مثبت مؤقف اپنانے کی طرف ’’راغب‘‘ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آئی ایس پی آر پردے میں ہی رہتا ہے۔ اس بارے میں ’’صحافی سے تجزیہ کار‘‘ بن جانے والے نجی مشیران کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو نمائندگان اور مدیران سے رابطے کرتے ہیں۔ اس طرح کے مشاورتی ادارے چلانے والوں نے بتایا کہ کس طرح وہ بڑی تعداد میں ان صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں جو ’’فوج نواز‘‘ خبر آگے بڑھانے کے لیے ہر وقت تیار پائے جاتے ہیں۔
پرانے نظام میں آئی ایس پی آر کے حکام کو نمائندوں اور مدیران سے براہ راست رابطے رکھنے پڑتے تھے، مگر اب یہ موقع چند ہی لوگوں کو حاصل ہے جن میں ٹی وی مذاکروں کے میزبان، اخباری لکھاری اور مدیران سرفہرست ہیں۔ ظاہر ہے فوج کی جانب سے ان کی برادری میں اس طرح کی تخصیص پر صحافی خوش نہیں ہیں، تاہم آئی ایس پی آر کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے بقول ایسا نہیں ہے کہ صحافیوں کو ان کے ادارے میں کمتر درجے پر دیکھا جارہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا پورا نظام صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ معلومات کے تبادلے پر مبنی ہے‘‘۔
یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ آئی ایس پی آر ذرائع ابلاغ کے ساتھ معلومات کا اشتراک کررہا ہے، تاہم یہ معلومات کس طرح اور کس تک پہنچائی جارہی ہیں، اس میں بہت فرق آگیا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ اور ویب گاہوں کو تواتر کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے اور فلموں، گانوں، ڈراموں اور دستاویزی فلموں جیسے غیر خبری ذرائع کو بہت فوقیت حاصل ہے۔ برقی اندازمیں تیار کردہ یہ مواد صحافیوں کو ایک طرف کرتے ہوئے عوام تک براہ راست پہنچ جاتا ہے۔
تاریخی طور پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آزادی کے بعد ایک عرصے سے آئی ایس پی آر فوجی خبروں کے علاوہ بھی بہت کچھ عوام تک پہنچاتا رہا ہے۔ اس کا اپنا شعبۂ مطبوعات ہے جو ۲۰۰۷ء سے ماہنامہ ’’ہلال‘‘ شائع کررہا ہے (’’ہلال‘‘ کو زیادہ تر فوجی ہی پڑھتے ہیں جو ۱۹۵۱ء میں ہفتہ وار شروع ہوا، ۱۹۵۲ء میں روزنامہ ہوا، اور ۱۹۶۴ء میں پھر ہفتہ وار ہوگیا)۔ آئی ایس پی آر ۱۹۶۰ء کی دہائی سے دستاویزی فلمیں جاری کررہا ہے اور جوشیلے نغموں اور دیگر تشہیری مواد کا اجرا بھی دہائیوں سے جاری ہے۔
پھر بھی آئی ایس پی آر کی سرگرمیوں میں حالیہ برسوں کے دوران میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں اس نے ایک مکمل دورانیے کی فیچر فلم پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد دستاویزی فلمیں، بہت سے جوشیلے نغمے اور تین ڈرامہ سیریل تیار کیے۔ عاصم باجوہ کے ٹوئٹر پر موجود ۱۳؍لاکھ سے زائد مداحوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ تعداد ملک کے تین بڑے اخبارات کی مجموعی اشاعت سے بھی زیادہ ہے۔ ڈان نیوز ٹی وی چینل پر مذاکرہ کی میزبانی کرنے والے سینئر رپورٹر مبشر زیدی سمجھتے ہیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے روابط رکھنا اب ’’(آئی ایس پی آر کی) ذمہ داریوں کا محض چھوٹا سا حصہ بن کر رہ گیا ہے‘‘۔
یہ بندے مٹی کے بندے
یہ جھنڈے مٹی کے جھنڈے
یہ جائیں اونچے تارے تک
چاند کے پار کنارے تک
اس نغمے کے پیش منظر میں چلنے والی ویڈیو میں ایک انتہائی مؤثر فوجی کارروائی ہوتی دکھائی گئی ہے جس میں نوجوان فوجی افسر دہشت گردوں کی کمین گاہ پر جھپٹ رہے ہیں جہاں مغوی شہریوں کو رکھا گیا ہے۔ ایئرفون، ماؤتھ پیس، رات میں دیکھنے والے چشموں اور نشانہ باز رائفلوں سے مسلح، حفاظتی لباس اور ہیلمٹ پہنے یہ افسران اکیسویں صدی کے مثالی پاکستانی فوجی بن کر سامنے آتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور دلیری کے جذبات سے سرشار ہیں۔ یہ فوجی ایک انتہائی ماہرانہ کارروائی کرتے ہوئے سب دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار کر تمام مغویوں کو بازیاب کرالیتے ہیں اور خود معمولی زخمی ہوتے ہیں۔
انتہائی جدید دور کے فوجیوں کی ایسی عکس کشی تبھی ممکن تھی جب اس کے لیے ابلاغ کے مؤثر ذرائع استعمال کیے جائیں اور آئی ایس پی آر ان ذرائع کو مکمل طور پر بروئے کار لارہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی، دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں جانی نقصان، عسکری قیادت کی آپس میں، اور حکومتی عہدیداروں یا بیرونی حکام سے ملاقاتیں یا فوجی استعمال کے جدید آلات کی رونمائی، کچھ بھی ہو آئی ایس پی آر کے حکام فیس بک اور ٹوئٹر پر فوراً متحرک ہوجاتے ہیں۔ خبری تفصیلات جاری کی جاتی ہیں، تصاویر شائع ہوتی ہیں اور ملٹی میڈیا مواد کے لنکس مشترک کیے جاتے ہیں۔
سماجی ذرائع ابلاغ پر فوج کی نمائندگی کرنے والے باضابطہ اکاؤنٹس بہت تھوڑے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ عاصم باجوہ اپنے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس چلاتے ہیں اور ان کے ادارے کے بھی الگ الگ فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس ہیں جبکہ فوج کا بھی ایک فیس بک اکاؤنٹ ہے جسے آئی ایس پی آر چلاتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اور بھی اکاؤنٹس ہیں۔
۲۹ نومبر ۲۰۱۳ء کو بطور آرمی چیف تقرری کے فوراً بعد جنرل راحیل شریف کے کوئی ۳۷ فیس بک اکاؤنٹس نمودار ہوگئے۔ اسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے بھی متعدد فیس بک اکاؤنٹس ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر فوجی حکام کے ان بے شمار اکاؤنٹس کے علاوہ فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر لاتعداد اکاؤنٹس اور صفحات ایسے ہیں جو فوج کی کارکردگی یا نظریات کو متحرک انداز میں فروغ دیتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے سپہ سالار بنتے ہی بہت سے اکاؤنٹس نے انہیں انتہائی پیشہ ور فوجی قرار دینا شروع کردیا جس کی ابتدا ان کی ضعیف العمر والدہ کی تصویر کے ساتھ پوچھے گئے اس سوال سے ہوئی کہ ان سے زیادہ مقدس خاتون پاکستان میں اور کون ہوں گی جن کے شوہر (رانا محمد شریف)، بھائی (راجا عزیز بھٹی) اور بڑے صاحبزادے (شبیر شریف) فوج میں میجر تھے اور ان میں سے آخری دو کو شجاعت کا اعلیٰ ترین عسکری اعزاز ’’نشانِ حیدر‘‘ بھی ملا۔
