اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے خاتمے پر ہم نے دیکھ لیا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقت کے مراکز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ کل تک جی سیون کی حکمرانی تھی۔ اب جی ٹوئنٹی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بیس معیشتیں تیزی سے ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ دنیا بھر میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ڈھانچا تبدیل کیا جائے تاکہ اسے اقوام عالم کا بہتر نمائندہ بنایا جاسکے۔ بین الاقوامی معیشت میں اب برازیل، ترکی اور بھارت جیسے ابھرتے ہوئے ممالک زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے یورپی یونین بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یہاں بھی غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ معاملات کو حالات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ یورپ کی لیبر مارکیٹ اور سوشل سیکورٹی سسٹم میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ بیشتر یورپی معیشتیں جامد ہوگئی ہیں، تھم گئی ہیں۔ ان کی نشو و نما اس حد تک رک گئی ہے کہ اب ماہرین کا پریشان ہونا حیرت انگیز نہیں۔ یورپی معاشرے بھی اب ایک مقام پر تھم سے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت رکے ہوئے پانی کی سی ہے جو توانائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام معاملات پر توجہ دیئے بغیر، ان تمام سوالات کے جواب تلاش کیے بغیر یورپ عالمی برادری میں اپنی پوزیشن بحال کرسکے گا؟
یورپی یونین کی رکنیت کے لیے اپنا کیس مضبوط کرتے ہوئے ترکی نے اپنی معیشت اور سیاست کو مستحکم کرکے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ترکی کا شمار یورپ کی مضبوط ترین معیشتوں میں ہوتا ہے اور ۲۰۱۱ء میں بھی ترقی اور استحکام کا سفر جاری رہے گا۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے مطابق ۲۰۵۰ء تک ترکی یورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہوگا۔ یورپ بھر میں ترکی واحد ملک ہے جہاں نئی سرمایہ کاری بھی غیر معمولی منافع حاصل کرسکتی ہے اور خطرات کم سے کم ہیں۔ ترکی میں معیشتی اعتبار سے وہ دم خم ہے جس کے لیے یورپی یونین ترس رہی ہے اور معاملات محض معیشت تک محدود نہیں۔ ترکی نے اپنی نرم قوت کے ذریعے علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اہم کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ ترکی نے اپنے پڑوسیوں پر عشروں تک توجہ نہیں دی مگر اب وہ انہیں دوبارہ دریافت کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ بلقان سے مشرق وسطیٰ اور کاکیشیا تک ترکی اب عمل نواز خارجہ پالیسی اپنا رہا ہے۔ تجارت اور معاشی تعاون کے حوالے سے ترکی ایسی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں کسی کے لیے مشکلات نہ ہوں اور فوائد سبھی کے لیے ہوں۔ ترکی نے ۶۱ ممالک کے ساتھ ویزا فری سفر کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ترکی عہدِ گزشتہ کو نئی زندگی دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نئے عالمی نظام کے تناظر میں ترکی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چل رہا ہے۔ نئے دور کی تمام حقیقتوں پر اس کی نظر ہے۔ آئندہ عشرے میں یورپی یونین کو بھی اس بصیرت سے فائدہ پہنچے گا۔
عراق، افغانستان، بلقان اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے معاملات میں ترکی کی خارجہ پالیسی اور سفارتی کوششیں مفاہمت پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ترکی اہم عالمی امور میں اپنا کردار ادا کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ ترکی کسی بھی اہم معاملے میں اپنے موقف سے غیر ضروری طور پر دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایک بار یورپی یونین کا رکن منتخب ہو جانے پر وہ معیشت اور خارجہ پالیسی کے علاوہ سماجی اعتبار سے اور سیکورٹی کے لیے بھی اپنا کردار عمدگی سے ادا کرنے لگے گا۔
یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی کا کیس واضح ہے اور کسی وضاحت کی ضرورت بھی نہیں۔ چند ایک ریاستیں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ بات چیت کا عمل اس رفتار سے جاری نہیں جس رفتار سے جاری رہنا چاہیے۔ ۲۲ سے ۱۸ امور پر بات چیت کسی نہ کسی وجہ سے روک دی گئی ہے اور ایسا سیاسی وجوہ کی بنیاد پر ہوا ہے۔ یہ سب بازنطینی سیاسی گورکھ دھندے کا حصہ لگتا ہے۔ کسی بھی یورپی ملک کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ اس معاملے میں ترکی خاصا منفرد ہے۔
ہمارے یورپی دوستوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات تیزی سے ایک ٹرننگ پوائنٹ پر آرہے ہیں۔ حال ہی میں یورپی یونین نے چند چھوٹے اور کمزور ممالک کو رکنیت دی تاکہ ان کا سیاسی نظام مستحکم ہو اور معیشت کو سہارا ملے۔ اگر ان ممالک کو سہارا نہ دیا جاتا تو ان کی حدود میں پنپنے والے بحران پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ ترکی کے بارے میں یوں ہمدردانہ انداز سے کبھی غور نہیں کیا گیا۔ جن ممالک کو حال ہی میں یورپی یونین کی رکنیت دی گئی ہے ان کے مقابلے میں ترکی مضبوط معیشت کا حامل ہے اور علاقائی و عالمی سیاست میں اس کا کردار خاصا اہم ہے۔ کبھی کبھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا ترکی کی ترقی اور قوت ہی یورپی یونین کی رکنیت کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
ترکی نے یورپی برادری میں شمولیت کے لیے پچاس سال قبل دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اس وقت ترکی کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ اب حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب ترکی مضبوط معیشت کا مالک ہے۔ ہم دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جواب کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ترکی کے پاس یورپی یونین کا حصہ بننے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی ماڈل ہمیشہ ہمارے لیے پرکشش رہا ہے۔ معاشی اور سیاسی نظریات کے معاملے میں ترکی نے ہمیشہ یورپ کی طرف دیکھا ہے۔ ترکی میں اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے میں یورپ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں ماننا پڑے گا کہ یورپی یونین کو بھی ترکی کی ٖضرورت ہے۔ طاقت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط ترکی یورپی یونین کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ مجھے امید ہے کہ یورپی دوست وقت گزر جانے سے قبل ہی اس حقیقت کا ادراک کرلیں گے۔
(مضمون نگار ترکی کے وزیراعظم ہیں)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply