
یورپ ایک عجیب موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس سے اس کا اشتراکِ عمل صدیوں پر محیط ہے۔ امریکا کے ساتھ مل کر یورپ نے کم و بیش ڈیڑھ صدی تک پوری دنیا پر بھرپور راج کیا ہے۔ اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ یورپ اپنا راستہ بدلنا چاہتا ہے۔ یورپ کے قائدین امریکی پالیسیوں سے غیر معمولی پریشانی اور دقت محسوس کر رہے ہیں۔ امریکا تمام معاملات کو عسکری قوت سے درست کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے اپنی ترقی کی بنیاد اسلحے کی صنعت اور دھونس دھمکیوں پر رکھی ہوئی ہے۔ یورپ اس راہ سے دور ہونا چاہتا ہے۔ امریکا اب تک ’’سخت قوت‘‘ کا دلدادہ ہے مگر یورپ ’’نرم قوت‘‘ کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہے۔
ایک طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت ہے، جس کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی عام ہے اور دوسری طرف سیاسی و جغرافیائی بنیادیں ہیں جو تنازعات کو توانا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایسے میں یورپ کی مشکلات کیا ہیں اِسی کا تجزیہ زیر نظر مضمون میں کیا گیا ہے۔
یوروپین کمیشن کے سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن سے فرانسیسی صدر ایمانویل میکراں تک یورپ کی نمایاں ترین شخصیات کے لیے یورپ کی خود مختاری ایک بنیادی مسئلہ بن چکی ہے۔ یورپ بیشتر معاملات میں خود مختاری چاہتا ہے۔ امریکا، چین، روس، بھارت اور برازیل سمیت بہت سے ممالک اب زیادہ سے زیادہ خود مختاری پر زور دے رہے ہیں۔ امریکا اور چین جیسے بڑے ممالک کے علاوہ کم طاقت والے کئی ممالک بھی چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں اُن کی بات سُنی اور مانی جائے۔ وہ اہم فیصلوں میں زیادہ سے زیادہ شرکت چاہتے ہیں۔ اگر فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع نہ ملے تب بھی وہ مشاورت میں تو بہرحال حصہ لینا چاہتے ہی ہیں۔ ایسے میں یورپ کے لیے بڑی مصیبت یہ ہے کہ امریکا کے ہوتے ہوئے وہ محض تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔ یورپ کے بیشتر فیصلے بھی امریکا ہی کر رہا ہے اور تھوپ رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا نے اپنی عالمگیر بالا دستی برقرار رکھنے کے حوالے سے جو مہم شروع کی وہ بھی بہت حد تک اِسی بات کا مظہر تھی۔ یورپ کو امریکا نے اپنے ساتھ ضرور ملایا مگر اُس سے بھرپور مشاورت کرنے اور اُس کی بنیادی آرا کا احترام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ایسا نہیں ہے کہ یورپ کے کمزور پڑنے کے معاملے کا محض بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہوجانے ہی سے تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کو بہت سے بنیادی معاملات میں اپنی حیثیت بحال کرانی ہے۔ ایک طرف تو وہ عسکری امور میں اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنی بات دھونس دھمکی کے ذریعے منوانے پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ زور اصلاً اس بات پر ہے کہ نرم قوت کا سہارا لے کر آگے بڑھا جائے تاکہ جدید ترین علوم و فنون میں مہارت بڑھائی جائے، معاشی معاملات کو قابلِ رشک حد تک مضبوط بنایا جائے اور ثقافتی سطح پر بھی اپنی بالا دستی برقرار رکھنے پر توجہ دی جائے۔
یورپی خود مختاری بمقابلہ امریکی اصرار