فیس بک پر ہونے والی ایک اور انتہائی مشہور پوسٹ میں جنرل راحیل شریف کو کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی سندھ رینجرز کے ساتھ جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ساتھ میں تین شیروں کی تصویر لگاکر لکھا گیا ہے: ’’کراچی میں دہشت گردوں کا جینا کبھی اتنا دوبھر نہ ہوا تھا‘‘۔ دیگر کئی تحریروں میں جنرل راحیل کو پاکستانی عوام کی بہبود کے لیے پُرعزم، انتہائی پیشہ ور اور فعال شخصیت ظاہر کرتے ہوئے پڑھنے والوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے دہشت گردی اور بدعنوانی کی جڑواں برائیوں کا خاتمہ کردیں گے۔ مکمل فوجی وردی میں ملبوس آرمی چیف کی ایک تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ ’’بلاشبہ جنرل راحیل پاکستان کے لیے اللہ کی نعمت ہیں اور ہمیں اس کے لیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘‘۔ ایک اور تصویر میں ترازو کو انصاف کے استعارے کے طور پر دکھایا گیا ہے جس کے سامنے جنرل راحیل کھڑے ہیں، اوپر ان کا نام لکھا ہے اور نیچے فوجی عدالتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’انصاف کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ بے انصافی ہمیشہ نہیں رہ سکتی‘‘۔
کبھی کبھی پاکستان کی برقی دنیا راحیل شریف کے شانہ بشانہ چلتی نظر آتی ہے۔ اگر وہ قبائلی علاقوں میں جوانوں سے ملنے پہنچیں تو ان کے برقی مداح انہیں ایک ایسا شاندار کمانڈر قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو سپاہیوں کے ہم قدم چلنے کے لیے خود اپنی پروا بھی نہیں کرتا۔ جب وہ دہشت گردی کا شکار خاندانوں یا شہید فوجیوں کے بچوں اور بیواؤں سے راولپنڈی میں اپنے دفتر میں ملتے ہیں تو انہیں عوامی شخصیت کہا جانے لگتا ہے۔ بلوچستان اور کراچی کا رخ کریں تو انہیں ایک ایسا نڈر کمانڈر بتایا جاتا ہے جو اس محاذ پر جاپہنچا ہے جہاں اس سے پہلے کسی کو کامیابی نہیں ملی۔ بیرونی عمائدین کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کو ان کی غیرمشروط حب الوطنی اور بے مثال ریاستی سرپرستی (Statesmanship) کا پرتو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
فوج کے دیگر حاضر سروس اور سابق افسران کو بھی افواج سے منسلک سماجی ذرائع ابلاغ کے اکاؤنٹس اور ویب گاہوں پر خوب پذیرائی ملتی ہے۔ گزشتہ ماہ جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کی وفات ہوئی تو انٹرنیٹ ان کے کارناموں پر مبنی کہانیوں سے بھرا پڑا تھا، جن میں انہیں ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جس نے تنِ تنہا سوویت یونین کو شکست دے ڈالی تھی۔ اپنے بیٹے کو محاذِ جنگ پر بھیجنے والے فوج کے ایک جرنیل کو بھی اسی سے ملتی جلتی برقی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان سائبر ’’جنگجوؤں‘‘ کا ایک اور محبوب موضوع ان نوجوان فوجی افسران کے بہادر کارناموں کو اجاگر کرنا ہے جو دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے اپنی جانیں جانِ آفریں کے سپرد کرگئے۔ کبھی کبھی ان کی کٹھن زندگیوں کو ’’نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کی پُرتعیش زندگیوں‘‘ سے مسابقت دی جاتی ہے۔
عسکری قیادت کی تاثر سازی کے علاوہ ان اکاؤنٹس کا ایک اور مقصد سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات کو اپنے تناظر میں اجاگر کرنا بھی ہے۔ فوج کو ایک ایسے دشمن سے غیرمتوازن جنگ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جو پاکستان کے خلاف مخاصمانہ عزائم رکھتا ہے اور ہمارے ملک کی بربادی کے لیے دانشمندانہ معاشی، نظریاتی، ثقافتی اور عسکری ذرائع استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ پھر کچھ پاکستانیوں کو اندرونی دشمن قرار دیتے ہوئے اور انہیں ریاست کے بیرونی دشمنوں کا حامی ظاہر کرتے ہوئے ان کے ساتھ ساز باز کرنے والا ثابت کیا جاتا ہے۔ ان میں عموماً سیاست دان، صحافی، لکھاری، اداکار اور متنازع مذہبی شخصیات شامل ہوتی ہیں۔
موضوع کی حساسیت کے باعث گمنام رہنے کے خواہش مند کراچی کے ایک سماجی ذرائع ابلاغ کے ماہر نے بتایا کہ یہ مواد زیادہ تر ایسے اکاؤنٹس سے پیدا کیا جارہا ہے جن کی شناخت چُھپی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پاک آرمی چینل (Pak Army Channel) فیس بک اور یوٹیوب دونوں پر موجود ہے۔ اس کی شناخت کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ ظاہر نہیں ہوپاتا کہ شاید اس کے منتظمین جرمنی میں مقیم ہیں۔ چینل پر فوج سے متعلق سیکڑوں ویڈیوز، فوج نواز نغمے، خبری رپورٹیں اور دیگر ملٹی میڈیا مواد پایا جاتا ہے اور یہ خفیہ شناخت رکھنے والے بے شمار اکاؤنٹس میں سے ایک ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے ماہر کے بقول ’’ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے ہم ان کی اصل شناخت کا پتا چلا سکیں۔ ان کا کھوج ہمیں کسی اصل فرد یا ادارے تک نہیں پہنچا سکتا‘‘۔
