
کیا سوئٹزر لینڈ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی مذہب کے بارے میں فراخدلی کی یورپی روایت سے انحراف ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مرکزی علاقوں میں مساجد اور میناروں کی تعمیر پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے۔ جن یورپی ممالک میں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ان سمیت بیشتر یورپی ممالک نے مساجد اور دیگر اسلامی تعمیرات کا نام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور بہت سے ممالک میں ایک بھی مسجد باقی نہیں رہنے دی گئی۔ سوئٹزر لینڈ میں ایک ریفرنڈم کے دوران ووٹروں کی اکثریت نے ملک میں اسلامی تعمیرات کی توانا ترین علامت میناروں پر پابندی عائد کرنے کی وکالت کی ہے۔ ریفرنڈم کے اس نتیجے پر سیاست دان حیران ہیں۔ آئین کی رو سے امتناع کا درجہ رکھنے والے ایک سروے کا بنیادی مقصد سوئٹزر لینڈ کی ’’اسلامائزیشن‘‘ کو روکنا ہے۔سوئٹزر لینڈ میں صرف چار مساجد کے مینار ہیں اور ان میناروں سے بھی دن میں پانچ وقت اذان نہیں دی جاتی۔ معاملات کو مزید خراب کرنے والی حقیقت یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے مسلمانوں میں نمایاں تناسب بوسنیائی مسلمانوں کا ہے جو الٹرا نیشنلسٹ عناصر کی جانب سے شروع کی جانے والی نسلی تطہیر سے بچنے کے لیے سوئٹزر لینڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ سربوں نے خطے میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے بوسنیا میں مساجد شہید کردی تھیں اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ اب الپس کے کوہستانی سلسلے کی سب سے پرامن، سب سے مالدار اور نسلی و مذہبی تنوع والی ریاست میں بھی مساجد کے میناروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
تقابل سماجی علوم کی بنیاد ہے اور دین و سیاست کے حساس موضوعات کے حوالے سے تقابل غیر جانبدار اور سیر حاصل بحث کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عصری معاملات کی بات ہو یا تاریخی تناظر کی، دیانت دارانہ تقابل ہی دیانت دارانہ بحث کی بنیاد بنتا ہے۔ اگر کوئی غیر جانبدار سیاح اسپین، آسٹریا، سینیگال، فرانس، اٹلی، ہنگری، شام، لبنان، مصر، بھارت، انڈونیشیا، روس اور چین سے گزرے تو محسوس کرے گا اور مذہبی تنوع کے بارے میں بہت کچھ سمجھ سے گا تاہم وہ اس حقیقت کو نوٹ کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ جن یورپی ممالک میں کبھی مسلمانوں کی حکومت رہی تھی وہاں اب تاریخی مساجد کا نام و نشان مٹادیا گیا ہے اور مسلمانوں کے مخصوص علاقے کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ہمارا فرضی سیاح یہ بات بھی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا جب دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد یورپ کی تعمیر نو کے لیے جن مسلمانوں کو بلایا گیا تھا ان کی اولادیں اب چند مخصوص علاقوں یعنی ghettos میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا فرضی سیاح مسلم، ہندو، بدھ یا آرتھوڈوکس کرسچین اکثریت والے ممالک میں گرجا، مساجد، مندر اور پگوڈا کی واضح موجودگی محسوس کرے گا اور یہ حقیقت بھی کہ ان ممالک میں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے مل جل کر زندگی بسر کرتے آرہے ہیں۔ ہم عمومی صورت حال کی بات کر رہے ہیں۔ ترکی اور الجزائر جیسے ممالک بھی استثناء کی شکل میں موجود ہیں جو معاشرے کی مذہبی ہیئت کے اعتبار سے یورپ سے قریب تر ہیں۔ عراق اور پاکستان جیسے ممالک میں جنگوں اور تشدد کے نتیجے میں مذہبی تنوع مٹتا جارہا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد سے میڈرڈ، پولرمو، بڈاپیسٹ اور ایتھنز میں مذہبی مارکیٹ پر صرف عیسائیت کی اجارہ داری رہی ہے۔ ان ممالک میں ہمارے فرضی سیاح کو مسلم، ہندو، یہودی، بدھ مت کے پیروکار اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے خال خال ہی ملیں گے۔ یہ تصویر اس سے بالکل مختلف ہے جو مصر، شام، بھارت، آذر بائیجان، انڈونیشیا، چین اور حتٰی کہ روس میں پائی جاتی ہے۔ مذہبی مارکیٹ میں ویسٹرن کرسچین اجارہ داری کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہولو کاسٹ کے بعد کے یورپ میں مسلمانوں کے ابھرنے پر انتہائی دائیں بازو کے عناصر کا شدید ردعمل اور ’’اسلامو فوبیا‘‘ میں مبتلا ہو جانا زیادہ حیرت انگیز نہیں۔
مغربی یورپ اور بلقان کے خطے سے تعلق رکھنے والے ممالک مسجد، مینار اور اسلامی ثقافت کی دیگر توانا علامات کے مخالف رہے ہیں۔ وسطی یورپ کے ملک ہنگری میں سکونت کے دوران مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہاں ایک بھی تاریخی مسجد نہیں جبکہ عثمانیوں نے ہنگری کے علاقے پر ڈیڑھ سو سال حکومت کی تھی! یونان کا دارالحکومت ایتھنز اٹھارہویں صدی کے اواخر تک کم و بیش ۳۷۵برس تک مسلمانوں کے زیر اقتدار رہا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۶ء تک اس شہر میں کوئی مسجد نہیں تھی اور ایتھنز میں مسلمانوں کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق ۲ لاکھ ہے۔ یورپی یونین کے دیگر متعدد رکن ممالک کے دارالحکومت کی بھی یہی حالت ہے۔ سوئٹزر لینڈ پہلا ملک ہے جہاں میناروں کی تعمیر پر آئین کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے تاہم کئی اور ممالک ایسے ہیں جو میناروں ہی کے خوف سے مساجد کی تعمیر پر بھی کسی نہ کسی بہانے پابندی عائد کرتے رہے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں مساجد ہیں اور ان میں سے چار کے مینار بھی ہیں تاہم سلووینیا میں اب تک ایک بھی مسجد نہیں جبکہ مسلمان اس ملک کی آبادی کا ۴ء۲ فیصد ہیں اور ۱۹۶۹ء سے مسجد کی تعمیر کی اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یورپی یونین میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی جرمنی میں ہے جو ۳۰ سے ۴۰ لاکھ بتائے ہیں۔ ملک بھر میں ۲۴۰۰ مقامات ایسے ہیں جہیں نماز کے لیے مختص قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دارالحکومت برلن میں صرف ایک مسجد ایسی ہے جس کے واضح مینار موجود ہیں اور یہ مسجد ایئر پورٹ کے پہلو میں واقع ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں نے بنائی تھی اور اس قبرستان سے ملحق ہے جس میں پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے ساتھ مل کر لڑنے والے ترک سپاہیوں کی قبریں ہیں۔ برلن کے وسط میں یہودی معبد (سنیگوگ) کا قبہ خوب چمکدار ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ جرمنی میں یہودیوں کی آبادی کتنی ہوگی۔ کولون شہر میں مینار کی تعمیر پر پابندی لگانے کے خواہش مند انتہائی دائیں بازو کے عناصر مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ منسوخ کرانے میں بہر حال ناکام رہے۔ جرمنی میں استصواب رائے پر آئینی پابندی ہے کیونکہ ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف اور کُلّیت پسند طرز حکومت قائم کرنے کے لیے اس کا خوب غلط استعمال کیا تھا۔ نازی ازم کی ترویج اور توسیع پسندی کو درست قرار دلانے کے لیے بھی استصواب رائے کا سہارا لیا گیا۔ دنیا بھر میں مختلف اہم اور حساس موضوعات اور اشوز پر استصواب رائے کی روایت رہی ہے اور اسے جمہوری بھی سمجھا جاتا رہا ہے تاہم اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کو استصواب رائے کی بھینٹ چڑھانا شدید غلامانہ ذہنیت کا عکاس اور نمائندہ جمہوریت کی روح کے منافی عمل ہے۔
