یوں تو عدلیہ و میڈیا اور دیگر کئی ایک سرکاری اداروں میں گولن افسران کے خلاف اردوان حکومت کے اقدامات کی تاریخ پرانی ہے۔ لیکن روزنامہ ’’زمان‘‘ اور ’’سمان یولو‘‘ ٹی وی کے دفاتر پر حالیہ چھاپوں اور گرفتاریوں سے امریکا اور یورپی یونین کو بہت تشویش ہوئی ہے۔
اردوان حکومت نے حکمت اور عوام دوست پالیسیوں کی بدولت ملک میں سیاسی مخالفین کو مسلسل چِت کر رکھا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز ریپبلکن پارٹی (CHP) جو مصطفی کمال پاشا کی باقیات ہے، بظاہر تنازعات کا شکار ہو کر کم ازکم تین دھڑوں میں بٹ رہی ہے۔ ریپبلکن پارٹی نے جب احسان اولو کو اپنا صدارتی امیدوار چُنا تب سے کچھ اراکین پارٹی قیادت سے ناراض چلے آرہے تھے۔ بعدازاں جب انتخاب میں شکست ہونے پر قلیتش دار اولو جو گرینڈ نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، ان کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تو وہ مستعفی نہ ہوئے۔ اسمبلی ہی کی ایک رکن امینہ اولکر ترخان نے ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو پارٹی سے استعفیٰ دے کر اناطولیہ پارٹی(Anatolia Party) کی قیادت سنبھال لی۔ ’’اناطولیہ پارٹی‘‘ کی بنیاد ۱۴؍نومبر ۲۰۱۴ء کو رکھی گئی۔ فی الوقت بظاہر ایک رُکنِ پارلیمان اس پارٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ مختلف ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ ۷ جون ۲۰۱۵ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے پہلے مزید ارکانِ پارلیمان ’’پارٹی اناطولیہ‘‘ میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی طرح ۲۶ نومبر کو ’’الیکٹرونک ڈیموکریسی پارٹی‘‘ کی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔ اس کی بنیاد بھی ریپبلکن پارٹی ہی کے ایک رکن پارلیمان اُم ریحان خلیق نے رکھی ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک ہی رکن پارلیمان ہیں لیکن انہیں بھی کچھ ارکان کی حمایت حاصل ہے اور انتخابات سے پہلے ان کی تعداد میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
آئندہ جون میں ترکی کے قومی پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ انتخابات ایک مرتبہ پھر اردوان اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) کے لیے کڑے امتحان سے کم نہیں۔ تاہم گزشتہ ۱۲ سالوں میں یہ بات بہت واضح ہو چکی ہے کہ اردوان کو جمہوری طور پر شکست دینا فی الحال محال ہے۔ فتح اللہ گولن کو بھی جو ایک مذہبی مبلغ ہیں اور ۲۰۱۱ء سے پہلے تک اردوان حکومت کے ساتھ مل کر ترکی کی اسلامی شناخت کے لیے کام کرتے رہے ہیں، میدان میں اتارا جاچکا ہے۔ حکومت بھی ان کے ساتھ سختی سے نمٹ رہی ہے۔ انٹرپول کے ذریعے انہیں گرفتار کرنے اور ترکی لانے کی باتیں دہرائی جارہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ترکی کی غیر سیکولر شناخت ابھارنے کے لیے اردوان کے ہم خیال سمجھے جاتے تھے۔ اس دوران انہوں نے عدلیہ اور پولیس سمیت، دیگر سرکاری اداروں میں بڑے بڑے افسران کو اپنے سحر میں لے لیا تھا۔ انہی پولیس افسران، عدالتی اہلکاروں اور سرکاری افسران سے مل کر، اردوان حکومت کا خاتمہ کرنے کی سازش تیار کی گئی۔ اردوان کے اچھے طرزِ حکمرانی اور عوامی مقبولیت کے باعث، اور اردوان پر لگے الزامات کے باوجود یہ ’’کرپشن سازش‘‘ بھی ناکام ہو گئی۔
پروفیسر فتح اللہ گولن نے پچھلے بارہ پندرہ برسوں میں اپنے میڈیا ہاؤسز بھی کھڑے کرلیے تھے، کئی اردوان مخالف صحافیوں کو بھاری معاوضوں پر وہاں ملازم رکھ لیا گیا تھا۔ ان میڈیا ہائوسز میں روزنامہ ’’زمان‘‘ اور ’’سمان یولو‘‘ ٹی وی کے علاوہ دیگر کئی قومی اور بین الاقوامی صحافتی ادارے شامل ہیں۔ فتح اللہ گولن نے بیرونی ممالک میں بھی اسکولوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔ صرف پاکستان میں ان اسکولوں (Pak-Turk International) کی تعداد ۲۳ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا بھر میں ان اسکولوں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ بظاہر اسکولوں کا میڈیا ہائوسز سے تعلق نہیں، لیکن مبینہ طور پر ان اسکولوں سے حاصل ہونے والی آمدن کا کثیر حصہ حکومت مخالف پروپیگنڈا کرنے والے میڈیا ہاؤسز کی نظر کیا جاتا ہے۔ ’’زمان‘‘ کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے اسی رقم سے اضافی کاپیاں چھاپ کر، بڑی تعداد میں مفت بانٹ دی جاتی ہیں۔ ان میڈیا ہاؤسز پر اٹھنے والے دیگر اخراجات بھی فتح اللہ گولن ہی برداشت کرتے ہیں۔
