
عالمگیریت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کئی خطوں نے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے۔ ان میں جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ چین، جنوبی کوریا، ملائیشیا، برازیل اور دوسرے بہت سے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان ممالک نے اپنے معیشتی اور معاشرتی ڈھانچے کو بہت حد تک تبدیل کیا ہے تاکہ عالمگیریت کے تقاضوں کو نبھایا اور اس کے اثرات کو بہتر انداز سے ہضم کیا جاسکے۔ عالمگیریت کے تقاضوں کو پوری طرح نبھانے اور بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ دینے میں اگر کوئی ناکام ہے تو وہ عرب دنیا اور یورپ ہیں۔ ان دونوں خطوں نے اب تک اپنی روش کماحقہ تبدیل نہیں کی۔ دونوں خطے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اکیسویں صدی میں بھی بہتر حیثیت کے مالک ہوسکتے ہیں۔
چارلس ڈارون نے یہ نہیں کہا تھا کہ طاقتور ترین یا ذہین ترین مخلوق اپنی بقاء کو یقینی بناسکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ زندگی کی دوڑ میں وہی نسلیں باقی رہتی ہیں جو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی روش تبدیل کرتی ہیں۔ یہ جملہ میں نے ترکی میں ایک دیوار پر لکھا ہوا دیکھا تھا۔ ترکی بھی تیزی سے بدلتی ہوئی معیشت کا حامل ملک ہے۔
دنیا بھر میں عدیم المثال تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک طرف آبادیوں میں فرق نمایاں ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجی کے شعبے میں بے مثال پیش رفت نے عقل کو دنگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ماحول پر غیر معمولی اثرات نمایاں رہے ہیں۔ نئی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں ویسے تو کئی خطوں کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم یورپ اور عرب دنیا کے لیے مشکلات کچھ زیادہ ہی ہیں۔ دونوں اپنی گزرتی ہوئی عظمت کو روتے رہتے ہیں۔ عرب دنیا کو اس بات پر فخر ہے کہ سیکڑوں سال قبل اس کے اجداد نے دنیا کو علم اور ہنر سکھایا۔ دوسری طرف یورپی اب تک خود کو دنیا کا استاد سمجھتا ہے۔ وہ سیکھنے سے زیادہ سکھانے پر یقین رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ نے کئی صدیوں تک دنیا کا نظم و نسق سنبھالا ہے اور علم و فن کی دنیا میں اس کی رہنمائی کی ہے مگر اب سیکھنے کا وقت ہے تو وہ سیکھنے کو تیار نہیں۔
چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے ممالک نے ترقی کی ہے مگر عرب دنیا کو عالمگیریت کا یتیم کہا جاتا ہے۔ وہ مستقبل پر توجہ دینے کے بجائے گزرے ہوئے زمانے کی جنگیں لڑ رہی ہے۔ وسائل اور توجہ ماضی کو درست کرنے پر ضائع کیے جارہے ہیں۔ مغرب سے عرب دنیا کو بہت سی شکایات ہیں اور ان شکایات کے حوالے سے ماضی کے حساب چکتے کرنے میں مصروف ہے۔ مغرب کو اس نے اب تک کھلے دل سے تسلیم یا قبول نہیں کیا اور اسی لیے اس سے کچھ سیکھنے کو بھی تیار نہیں۔ مغرب کے خلاف عرب دنیا کے بعض شکوے درست ہیں مگر کیا ان شکووں سے کچھ فائدہ پہنچنے والا ہے۔
معروف مصنف البرٹ ہورانی نے اپنی کتاب ’’عربک تھاٹ ان دی لبرل ایج۔۔ ۱۷۸۹ء تا ۱۹۳۹ء‘‘ میں لکھا ہے کہ ۱۰۰ سال قبل عرب دنیا کے بارے میں دانشوروں کی رائے زیادہ موافق اور مثبت تھی۔
تیونس، مصر، لیبیا اور دیگر عرب و افریقی ممالک میں لوگ کسی حد تک خواب غفلت سے جاگ اٹھے ہیں۔ تین چار عشروں سے اقتدار پر قابض عناصر کے خلاف کچھ احساس جاگا ہے۔ نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ تبدیلی کی لہر اٹھی ہے۔ مگر ابھی یہ طے نہیں کہ اس جوش و خروش کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔
کوئی مانے یا نہ مانے، عرب دنیا اور یورپ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بلکہ پیوست ہیں۔ ان میں ایک زمینی وحدت تو موجود ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں ہیروڈوٹس نے مشرق و مغرب کی جو تصوراتی تفریق کی تھی وہ فاش غلطی تھی۔ یورپ اور عرب دنیا ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ یہ دونوں کسی اور خطے سے اس قدر جڑے ہوئے نہیں۔ اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مآخذ اسی سرزمین پر ہیں۔ یونانی فلسفہ جتنا مغربی ہے اتنا ہی مشرقی بھی ہے۔ یونانی فلسفے نے مشرق پر پہلے اثرات مرتب کیے۔ اور مشرق ہی کے ذریعے یہ فلسفہ اہل مغرب تک پہنچا۔ عرب اہلِ دانش نے اہلِ مغرب کو دوسری بہت سی باتوں کی طرح یونانی فلسفے سے بھی روشناس کیا۔ مغربی تہذیب اپنی اصل میں مشرقی ہے۔ قرطبہ میں ابن رشد اور یہودی عالم مائی مونیڈیس نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔
عالمی سطح پر طاقت کا مرکز اب لندن اور واشنگٹن سے چین اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ عرب دنیا اس بدلتی ہوئی صورت حال میں الگ تھلگ کھڑی ہے۔ اب تک اس کی شناخت کا معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ عرب دنیا یہ فیصلہ تاحال نہیں کرسکی کہ وہ مغرب کا حصہ ہے یا مشرق کا، ایشیا سے جڑی ہوئی ہے یا یورپ سے؟ مشرق اور مغرب کا یہ فرق نو آبادیاتی دور کی پیداوار ہے۔ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ یوریشیا صدیوں پر محیط حقیقت ہے۔ مشرقی یوریشیا میں چین اور مغربی یوریشیا میں یورپ حکمران و بالادست ہے۔
یوریشیا کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل یہ ہے کہ یورپ اور عرب ایک ہوں۔ ان کے اتحاد کے بغیر مغربی یوریشیا طاقتور نہیں ہوسکتا۔ اور انہیں نجات بھی نہ مل سکے گی۔ ترکی، ایران اور چند افریقی ممالک بھی مغربی یوریشیا کا حصہ بن سکتے ہیں۔ تیسرے ملینیم کا جغرافیہ پہلے ملینیم کے جغرافیے سے مماثل ہے۔
مغربی یوریشیا عالمی امور میں اپنی برتری برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ آبادی کا فرق بھی نمایاں ہے اور دیگر عوامل کا بھی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۴۰ء تک جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا سمیت پورے مشرقی یوریشیا کی آبادی ڈھائی سے تین ارب کے درمیان ہوگی۔ ایسے میں مغربی یوریشیا کی مجموعی آبادی ایک ارب ۴۰ کروڑ تک ہوگی۔ آبادی سب کچھ نہیں ہوتی مگر بہرحال اس سے فرق تو پڑتا ہے۔
یورپ، عرب دنیا اور افریقا مل کر اکیسویں صدی میں اہم عالمی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ اور عرب دنیا کا ایک دوسرے میں دلچسپی لینا بہت ضروری ہے۔ ان کے ملنے سے حالات یکسر تبدیل ہوں گے۔ یورپ کو اپنی دم توڑتی ہوئی آبادی برقرار رکھنے کے لیے تازہ خون کی ضرورت ہے۔ یورپی معیشت کا بوجھ سہارنے میں عرب دنیا کے نوجوان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عرب دنیا کو دانائی اور بردباری کی ضرورت ہے۔ یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے مثال ترقی سے عربوں کو کماحقہ مستفید کرسکتا ہے۔ اس طور صدیوں کا خسارہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ بحیرہ روم میں اقتصادی تعاون کی تنظیم قائم کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے بارسلونا پروسیس کے چرچے رہے ہیں تاہم معاملہ پوری سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ دنیا جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اس کے پیش نظر اب کمزور اقدامات کی گنجائش نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے، پورے اعتماد کے ساتھ اور ٹھوس انداز سے کرنا ہے۔ ماضی کو روتے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
یورپ اور عرب دنیا کو قریب لانے میں وقت تو لگے گا مگر خیر، اس حوالے سے امکانات کو حقیقت کا روپ دینے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ سفر شروع کرنے کے لیے پہلا قدم تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ جب آغاز ہوگا تو منزل بھی قریب تر آتی جائے گی۔
(بشکریہ: ’’دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام‘‘۔ ۹ فروری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply