
اسیولو اور مارسابیت ،کینیا کے ان دوشمالی حصوں میں سے ہیں جو تنازعات کا شکار ہیں۔ یہ خطہ کافی حد تک بنجر ہے اور یہاں کے رہائشی پانی اور غذا کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔نئے مشترکہ حکومتی نظام نے علاقائی سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کردیا ہے اور مقابلے کی فضاپیدا ہوگئی ہے۔ خاص طور پر با اختیار منتخب وزرا کی نشستوں کے لیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگست میں ہونے والے عام انتخابات علاقائی بنیاد پر فسادات کا سبب بن سکتے ہیں۔صورتحال کو پر امن رکھنے کے لیے اقدامات کی گنجائش مگر اب بھی موجود ہے۔
اقتدار اور وسائل کی منتقلی ،۲۰۱۰ء کے آئین کا بنیای جز ہیں۔اس کا مقصدماضی میں صدارتی انتخاب کے لیے ہونے والے انتخابی تنازعات کو کم کرنا اور خطے میں پسماندگی کا ازالہ کرنا ہے۔اس آئین کے تحت ۴۷ کاؤنٹیاں بنائی گئیں اور ان کے منتخب گورنروں کو بیش بہا اختیارات اور کروڑوں ڈالر کا بجٹ دیا گیا۔ایک طرف تواختیارات کی منتقلی نے عوام کو فائدہ پہنچایا ،دوسری طرف عوام میں تقسیم بڑھ گئی اور ہر قبیلہ کوشش کرنے لگا کہ اس سے تعلق رکھنے والا فرد گورنر کی نشست حاصل کر ے ۔ اس سے ایک مقابلے کی صورتحال نے جنم لیا ہے۔ ان حالات میں کئی گروہوں کی جانب سے اپنی زمینی ملکیت حاصل کرنے اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر نے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
اسیولو اور مارسا بیت میں طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔ مضبوط گروہ’’بوران‘‘ اور اقلیتی نسل پرست گروہ کے درمیان انتخابات کی وجہ سے مقابلہ مزید سخت ہو تا جارہا ہے۔
مگراس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں حکومت کی نمائندگی کرنے والا کوئی موجود نہیں۔ علاقہ رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے مگر سیکورٹی و انتظامی امور کی نگرانی کے لیے حکومتی عہدیداران غیر حاضر ہیں۔ عرصہ دراز سے، کیتھولک گرجا گھر اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنی خدمات انجام دیتی آرہی ہیں۔ مارسابیت میں کیتھولک چرچ کے ایک رکن نے ہمیں بتایا کہ ـ’’ چرچ وہاں تک پہنچا ہے جہاں حکومت بھی نہیں پہنچ سکی اور اسکول، ہسپتال، پانی کی فراہمی کے مراکز وغیرہ تعمیر کیے گئے ہیں‘‘۔
اسلحہ کی فراہمی کے باعث کمیونٹیزمیں فرقہ وارانہ جنگ مزید شدت اختیار کرگئی ہے۔کئی فرقہ وارانہ گروہ ایتھوپیا کے ساتھ سرحدی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، جنھیں سیکورٹی اداروں کے لیے روکنا اورتنازع کو حل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ تنازعات میں شامل گروہ، ایتھوپیامیں موجود اپنے نسل پرست اتحادی گروہوں سے مدد طلب کرتے ہیں، جن کے پاس اپنی نوجوان ملیشیا ہے اور وہ اپنے رہنماؤں کے احکامات کی پابند ہوتی ہے۔
۲۰۱۳ ء کے انتخابات نے مارسابیت کے سیاسی حالات کو یکسرتبدیل کردیاہے۔چھوٹے اقلیتی گروہوں (Rendille, Gabra, and Burji,) کے اتحاد نے طاقتور قبیلے بوران کو شکست دے دی تھی اور کاؤنٹی کی کئی نشستیں جیت لی تھیں۔ ان نتائج نے بوران کے اندر ایک احساس محرومی و پسماندگی پیدا کی ہے۔اس احساس نے خون خرابے کو ہوا دی اور اگست ۲۰۱۳ ء میں بوران، گابرا (Gabra) کے درمیان ایتھوپیا کی سرحد پر ضلع مویالے میں فسادات شروع ہوئے۔ سیاسی اتحادی ہونے کی وجہ سے Burji کو بھی اس میں شامل ہونا پڑا۔ تنازعات میں اضافے کا ایک سبب وہ زمینیں بھی تھیں جن کے دعویدار یہ دونوں گروہ ہیں۔ جنگ کے دوران گروہوں کو ان کے رشتہ داروں کی جانب سے تعاون حاصل رہتا ہے، جو جنوبی ایتھوپیا میں موجودہیں۔
