
ترک لیڈر رجب طیب ایردوان نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے برپا کی جانے والی بغاوت کو کچلنے کے سلسلے میں ججوں، سپاہیوں اور اساتذہ کو بھی نہیں بخشا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب نے ترکی میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش میں حصہ لیا۔ امریکا میں مقیم نام نہاد ترک مصلح اور ماہر تعلیم فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ترک حکومت نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سرکاری مشینری میں جہاں جہاں بھی فتح اللہ گولن کے حامی اور ہم خیال ہیں، اُنہیں ہٹانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ حکومت کہتی ہے کہ بیورو کریسی کو مکمل طور پر پاک کرکے ہی دم لیا جائے گا۔ ابتدائی مرحلے میں پولیس اہلکار بھی بڑی تعداد میں معطل کیے گئے تھے، تاہم بعد میں انہیں بحال کردیا گیا۔ فوج میں بھی اعلیٰ سطح پر کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ متعدد جرنیل اور بریگیڈیئرز کو فارغ کیا گیا ہے۔ ایسا ہی کریک ڈاؤن نچلی سطح کے سپاہیوں اور اساتذہ کے خلاف بھی کیا گیا۔ عدلیہ اور انتظامیہ عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ترک حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ۱۵ ہزار سے زائد محکمہ تعلیم کے ملازمین کو فارغ کیا۔ پندرہ سو سے زائد یونیورسٹی ڈینز سے کہا گیا کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔ خود وزیراعظم کے عملے سے ۲۵۷ ؍افراد کو ہٹایا جاچکا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے نتیجے میں جو کریک ڈاؤن کیا گیا اس کی زَد میں آنے والوں کی تعداد ۳۵ ہزار سے زائد ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ جمہوریت کے خلاف ابھرنے والی ہر سازش ناکام بنائے گی۔ اسے یقین ہے پارلیمنٹ میں اسے اپوزیشن کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔ حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو کسی بھی حال میں سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
ایسا کیوں ہے؟ فتح اللہ گولن اور ان کے حامی تو رجب طیب ایردوان کے حامی ہوا کرتے تھے۔ حکومت انہیں بخوشی برداشت کرتی تھی، مدد بھی کرتی تھی۔ ۱۹۹۷ء کی ایک فوجی بغاوت کے بعد ابھرنے والی صورت حال میں قائم کی جانے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کو فتح اللہ گولن کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ یہ سیاسی جماعت بنیادی طور پر سماجی انصاف یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی، تاکہ لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوں اور وہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے لازم سمجھی جانے والی تمام سہولتوں کے حصول میں آسانی سے کامیاب ہوں اور اپنا معیار زندگی بلند کرسکیں۔
جب رجب طیب ایردوان نے کرد علیحدگی پسندوں سے گفت و شنید کی اور یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا، تب بھی فتح اللہ گولن حکومت کے حامی تھے اور حکومت بھی ان سے بظاہر خوش تھی۔ ایک ترک صحافی نے بتایا کہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ فتح اللہ گولن کی تحریک ’’حزمت‘‘ اور حکمراں ’’اے کے پارٹی‘‘ کے درمیان معاملات پہلے سے نہیں رہے۔ ایک عشرے کے دوران فتح اللہ گولن کے حامیوں نے ہر مرحلے پر حکومت کا ساتھ دیا۔ فوجی بغاوتوں کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے جو کچھ بھی کیا اسے فتح اللہ گولن کی حمایت حاصل رہی۔ ریاستی ڈھانچے میں اوپر سے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے فوج کی حمایت کرنے اور جمہوریت کا تختہ الٹنے کی سوچ رکھنے والوں کو چُن چُن کر نکالنے کی کارروائی میں فتح اللہ گولن کے حامیوں نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس حوالے سے کیے جانے والے دو بڑے آپریشنز ’’ارجینیکون‘‘ اور ’’سلیجہیمر‘‘ کے لیے حکومت کو فتح اللہ گولن کے حامیوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حال ہی میں ناکام بنائی جانے والی فوجی بغاوت کی بنیاد انہی افسران نے ڈالی جنہیں فوجی بغاوتیں ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرنے پر ترقیاں دی گئی تھیں!
ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت تقریباً کامیاب ہو ہی چکی تھی۔ مرکزی کابینہ کے چند ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہوچکا تھا کہ باغی انہیں قتل کردیں گے مگر ایسے میں انہوں نے ایک بھیانک غلطی کردی۔ پارلیمنٹ پر حملہ باغیوں کی طرف سے ایسی غلطی ثابت ہوا جس کی سزا کے طور پر پوری بغاوت ہی ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے اور انہوں نے آن کی آن میں محسوس کیا کہ اگر وہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ملک خانہ جنگی کے گڑھے میں گِر جائے گا۔
ترکی کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ کسی کے بھی ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ حزمت تحریک کا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور یہ کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے میں متحرک کردار ادا کرے گی۔ اب یہ بات طشت ازبام ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کو بھی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب ترکی میں حکومت پر قبضہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ عوام نے سڑکوں پر آکر ثابت کردیا کہ جس سیٹ اپ نے ان کے مسائل حل کیے اور انہیں بلند معیار زندگی تک پہنچنے میں مدد دی، اس کی حفاظت کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، جان بھی دے سکتے ہیں۔
اے کے پارٹی اور حزمت کے درمیان اختلافات چند برس قبل ابھرے تھے جب معاملات مشکوک ہوچلے تھے۔ اے کے پارٹی کی قیادت کو اندازہ ہوچکا تھا کہ فتح اللہ گولن اور ان کے حامیوں کا کچھ اور ایجنڈا بھی ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ اختلافات شدت اختیار کرتے گئے اور حکومت کے لیے ممکن نہ رہا کہ حزمت کو پوری طرح برداشت کرے۔ یہی سبب ہے کہ فتح اللہ گولن کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے امریکا میں بیٹھ کر معاملات کو نمٹانا جاری رکھا۔
جب حکومت سے اختلافات شدت اختیار کرگئے تو فتح اللہ گولن کے کیمپ کی طرف سے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم شروع کی گئی۔ ترک انٹیلی جنس ایجنسی ’’ایم آئی ٹی‘‘ کے سربراہ حقان فدان پر بہت سے الزامات عائد کیے گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کا جھکاؤ سید قطب کی طرف ہے، یعنی وہ ملک میں اسلامی شدت پسندی کی راہ ہموار کرنے کے پروگرام پر عمل کر رہے ہیں۔ فدان کو ایران کا حمایتی بھی کہا گیا۔ اور یہ بھی کہ وہ بڑے عہدوں پر اپنے خاندان کے افراد (کردوں) کو بھرتی کر رہے ہیں۔
حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ ایم آئی ٹی کے ٹرکوں میں امداد کے نام پر اسلحہ لے جانے اور شام میں باغیوں کو دینے کے حوالے سے جو فوٹیج سامنے آئی تھی، وہ دراصل فتح اللہ گولن کے حامیوں نے لیک کی تھی اور اس کا بنیادی مقصد حکومت کو مطعون کرنے کے ساتھ ساتھ حقان فدان کے لیے مشکلات میں اضافہ کرنا تھا۔
۲۰۱۱ء کے انتخابات کے بعد حزمت نے یہ بات کھل کر کہنے کی ابتدا کی کہ حکومت ملک کو اسلامی شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے اور یہ کہ رجب طیب ایردوان ملک میں بہت حد تک اسلامی نظام نافذ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس الزام تراشی کے بعد ہی ترکی میں حزمت کے خلاف حکومتی آپریشن کی ابتدا ہوئی۔ ملک بھر میں ایک چوتھائی پرائمری اسکول فتح اللہ گولن کے حامی چلاتے ہیں۔ حکومت نے ان کی بندش کا حکم دیا۔ ان اسکولوں سے حاصل ہونے والی آمدن حزمت کے لیے شہ رگ کی طرح تھی۔ جب اسکول بند ہوئے اور ان سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا تو حکومت اور حزمت کے درمیان اختلافات نے خطرناک شکل اختیار کی۔
حزمت نے کابینہ کے ارکان اور رجب طیب ایردوان کے ساتھیوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ عدلیہ میں بھی ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جو حکومت کے اختیارات اور اقدامات پر سوال اٹھا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں رجب طیب ایردوان نے ۲۰۱۳ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں عدلیہ کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ حکومت کا یہ بھی الزام تھا کہ عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن متعدد شخصیات کی مدد سے ملک میں متوازی حکومت یا اتھارٹی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں حکومت اور حزمت کی راہیں مکمل طور پر الگ ہوگئیں۔
ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کو ناکام بنائے جانے کے بعد یورپ نے شور مچانا شروع کیا کہ کسی بھی وقت پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ رجب طیب ایردوان نے پھانسیوں کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ کریک ڈاؤن کیا گیا ہے، لوگوں کو بڑے پیمانے پر برطرف یا معطل بھی کیا گیا ہے، عدلیہ میں جو لوگ زیادہ متحرک تھے انہیں کنٹرول کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے مگر اب تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ حکومت فوجی بغاوت کے مرکزی کرداروں کو تختۂ دار پر لٹکانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