ان میڈیا ہاؤسز کے مسلسل پروپیگنڈے کی بدولت، اب ملکی اور بالخصوص مغربی و امریکی میڈیا میں رجب طیب اردوان کے لیے ’’سول ڈکٹیٹر‘‘ اور ’’ترک عوام کو تقسیم کرنے والا‘‘ جیسے القابات معمول کی بات بن گئے ہیں۔ یوں تو اردوان حکومت کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن عراق اور شام میں جاری جنگ سے اور گولن تحریک سے ترکی کو بچانا دو قابل ذکر اہداف ہیں۔
حکومت ۷ جون سے پہلے انتخابات کروانے کی پابند ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرکے آئین میں تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں ڈھالنے کی حتمی توثیق بھی اس نئی پارلیمان سے کرانا پیشِ نظر ہے۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں، ایک بار پھر رجب طیب اردوان کو بدنام کرنے کے لیے گولن تحریک کے میڈیا ہاؤسز کے خلاف عدالتی کارروائی کو، میڈیا کے خلاف سمجھا اور لکھا جارہا ہے۔
گولن تحریک کے جن دو میڈیا ہاؤسز کے لوگوں کو پکڑا گیا ہے، ان میں روزنامہ ’’زمان‘‘ اور ’’سمان یولو‘‘ ٹی وی شامل ہیں۔ یہ دونوں ادارے بالواسطہ گولن تحریک کا حصہ ہیں اور صدر اردوان کے خلاف مختلف اسکینڈل بنانے کے اصل مراکز ہیں۔ ان دونوں میڈیا ہاؤسز کا مختصر تعارف یہ ہے کہ ’’زمان‘‘ نیوز پیپر کے ایڈیٹر ان چیف، اکرم دومان لی پروفیسر فتح اللہ گولن کے بعد دوسرے بڑے دماغ کے طور پر مشہور ہیں۔ یہ روزنامہ ۱۹۸۶ء میں شروع کیا گیا تھا اور اب یہ ۱۱؍ممالک میں چھپتا اور ۳۵ ممالک میں پڑھا جاتا ہے۔ حالیہ پولیس چھاپوں میں اکرم دومان لی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ اب یہ رہا ہو چکے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا میں اردوان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے “DAWN” میں “Turkey’s Witch Hunt” کے عنوان سے لکھا گیا مضمون بھی اس مہم کا حصہ تھا۔ اس مضمون میں ذرائع ابلاغ کے دفاتر پر چھاپوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور بعض افراد کی گرفتاری پر حکومتی ناانصافی کا رونا رویا گیا ہے۔ اسی طرح کے مضامین ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ جیسے امریکی اخبارات میں بھی شائع کروائے گئے ہیں۔
دوسرا میڈیا گروپ سمان یولو ٹی وی ہے۔ اس کے مالک اور ایڈیٹر ان چیف ہدایت کراجا کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بھی گولن تحریک کے اہم فرد ہیں اور مختلف ڈراموں اور پروگراموں کے ذریعے موجودہ حکومت کی تحقیر کرتے رہتے ہیں۔ یہ میڈیا گروپ ۱۹۹۹ء میں قائم کیا گیا تھا اور اب یہ روس، انڈونیشیا اور وسط ایشیا سمیت دنیا کے کئی ممالک تک اپنی نشریات کا دائرہ بڑھا چکا ہے۔ حراست میں لیے گئے ۲۳؍افراد کے حوالے سے صحافیوں کی تنظیم ’’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘‘ کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے دورانِ تفتیش پولیس سے تعاون کیا، انہیں عدالت نے رہا کر دیا ہے اور جن لوگوں نے انکار کیا، انہیں روک لیا گیا ہے۔
بہرحال کشمکش جاری ہے۔ ۷ جون ۲۰۱۵ء کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج ترکی کے مستقبل کی نقشہ گری میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اُس وقت تک انتظار کرنا ہوگا۔
☼☼☼
اس مضمون سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان دونوں گروہوں میں اختلاف کے بنیادی نکات کیا ہیں۔ کیا یہ دو شخصیتوں کی انا کی لڑائی ہے یا اس کے پیچھے بنیادی اصول و نظریات کا اختلاف کار فرما ہے۔