ریڈکراس کے مطابق اس لڑائی کے نتیجے میں کئی درجن افراد ہلاک ہوئے اور ۳۸۰۰۰ لوگوں سے زبردستی ان کے گھر خالی کروا لیے گئے، جن میں سے کئی لوگوں نے ایتھوپیا میں پناہ حاصل کر لی۔ایک مقام پر تو ایسا بھی ہوا کہ مویالے صرف نسل پرست عسکری گروہ کے ہاتھ میں آگیا اور پھر صورتحال پر قابو پانے کے لیے کینیا کے دفاعی اداروں کو میدان میں آنا پڑا۔
اس تنازع کو ختم کرنے میں کئی اہم کرداروں کو مداخلت کرنی پڑی۔ Garre ، صومالیہ کا علاقائی گروہ،جو پہلے بھی تنازعات میں مصالحانہ کردار ادا کرتا رہا ہے،اس دفعہ بھی اسی نے معاملات کو حل کرنے میں مدد دی۔پھرکینیا اور ایتھوپیا سرحد پار سیکورٹی کو بہتر کرنے پر جب یکجا ہوئے اورنسل پرست عسکری گروہوں کی مداخلت روکنے کے لیے متحد ہوگئے تو حالات مزید بہتر ہوئے ۔
تنازعات ختم ہوئے تو کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا (Uhuru Kenyatta) نے ثالثی کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس میں اسمبلی کے اسپیکر اور مختلف قبیلوں کے ۳۵ نمائندگان کو جمع کیا، اس کمیٹی نے ایک دستاویز تیار کی جس میں اہم مسئلہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا تھا، اس پر مذاکرات کیے گئے۔اس کابنیادی مقصد تمام گروہوں میں برابری کی سطح پرملکی وسائل کی تقسیم تھا۔اس کے بعد سے اب تک مارسابیت کو چند چھوٹے معاملات کے علاوہ کسی بڑے مسئلے کے لیے الجھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
مگر اب اگست ۲۰۱۷ء کے انتخابات سے قبل معاملات سنگین ہوتے جارہے ہیں۔مختلف نسل پرست گروہ ملک کی اہم وزارتوں کے لیے کوشاں ہیں۔مہم کے آخری دنوں میں اور نتائج کے بعد تناؤ میں اضافہ ہونے کے امکان ہیں۔مزید حادثات بڑھ سکتے ہیں، جیسا کہ اپریل ۲۰۱۷ء میں ۱۲ سالہ گابرا لڑکے کا قتل کیا گیا اور پھر بدلے میں بوران قبیلے کے ۷ لوگ قتل ہوئے۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی سیاست دان اس نسل پرستی کی آگ کو استعمال کر کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔
ایک بار پھر بورا ن اور گابرا کے درمیان گورنر کی نشست کا مقابلہ در پیش ہے۔بوران جو ہمیشہ سے مارسابیت کی سیاست میں اپنا وزن رکھتے ہیں، ۲۰۱۳ء کی شکست کے بعد اب وہ دوبارہ کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ بوران کے دو امیدوار گورنر کے لیے موجود ہیں مگر اکثریت کی حمایت محمد علی (جنہیں Abshiro کے نام سے جانا جاتا ہے) کے ساتھ ہے۔وہ موجودہ گورنر Ukur Yattani اور گابراکے Adano Umuro کے مد مقابل ہیں۔ مقامی بزرگوں نے رہنمائی کے لیے Aba Gadda (جنوبی ایتھوپیا میں بوران کے روایتی رہنما) سے درخواست کی کہ وہ ووٹ تقسیم نہ ہونے کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ ان کے پاس اچھا موقع ہے کیوں کہ Umuru ممکنہ طور پر اس بار گورنر Yattani کو ووٹ کے معاملے میں نقصان پہنچائے گا۔
مارسابیت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو اسیولو میں فسادات اور حالات کی خرابی کا تناسب نسبتاً کم رہا ہے،لیکن عدم استحکام کا شکار وہ بھی رہا ہے۔گورنر کی نشست کے لیے مقابلہ بوران قبیلے کی دو اہم شاخوںKarayu اور Warjida کے درمیان ہے۔غیر بوران اقلیتیں بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے لین دین کر رہی ہیں ۔اسی طرح تمام جماعتیں بھی اقلیتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کررہی ہیں۔
سیاسی تنازعات سے زرعی ماہرین اور چرواہوں کے درمیان جھگڑوں کو ہوا ملتی ہے اور پانی اور زمین کے لیے فسادات ہوتے ہیں۔یہ غیر معمولی نسلی لڑائیاں اکثر و بیشتر خشک سالی کے دنوں میں ہوتی ہیں، جب پانی کے وسائل ختم ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ سال ۲۰۱۷ء کے آغاز میں مختلف حصوں کے اندر ہونے والے ۱۶ حادثات میں ۴۰ ؍افراد قتل اور ۱۹ زخمی ہوئے۔ ان میں سے بعض واقعات کے اندر، مسلح عسکریت پسندوں کی تعداد ۳۰۰ تک بھی رہی ہے ۔
۷ جون کو سامبورو کے تقریباً ۷۰ مسلح افراد نے burat میں ترکانہ کے چرواہوں پر حملہ کیا اور سینکڑوں مویشیوں کے ساتھ فرار ہوگئے، جس میں ۸؍افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح ایک اور واقع میں سامبورو اور رینڈائل کے ۳۰۰ مسلح لوگوں نے بوران چرواہوں پر حملہ کیا، جس میں ۷؍افراد جاں بحق اور مسلسل فائرنگ کے نتیجے میں ۵ زخمی ہوئے۔
تنازعات کی ایک اوراہم وجہ اسیولو اور اس کے جنوب میں واقع ’’میرو کاونٹی ‘‘کی طویل سرحد بھی ہے۔اسیولو میں سرحد حدود کی وجہ سے انتخابات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے جہاں میرو قبیلہ اقلیت میں ہے ۔ان تنازعات کو ختم کرنا مشکل امر ہے۔ایک مذہبی رہنما کے مطابق حکومت مسائل کے حل کے لیے نئے راستے تلاش کرتے ہوئے ڈرتی ہے اور نوآبادیات دور کے نقشوں کے استعمال پر اکتفا کرتی ہے۔ تنازعہ جب شدت اختیار کر گیا تو بالآخر وزیر داخلہ نے ۲۰۱۵ء میں مداخلت کی، مگر پھر اسیولو حکومت نے تقسیم کار کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کردیا۔
سرحدی تنازعات میں اضافے کا ایک اور اہم سبب Lapsset کا ترقیاتی منصوبہ بھی ہے جو شمالی راہ داری بنائے گا ۔جس سے کینیا کا رابطہ یوگنڈا، جنوبی سوڈان اورایتھوپیا سے ہو جائے گا۔ ان سب میں اسیولو کی کلیدی حیثیت ہے۔ اسیولو کے باہر موجود بعض کاروباری افراد نے حکومتی معاوضے کے حصول سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشترکہ سرحد پر زمینیں خریدنا شروع کر دی ہیں۔ اس راہداری سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بین الاقوامی ہوائی اڈے اور اسیولو کا تفریحی مقام بھی شامل ہے۔ دیگر متاثرہ علاقوں میں Ilat,Attan,Gambela,Yarre and Kisima شامل ہیں۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
٭ انتخابات سے پہلے اور بعداز انتخابات بھی، خطے کے تمام مسلمان، عیسائی اور مقامی گروہ کے سربراہان جو اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، انہیں مذاکرات کے ذریعہ نسل پرست عسکری گروہوں کے مسائل کے حل کے لیے راضی کیا جائے۔
٭انتخابی مبصرین (EU Election Observation Mission and African Union Long-Term Observers) کو چاہیے کہ خطے میں افرادی قوت کا اضافہ کریں، تاکہ یہاں کے لوگوں میں عدم اعتماد کی کیفیت ختم ہو۔
٭ ملی اتحاد و یکجہتی کمیشن کو چاہیے کہ ان سیاست دانوں کو لگام دیں جو اپنی تقریروں کے ذریعے نفرت پھیلارہے ہیں۔ اور اس کام کے لیے پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
(ترجمہ: عبدالرحمن)
“Ethnic Contest and Electoral Violence in Northern Kenya”. (“crisisgroup.org”. July 19, 2017)
Leave a Reply