
سرد جنگ کے دوران بحرِ اوقیانوس کے ارد گرد ممالک کی حفاظت کے لیے بنائی جانے والی تنظیم ’’نیٹو‘‘ نے پچھلے بیس سالوں میں اپنے مقاصد میں قابلِ غور تبدیلیاں کی ہیں۔ ۱۹۴۹ء میں سوویت جارحیت کے دفاع میں بننے والی نیٹو نے افریقا کے سمندروں میں بحری قزاقوں اوربحیرۂ روم میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام جیسے چیلنجوں کا مقابلہ بھی کیا۔نیٹو نے اپنے آپ کو یورپ تک محدود نہ رکھا بلکہ اس نے دنیا بھر میں مختلف کارروائیوں میں حصہ لیا اور یہی کردار اس کی پہچان بھی بنا،لیکن ۲۰۱۴ء میں یوکرین میں روس کی مداخلت نے نیٹو کو اپنی توجہ صرف یورپ تک محدود رکھنے پر مجبور کر دیا۔حالیہ واقعات نے نیٹو کی سابقہ سوویت بلاک میں اپنے اثرورسوخ بڑھانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی رہنماؤں نے نیٹو کے آئندہ لائحہ عمل پر غور و فکر کیا۔ صدر کلنٹن کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ نیٹو کے نہ صرف فوجی اثرروسوخ کو مشرقی یورپ تک بڑھا دینا چاہیے بلکہ سابقہ سوویت بلاک میں جمہوریت کی وجہ سے حاصل ہونے والے فوائد سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔دوسری طرف امریکی حکام سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یورپ سے کیے گئے وعدوں پر بھی نظرثانی کے خواہش مند تھے۔
نیٹو ارکان اس معاملے پر باہمی اختلاف کا شکار تھے۔ لندن کو خدشہ تھا کہ اتحاد کو وسعت دینے سے یہ اتحاد کمزور ہو جائے گا،جبکہ پیرس کا خیال تھا کہ اس سے نیٹو کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو گا۔فرانس اس بات کا خواہا ں تھا کہ سابقہ سوویت ریاستوں کو یورپی اداروں کے ذریعے اپنے ساتھ ضم کیا جائے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ روس کے تنہا ہونے کے حوالے سے بھی خدشات موجود تھے۔
نیٹو کے اثر و رسوخ بڑھانے کے بارے میں کیے جانے والے فیصلے امریکا کے لیے نہایت اہم تھے،کیونکہ کلنٹن سمجھتے تھے کہ اگر نیٹونے اپنا کردار نہ بڑھایا تو مستقبل میں نئے ممالک اور کسی بھی علیحدگی پسندتحریک کو اسے اکیلے ہی نمٹنا ہو گا۔ ۱۹۹۴ء میں صدر بننے کے بعد کلنٹن نے یورپ کا پہلا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ـ’’اب سوال یہ نہیں ہے کہ نیٹو کی توسیع کی جائے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ توسیع کب اور کیسے ہونی ہے؟‘‘ اس کے کچھ دنو ں بعد ہی اتحادی رہنماؤں نے ایک پروگرام ’’شراکت داری برائے امن‘‘ کا آغاز کیا جس کا مقصد مشرقی اور وسطی یورپی ممالک، جن میں سابقہ سوویت یونین کے ممالک یوکرین اور جارجیا بھی شامل تھے، کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانا تھا۔
اس وقت کے دفاعی ماہرین کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے بعد اب نیٹو کو صرف اتحادی ممالک کے دفاع سے آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا(نیٹو معاہدے کی شق پانچ کے تحت اتحادی ممالک میں سے کسی ایک پرہونے والا حملہ،تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے)۔ ماہرین کی رائے تھی کہ سرد جنگ کے بعد سلامتی کے جتنے بھی مسائل ہیں وہ نیٹو کی موجودہ حدود سے باہر کے ہیں۔