آئی ایس پی آر نے اپنے تئیں یہ واضح کر رکھا ہے کہ اس کا ان خفیہ اکاؤنٹس اور ویب گاہوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ادارے کے ایک اعلیٰ افسر سے جب انٹرنیٹ پر موجود اس طرح کے مواد کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’کسی کے خلاف کسی بھی طرح کی منفی یا بدنیتی پر مبنی مہم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘‘۔ اس کے برعکس ہمیں یہ بتایا گیا کہ عسکری قیادت نے فوجی اور انٹیلی جنس افسران کے ان جعلی سماجی ذرائع ابلاغ کے اکاؤنٹس کے بارے میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے دسمبر ۲۰۱۴ء میں شکایت کی تھی۔ پی ٹی اے نے غالباً فیس بک انتظامیہ سے اس سلسلے میں بات کی تھی جس کے بعد عارضی طور پر ہی سہی، لیکن بہت سے ایسے اکاؤنٹس کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
اس بات سے قطع نظر کہ فوج اور آئی ایس پی آر ان ویب گاہوں اور اکاؤنٹس کو اپنا مانتے ہیں یا نہیں، یہاں سے زیادہ تر ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن سے فوج کی بحیثیت ادارہ یا فوجیوں کی بحیثیت افسران انا کو تسکین ضرور ملتی ہے۔ انٹرنیٹ اور سماجی ذرائع ابلاغ پر کئی جگہ یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آیا جنرل راحیل شریف کو بحیثیت آرمی چیف نومبر ۲۰۱۶ء کے بعد توسیع ملنی چاہیے یا نہیں (ظاہر ہے زیادہ تر کا جواب ’ہاں‘ میں ہوتا ہے)، اور یہ توسیع تین سال کے لیے ہونی چاہیے، پانچ سال کے لیے یا ساری زندگی کے لیے۔ گزشتہ ماہ کے آخر تک پانچ سال تک توسیع کے حق میں بنائے گئے ایک صفحے کو ۳۳ ہزار لوگ پسند کرچکے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر گمنام ماہر ذرائع ابلاغ اس متنازع نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’یہ مہمات دراصل سوچے سمجھے اقدامات ہیں‘‘۔
آئی ایس پی آر میں ۲۰ سال تک کام کرکے اس کے سربراہ کے طور پر ۱۹۷۳ء میں سبکدوش ہونے والے ریٹائرڈ بریگیڈئر اے آر صدیقی کہتے ہیں کہ ’’تاثر کی ایسی تعمیر‘‘ عموماً ’’ادارہ جاتی ہدایات کی روشنی میں مکمل ریاستی طاقت کے ساتھ کی جاتی ہے‘‘۔ ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “The Military in Pakistan; Image and Reality” میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ضروری نہیں کہ تاثر ہمیشہ ہی غلط یا غیرحقیقی ہو، مگر وہ مکمل حقائق کو شاذ و نادر ہی بیان کرتا ہے۔ بلکہ تاثر کی ضرورت ہی عموماً اس وقت پڑتی ہے جب حقیقت اپنے اصل رنگ اور ساخت میں اجاگر کیے جانے کے لیے اتنی اچھی، بھرپور اور وزن دار نہ ہو‘‘۔
اپنی کتاب میں جگہ جگہ وہ اپنے مؤقف کی تصدیق تاریخی حوالوں سے کرتے ہیں۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں ’’احمدی‘‘ مخالف فسادات روکنے کے لیے جب میجر جنرل محمد اعظم خان نے لاہور میں مارشل لا نافذ کیا تو فوجی افسران کو ’’معروف ہیرو اور رہنماؤں کے طور پر سمجھا اور پیش کیا گیا‘‘۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہر روز خبری تصاویر میں انہیں عوامی اجتماعات کی صدارت کرتے، لوگوں سے خطاب کرتے، شہر کے مختلف علاقوں کا جائزہ لینے کے لیے دورے کرتے اور نئے بازاروں اور عوامی عمارتوں کا افتتاح کرتے دکھایا جاتا تھا۔‘‘
ایک اور باب میں وہ لکھتے ہیں کہ تاثر سازی کی ان متواتر مشقوں سے ’’فوج ایک ایسے سماجی اشرافیہ کے طور پر سامنے آتی ہے جو مختلف سطحوں پر اپنے کمانڈروں اور بالآخر کمانڈر اِن چیف (آرمی چیف) کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں‘‘۔ ذاتی وفاداری کا یہ عنصر بڑھتے بڑھتے آخرکار ایسے واقعات تک جاپہنچتا ہے جن کا نتیجہ عوامی حکومت کی برطرفی اور فوجی آمریت کی صورت میں نکلتا ہے۔ وہ خبردار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اس کے جواب میں فوجی سربراہ اپنے ذاتی عزائم کی بنا پر تمام افسران کی وفاداری کو اپنی سیاسی طاقت بڑھا کر آمر بن جانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تشخص کی متواتر تعمیر فوجی بغاوت کا نتیجہ ہی نہیں، اس کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
میں آنے والا کل ہوں، وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کا وہم ہوگا کہ وہ ایسے خواب مارے گا
بتا آیا ہوں دشمن کو کہ اس سے تو بڑا ہوں میں
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر گزشتہ سال ہونے والے دردناک حملے کے بعد جاری کردہ اس نغمے کے جوشیلے اور جذباتی بول ایک ایسی ویڈیو کے ساتھ سنائے جاتے ہیں جس میں دہشت گردی کے بے پناہ خطرے کے باوجود بچوں کو عزم و حوصلے کے ساتھ قلم کتاب تھامے اسکول جاتے دکھایا گیا ہے۔ اسکول کی اسی سماعت گاہ کو بچوں سے پُر دکھایا گیا ہے جس میں لگ بھگ ۱۵۰ بچوں کی جانیں لی گئی تھیں۔ نغمے کے آخر میں اسکول پرنسپل نمودار ہوکر یہ الفاظ کہتا ہے ’’اسکول میں دوبارہ خوش آمدید‘‘۔
اسکول پر بزدلانہ حملہ کرنے والوں کو قوم کی نظروں میں بے وقعت اور بے توقیر کرنے کے لیے جذبات ابھارنے کے ضمن میں یہ نغمہ بڑی اہمیت کا حامل رہا۔ اس کے بول مذہبی عنصر کی جگہ بچوں کی معصومیت، وطن سے محبت، مشکل وقت میں بہادری، خطرات کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کے عزم اور مستقبل کی امید پر مبنی تھے، جن سے ایک ایسے دشمن کو بے نقاب کرنے میں مدد ملی جس کے بارے میں رائے عامہ آسانی سے ہموار نہیں کی جاسکتی تھی۔
مگر جلد ہی دوسری طرف موجود پروپیگنڈا کرنے والوں نے اس طریقِ کار میں نقائص ڈھونڈ نکالے اور اسی دھن پر ایک گانا جاری کرکے ان نقائص کو خوب اجاگر کیا۔ انہوں نے بچوں کو مدرسے میں مذہبی کتب پڑھتے ہوئے دکھایا اور پاکستانی فوج کے جرنیلوں کو دکھایا کہ وہ اسلام کے سچے ماننے والوں کو مارنے کے لیے سامراجی قوتوں سے پیسے لے رہے ہیں۔ گانے کے آخر میں ایک مردانہ آواز یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ ’’اسکول میں دوبارہ خوش آمدید‘‘ اور پھر ایک وقفے کے بعد گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دینے لگتی ہے۔
ایک ایسی ریاست میں جو اپنے طور پر اسلامی نظامِ حیات کو رائج کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے، طالبان کی جانب سے اس طرح کا گانا جاری ہونا ریاستی نظریات کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے کہ آخر قومی اور مذہبی بیانیہ (Narrative) کون جاری کرے گا اور ایک سے زائد بیانیے ہونے کی صورت میں فوقیت کس کو حاصل ہوگی؟
آئی ایس پی آر کی جانب سے ۲۰۱۱ء میں جاری کی گئی دستاویزی فلم ’’دی گلوریئس ریزولو‘‘ (The Glorious Resolve) اسی مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں ایک طالبان کمانڈر کی تقریر کے آخر میں اللہ اکبر کے نعرے کے بعد پاکستانی سپاہیوں کو نماز قائم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک ایسے دشمن کے ساتھ لڑنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے جو آپ کے بنیادی نظریے کا اشتراک کرتے ہوئے آپ کے طریقے کو ’’مغربی‘‘ قرار دیتا ہو اور خود اس نظریے پر بہتر عمل کرنے کا دعوے دار ہو۔
کسی جارح مزاج ہمسائے، تنگ مزاج عالمی طاقت یا غیرملکی خفیہ ایجنسی جیسے بیرونی دشمنوں سے نمٹنا اس سے کہیں زیادہ آسان تھا۔ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مذہب، بلوچستان میں قومیت اور کراچی میں جرائم، بدعنوانی اور سیاست کے آمیزے کے نام پر ہونے والی ان شورشوں سے نمٹنے کے لیے قومی بیانیہ تیار کرنے والے بہت الجھن کا شکار ہیں۔ ان کے لیے ایسا بیانیہ تیار کرنا بہت مشکل ثابت ہورہا ہے جو ان تمام عناصر کو یکجا کرکے قوم کو ایسے دشمن کے خلاف فوج کے حق میں اکھٹا کردے۔
ماضی قریب تک قومی تشخص کو اجاگر کرنے والوں نے فوج کے مقاصد اور پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری لڑائی کی پاکستانی حمایت کو جائز ثابت کرنے کے لیے آئی ایس پی آر نے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے ’’مجاہد‘‘ جیسا ڈرامہ تیار کیا۔ سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے حق میں فضا بنانے کے لیے ڈرامہ ’’اجالے سے پہلے‘‘ نشر کیا گیا۔
۱۹۹۰ء کی دہائی میں نئے فوجی افسروں کو بھی دیگر نوجوانوں کی طرح موج مستی کا شوقین، رومانوی اور متحرک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’’سنہرے دن‘‘ (۱۹۹۰ء) اور ’’الفا، براوو، چارلی‘‘ (۱۹۹۸ء) میں فوج کی ایک ایسی ’’شہری‘‘ تاثر سازی کی کوشش کی گئی جو اس وقت تک ناپید تھا وجہ یہ تھی کہ فوج کراچی میں شہری نوجوانوں کے ساتھ نبردآزما تھی۔ ۲۰۰۰ء کے اوائل سے البتہ صورت حال کو میدانِ جنگ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہب کے نام پر کام کرنے والے مدارس کے طلبہ و اساتذہ بھی وہی مذہبی، قومی اور عسکری استعارے استعمال کرنے لگے جو اب تک فوج استعمال کررہی تھی۔ طالبان نے خود کو سامراجی قوتوں کے اشارے پر لڑنے والے کافروں اور ان کے مقامی حمایتیوں کے ساتھ برسرپیکار ظاہر کرتے ہوئے خوب فائدہ اٹھایا۔ فوج کے منتظمینِ ذرائع ابلاغ پھر اس الجھن کا شکار ہوئے کہ اس مذہبی پروپیگنڈے کا توڑ آخر کس طرح کیا جائے۔
۰۹۔۲۰۰۸ء میں انہوں نے مظلومیت کا پتّا کھیلنے کی ناکام کوشش کی۔ انہوں نے دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کی حالت زار دکھاتے ہوئے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذمہ داران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان لوگوں کی روداد عوام تک پہنچانا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے دوران میں قومی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس سے اگر کچھ لوگ متاثر ہوئے بھی، تو وہ بہت تھوڑے تھے۔
ان دنوں فوج کا عوامی تشخص بدترین تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں تقریباً ایک دہائی گزارنے والی فوجی قیادت کو لوگ اپنے مفاد کی خاطر ہر طرح کی سیاسی چالوں کا حصہ تصور کرنے لگے تھے۔ عسکری محاذ پر طالبان کے ساتھ دن میں لڑائی اور رات میں صلح صفائی ہونے لگی تو لوگوں نے سمجھا کہ دونوں فریقین کی دراصل آپس میں کوئی جنگ ہے ہی نہیں۔ دوسروں کا خیال تھا کہ اقتدار کی آرائشوں اور آسائشوں نے فوج کو اتنا سہل پسند بنادیا ہے کہ اب وہ ماضی کی طرح لڑنے والی جنگجو طاقت نہیں رہی۔
بالآخر سوات میں جب فوج نے ۲۰۰۹ء میں کارروائی شروع کی تو اس کے منتظمینِ ذرائع ابلاغ نے سوچا کہ قربانیوں اور شجاعت کی داستانیں اس مہم کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ ڈرامہ سیریل ’’خدا زمیں سے گیا نہیں‘‘ اسی کا خیال کا تسلسل تھا جسے پہلے پہل پی ٹی وی اور پھر ۱۰۔۲۰۰۹ء میں ’’ہم‘‘ ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ ڈرامے کی تیاری سے وابستہ رہنے والے ایک افسر نے بتایا کہ اس پیشکش کا مقصد طالبان کے بیانیے کا توڑ کرنا تھا اور اس کے پروڈیوسر کو بتایا گیا تھا کہ ’’ہمیں اس بیانیے کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کرنا ہے‘‘۔ کاشف نثار کی ہدایات میں اصغر ندیم سید کا تحریر کردہ یہ ڈرامہ ’’قومیت، قربانی، دلیری، اور جنگجویانہ جذبے کا مظہر تھا‘‘ اور اس کے فیس بک پیج کے مطابق ’’اس نے ناظرین کو امید دلائی اور قوم کو یکجا کردیا‘‘۔
سوات میں طالبان کی شکست کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکا کہ فوج عوامی خیالات پر اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کرسکے اور بیانیے کے اعتبار سے دوبارہ جارحانہ حیثیت حاصل کرسکے۔ سوات آپریشن کے دوران میں بھی فوج اور اس کے ذرائع ابلاغ کے منتظمین کو یہی آسان لگا کہ طالبان کی سفاکیت اور زیادتیوں کو بنیاد بنا کر انہیں دشمن کا ایجنٹ ثابت کرتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ مثال کے طور پر “The Glorious Resolve” میں ایک طالبان کمانڈر کو پاکستانی سپاہی کے قتل کے بدلے فون پر ڈالروں کا مطالبہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سوات آپریشن کے تناظر میں جب آئی ایس پی آر نے ۲۰۱۱ء میں ڈرامہ ’’فصیلِ جاں سے آگے‘‘ بنایا تو اس میں بھی بیرونی عنصر کو اجاگر کیا گیا۔
“Tribute to the immortals by the mortals” کے عنوان سے بنائے گئے ڈرامے میں فوجی افسران، سرکاری حکام اور عام شہریوں کی سچی کہانیاں شامل کی گئی تھیں جو طالبان کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ کمیونیکیشن ریسرچ اسٹریٹجی (سی ایس آر) نامی نجی کمپنی کے تیار کردہ اس ڈرامے کی کئی اقساط معروف ٹی وی لکھاری ظفر معراج نے تحریر کیں۔ کس کہانی پر ڈرامہ لکھا جائے، یہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مجھے آئی ایس پی آر کی جانب سے دس کہانیاں موصول ہوئی تھیں‘‘۔
اس سیریل کی کہانیوں میں سے ایک ’’معرکۂ چُپڑیال‘‘ بھی تھی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ یہ بھی دکھایا گیا کہ ایک طالبان کمانڈر طیارہ شکن توپ چلانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے سرحد پار سے کسی کو بلا رہا ہے۔ ڈرامے کے آخر میں اس کی شناخت ہندو کے طور پر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ طالبان کو وصیت کرتا ہے کہ اسے دفنانے کے بجائے جلایا جائے۔
۲۰۱۲ء میں آئی ایس پی آر نے نامور اداکار و ہدایتکار نعیم طاہر کو ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ نامی سیریل بنانے کا کام سونپا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، نعیم طاہر نے بتایا کہ اس کا مقصد ’’ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی نفی کرنا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرنے والے اس حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تھا‘‘۔ انہوں نے اس کا ایک اور مقصد یہ بیان کیا کہ ’’بھارتی معاشرے میں پلنے والی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو بے نقاب کیا جائے‘‘۔ یہ ڈرامہ ظاہر ہے پاکستانی عوام کو یہ باور کرانے کے لیے بنایا گیا تھا کہ ان کا ملک بھارتی سازشوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
فوج کے منتظمینِ ذرائع ابلاغ اس وقت بہت پُرجوش تھے جب ۲۰۱۳ء میں اداکار شان کی ’’وار‘‘ نامی فلم دیکھنے کے لیے شائقین سنیما گھروں میں اُمڈ آئے تھے۔ سابق فوجی افسر اور اسے لبھاکر پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والی بھارتی ایجنٹ کے گرد گھومتی حب الوطنی کے جذبات سے بھرپور اس کہانی کو بلاشبہ آئی ایس پی آر کی پیشکش کہا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں بہت سوں نے یہ کہا کہ اس کا پیسہ آئی ایس پی آر سے آیا ہے مگر فلم بنانے والوں نے اس کی پُرزور تردید کی۔ البتہ انہوں نے یہ مانا کہ ’’وار‘‘ کے ساتھ ہی انہوں نے آئی ایس پی آر کے لیے اسی کے پیسے سے فلم “The Glorious Resolve” ضرور بنائی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ سے پہلے آئی ایس پی آر کی سربراہی کرنے والے میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے بتایا کہ ان کے دور میں پروپیگنڈا کے طور پر ایک فلم بنانے کی ’’تجویز‘‘ بلاشبہ آئی تھی، لیکن جب ۲۰۱۲ء میں آئی ایس پی آر نے رقم مانگی تو جی ایچ کیو نے یہ درخواست مسترد کردی۔ ۲۰۱۳ء میں جب راحیل شریف فوج کے سربراہ بنے اور ان کے سامنے یہ تجویز آئی تو انہوں نے فوراً قبول کرلی۔ باجوہ اور ان کی ٹیم نے ’’وار‘‘ کے مصنف ڈاکٹر حسن وقار رانا سے رابطہ کرکے اسی نام سے ملتی جلتی ’’یلغار‘‘ نامی فلم لکھنے کی فرمائش کی۔ فلم کی کہانی سوات میں فوجی کارروائی کے ذریعے پیوچار نامی وادی کو قبضے میں لینے کے گرد گھومتی ہے۔
رانا نے بتایا کہ فلم کی سرمایہ کاری اور عکس بندی دونوں مشکل کام تھے جو آئی ایس پی آر کی مدد سے آسان ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آئی ایس پی آر کی مدد کے بغیر میں یہ ۳۵ لاکھ ڈالر کا منصوبہ مکمل نہیں کرسکتا تھا‘‘۔ اس فلم کے لیے درکار سرمائے کا خطیر حصہ ایک نجی ذرائع ابلاغ کے ادارے نے فراہم کیا لیکن آئی ایس پی آر نے اضافی رقم اور پروڈکشن ٹیم کو دیگر سہولیات فراہم کیں۔ حسن وقار رانا نے زور دے کر کہا کہ ’’تحریر میں معاونت، آمدورفت اور رہائش وغیرہ‘‘ کے انتظامات فوج نے نہ کیے ہوتے تو ’’میرے لیے یہ فلم بنانا، ناممکن ہوجاتا‘‘۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو اس فلم کا شدت سے انتظار ہے۔ اس سال جولائی میں جب اس کی اولین جھلکیاں جاری ہوئیں تو انہوں نے ٹوئٹر پر ’’یلغار‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے اسے پاکستانی فلمی صنعت کے لیے نئی روح کے مترادف قرار دیا۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی امید ہے کہ اس کے ذریعے اذہان و قلوب کی وہ جنگ بھی جیتی جاسکے گی جس کے لیے ان کا ادارہ بہت محنت کررہا ہے۔ اس کے باوجود آئی ایس پی آر کے لیے ایک ٹی وی ڈرامہ لکھنے والے نوجوان لکھاری عامر رضا کہتے ہیں کہ فوج کو ایک مخصوص بیانیے کی تشہیر کی خاطر فلمیں اور ڈرامے خود بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پیسہ خرچ کیے بغیر بھی پاکستانی فلم بنانے والے ادارے ازخود آئی ایس پی آر کا کام کررہے ہیں‘‘۔
عامر رضا ۲۰۰۲ء میں اقبال کاشمیری کی جانب سے بنائی گئی فلم ’’بارڈر‘‘ کی مثال دیتے ہیں جس میں اداکار شان ایک فوجی کے طور پر سرحد سے واپس اپنے قصبے میں آتے ہیں تو وہاں کیبل ٹی وی اور بھارتی ذرائع ابلاغ عوام کے ذہنوں میں بگاڑ پیدا کررہا ہوتا ہے۔ فلم میں جب عدالت پسند کی شادی کے ایک مقدمے کی سماعت کررہی ہوتی ہے تو شان ڈرامائی انداز میں وہاں پہنچ کر کیبل آپریٹروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جنہوں نے بھارتی ثقافت گھر گھر پہنچائی ہے۔ عامر رضا کہتے ہیں ’’جب میں نے لاہور کے ایک سنیما گھر میں یہ فلم دیکھی تو لوگ عدالت کے مناظر پر بار بار تالیاں بجا رہے تھے‘‘۔