اے کے پارٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کابینہ کے ارکان اور بعض اعلیٰ افسران پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرکے تحقیقات کا بازار گرم کرنا دراصل حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش سے کم نہ تھا۔ مگر فتح اللہ گولن کے حامی کہتے تھے کہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والے صرف اپنا کام کر رہے تھے۔ وہ کسی کے خلاف نہ تھے۔ انہوں نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی کوشش کی تھی۔
حزمت سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حزمت میں حکومت کے خلاف جانے کی طاقت نہیں۔ وہ کوئی بھی بغاوت برپا نہیں کرسکتی۔ اور یہ کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف تحقیقات شروع ہونے پر حکومت نے حزمت کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔
یہ بات تو پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ حزمت بدعنوانی کی تحقیقات کے ذریعے حکومت کا دھڑن تختہ کرنا چاہتی تھی یا نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے پر حزمت سے حکومت کے جو اختلافات شروع ہوئے، وہ دن بہ دن شدت ہی اختیار کرتے گئے اور اس کے نتیجے میں معاملات الجھتے ہی چلے گئے۔ حزمت والوں پر حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے اختلافات نے مخاصمت میں غیر معمولی حد تک اضافہ کردیا۔
حالیہ ناکام فوجی بغاوت نے صورت حال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت نے امریکا میں سیاسی پناہ لیے ہوئے فتح اللہ گولن کی حوالگی کے حوالے سے امریکا کو اب تک کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی ہے مگر ترکی میں گولن کے حامیوں کے خلاف وسیع البنیاد کریک ڈاؤن اس بات کی واضح علامت ہے کہ اب اے کے پارٹی نہیں چاہتی کہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو حکومت اور جمہوریت کے خلاف جانے کے قابل چھوڑا جائے۔ بڑے پیمانے پر کیا جانے والا کریک ڈاؤن بتا رہا ہے کہ جمہوریت کے خلاف کوئی بھی کوشش اب برداشت نہیں کی جائے گی۔ فوج سے گولن کے حامیوں کو چُن چُن کر الگ کیا جارہا ہے۔ بیورو کریسی کو بھی کھنگالا جارہا ہے۔ عدلیہ کے خلاف تحقیقات بھی اِسی مہم کا حصہ ہے۔
ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت کو کچلنے کے لیے عوام سڑکوں پر آگئے۔ اس سے قبل ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اے کے پارٹی کے حامیوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں کے لوگ بھی سڑکوں پر تھے۔ وہ اس بات کے حق میں تھے کہ جمہوریت کو ہر حال میں بچایا جائے۔ اے کے پارٹی کے لوگ چاہتے ہیں کہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو اس قابل چھوڑا ہی نہ جائے کہ وہ اب کبھی حکومت کا تختہ الٹنے کے بارے میں سوچیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اے کے پارٹی کی حکومت نے فی الحال تو حزمت کو بالکل مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ اب گولن کے حامی کچھ مدت تک تو حکومت کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ گولن کے حامیوں کو کمزور کرنا لازم ہے مگر اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات ایسے ہوں گے کہ جمہوریت داؤ پر نہ لگے۔ فی الحال حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ حزمت کو اس حد تک کمزور کردیا گیا ہے کہ وہ جمہوریت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ حزمت کی آپریشنل صلاحیت کو قابل ذکر حد تک محدود کردیا گیا ہے۔ فوج میں اس کے اثرات بھی محدود کردیے گئے ہیں۔ اس امر کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ حزمت کو اب فوج میں قدم جمانے اور اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کا موقع نہ ملے۔ چند ایک شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد کریک ڈاؤن میں ایسے بہت سے لوگوں کو بھی برطرف یا معطل کیا گیا جن کا اس ناکام فوجی بغاوت سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ تھا۔ فتح اللہ گولن امریکی ریاست پنسلوانیا میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ناکام فوجی بغاوت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ترک حکومت پر کریک ڈاؤن کے حوالے سے زیادتی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈراما ممکن طور پر ان سیکیولر فوجی افسران نے اسٹیج کیا تھا جو شام کے حوالے سے اے کے پارٹی کی پالیسی اور کردوں سے مذاکرات کے حق میں نہ تھے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Erdogan v the Gülenists: from political allies to Turkey’s bitter rivals”. (“Guardian”. July 19, 2016)
Leave a Reply