
ایک ہفتہ ایسا ہے جو دُنیائے صحافت میں ان دنوں عرصہ زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرانس کے فسادات سے متعلق دو طرح کے تبصرے سامنے آئے۔ ایک تبصرے کی رو سے یہ فسادات اسلام اور مغرب کے مابین وسیع تر تہذیبی تصادم کا حصہ ہیں۔ “Falluja-Sur-Seine” یہ سوال نوقدامت پرست ’’ویکلی اسٹینڈرڈ‘‘ کی جانب سے تھا۔ کالم نگار Mark Steyn نے مزید آگے بڑھ کر اِسے تاریک دور کے مماثل قرار دیا جب مسلمانوں نے ۸ویں صدی میں یورپ کو فتح کیا تھا۔ لیکن فسادات کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ نہ ہی وہاں سبز پرچم تھے نہ ہلال کے نشانات تھے‘ نہ فلسطین کے بارے میں کوئی نعرہ تھا اور نہ اسلام سے متعلق کوئی شعلہ بیانی تھی۔ جن جوانوں سے انٹرویو لیا گیا وہ غیر مذہبی لوگ تھے انہوں نے احترام روزگار‘ تفریق و امتیاز کی باتیں کی نہ کہ جہاد‘ خودکش حملوں اور جنت کی دوشیزائوں کی باتیں کیں۔ یہ فسادات فلوجہ اور رملہ سے زیادہ ساٹھ کی دہائی میں امریکا میں ہونے والے نسلی فسادات سے مشابہ تھے۔ تجزیہ کی دوسری لہر اقتصادیات پر مرکوز ہے۔ فرانس کی نسلی آبادیوں میں بیروزگاری کی شرح حیران کن طو رپر اونچی ہے یعنی ۱۵سے ۳۰ فیصد تک۔ اس طرح گزشتہ ۲۵ سال کے عرصے میں صرف چند لاکھ ملازمتیں فراہم کی ہیں جبکہ ا مریکا میں اس عرصہ میں تقریباً ۵ کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کیے گئے۔ لیکن اگر مسئلے کی اصل وجہ بیروزگاری ہے تو کروڑوں کی تعداد میں خود فرانسیسی بیروزگار ہیں جو سفید فام ہیں اور ان کا تعلق یورپی نسل سے ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ فساد میں ملوث نہیں ہیں۔ فرانس میں مسئلہ مدتِ کار کا ہے۔ فرانس میں ایک آدمی گھنٹے کے اعتبار سے دوسرے تمام صنعتی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم گھنٹے کام کرتا ہے۔ اوسط درجے کا ایک فرانسیسی ۱۹۷۰ء میں جتنے گھنٹے کام کرتا تھا اس وقت اس کی مدت کار میں چوبیس فیصد کی کمی آچکی ہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک اوسط درجے کے امریکی کی مدتِ کار میں ۲۰ فیصد کا مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب “Bonjour Paresse” (Hello Laziness)طنزیہ بیان ہے فرنچ کمپنیوں میں کام کی مایوس کن صورتحال کا (قانون نمبر ۵: کبھی بھی کسی بھی وجہ سے ذمہ داری کا عہدہ قبول نہ کرو) آپ کو سخت محنت کرنی ہوگی اس کام کے لیے جس کی اجرت مونگ پھلی کے برابر ہوگی) بیروزگاری ‘ کم روزگاری اور جمود کا یہ مجموعہ عرب مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک فرانسیسی مسئلہ ہے۔ فرانس کا موجودہ بحران حقیقت میں مختلف عوامل کا مجموعہ ہے جن میں مذکورہ بالا مسائل بھی شامل ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ قومی شناخت کا مسئلہ ہے اور یہ صرف مخصوصاً فرانس کا مسئلہ نہیں ہے۔ مغربی یورپ میں آج تقریباً اتنا ہی غیر ملکی نژاد شہری ہیں جتنا کہ امریکا میں۔ لیکن اس کے شہری اپنے آپ کو مہاجر اقوام تصور نہیں کرتے ہیں۔ معاشرہ کے مراکز مضبوط طریقے سے مربوط‘ محفوظ اور وسیع پیمانے پر ہم آہنگ ہیں۔ نظریہ اور عمل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یورپیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی پرانی قومی شناخت ترک کردی ہے لیکن کیا ایسا واقعی ہے کہ فرانس اپنے آپ کو اقدار کی جمہوریہ کا نام دیتا ہے۔ لیکن جب آپ اس کو کریدیں گے تو بیرونی دُنیا سے منقطع برادریوں کی جمہوریہ ثابت ہوگا۔ دوسرے یورپی مخالف مابعد مذہبی و مابعد قومی شناختوں کی بات کرتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایسے ممالک ہیں جہاں شناخت کا تعین خاندان‘ برادری اور زمین سے ہوتا ہے۔ بہرحال یہ وہ چیز ہے جسے ہم میںسے بہت سے لوگ یورپ کا قابل تعریف پہلو تصور کرتے ہیں۔ یورپ کی برادریوں کی جڑیں ایسے مقامات سے وابستہ ہیں جو دہشت سے پُر ہی(terroir)ہیں لوگ وہاں سے ہٹتے نہیں ہیں۔ وہ جگہ تو ایک تاریخی تسلسل کا مفہوم دیتے ہیں۔ لیکن یہ خصوصیات جو دیہی علاقوں سے متعلق فرنچ فلموں میں دیکھایا جاتا ہے باہر کے لوگوں کو بہت ظالمانہ معلوم ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ فرانسیسی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسیسی نام کے درخواست گزار ‘عربی اور افریقی ناموں کے درخواست گزار کے مقابلے میں ۵۰ گنا زیادہ ہیں جن کے انٹرویو لیے جانے کا امکان ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا یورپ کے بقاء کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ یہ غیرملکی نژاد شہری ہیں انہیں جذب کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کو ترقی و خوشحالی کا راستہ طے کرنے کے لئے مزید تارکین وطن کی ضرورت ہے۔ یورپ کی اقتصادیات ابھی اتنی مفلوج نہیں ہوئی ہیں جتنا کہ لوگ تصور کرتے ہیں۔ اس کی کم تر شرحِ پیداوار کی سب سے بڑی وجہ تارکین وطن کی کمی ہے اور یہ مسئلہ روز بروز خراب ہوتا جارہا ہے۔ ایک سادہ سی بات تو یہی ہے کہ یورپ میں ریٹائرڈ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کا حقیقی حل صرف یہی ہے کہ تارکین وطن کو قبول کیے جانے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن اگر تارکین وطن سماجی انتشار کا سبب بنتے ہیں تو یورپ تباہ ہوجائے گا۔ آخر حل کیا ہے؟ کیا یہ فرانسیسی کامحض خوف۔ امریکنائزیشن کا خوف؟ بعض پہلوئوں سے یہ خوف درست ہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو ایک قومی شناخت جو افکار و اقدار پر مبنی ہو کے ذریعہ قریب آنے کی ضرورت ہے۔ انہیں فعال اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔اثباتی عمل کی مانند تاکہ وہ اپنی نئی اقلیتوں کو اپنے سے مربوط کرسکیں۔بغیر اثباتی اقدام کے (اسکولوں ‘کالجوں‘ تجارتی اداروں اور فوجی اداروں میں)امریکا کے پاس معتدبہ تعداد میں سیاہ فام مڈل کلاس نہیں ہوتی جو آج اس کے پاس ہے۔ نسلی تعلقات کے مسئلے کا یہ بہت ہی موثر حل ہے۔ ایک ملک ہے جس نے اس سمت میں قابل ذکر نتائج کے ساتھ پیش رفت کی ہے۔ برطانیہ نے گزشتہ بیس سالوں میں اپنی شناخت کا ازسرنو تعین کیا ہے‘ گزشتہ اپریل کے پراسپیکٹ میگزین میں ایک بہت ہی اہم بحث میں چانسلر آف ایکسچیکر Gordon Brown نے برطانوی شناخت کی وضاحت کی ہے: تحمل اورآزادی پر یقین ‘ شہری ذمہ داری کا احساس‘ دیانتداری کا احساس اور اس بات کا احساس کے دُنیا کے سامنے اپنے آپ کو نمایاں رکھا جائے‘‘ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ چیزیں واقعتاً کسی بامعنی مفہوم میں ’’برطانوی‘‘ اوصاف کا حصہ رہی ہیں تو Brown نے اصرار کے ساتھ کہا کہ ’’یہ افکار ہماری تاریخ کی بنیاد رہے ہیں۔ ہم امریکا کے وجود میں آنے سے بہت قبل آزادی اور مواقع کی بات کرتے رہے ہیں۔ امریکا کی بنیاد برطانوی افکار پر ہے… اگر آپ برطانوی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ چار اقوام جو آخر کار ا یک ساتھ ہوئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانونیت کبھی بھی نسلی شناخت پر مبنی نہیں رہی‘‘ برطانیہ نے یہ مسئلہ حل نہیں کرلیا ہے بلکہ یہ ایسے حل کی تلاش میں ہے جو ماضی کا احترام کرے‘ حال کو گلے سے لگائے اور اپنے کو مستقبل کے لیے تیار کرے۔ کوئی اتنا یورپ کے باقی ممالک کے بارے میں نہیں کہہ سکتا ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۲۱ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply