
ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے بلدیاتی انتخابات میں استنبول کی میئر شپ سے محروم ہونے پر انتخابی نتیجے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ استنبول کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور اے کے پی کی قوت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
انادولو نیوز ایجنسی نے بتایا کہ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار امام اوغلو نے اے کے پی کے امیدوار بنالی یلدرم کو ۲۰ ہزار ووٹ کے فرق سے شکست دی ہے۔ اس کے باوجود اے کے پی کے ارکان اور رہنما اپنے امیدوار کی فتح کے دعوے کرتے رہے۔ اے کے پی نے وضاحت کی کہ اُس نے استنبول کے ۳۹ علاقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواست جمع کرائی ہے۔ سابق وزیراعظم اور رجب طیب ایردوان کے قابلِ اعتماد ساتھی بنالی یلدرم کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے بینرز راتوں رات استنبول کی بہت سے عمارتوں پر آویزاں کردیے گئے۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد استنبول کی صورتحال کشیدہ سی ہوگئی۔ سپریم الیکشن بورڈ کے استنبول آفس کے اطراف پولیس تعینات کردی گئی۔ کئی مسلح گاڑیاں وہاں دکھائی دیں۔
اے کے پی استنبول کے سربراہ بیرام سینوکیک کا کہنا ہے کہ اس امر کے شواہد ملے ہیں کہ بہت سے علاقوں میں پولنگ کے دوران بے قاعدگیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ کئی مقامات پر دھوکا دہی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ اے کے پی کا موقف ہے کہ کم وبیش ۳ لاکھ ۱۹ ہزار ووٹ مشکوک ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں سینوکیک نے دعویٰ کیا کہ بینالی یلدرم نے در حقیقت تین ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ سینوکیک نے میڈیا کے سامنے چند ایک دستاویزات بھی پیش کیں، جن کے مطابق دھاندلی کے ذریعے اے کے پی کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ اے کے پی کے کارکنوں نے بھی سوشل میڈیا پر چند دستاویزات پیش کیں، جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اے کے پی کے امیدوار کو ہرانے اور اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار امام اوغلو کو فتح سے ہم کنار کرنے کے لیے دھاندلی کی گئی۔
بعض مبصرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ انتخابی فتح سے متعلق اے کے پی کے تمام دعوے درست نہیں۔ بنیادی حقوق کے حوالے سے خصوصی مہارت رکھنے والے قانون داں کریم آلتیپرماک نے کہا ہے کہ اے کے پی نے دو سال قبل انتخابی قوانین میں ایسی ترامیم کی تھیں جو اُس کے حق میں جاتی ہیں۔
استنبول کے انتخابی نتائج نے صورتِ حال کو کسی حد تک کشیدہ کیا ہے۔ امام اوغلو کا کہنا ہے کہ بینالی یلدرم کی فتح کے بینر لگانا کسی بھی اعتبار سے کوئی اچھا اقدام نہ تھا۔ اے کے پی نے تین لاکھ ناکارہ ووٹوں کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بینالی یلدرم جیت گئے ہوتے تو وہ اُسے خود مبارک باد پیش کرتے۔ انتخابی نتائج پر تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے دستخط ہیں، اس لیے دھاندلی کا دعویٰ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
اپوزیشن کی جماعت سی ایچ پی کے استنبول کے سربراہ کنعان کافتانسیوغلو کہتے ہیں کہ انتخابات میں بے قاعدگیاں انوکھی بات نہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ دھاندلی یا بے قاعدگی کے خلاف شکایات درج کرائی جاتی ہیں جن کے مطابق کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی ایسی بے قاعدگیوں کا سراغ لگایا ہے جن کے نتیجے میں یلدرم کے ووٹ بڑھ سکتے تھے۔
استنبول کے انتخابی نتائج، شکایات اور کارروائیوں کے حوالے سے بہت سی خبریں سوشل میڈیا پر بھی چلائی گئیں۔ چند ایک خبریں دروغ پر مبنی نکلیں۔ بیان بازی اور الزامات کا سلسلہ کچھ دیر چلا پھر معاملہ ٹھنڈا پڑگیا۔ ایک موقع پر تو یہ افواہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اڑائی گئی کہ مرکزی الیکشن کمیشن نے پورے استنبول میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا ہے۔
صدر ایردوان نے ایک دن استنبول میں گزارا۔ وزیر داخلہ سلیمان سوئلو بھی اپنے معاونین کے ساتھ استنبول ہی میں ٹھہرے تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ حکومت کسی بھی حال میں استنبول کی میئر شپ واپس حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایردوان ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۸ء تک استنبول کے میئر رہے تھے۔ اِسی شہر سے ملنے والی نیک نامی نے انہیں ملک گیر شہرت اور احترام کا حامل لیڈر بنایا۔ ان کے لیے استنبول محض اس لیے زیادہ اہم نہیں ہے کہ وہ ملک کا سب سے بڑا معاشی اور ثقافتی مرکز ہے، بلکہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ استنبول ہی نے انہیں بھرپور سیاسی قوت سے بہرہ مند کیا۔ اے کے پی ۲۰۰۲ء میں اقتدار میں آئی تھی۔ تب سے اب تک استنبول کو اے کے پی ہی چلاتی آئی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Erdogan’s AKP challenges defeat in Istanbul – and erects banners claiming victory (“middleeasteye.net”. April 2, 2019)
Leave a Reply