یورپی عدم اتحاد
کیا یورپیوں کے امریکا مخالف جذبات میں خوشگوار کمی کا مطلب یہ ہے کہ یورپ اور امریکا ایک ہو رہے ہیں؟ ابھی تو ایسا نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ یورپ کے حکومتی قائدین امریکا اور اس کے کمال مقصود کا اگرچہ زبانی طور سے دم بھرتے ہیں لیکن متعدد سماجی و اقتصادی مسائل پر اُن سے بہت دوری رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے قطعٔ نظر امریکا اور یورپی یونین کے مابین ایک حقیقی اتحاد معرضِ وجود میں نہیں آسکتا ہے تاآنکہ یورپ کو کوئی واحد آواز نہیں مل جاتی ہے جس کے ساتھ یہ پورے اوقیانوس میں تعلقات کے پل تعمیر کر سکے۔ یورپی اتحاد کی برسوں پرانی تاریخ کے باوجود آج فرنچ، سویڈیش اور یونانی پہلے سے زیادہ فرنچ، سویڈیش اور یونانی ہیں۔ یورپی سیاستدانوں کا نیٹ ورک، جس کی سربراہی کسی زمانے میں Jean Monnet اور Robert Schuman کر رہے تھے اور جنہوں نے ۵۰ کی دہائی میں یورپی یونین قائم کیا تھا، ابھی تک بدلا نہیں جاسکا ہے۔ یورپ سیاسی، اقتصادی، سماجی نوعیت کے کسی بھی ایسے گروپ کی شکل اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے جو امریکا کے ساتھ شراکت دار کی حیثیت سے کام کرنے کا خواہشمند یا اہل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ بجائے امریکا سے ربط مضبوط کرنے کے اس نے اپنے آپ میں ہی اضافہ کیا ہے۔ ۵ سال پہلے یورپی کمیشن ۱۵ کمشنروں پر مشتمل تھا اب اس کے ۱۷ کمشنرز ہیں۔ ہر کمشنر کا اپنا اسٹاف ہے، ڈرائیور سمیت گاڑیوں کی ایک قطار ہے۔ ان میں سے ہر ایک آپ پھلتی پھولتی افسر شاہی کے آہنی قانون کی پیروی کرتا ہے جو اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ احکامات جاری کر کے ثابت کرتی ہے۔ مجوزہ نئے یورپی معاہدہ کے تحت یورپ کے تین صدور ہوں گے۔ ایک صدر کمیشن کا ہو گا جو برزلز کی بیوروکریسی کا ترجمان ہو گا۔ دوسرا صدر یورپی کونسل کا ہو گا جو یورپ کی ۲۷ قومی ریاستوں کا نمائندہ ہو گا اور تیسرا یورپی پارلیمنٹ کا صدر ہو گا جو پارلیمنٹ نیم فاشسٹوں اور جنونی فاشسٹوں کا عجیب و غریب مجموعہ ہے۔ یہ دونوں گروہ اصلی دھار کی حامل پارٹیوں کے بالمقابل کھڑے ہیں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین خارجہ پالیسی کا اعلیٰ سطحی نمائندہ‘‘ بھی ہو گا جو یورپ کی وکالت کرے گا لیکن اس پالیسی کی بنیاد پر جس پر ۲۷ ملک کے وزراے خارجہ متفق ہو چکے ہیں۔ خارجہ پالیسی کا حقیقی تعین کرنے والے سربراہان مملکت ہوں گے جن میں ہر ایک رائے عامہ اور انتخابی کلینڈر کو ملحوظِ نظر رکھے گا۔ یورپ مشترکہ خارجہ پالیسی کی بات کر سکتا ہے لیکن اختلافات سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ مثلاً یورپی یونین کے بیشتر گروہ افغانستان میں ایک واحد کمانڈ کے تحت کام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں جبکہ برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کے فوجی طالبان کو دوبارہ قابض نہ ہونے دینے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ براعظمی یورپی اپنے بیرکوں میں بیٹھے ہیں۔ بعض بالکل نئے یورپی اراکین بھی مشترک گرائونڈ کی تلاش میں ناکام رہے ہیں۔ پولینڈ میں یورپی رقوم کی بارش ہوئی ہے اور یہ رقوم دور دراز کے مغربی ممالک کے ٹیکس ادا کرنے والوں کی جیب سے آئے ہیں۔ نقد رقوم کی یہ منتقلی پولینڈ کی تاریخ میں سب سے بڑی منتقلی ہے۔ پھر بھی یورپی یونین میں پولینڈ کی تقدیر پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے حکمراں Kaczynski جڑواں اپنے اصل سیاسی حریفوں پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ جرمنی کی خفیہ ملازمت میں ہیں۔ وارسا کی شعلہ بیانی اس خیال کا مذاق اڑا رہی ہے کہ یورپ کی پرانی قوم پرستی کی جگہ یورپی اتحاد لے لے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صدی قبل کا یورپی نقشہ جامد استعماری گروہوں کی نشاندہی کرتا ہے یعنی روس، جرمنی، آسٹیریا و ہنگرری اور برطانیہ جن میں کچھ میں شہنشاہیت تھی اور کچھ میں جمہوریت اور اب جہاں پہلے سے کہیں زیادہ چھوٹی ریاستوں اور قومی شناختوں کا ظہور معلوم ہوتا ہے، بیلجیم کے مقامی سیاستداں حضرات ملک کو دونیم کرنے پر تلے معلوم ہوتے ہیں جہاں فرنچ بولنے والے اور Flemish علاقے کے لوگ اپنی علیحدہ روش پر جارہے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کے کٹّر قوم پرست رہنمائوں نے امریکا کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی ہے اور Holy loch میں اسکاٹ لینڈ کو نیٹو آبدوزوں سے آزاد کرانے کی مہم چلائی ہے۔ متحد ہونے کے حوالے سے یورپی یونین کی نااہلی نے اسے مزید تقسیم کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ روسی صدر ولاد میر پیوٹن نے اپنے یہاں یورپی دارالحکومت بنائے جانے پر یکے بعد دیگرے کئی اقوام سے خصوصی سلوک کا وعدہ کیا جن میں سے بیشتر ماسکو کی خواہش کا احترما کرنا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن نے خود یورپی یونین کے اندر بھی تقسیم کا بیج بو دیا ہے۔ جبکہ امریکا کے پالیسی ساز ٹرومین سے کلنٹن تک حتیٰ کہ ماقبل گیارہ ستمبر کے جارج ڈبلیو بش بھی یورپی اتحاد کی حمایت کرتے رہے ہیں تاہم یورپیوں نے اس وقت سے جو آواز سنی ہے، وہ ان لوگوں کی زبان سے سنی ہے جو لیکچر دیتے رہے ہیں اور یورپ کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ ماضی میں یہ واشنگٹن تھا جس نے یورپی کو یہ دکھایا کہ ایک یورو۔ اوقیانوسی اتحاد جو ذمہ داری کو قبول کرنے اور بوجھ کو بانٹنے کے لیے آمادہ تھا، دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہترین صلاحیتوں کا حامل تھا۔ لیکن ۲۰۰۵ء میں فرانس اور ڈنمارک کی جانب سے یورپی آئین کا مسترد کیا جانا ایک ایسے یورپ کی علامات کو ظاہر کرتا ہے جسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کہاں جارہا ہے یا یہ کہ وہ کہاں جانا چاہتا ہے۔ برطانیہ کا دو رُخاپن بدرجۂ اتم تھا بلکہ اکثر تو اس کی پالیسی یورپ دشمنی پر مبنی رہی۔ امریکا مخالف جذبات میں کمی اوقیانوس کی حدبندی پر منتج نہیں ہو گی تاآنکہ ایسی یورپی قیادت نہ آئے جو یورپ کے مستقبل کے حوالے سے خوداعتمادی سے معمور ہو اور جو قوم پرستانہ فرقہ واریت کی اس قسم کا سامنا کر سکتی ہو جو یورپ کو ایک حل کے طور پر دیکھنے کے بجائے ایک مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے۔
نوٹ: مضمون نگار ایک لیبر ایم پی ہیں اور بلیئر حکومت میں نائب وزیرِ خارجہ تھے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ: ۱۰ ستمبر ۲۰۰۷ء)