
انٹر نیشنل پروگریس آرگنائزیشن کے صدر پروفیسر ہانس کوچلر کا تعلق آسٹریا سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت نہ دینا اسلامی تشخص کے باعث نہیں ہے بلکہ اس کی معاشی وجوہ ہیں۔
جرنلسٹس اینڈ رائٹرز فاؤنڈیشن نے ۸ تا ۱۰ فروری ۲۰۱۳ء دی ایبنٹ پلیٹ فارم (The Abant Platform) کا انعقاد کیا۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس مباحثے کا بنیادی مقصد ترکی سے متعلق مختلف امور کا جائزہ لینا تھا۔ ’’ٹوڈیز زمان‘‘ نے اس مباحثے کے ایک اہم مندوب پروفیسر ہانس کوچلر سے گفتگو کی۔ وہ ویانا میں قائم تھنک ٹینک انٹر نیشنل پروگریس آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ تھنک ٹینک تہذیبوں کے درمیان مکالمے، پر امن بقائے باہمی اور بنیادی حقوق کا علم بردار ہے۔ پروفیسر کوچلر کو اقوام متحدہ کے سابق سربراہ کوفی عنان نے لاکر بی فضائی حادثے کے کیس میں مبصر مقرر کیا تھا۔ ذیل میں ان کی گفتگو نذرِ قارئین کی جارہی ہے۔ (ٹوڈیز زمان)
پروفیسر کوچلر نے ترکی کو رکن بنانے کے حوالے سے یورپی یونین کے رویّے کو غیر دیانت دارانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر مذاکرات ہو رہے ہیں مگر در حقیقت معاملات کو الجھایا جارہا ہے۔ ترکی کو یورپی یونین سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے ترکی کی مایوسی قابلِ فہم ہے۔ آسٹریا کا رویّہ بھی جانب دارانہ ہے۔ ترکی کی رکنیت کے حوالے سے مذاکرات کو اوپن اینڈیڈ قرار دیا جارہا ہے یعنی کوئی بھی جواز پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ آسٹریا کے عوام ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنائے جانے کے خلاف ہیں۔ آسٹریا کی حکومت نے اس سلسلے میں ریفرنڈم کی بات کی ہے۔ ایسا کسی اور ملک کے لیے نہیں کیا گیا اور آسٹریا کے آئین کے تحت بھی اس کی کوئی ضرورت یا گنجائش نہیں ہے۔
یورپی یونین کی رکنیت دینے کے حوالے سے اتفاق رائے لازم ہے۔ پروفیسر کوچلر کا کہنا ہے کہ بعض امور کے باعث ترکی کی رکنیت کا امکان کمزور ہے۔ چند ایک ممالک کی اندرونی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے کے اقدام کی حمایت نہیں کرسکتے۔ تو کیا ترکی کو مشتعل ہو جانا چاہیے؟ پروفیسر کوچلر کا کہنا ہے کہ ترکی کو ذرا سا بھی مشتعل ہوئے بغیر مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔ کسی بھی یورپی ملک کی اندرونی سیاست کو ترکی کے اُصولی موقف پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ مگر دوسری طرف ترکی کو بھی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ترک قیادت اپنے عوام کو یقین نہ دلائے کہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کا معاملہ جلد ہی تمام الجھنوں اور ابہام سے پاک ہو جائے گا۔
پروفیسر کوچلر جانتے ہیں کہ یورپی یونین کی رکنیت ترکی کے لیے کوئی ایسا خواب نہیں جسے آسانی سے شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ترکی کے پاس یورپ کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ترکی اپنے محل وقوع کی بدولت غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ یوریشیا میں سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اُن کی تفہیم میں ترکی مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یورپ جانتا ہے کہ جو کچھ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں ہو رہا ہے، وہ اس پر بھی بلاواسطہ اثرات مرتب کرے گا۔ اگر ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دی جائے تو وہ ان دونوں خطوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔
پروفیسر کوچلر کا استدلال ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے سے انکار اسلامی تشخص کی بنیاد پر نہیں کیا جارہا بلکہ اِس کے معاشی اسباب ہیں۔ اگر ترکی کو رکنیت ملی تو کئی ممالک کے لیے شدید مسابقت پیدا ہوگی، بالخصوص محنت کے شعبے میں۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے بیشتر باشندے مسابقت کے عادی نہیں۔ اس صورت میں ان کا معیار زندگی مزید گر سکتا ہے۔ آسٹریا کے محنت کش پہلے ہی حالات کا دباؤ جھیل رہے ہیں۔ اگر ترکی کو رکنیت ملی تو اُن کے لیے لیبر مارکیٹ میں مسابقت بڑھ جائے گی اور یہ ان کے معیارِ زندگی کو مزید نیچے لانے کا سبب بنے گا۔
پروفیسر کوچلر کا کہنا ہے کہ یورپ میں اکثریت اگرچہ عیسائیوں کی ہے مگر بیشتر فیصلے ثقافت یا تہذیب کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص معاشی حقائق کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ یورپ پر یونان اور روم کی تہذیب کے اثرات بھی نمایاں ہیں مگر اس کے باوجود آج تک تعلیمی پس منظر لاطینی ہے، مسیحیت پر مبنی نہیں۔ ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ یورپ میں اسلام محض ایک سیاق و سباق ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسیحیت نے یورپ میں دم توڑ دیا ہے۔ بیشتر یورپی باشندے مسیحیت کو ترک کرچکے ہیں اور یوں بھی زندگی کے ہر معاملے میں وہ مسیحیت سے راہ نمائی حاصل نہیں کرتے۔ یورپی باشندوں کی اکثریت کے لیے اب مسیحیت محض رسمی کارروائی رہ گئی ہے۔ پیدائش کے وقت اور تدفین میں مذہب کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ بہت سے سیاست دان ووٹ بینک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔
پروفیسر کوچلر کا کہنا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ناگزیر ہے کیونکہ مغرب میں اسلام کو خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ لازم ہے کہ یہ تاثر ختم کیا جائے۔ انہوں نے ۱۹۷۲ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم (UNESCO) قائم کرکے اقوام متحدہ سے کہا تھا کہ تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت محسوس کی جائے اور اس کا اہتمام کیا جائے۔ سوویت بلاک کے گرنے کے بعد کسی نہ کسی کو دشمن کے روپ میں پیش کرنے کی ضرورت تھی اور اس کے لیے اسلام کو منتخب کرلیا گیا! مغربی میڈیا نے اسلام کو غلط تناظر اور غیر دیانت دارانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ مغربی میڈیا میں اسلام کے حوالے سے یہ بات زور دے کر بیان کی جاتی رہی ہے کہ اسلام میں خاندانی نظام بہت مختلف ہوتا ہے اور یہ کہ اَقدار کے حوالے سے اس کی تفہیم بہت مشکل ہے۔
پروفیسر کوچلر کا کہنا ہے کہ فرانس، جرمنی اور آسٹریا میں مسلم تارکینِ وطن کی بڑے پیمانے پر آمد سے معاملات خاصے الجھ گئے ہیں۔ آبادی کا توازن بھی خطرے میں ہے اور لیبر مارکیٹ پر بھی اس کا گہرا اثر مرتب ہو رہا ہے۔ اب تک تو یورپ نے اس معاملے کو عمدگی سے سنبھالا ہے۔ سیاست دان البتہ خرابیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف ووٹ حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔ اس معاملے میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فرانس کے سابق صدر سرکوزی اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا رویّہ بہت عجیب رہا ہے۔
ایبنٹ کے مباحثوں کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر کوچلر نے کہا کہ مل بیٹھنے سے بہت کچھ بیان ہوتا ہے، غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ریکارڈ درست کرنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں بھی لوگ بہت کچھ بولتے ہیں مگر وہ بہت حد تک سرکاری حیثیت میں ہوتا ہے۔ ایبنٹ مباحثے جیسے کسی بھی فورم پر لوگ کھل کر بولتے ہیں اور یوں خیالات کا بہاؤ ممکن ہو پاتا ہے۔
فتح اللہ غلین کو سراہتے ہوئے پروفیسر کوچلر کہتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے غیر معمولی کام کیا ہے اور ان کی تعلیمات سے دنیا کو یہ باور کرانے میں مدد ملی ہے کہ اسلام موجودہ عالمی نظام کا ایک ایسا حصہ ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ فتح اللہ غلین نے اسلام کو فلسفیانہ رُخ کے ساتھ پیش کیا ہے، جو قابلِ داد ہے۔ پروفیسر کوچلر نے فتح اللہ غلین کی قائم کردہ ہزمت موومنٹ کے زیراہتمام کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ وہ بین المذاہب مکالمے کے حوالے سے بھی فتح اللہ غلین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ تنگ نظری پر مشتمل اسلامی تعبیرات ترک کرکے دنیا تیزی سے فتح اللہ کی تعلیمات کو اپنائے گی۔ کوچلر نے مردین (Mardin) میں قائم ایک ایسے اسکول کا بھی دورہ کیا جو فتح اللہ غلین کی تحریک کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس میں ترک، کرد اور عرب طلبہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ترکی میں ثقافتی اعتبار سے منعقد کی جانے والی تقریبات کو معیاری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’دی ٹرکش لینگویج اولمپیاڈ‘‘ کو یورو وژن سے بہتر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ثقافتی اعتبار سے اس کا معیار بہت بلند ہے۔
(“European Countries against Turkey’s EU Accession for Economic Reasons”…
“Todays Zaman” Turkey. Feb. 12th, 2013)
Leave a Reply