دوسرے ذرائع ابلاغ کی بھی بات کریں تو آئی ایس پی آر کی براہ راست مداخلت درکار نہیں ہے۔ زیادہ تر نیوز بلیٹن اور اخبارات کے اولین صفحات عسکری قیادت خاص طور پر آرمی چیف کے بیانات کو نمایاں جگہ دیتے ہیں۔ بیرونی دوروں سے لے کر فلاحی کرکٹ میچ کے افتتاح تک اور کراچی میں امن وامان کے اجلاسوں کی صدارت سے لے کر ملکی سلامتی کی صورت حال پر سیاسی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال تک ان کی تمام مصروفیات کو تقریباً روزانہ کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے۔ اگر شہ سرخیوں میں عسکری قیادت نہ ہو تو اس سے جڑی دیگر خبریں ضرور ہوتی ہیں۔
صرف ۳۱؍اگست ۲۰۱۵ء کے اخبارات میں ہی صفحۂ اول پر دو رپورٹیں خفیہ و علانیہ بھارتی جارحیت سے متعلق تھیں۔ ان میں سے ایک میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان شامل تھا کہ اگر بھارت نے پنجاب کی سرحد پر جارحیت بند نہ کی تو اسے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ دوسری خبر میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف نے دورے پر آئی ہوئی امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کو بھارتی مداخلت کے ثبوت مہیا کردیے ہیں۔
اسی روز پاکستان میں اردو کے سب سے بڑے اخبار ’’جنگ‘‘ نے صفحہ نمبر دو پر آدھے صفحے کے اشتہار میں ان شہدا کی قربانیوں کا ذکر کیا تھا جنہوں نے مختلف جنگوں میں جانیں دے کر نشانِ حیدر حاصل کیا۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ اور اس کے ادارے سے نکلنے والے انگریزی روزنامے ’’دی نیوز‘‘ نے پورے مہینے اسی قسم کے اشتہارات مسلسل شائع کیے۔ یوم آزادی پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے نکلنے والے مختلف اخبارات نے فوج کے ایک مرحوم کیپٹن کے بیٹے کا اشتہار پورے صفحے پر شائع کیا۔ مکمل فوجی وردی میں ملبوس جنرل راحیل شریف اشتہار پر حاوی ہیں جن کے سر کے اوپر سبز رنگ جھلک رہا ہے اور نیچے لکھا ہے ’’صرف آپ ہی پاکستان کا وقار ہیں‘‘۔ اس اشتہار کی مجموعی لاگت کئی لاکھ روپے ہوگی مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا خرچہ اٹھایا کس نے ہے۔
جب ہندوستان کے ساتھ ستمبر ۱۹۶۵ء میں ہونے والی جنگ کی پچاسویں سالگرہ قریب آنے لگی تو آئی ایس پی آر نے ایک اور مہم کا آغاز کیا اور اس جنگ کو ’’فتح‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے مختلف پہلو اجاگر کیے۔ درحقیقت اس کی تیاریاں ۱۴؍اگست سے ہی شروع ہوگئی تھیں جب ملک کے مختلف حصوں میں فوجی اور نیم فوجی دستوں نے اس دن کو منانا شروع کردیا تھا۔ اس جشن میں بنیادی توجہ کراچی اور بلوچستان جیسے علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے فوج کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر ہی رہی۔ متعدد شہروں میں سڑکوں پر پاکستانی پرچم اور بینر آویزاں کیے گئے تھے جن پر عسکری قیادت، خاص طور پر جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ رضوان اختر کی تعریفیں کی گئی تھیں۔ کہیں کہیں ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن میں ذرائع ابلاغ کو احسن انداز میں استعمال کرنے اور قومی معاملات پر دو ٹوک بیانات دینے پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو بھی سراہا گیا تھا کیونکہ ان کی سربراہی میں آئی ایس پی آر نے صرف اگست میں ہی پانچ قومی نغمے جاری کیے۔ یہ کام سرکاری و نجی چینلوں اور دیگر ذرائع ابلاغ مل کر بھی نہیں کرسکتے تھے۔
خوشبو، تتلی، جگنو، تارے
یہ بات بتاکر چلتے ہیں
ہم عشق وطن، عشق وطن
عشق وطن سے کرتے ہیں
اس گانے کی ویڈیو میں ٹرک آرٹ سے لے کر چائے خانوں اور ڈھول بجانے سے لے کر شیدی رقص تک پاکستان کے تمام نسلی، ثقافتی اور مذہبی رنگ نمایاں کیے گئے ہیں۔ گانے کے بول بظاہر کسی بھی نظریاتی بندش سے آزاد ہیں۔ مذہب، عسکریت پسندی، اور حد سے بڑھی ہوئی قوم پرستی اس نغمے یا ویڈیو دونوں میں ہی حیرت انگیز طور پر شامل نہیں ہیں۔ یہ بلاشبہ خالصتاً پاکستانی نوجوانوں کا جشن ہے جس میں قومی شناخت کے تمام رنگ سموئے گئے ہیں۔
فوج کے حاضر سروس میجر عمران رضا کی جانب سے لکھے گئے اس نغمے کو آئی ایس پی آر کی جانب سے یوم آزادی سے دو روز قبل جاری کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فوج کے منتظمینِ ذرائع ابلاغ قومی بیانیے سے ہر قیمت پر قریب رہنا چاہتے ہیں۔ اگر قوم کو متحرک کرنے کے لیے مذہب اور حب الوطنی کی ضرورت ہے تو اس کے لیے آئی ایس پی آر کا ایک نغمہ کافی ہے۔ اگر لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ان کے مسائل بیرونی قوتوں کے پیدا کردہ ہیں تو یہ پیغام کوئی فلم یا ڈرامہ گھر گھر پہنچا سکتا ہے، اور اگر نسلی و مذہبی تقسیم بھلا کر مشترکہ ثقافت کا جشن منانا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس معروف ثقافت کو پروان چڑھانا لازمی ہوجاتا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۲ء کے دوسرے ہفتے میں آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے دو اعلیٰ افسران اسلام آباد میں فلم سنسر بورڈ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس کا مقصد یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا بھارتی فلموں کی درآمد کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ اس حوالے سے دونوں فوجی افسران نے یہ پیمانہ طے کیا کہ ’’قومی مفاد کے خلاف کسی ایک منظر یا مکالمے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ اجلاس میں شریک ایک اعلیٰ افسر کے بقول یہ مؤقف اس شدت سے پیش کیا گیا کہ کوئی بھی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرسکا کہ قومی مفاد دراصل ہے کیا اور اس کی تعریف متعین کرنے کی صلاحیت اور اختیار کس کے پاس ہے۔
اس اجلاس سے محض ایک ماہ قبل حکومتِ پاکستان نے سلمان خان کی فلم ’’ایک تھا ٹائیگر‘‘ پر پابندی عائد کی تھی کیونکہ اس میں آئی ایس آئی سے جڑی ایک خاتون کو بھارتی انٹیلی جنس افسر کے ساتھ نتھی ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی بھارتی فلموں پر پابندی عائد کی گئی کیونکہ ان میں پاکستان کے قومی مفاد سے متصادم چیزیں دکھائی گئی تھیں۔ اس کی تازہ مثال ’’فینٹم‘‘ نامی فلم ہے جس پر پاکستان کے محب وطن حلقوں نے بہت شور مچایا کیونکہ اس میں پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کا منفی تاثر پیش کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے فوج اور خفیہ اداروں سے قریب سمجھے جانے والے بھارت مخالف مذہبی رہنما حافظ سعید کی درخواست پر یہ فلم رکوادی۔
ماضی میں تو پاکستانی فلمیں بھی قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں پابندی کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کی سب سے مشہور مثال ۱۹۷۹ء میں جاری ہونے والی فلم ’’مولا جٹ‘‘ تھی جس پر پابندی کی وجہ فلمی ناقد اعجاز گل نے یہ بتائی کہ فلم میں ’’اسٹیبلشمنٹ مخالف‘‘ مؤقف دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد اس طرح کے پیغام کو سیاسی خطرہ تصور کیا گیا اور اعجاز گل کے بقول ’’اس فلم پر پابندی لگانے والی سنسر کمیٹی میں وزارت داخلہ اور آئی ایس پی آر کے اعلیٰ اہلکار موجود تھے‘‘۔ پروڈیوسر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ سے حکمِ امتناع حاصل کرنے کے بعد سندھ اور پنجاب میں فلم کی نمائش ممکن ہوسکی۔
قومی مفاد کے نام پر قدغنیں لگانے کا سلسلہ ان فلموں اور ڈراموں میں زیادہ نمایاں رہا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود فوج کے منتظمین ذرائع ابلاغ نے پیش کیں۔ آئی ایس پی آر کے لیے متعدد ڈرامے بنانے والے ادارے سی آر ایس کے تجربہ کار ارکان بتاتے ہیں کہ اب تک انہوں نے جتنے ڈرامے بنائے ان سب کا مرکزی خیال اور کہانی آئی ایس پی آر کی طرف سے ہی موصول ہوئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سی ایس آر پیشہ ور لکھاریوں کی خدمات خود حاصل کرتا ہے مگر ان کے کام پر نظرثانی کرکے اس کی منظوری دینا آئی ایس پی آر کا ہی کام ہے۔ ضرورت ہو تو ان کے کام میں تبدیلی بھی کی جاتی ہے جس کے بعد فلمانے کی اجازت ملتی ہے۔ فلم بندی مکمل ہونے کے بعد ڈرامے کو ایک بار پھر آئی ایس پی آر کا ایک بورڈ دیکھتا ہے جس میں جی ایچ کیو، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ ڈرامے کو نشر کیے جانے سے پہلے ان لوگوں کی منظوری لازمی سمجھی جاتی ہے۔
اس طرح سخت پیمانے پر جانچے اور پرکھے گئے مسودات میں کسی اتفاقی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ کہانی، حوالہ جات، کردار اور پیغامات کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور چھپا ہوتا ہے۔ اس طرح ان ڈراموں کے ان حصوں پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں جن میں سیاسی و سماجی تبصرے کیے جاتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے پیش کردہ ڈرامہ سیریل ’’جان ہتھیلی پر‘‘ کی مثال لیجیے۔ اس کا بنیادی مقصد بلوچستان میں جاری شورش سے نمٹنے کی فوجی کاوشوں کو اجاگر کرنا ہے۔ اس ڈرامہ کے باضابطہ پرومو میں جب ایک مرکزی کردار قبائلی سردار کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو جو بات وہ کہتا ہے، وہ نسلی قوم پرستی سے کہیں آگے کی ہوتی ہے، ’’وہ سردار جو اپنے لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ دے سکے، اسے سرداری کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
اسی طرح ’’معرکۂ چپڑیال‘‘ نامی ڈرامے میں لوگ پاکستان میں لوٹ مار اور بدعنوانی کی شکایت ایک سپاہی سے کرتے دکھائے گئے ہیں۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ آپ اسی طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کریں جس طرح وہ اور اس کے دیگر ساتھی ادا کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ محض فوج کی وجہ سے ہی ممکن ہے کہ ملک میں کروڑوں لوگ چین کی نیند سوتے ہیں۔ تضاد بہت واضح ہے۔ جب دوسرے لوگ ملک کو لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف ہیں تو صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو بے غرضی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہے تاکہ لوگ امن و اطمینان کی زندگیاں بسر کرسکیں۔
سیاسی و سماجی ایجنڈے کی اس طرح خفیہ تشہیر کے بعد اب آئی ایس پی آر نے براہ راست ایسا کرنا شروع کردیا ہے۔ اس نے جناح کے تصورِ پاکستان سے متعلق ممتاز پاکستانیوں کی ساڑھے چھ منٹ کی گفتگو جاری کی ہے جس میں پس پردہ ضیاء محی الدین کی آواز ہے۔ جناح کو بحیثیت انسان، وکیل، رہنما اور ریاستی سرپرست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس ویڈیو کو ’’ایک شخص، ایک تصور، ایک قوم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، جس سے مراد مساوات، انصاف اور قانون کی بالادستی کے جناح کے تصورات کو پروان چڑھانا ہے۔ کیا قوم کو اس طرح کی سیاسی و نظریاتی تعلیم سے آراستہ کرنا واقعی آئی ایس پی آر کا کام ہے؟
معروف ٹی وی میزبان اور سیاسی تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ اصولاً تو اس طرح کا قومی بیانیہ منتخب ایوانوں اور (شہری انجمنوں) سوسائٹی کی طرف سے جاری ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں ’’بیانیے کی تشکیل پارلیمان کا کام ہے اور اس کی بالخصوص ذمہ داری پارلیمان میں موجود حکومت اور حزب اختلاف پر عائد ہوتی ہے‘‘۔ پاکستان میں فوج اور حکومت کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے لاہور میں مقیم تجزیہ کار اور سیاسیات کے استاد سعید شفقت کے نزدیک جہاں تک قومی بیانیے کا سوال ہے تو اس کی تشکیل میں سیاسی اداروں اور سیاسی حکومت کا کردار دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ عدم دلچسپی اور نااہلی ہے۔ ان کے بقول ’’ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس کہنے اور کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ واحد ادارہ جو اس وقت کام کررہا ہے، وہ فوج ہے‘‘۔
