مغرب میں آبادی تیزی سے سکڑتی جارہی ہے۔ بالخصوص یورپ اس معاملے میں نمایاں ہے۔ عیسائی دنیا چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں کمی واقع ہو۔ اس کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا جھانسا دیا جارہا ہے۔ زیر نظر مضمون سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ عیسائی دنیا مسلم ممالک میں آبادی کے اضافے پر تیزی سے کنٹرول کیوں چاہتی ہے۔
مغربی تہذیب آج کل اپنے موسم سرما سے گزر رہی ہے یعنی خاتمہ بظاہر بہت قریب ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ڈیڑھ صدی قبل یونان کے فلسفی پولیبیس (Polybius) نے لکھا تھا کہ ’’یونان میں ہر طرف ویرانی ہے، آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ شہر کے مرکزی راستے ویران نظر آتے ہیں اور کھیتوں میں لوگ خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ جنگ کا نتیجہ ہے نہ کسی وبا کا۔ لوگوں میں یہ خوف سا بیٹھ گیا ہے کہ اگر وہ شادی کریں گے تو بچوں کو ڈھنگ سے پال نہیں سکیں گے۔ وہ ایک یا دو بچوں سے زیادہ پالنا نہیں چاہتے۔ ایک بڑا بحران تیزی سے سر ابھار رہا ہے اور پانی سر سے گزرنے سے قبل ہی ہمیں ردعمل ظاہر کرنا ہوگا‘‘۔
پولیبیس نے بتایا کہ جو بیماری آبادی میں کمی کی شکل میں یونانی معاشرے پر مسلط ہے، اس کا علاج اہل یونان کو خود ہی کرنا ہے۔ یعنی یہ کہ ’’اخلاقی اقدار تبدیل کی جائیں‘‘۔ اہل وطن کو مشورہ دیا کہ وہ آبادی میں اضافے پر توجہ دیں اور معاشرے کو متوازن رکھیں مگر افسوس کہ ’’اس کا مشورہ نظر انداز کردیا گیا‘‘۔
یونان کی شہری ریاستوں کی آبادی میں تیز رفتار کمی نے معیشت کو کمزور کیا اور پھر فوج بھی کمزور ہوتی چلی گئی۔ اس صورت حال نے دوسری اقوام کو یونان پر حملے کی تحریک دی۔ ایک صدی تک مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں بلند اثرات کے ظہور کے بعد روم نے بالآخر ۱۴۶؍ قبل مسیح میں یونان کی شہری ریاستوں کو فتح کرکے اپنے میں ضم کرلیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یورپ کا بھی وہی انجام ہوگا جو یونان کا ہوا تھا؟ اس وقت یورپ کی بیشتر اقوام قدیم یونان کی طرح بچوں سے محروم ہیں۔ اولاد کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگوں میں بچوں کو پالنے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اخلاقی جرأت نہیں رہی۔ کسی بھی معاشرے کو زندہ اور متوازن رہنے کے لیے فی گھرانہ دو اعشاریہ ایک شرح ولادت درکار ہوتی ہے۔ اس وقت یورپ میں یہ شرح دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ اٹلی، اسپین، آسٹریا اور جرمنی میں فی گھرانہ شرح پیدائش ایک اعشاریہ چار ہے۔ پولینڈ اور روس میں یہ شرح بالترتیب ایک اعشاریہ تین دو اور ایک اعشاریہ دو ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے الاؤنس کے ذریعے ترغیب بھی دی جارہی ہے مگر کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہے۔
دوسری طرف اسلام جیسے مذاہب کے ماننے والے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ وہ مشترکہ خاندان پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کیا رنگ لائے گی، اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔
شمالی افریقا اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر مسلم ممالک میں شرح پیدائش یورپ کی شرح پیدائش سے دوگنا یا تین گنا ہے۔ افغانستان اور صومالیہ میں فی گھرانہ شرح پیدا ئش بالترتیب چھ اعشاریہ چھ دو اور چھ اعشاریہ چار ہے۔ عراق میں فی گھرانہ شرح پیدائش چار اعشاریہ آٹھ چھ، پاکستان میں تین اعشاریہ چھ پانچ اور سعودی عرب میں تین اعشاریہ صفر تین ہے۔ ترکی اور تیونس جیسے مغرب زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے ہاں بھی فی گھرانہ شرح پیدائش یورپی پیمانے سے دگنی ہے۔
ویسے تو خیر دنیا بھر میں شرح پیدائش کم ہوتی جارہی ہے، مگر یورپ میں یہ معاملہ زیادہ سنگین ہے اور آبادی میں تیزی سے رونما ہونے والی کمی ہی یورپ کے مقدر کا تعین کرے گی۔ یورپ میں آباد ہونے والی مسلم تارکین وطن میں شرح پیدائش ایک نسل پہلے کی شرح پیدائش کے مقابلے میں کم ہے مگر اب بھی یہ شرح پیدائش یورپ کی وسیع سیکولر آبادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ تارکین جرمنی، اسپین اور اٹلی وغیرہ میں شرح پیدائش کو متوازن رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آبادی کے رجحانات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ۲۱۰۰ء تک یورپ کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں کی آبادی دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔ مسلم افواج نے یورپ کے بہت سے اہم شہروں کو فتح کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں اور ہر بار ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔ جو کچھ طاقت سے نہ ہوسکا وہ اب بڑھتی ہوئی آبادی کے ہاتھوں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میدان جنگ میں فوج تو ہار گئی مگر ’’گہوارے کی جنگ‘‘ مسلمان جیتتے دکھائی دے رہے ہیں۔
“Europe as we know it is dying”… (“Pop.org” Jan. 29, 2013)
Leave a Reply