امریکی قیادت کسی بھی بڑے بین الاقوامی یا عالمی معاملے میں یورپ کی رائے کو کس حد تک اہمیت دیتی ہے، اُس کی ایک واضح مثال ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے کا امریکا کی طرف سے یک طرفہ طور پر ختم کیا جانا ہے۔ اس معاملے میں یورپ سے مشاورت کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ یورپ نے واضح طور پر محسوس کیا کہ اُسے یکسر بے وقعت سمجھ کر ایک طرف ہٹادیا گیا۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے چینی کمپنی ہواوے سے متعلق امریکی ویٹو کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوگا۔
عالمی نظام کو چلانے، بلکہ چلتا رکھنے کے حوالے سے امریکا جو کچھ خرچ کرتا آیا ہے اس کے معاملے میں یورپ کا کردار خاصا محدود اور لو پروفائل رہا ہے۔ یورپ اول تو کم خرچ کرتا ہے اور پھر یہ کم فنڈنگ بھی ڈھنگ سے بروئے کار نہیں لائی جاتی۔ اس معاملے میں یورپ اور امریکا کے درمیان معاملات اچھے نہیں چل رہے۔
بیشتر عسکری معاملات میں یورپ کو امریکا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ امریکا کی کسی بھی عسکری مہم جوئی میں یورپ بھی ساتھ تو دیتا ہے مگر اس کے بیشتر معاملات امریکا کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر کی بات کیجیے تو حقیقت یہ ہے کہ یورپ کو امریکا کی بڑی ڈیٹا کمپنیوں پر اس حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے کہ یورپ کو اس معاملے میں امریکی نوآبادی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور اب تو چینی کمپنیاں بھی ڈیٹا بیس کے حوالے سے یورپ کی ضرورت بنتی جارہی ہیں۔ امریکی جریدے ’’فوربس‘‘ کے مطابق دنیا کے دس بڑے کاروباری اداروں میں ایک بھی یورپ کا نہیں۔ یورپ کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ واکس ویگن بھی عالمی رینکنگ میں اٹھارویں نمبر پر ہے۔
یورپی یونین کا بنیادی مقصد و ہدف
اس حقیقت کے حوالے سے اب کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یورپی یونین بیشتر عالمی معاملات میں لوپروفائل میں رہنا چاہتی ہے، یعنی اُسے کلیدی نوعیت کا کردار ادا کرنے سے کچھ خاص غرض نہیں۔ وہ نرم قوت کو بنیاد بناکر اپنے لیے کوئی قابلِ رشک پوزیشن چاہتی ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یورپ کو ڈٹ کر بولنے اور رائے دینے کا ہنر سیکھنا ہے۔ سیاسی و جغرافیائی معاملات میں یورپ کو اپنی رائے دنیا کے سامنے رکھنی ہی پڑے گی۔ اگر یورپی یونین کو عالمی نظام میں اپنے لیے کوئی حقیقی سودمند کردار چاہیے تو اُسے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ سوال صرف عسکری قوت اور مہارت کے حصول کا نہیں، یورپ کو دوسرے بہت سے معاملات میں بھی اپنی استعداد بڑھانی ہے۔
یورپی یونین اگر عالمی معیشت میں اپنا حصہ بڑھانا چاہتی ہے تو کردار بھی بڑھانا ہوگا۔ یورپی کمیشن کی موجودہ میعاد پوری ہونے تک یورپ کے کم ازکم دو کاروباری اداروں یا گروپس کو عالمی رینکنگ کے ٹاپ ٹین میں آنا ہی ہوگا۔ عالمی معیشت میں اپنے کردار کو وسعت دیے بغیر یورپی یونین کچھ زیادہ نہیں پاسکتی۔ مشکل یہ ہے کہ یورپ کو اب تک پوری طرح اندازہ نہیں کہ عالمگیر مارکیٹس کے بنیادی حقائق کیا ہیں، اور عالمگیر سطح کی مسابقت کے لیے حقیقی تیاری کس طور کرنی ہے۔
پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ۲۰۰۰ء میں یہ طے کیا گیا تھا کہ یورپ کو جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے تیار کرکے دس سال کی مدت میں ایسی معیشت میں تبدیل کردیا جائے گا، جو مکمل طور پر صرف علوم و فنون کی بنیادوں پر استوار ہوگی۔ اب بیس سال بعد اس ہدف کو محدود کرکے یہ کہنے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ندرت کا بازار گرم رکھا جائے۔ ایسی کسی بھی بات پر امریکا فطری طور پر کہے گا کہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل۔
فرانسیسی صدر سنجیدہ ہیں!
آج کے یورپ کو بہت سے معاملات میں خامیوں اور کمزوریوں کا سامنا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں یورپ کی خود مختاری یقینی بنانے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں یورپ کو فیصلے اور عمل کی آزادی میسر ہو اور وہ اپنے مفادات کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ یورپ بھر میں یہ سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ اس براعظم کو کسی اور کے کیے ہوئے فیصلوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ اب تک معاملہ یہ ہے کہ امریکا بیشتر معاملات میں یورپ کے لیے بھی فیصلے کر گزرتا ہے۔ برطانیہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے امریکا کے سامنے اکڑ نہیں دکھا پاتا۔ یہی سبب ہے کہ دیگر یورپی ممالک اور بالخصوص دیگر قوتوں کو بھی جھکنا پڑتا ہے۔ اہلِ یورپ فکر و عمل کی آزادی چاہتے ہیں۔ اُن لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جو یورپ کو امریکا کا دُم چِھلّا بنا ہوا دیکھتے رہنے کے موڈ میں نہیں۔ چین سے متعلق معاملات میں بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چین کا راستہ روکنے سے متعلق تمام امریکی اقدامات کو یورپ کی حمایت حاصل نہ ہو۔ امریکا اپنے مفادات پر ضرب پڑنے کی صورت میں کسی بھی ملک کے خلاف جو پابندیاں عائد کردیتا ہے، اب یورپ کی طرف سے ان پابندیوں کے خلاف مزاحمت بھی دکھائی دے سکتی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ یورپ جو کچھ چاہتا ہے اُس کے لیے sovereignty کی جگہ autonomy کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ عالمی سیاست کے حوالے سے ڈیڑھ سو سال تک تو یہی اصطلاح چلن میں رہی تھی۔
چند ’’عمل دوست‘‘ مشورے
اگر ہم یورپ کی خود مختاری واقعی یقینی بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ شناخت کے حوالے سے یورپی اور قومی ہر دو طرح کا تناظر اپنایا جائے۔ ایک طرف ہم اقوام ہیں، یعنی انفرادی نوعیت کی شناخت ہے اور دوسری طرف ہم ایک براعظم بھی ہیں یعنی اجتماعی شناخت بھی ہے۔ جس طور ہم قومی مفادات کے حوالے سے سوچتے ہیں بالکل اُسی طرح ہمیں ایک براعظم کی حیثیت سے اپنے اجتماعی مفادات کے حوالے سے بھی سوچنا ہی چاہیے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوسکتا ہے، جب اندرونی یا باہمی اختلافات پر قابو پایا جائے۔ باہمی تنازعات کی آگ بجھائے جانے پر ہی یورپ کا بھی کچھ بھلا ممکن ہے۔
بیرونی خود مختاری
یورپی یونین کے لیے بیرونی خود مختاری کا مفہوم یہ ہے کہ معیشت اور سیاست سمیت تمام اہم معاملات میں سوچنے اور عمل کرنے کی حقیقی آزادی صرف امریکا اور چین کو میسر نہ ہو بلکہ یورپی اقوام اور بالخصوص طاقتوں کو بھی کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ یورپ اس وقت خود کو ایک ریگیولیٹری سپر پاور کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ اس نکتے پر اینو بریڈفورڈ نے اپنی حالیہ کتاب ’’دی برسلز ایفیکٹ‘‘ میں خاصی معیاری بحث کی ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن، محفوظ ڈرائیونگ اور کاربن اور ڈیجیٹل کامرس پر ٹیکس کے حوالے سے جو کچھ یورپ نے کیا ہے اُسے پوری دنیا میں معیار کے طور پر اپنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے یورپ کی کامیابی کو مثالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یورپ اب مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سمیت بہت سے نئے شعبوں میں بھی ایسی ہی بھرپور کامیابی یقینی بنانے کا خواہش مند ہے۔
یہ سب کیسے ہوگا؟ یورپ اب بھی بہت سے شعبوں میں اپنی قائدانہ حیثیت منواسکتا ہے، مگر اِس کے لیے اُسے غیر معمولی حد تک محنت کرنا ہوگی اور مہارت کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے بروئے کار بھی لانا ہوگا۔ گنٹرم وُلف نے بالکل درست کہا ہے کہ ریفریز کبھی میچ نہیں جیتتے۔
چار ضروری نکات
۱۔ خود مختاری کی بات کرنے اور اُس پر زور دینے سے پہلے یورپ کو اُس کے بارے میں خوب سوچنا چاہیے اور وہ تمام تیاریاں کرنی چاہییں جو خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے لازم ہوا کرتی ہیں۔
۲۔ اہلِ یورپ کے لیے یہ معاملہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کا ہے۔ اس معاملے میں انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آگے بڑھ کر کرنا ہے اور وہ بھی پورے ولولے کے ساتھ۔
۳۔ یورپ کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کے لیے جن مقاصد کے بارے میں سوچا گیا تھا اب اُن سے ہٹ کر اور زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔
۴۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی یونین کا بنیادی مقصد بیرونی خود مختاری یقینی بنانا نہیں تھا، مگر اب چونکہ یورپی یونین کے اطراف دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے اس لیے یورپی یونین کے لیے بھی بیرونی خود مختاری یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Europe´s Sovereignty Fever” (“theglobalist.com”. March 8, 2020)
Leave a Reply