اس تاثر کی بنا پر لوگ فوج سے ہر اس شے کی امید لگا لیتے ہیں جو دیگر حالات میں انہیں حاصل نہیں ہوسکتی اور پھر ان میں سے کافی لوگ فوج سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال کر اسے دوبارہ صحیح ڈگر پر گامزن کرے۔ ۱۹۵۸ء میں حکومت سنبھالنے والے پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان اپنی کتاب “Friends Not Masters” میں لکھتے ہیں کہ ’’انتہائی معزز لوگ میرے پاس آکر کہتے تھے کہ صرف آپ ہی حالات کو سنبھال سکتے ہیں‘‘۔ بالکل اسی طرح ۶ ستمبر کو یوم دفاع سے پہلے ہر شہر میں جنرل راحیل شریف کے بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے تھے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ ’’قدم بڑھاؤ راحیل شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔
اس کے برعکس وزیراعظم نواز شریف کی تصاویر عوامی منظرنامے سے بالکل غائب تھیں۔ حتیٰ کہ ٹی وی کی خبروں اور اخبارات کے اولین صفحات پر بھی وزیراعظم کو اس طرح ثانوی حیثیت دی گئی کہ ان کا نام تمام اہم خبروں کے آخر میں ہی آیا۔ یہاں سعید شفقت کہتے ہیں کہ سیاسی حکومت کا پس منظر میں رہنا ہوسکتا ہے کہ اس کی فوج کے ساتھ کسی مفاہمت کا حصہ ہو۔ ان کے خیال میں اس ناقص معاہدے کی رُو سے فوج نے یہ کہا ہوگا کہ ’’ہم سب کچھ کرلیں گے‘‘ اور جواباً سیاسی حکومت نے کہا ہوگا کہ ٹھیک ہے ’’ہم کچھ نہیں کریں گے‘‘۔
تو کیا قوم کے سیاسی منظرنامے پر متحرک کردار کے بجائے خاموش مبصر کا کردار ادا کرنے والے سیاسی اداروں سے توجہ ہٹاکر فوج ساری توجہات اپنی جانب مبذول کرانا چاہتی ہے؟ “A History of Pakistan Army: War and Insurrections” نامی کتاب سمیت دو کتابوں کے مصنف اور جنوبی ایشیا کا ۳۰ برسوں سے مطالعہ کرنے والے برائن کلاؤلے (Brian Cloughley) اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں فوج دہشت گردی کے خلاف جس طرح کی جنگ لڑ رہی ہے، اس میں اس کی ’’جائز ضرورت‘‘ ہے کہ وہ قومی بیانیے کی اس طرح تشہیر کرے۔
آئی ایس پی آر کے ایک افسر نے بھی اس انداز میں قومی بیانیے کی تشہیر کا دفاع کیا جو کہ عمومی اعتبار سے فوج کا کام نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک ملک کی سلامتی اور اس کا تشخص ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ایک گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’’جب ہم سلامتی اور دفاع کی بات کرتے ہیں تو ہمیں لازماً مجموعی ملکی تشخص کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ہم ملک کا بہتر تشخص اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘‘۔ اے آر صدیقی خبردار کرتے ہیں کہ ہر چیز کو درست کرنے کا ایسا مکمل اختیار فوج کو غلط قسم کا اعتماد عطا کردیتا ہے۔ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’عام طور پر جرنیل اپنے اس گمان پر ایمان لے آتے ہیں کہ وہ سیاست دانوں کی پھیلائی گئی گند صاف کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔
ہم تلواروں کی نوک پہ چڑھ کے نغمے گائیں
ہم وہ ہیں جو بس سینے پر ہی گولی کھائیں
میں امت کا سالار ہوں
میں اللہ کا اسرار ہوں
میں پاکستان ہوں
میں زندہ باد ہوں
۱۴؍اگست ۲۰۱۵ء کو جاری ہونے والے اس نغمہ کو جب اسرار اپنے نیم صوفیانہ اور نیم کلاسیکی انداز میں گاتے ہیں تو اسکرین پر مختلف انداز اور مختلف حالات میں جنگ کرتے سپاہیوں کی تصویریں تیزی سے بدلتی ہیں۔ لیکن نغمے میں بات ملک کی ہورہی ہے یا فوج کی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے اگر سامعین الجھن میں پڑجائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک اور فوج کے اس امتزاج کو اے آر صدیقی (۱۷۵۰ء کے بعد کی وہ حکمتِ عملیاں، رویے اور کارروائیاں، جن کی حمایت پروشیا کے طبقۂ اُمراء نے کی تھی، خاص کر اپنی فوج کے بارے میں غیرملکی حکمتِ عملیوں اور فوجی نظم و ضبط کے متعلق پروشیا کی اشرافیہ کا خراجِ تحسین۔ ’’پروشیا‘‘ ماضی میں یورپ کی ایک مملکت تھی اور ۱۸۷۱ء کے بعد یورپ کی جرمن سلطنت کی تشکیل میں ایک بڑی ریاست بن گئی۔ ادارہ) Prussianism کا نام دیتے ہوئے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’فوج کا تاثر بتدریج بہتر ہوتا ہے اور بالآخر ایسی بلندی اور طاقت حاصل کرلیتا ہے، جہاں وہ خوف یا عوامی پذیرائی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ نتیجتاً Prussianism کا ایسا تصور جنم لیتا ہے جس میں فوج قوم کی نہیں رہتی بلکہ قوم فوج کی ہوجاتی ہے۔ قومی شناخت اور مفاد فوج کے ابھرتے ہوئے کردار کے آگے ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ جنگی لباس میں ملبوس سپاہی کا چہرہ قوم کا چہرہ اور اس کا مقبول تشخص بن جاتا ہے‘‘۔
قوم اور سپاہی کا یہ امتزاج بڑی آسانی سے فوج کو فیصلہ کن برتری اور اختیار عطا کردیتا ہے، خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں فوج کو مسلح کرنے کے لیے بھی امداد اور ٹیکنالوجی بیرون ملک سے حاصل کرنی پڑے۔ اے آر صدیقی اس حوالے سے ایک دلچسپ تجربہ بیان کرتے ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران جب عوامی جذبات عروج پر تھے تو غیر ملکی صحافیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ سرحد پر بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کے حوالے سے لاہور میں لوگوں کے تاثرات معلوم کریں۔ اے آر صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’صحافی نے پوچھا کہ جنگ کے لیے ٹینکوں، بندوقوں اور جہازوں میں سے خود پاکستان نے کیا بنایا ہے؟ تو پاکستانی نے جواب دیا کہ ’’کچھ نہیں‘‘۔ صحافی نے پوچھا تو پھر آپ نے جنگ لڑنے کے لیے بھلا کیا تیار کیا ہے؟ شہری نے معصومانہ انداز میں جواب دیا: ’’ترانے‘‘۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Enter the General”. (“Herald”. Sept. 2015)
Leave a Reply