یورپ کے بر خلاف روس اور مشرقی قریب کے متعدد مسلم ممالک میں مساجد اور گرجا گھر ساتھ ساتھ قائم ہیں۔ یہ مذہبی رواداری کی عمدہ مثال ہے۔ روس اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر مسلم ممالک مغربی یورپ سے زیادہ جمہوری اور لبرل تو خیر نہیں ہیں تاہم مذہبی رواداری کی روایت ان کے ہاں خاصی تابندہ ہے۔ اور سوال صرف مذاہب کو قبول کرنے کا نہیں، ان کی توانا علامات کو بھی گوارا کرنے کا ہے۔ شام میں مختلف عیسائی فرقے اور ان کے گرجے پائے جاتے ہیں۔ اور مجھے ماسکو میں گرجوں اور مساجد کے ساتھ ساتھ یہودی معبد دیکھ کر بھی خوشگوار حیرت ہوئی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روس میں یہودی مخالف رجحانات بھی توانا ہیں اور اسلام سے خوفزدہ رہنے کی ذہنیت بھی خوب پنپ رہی ہے۔
ترکی میں قوم پرستی، امتیازی پالیسیوں اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں متعدد جنگوں کے باعث عیسائی خاصی کم تعداد میں رہ گئے ہیں تاہم سیکڑوں گرجے اب بھی سرگرم ہیں۔ ایسے میں ہنگری، یونان، اسپین، سسلی، رومانیہ، سربیا اور یورپ کے دیگر مقامات پر معدوم مساجد اور میناروں سے ان کا موازنہ ایسا نہیں جسے نظرانداز کیا سکے۔
سسلی میں اسلام کے صدیوں پر محیط ورثے کے بارے میں مجھے کم کم معلوم تھا۔ جب میں نے طارق علی کی کتاب ’’ایریزڈ‘‘ پڑھی تو مجھے سسلی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا۔ ’’اے سلطان ان پولرمو‘‘ بھی تاریخ کے اس نکتے پر مرکوز عمدہ ناول ہے۔
سوئٹزر لینڈ کی جانب سے میناروں کی تعمیر پر عائد کی جانے والی پابندی کسی بھی اعتبار سے انوکھی نہیں، استثنائی کیس نہیں۔ متعدد یورپی ممالک میں اس مقصد کے لیے قانونی اور بیورو کریٹک طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مساجد اور میناروں کی تعمیر روکنے کے لیے آئین کے تحت پابندی یا ریفرنڈم خاصا حساس اور متنازع معاملہ ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے کیس سے ہمیں اس بات کی تحریک ملتی ہے کہ ہم یورپ میں غیر عیسائی مذاہب سے متعلق تاریخی ریکارڈ کھنگالیں اور آج کی دنیا سے اس کا موازنہ کرکے بتائیں کہ یورپ زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر یورپ واقعی جمہوریت اور شخصی آزادی کا علمبردار ہے تو اسے مذہبی تنوع برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ مغربی یورپ کو صرف آبادی کے حوالے سے نہیں بلکہ سرکاری اور عوامی رائے کے اظہار کے معاملے میں تنوع اور رواداری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ مذہبی رواداری وہ قدر ہے جس کی بقاء کے لیے صرف یورپ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں کوشش کی جانی چاہیے۔
سینر اکترک نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے سے پی ایچ ڈی کیا۔ وہ ڈیوڈ سینٹر فار رشین اینڈ یوریشین اسٹڈیز کے پوسٹ ڈاکٹورل فیلو ہارورڈ یونیورسٹی میں حکومتی امور کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔
(بحوالہ: “www.todayszaman.com”)
Leave a Reply