
عش کے خلاف کارروائی میں کئی ماہ تذبذب دکھانے، اور کردستان ورکرز پارٹی (’پی کے کے‘) کے ساتھ ۲۰۱۳ء کی صلح پر تقریباً دو سالہ خاموشی کے بعد ترکی نے ان دونوں فریقوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی ہے۔ داعش کے ٹھکانوں پر شام میں، اور ’پی کے کے‘ پر شمالی عراق میں حملے کیے جا رہے ہیں۔
یہ معاملہ ۲۰ جولائی کو شروع ہوا جب ایک ترک طالب علم نے (کہا جاتا ہے جس کے روابط داعش کے ساتھ تھے) سرحدی قصبے Suruc میں امن کارکنوں کے ایک گروپ پر خود کش حملہ کر دیا، امن کارکنوں میں بیشتر کرد تھے، واقعے میں ۳۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں ’پی کے کے‘ سے روابط کے دعویدار ایک گروپ نے کرد قصبے Sanliurfa میں دو ترک پولیس افسران کو ہلاک کر دیا۔ حملہ آور گروپ کا الزام تھا کہ داعش کے حملوں کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔
جواباً ترکی نے داعش پر اتحادی حملوں کے لیے Incirlik فضائی اڈہ کھول دیا اور داعش اور ’پی کے کے‘ دونوں کے سیکڑوں مشتبہ ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ترک حکومت نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام سے دونوں مہمیں شروع کر دی ہیں، تاہم فضائی حملوں اور گرفتاریوں میں زیادہ تر کردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ترک حکومت کے اس اقدام کے ممکنہ مقاصد یہ ہیں: مخلوط حکومت کے لیے ہونے والے مذاکرات کو ناکام بنانا، ممکنہ انتخابات سے پہلے قوم پرست ووٹوں کو اپنی جانب مائل کرنا، جون کے انتخابات میں کرد نواز ’ایچ ڈی پی‘ کو ملنے والی فتوحات چھیننا، اور شامی کردوں کو شمالی شام میں کرد علاقوں میں مضبوط گڑھ بنانے سے روکنا۔
جون کے انتخابات میں صدر ایردوان کی ’اے کے پی‘ اپنی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہو گئی تھی اور اسے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ تاہم ایردوان شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ جلد انتخابات کی خاموشی کے ساتھ تیاری کر رہے تھے، ان کا خیال ہے کہ انتخابات کا ایک اور مرحلہ ان کے لیے مفید رہے گا۔ ترکی اس وقت جس افراتفری سے دو چار ہے، وہ ایردوان کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر شام کے ساتھ تنازع مزید گہرا ہو جائے اور داعش اور ’پی کے کے‘ کے خلاف دو محاذوں پر جنگ جاری رہے تو ایردوان کے ممکنہ حکومتی شراکت دار گھبرا کر مذاکرات سے الگ ہو سکتے ہیں اور یوں جلد انتخابات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ایردوان امید لگائے ہوئے ہیں کہ ’پی کے کے‘ کے خلاف کریک ڈائون کر کے وہ اُن قوم پرست ووٹروں کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں جو جون کے انتخابات میں جسٹس پارٹی سے دور چلے گئے تھے۔ دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایردوان نے جنگ بندی کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے اعلان کیا کہ ’’اُن لوگوں ( ’پی کے کے‘ ) کے ساتھ (امن) عمل جاری نہیں رکھ سکتے جو ہمارے قومی اتحاد اور اخوت کو نشانہ بنا رہے ہیں‘‘۔ ’پی کے کے‘ کے خلاف ترک حکومت کے سخت اقدام نے قوم پرستوں میں اپنے لیے حمایت پیدا کر لی ہے، قوم پرستوں نے اعلان کیا ہے کہ ’اے کے پی‘ کے ساتھ مخلوط حکومت کے مذاکرات اسی وقت کیے جائیں گے جب امن کا عمل ختم کر دیا جائے۔
ایردوان کا بنیادی ہدف کرد نواز ’ایچ ڈی پی‘ معلوم ہوتی ہے، جس نے انتخابات میں تاریخی ۱۳؍فیصد ووٹ لیے تھے اور مزید اختیارات سمیٹنے کی ایردوان کی خواہشات پر پانی پھیر دیا تھا۔ ’ایچ ڈی پی‘ کے ووٹوں میں اضافہ ان قدامت پسند کرد ووٹروں نے کیا تھا جو روایتی طور پر جسٹس پارٹی کو ووٹ دیتے آئے تھے، تاہم جون کے انتخابات میں انہوں نے ترک حکومت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تر ’ایچ ڈی پی‘ کو ووٹ دیے۔ ’پی کے کے‘ پر جبر کر کے ایردوان نے دراصل ’ایچ ڈی پی‘ پر یہ دبائو ڈالا ہے کہ وہ ایک طرف ہو جائے۔ ’ایچ ڈی پی‘ کو یا تو ’پی کے کے‘ سے فاصلہ پیدا کرنا اور کرد ووٹوں سے محروم ہونا ہوگا یا پھر اپنا کرد نواز موقف زوروشور سے بیان کرنا ہو گا تاکہ وہ ترک شہری اس سے دور ہو جائیں جنہوں نے اسے ووٹ دیے تھے۔
ترکی ’پی کے کے‘ کے شامی دھڑے ’پی وائی ڈی‘ کے ساتھ امریکا کے ان روابط سے پریشان رہا ہے جو داعش کے خلاف ہیں۔ خاص طور پر شمالی شام میں تل ابیض جو داعش کے کنٹرول میں تھا، امریکی فضائیہ کی مدد سے ’پی وائی ڈی‘ کے قبضے میں چلا گیا جو ترک حکومت کے لیے پریشان کن ہے۔ تل ابیض پر ہونے والی اس پیش رفت سے کرد علیحدگی پسندی کے حوالے سے ترکی کی تشویش بڑھ رہی ہے، کیونکہ اس طرح خود ترکی میں کرد اقلیت میں اسی طرح کے جذبات ابھر سکتے ہیں۔ ترکی نے بالآخر داعش پر امریکا کے فضائی حملوں کی اجازت دے کر ادل بدل کی توقع باندھی ہے کہ اس طرح امریکا خود کو ’پی وائی ڈی‘ سے دور کرنے پر مجبور ہو گا۔
تاہم یہ ایک خطرناک کھیل ہے اور ایردوان کے منصوبے پلٹ بھی سکتے ہیں۔ قوم پرستی کی طرف جانے سے ان کو قوم پرست ووٹ تو مل جائیں گے لیکن اس طرح ان کے بقیہ کرد ووٹ بھی ٹوٹ سکتے ہیں جس سے کردوں میں ’ایچ ڈی پی‘ کی حمایت بڑھ بھی سکتی ہے۔
ترکی کے افرا تفری میں جانے سے ملک کی نازک معیشت پہلے ہی ڈانوا ڈول ہے، اس مختصر مدت میں لیرا کی قدر تقریباً ۴ فیصد گر چکی ہے۔ Incirlik میں محاذ کھولنے کے ردعمل میں داعش اپنی نئی بھرتیاں کر کے ترکی کے خلاف حملے بڑھا سکتی ہے، جس سے ملک مزید ہلچل کا شکار ہو سکتا ہے اور ’اے کے پی‘ کی حمایت کم ہو سکتی ہے۔
ایردوان نے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی پُرخطر راہ چُنی ہے، تاہم دراصل خطرہ ملک کے مستقبل کو ہے۔ ’پی کے کے‘ کے ساتھ کھلی جنگ، اس کے ساتھ ساتھ اپنی سرحدوں میں داعش کے ساتھ بڑھتی ہوئی آویزش ترکی کو دوبارہ ۱۹۹۰ء کی شورش میں دھکیل سکتی ہے، جو اَب تک حاصل کی گئی اقتصادی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے زہرِ قاتل ہوگا۔
(ترجمہ: منصور احمد)
“Erdogan’s High-Risk Strategy”.
(“mei.edu”. Aug. 6, 2015)
Leave a Reply