۱۹۹۰ء میں یوگوسلاویہ کی تقسیم اور وہاں ہونے والے نسلی فسادات نے نیٹو کو جلد ہی امتحان میں ڈال دیا۔ اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندی کے تحت بوسنیا ہرزیگووینامیں نوفلائی زون کے قیام کے لیے بھیجے جانے والے مشن نے سرب فوج پر بمباری کی جو دفاعی ماہرین کے نزدیک لڑائی کے خاتمے کے لیے ضروری تھی۔ اپریل ۱۹۹۴ء میں نیٹونے اپنی ۴۰ سالہ تاریخ کی پہلی جنگی کارروائی کرتے ہوئے چار سرب جنگی طیاروں کو مار گرایا۔
نیٹو کے آپریشن
۲۰۱۶ء میں نیٹو جو آپریشن کر رہی ہے، اس میں کوسوو کا امن مشن، انسدادِ دہشت گردی اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بحیرۂ روم میں گشت، قرن افریقا (شمال مشرقی افریقا) میں انسدادِ قزاقی کا مشن، صومالیہ میں افریقی فوج کی مدد، افغانستان کا امن مشن اور مشرقی یورپ کی فضائی حدود کی نگرانی شامل ہے۔
نیٹو کا صدر دفتر برسلز میں واقع ہے اوریہاں فیصلے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں،اور وہ فیصلے اجتماعی مرضی کی عکاسی کرتے ہیں۔اتحادی ممالک میں سے کوئی ملک انفرادی حیثیت سے یا کسی اتحادی ملک کے ساتھ مل کر بھی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے، لیکن وہ نیٹو اتحاد کا فیصلہ تصور نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ ۲۰۱۱ء کے اوائل میں امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے تحت لیبیا میں نوفلائی زون کے قیام کی نگرانی کی اور پھر کچھ عرصے بعد (ترکی کے خدشات دور کرنے کے بعد) اس مشن کی باقاعدہ سربراہی نیٹو کو دے دی گئی۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ تمام ارکان ممالک ہرآپریشن میں حصہ لیں۔ جیسا کہ جرمنی اور پولینڈ نے لیبیا میں براہِ راست مداخلت سے انکار کر دیا تھا۔
نیٹو افواج کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔سپریم ہیڈکواٹرز الائیڈپاورز یورپ (Supreme Headquarters Allied Powers Europe) بلجیم کے شہر مون میں واقع ہے، اور دفتر نورفک، ورجینیا میں واقع ہے۔ نیٹو کے تمام عسکری آپریشنوں کی نگرانی الائیڈ کمانڈر یورپ کرتا ہے جو کہ عموماً امریکی جنرل ہوتا ہے (موجودہ کمانڈر Gen. Philip M. Breedlove)۔ اگرچہ الائنس فوجی کمانڈ کا ایک مربوط نظام رکھتا ہے، لیکن پھر بھی زیادہ تر ممالک کی افواج اپنے ملک کے زیر نگرانی کام کرتی ہیں، سوائے اُن آپریشنوں کے جو نیٹو کے تحت کیے جاتے ہیں۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی مدت چار سا ل ہوتی ہے اور وہ تمام انتظامی امور کی نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بین الا قوامی ایلچی کے طور پر بھی کام کرتا ہے (موجودہ سیکرٹری جنرل ناروے کے Jens Stoltenberg ہیں)۔ نارتھ اٹلانٹک کونسل نیٹو کا اعلیٰ سطحی سیاسی فورم ہے، جس میں تمام ارکا ن ممالک کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ ارکان ممالک کی جانب سے کی جانے والی مالی معاونت کا بڑاحصہ نیٹو کی سربراہی میں ہونے والے عسکری آپریشنوں پر خرچ ہوتا ہے (یہ اخراجات اُس باقاعدہ بجٹ کے علاوہ ہیں جو نیٹو کے عسکری اور سویلین دفاتر کے امور چلانے کے لیے درکار ہوتے ہیں)۔ایک اندازے کے مطابق سال ۲۰۱۴ء میں نیٹو ممالک نے مجموعی طور پر ۸۵۰؍ ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کیے۔ اس رقم کا ستر فیصد امریکا نے فراہم کیا۔ امریکی حکام اکثر یورپی ممالک کے کمزور دفاع پر تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نیٹو ارکان نے ۲۰۰۶ء میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مجموعی ملکی پیداوار کا دو فیصد دفاع پر خرچ کریں گے۔ لیکن ۲۰۱۵ء تک صرف پانچ ممالک ایسا کر پائے ہیں، ان میں امریکا،اسٹونیا، یونان، پولینڈ اور برطانیہ شامل ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے آخری پالیسی خطاب میں کہا تھا کہ نیٹو اتحاد اب دو حصوں میں تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ کچھ ممالک عسکری شعبے میں ترقی نہیں کر رہے، اس لیے صرف انسانی ہمدردی کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں جبکہ کچھ ممالک مستقل جنگی حالات میں کام کر رہے ہیں۔
نیٹو نے سرکاری طور پر اس تفاوت کواپنی ویب گاہ پر تسلیم کیا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ نیٹو کا دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں امریکا پر انحصار ضرورت سے زیادہ ہے‘‘۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد پہلی دفعہ نیٹو نے اجتماعی دفاع کے قانون پر غور کیا۔ امریکی فوج نے جب طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تو سلامتی کونسل نے نئی افغان حکومت کی مدد کے لیے ایساف (International Security Assistance Force) کی منظوری دی۔ ۲۰۰۳ء میں نیٹو نے ایساف کی کمانڈ سنبھالی تو یہ اس کی یورپ سے باہر کسی بھی آپریشن کے ساتھ پہلی وابستگی تھی۔
نیٹو کے ماہر تجزیہ نگار سٹینلے سلون نے “CFR” کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ’’نیٹو کا افغانستان میں جانے کا فیصلہ ایک انقلابی قدم تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ سرد جنگ کے دوران نیٹو کے جو مقاصد طے ہوئے تھے، وہ اب اس سے مختلف مقا صد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یعنی اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھال رہی ہے‘‘۔ لیکن کچھ ناقدین نے نیٹو کے اس مشن پر سوال بھی اٹھائے۔ اگرچہ اتحادی مشن کے بنیادی اہداف، یعنی افغانستان میں استحکام اور تعمیرنو، پر متفق تھے، لیکن کچھ ارکان نے اپنی فوج کو طالبان کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ دوسری طرف امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور ہالینڈ کو افغان جنگ میں بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے اتحادی ممالک کے کچھ ارکان نے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔تیرہ سالہ جنگ کے بعد ایساف نے ۲۰۱۴ء میں اپنا مشن مکمل کر لیا۔
۲۰۱۵ء کے اوائل میں نیٹو اور اس کے درجن بھر شراکت داروں نے بارہ ہزار فوجیوں (ان میں آدھے سے زیادہ امریکی ہیں) سے غیر جنگی مشن کا آغاز کیا، جس کا مقصد افغان حکومت کو وسائل کی فراہمی اور مقامی فوج کی تربیت سمیت مختلف کام شامل ہیں۔
روس کے ساتھ تعلقات
سرد جنگ کے بعد نیٹو کی وسطی اور مشرقی یورپ کی طرف پیش قدمی پر ماسکو کو گہری تشویش تھی (اب تک اس خطے کے سولہ ممالک نیٹو میں شامل ہو چکے ہیں)۔ بہت سے سابق اور موجودہ روسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو نے سابقہ سوویت بلاک کی طرف اپنے آپ کو وسعت دے کر ۱۹۹۰ء میں جرمنی کے ملاپ کے بعد نیٹو کو مشرق کی جانب وسعت نہ دینے کے وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو کی وسعت کے وقت مغربی رہنماؤں کے ذہن میں خدشات تھے۔ وارن کرسٹوفر، اس وقت کے امریکی اسٹیٹ سیکرٹری نے ۱۹۹۴ء میں واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں لکھا کہ ’’جہاں نیٹو کی موجودہ ہیئت کو برقرار رکھنے کے طویل مدتی نقصانات ہیں، وہیں اس کو وسعت دینے کے فوری خطرات بھی سامنے آئیں گے۔ نیٹو کے مشرق کی جانب پھیلاؤ کو نوسامراجی روس اپنے لیے خطرہ سمجھے گا۔ گزرتے سالوں میں روس اور نیٹو نے مصالحت کے لیے اہم اقدامات کیے، خاص کر ۱۹۹۷ء میں Founding Act کے دستخط کے بعد، جس کے تحت دوطرفہ بات چیت کے لیے ایک باقاعدہ فورم تشکیل دیا گیا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔
۲۰۰۸ء میں بخارسٹ میں ہونے والے نیٹو سربراہ اجلاس کے بعد دوطرفہ تعلقات کشیدگی اختیار کر گئے۔ اگرچہ اس اجلاس میں نیٹو نے یوکرین اور جارجیا کو نیٹو کی رکنیت تو نہ دی لیکن مستقبل میں مستقل رکنیت دینے کا اعلان ضرور کیا۔ باوجود اس کے کہ روس نے مسلسل اس بارے میں انتباہ کیا تھا کہ ایسے کسی اقدام کے سیاسی اور عسکری نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس کے بعد روس نے جارجیا پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے حلقۂ اثرکی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
۲۰۱۴ء میں کریمیا پر روسی قبضے اور مشرقی یوکرین میں عدم استحکام کے بعد مستقبل کی حد تک تو دونوں کے تعلقات کشیدہ ہی رہنے کے امکان ہیں۔ مارچ ۲۰۱۴ء کی روسی مداخلت کے بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ’’سرد جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں‘‘۔ کچھ ہی ہفتوں بعد نیٹو نے روس سے ہر قسم کے سویلین اور فوجی تعاون معطل کرنے کا اعلان کر دیا،لیکن نیٹو کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطحی سیاسی تعلقات برقرار رہیں گے۔ کریمیا کے الحاق کے اعزاز میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے نیٹو کے بارے میں اپنے دائمی خدشات کا کھل کر اظہار کیا۔ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’اس (نیٹو) نے ہمیشہ ہم سے جھوٹ بولا، ہم سے رائے لیے بغیر فیصلے کیے اور ہمیں ان اقدامات پر مجبور کیا۔اس کا آغاز نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع سے ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہماری سرحدوں کے ساتھ نہ صرف فوج تعینات کی بلکہ عسکری انفرااسٹرکچر بھی کھڑا کیا‘‘۔ روسی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’’مختصریہ کہ ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہ فرض نہ کریں کہ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں چلائی جانے والی بدنام زمانہ کمیونزم کے عدم پھیلاؤ کی مہم آج بھی جاری ہے‘‘۔
دسمبر ۲۰۱۵ء میں نیٹو نے مونٹینیگرو، سابقہ یوگوسلاویہ کو اتحاد کی رکنیت کے لیے بات چیت کی دعوت دی، جو ایک سال میں مکمل ہو جائے گی۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے اب تک مونٹینیگرو پہلا ملک ہوگا جسے نیٹو کی رکنیت ملے گی۔ کریملن نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کی مشرق کی جانب وسعت ہمیں انتقامی کارروائی پر مجبور کرے گی۔ باہمی تعلقات میں کشیدگی کی ایک مستقل وجہ نیٹو کا بیلسٹک میزائل دفاعی پروگرام بھی ہے، جس کی تنصیب مختلف مراحل میں تقریباً پورے یورپ میں ہو چکی ہے۔ امریکا، جس نے یہ سسٹم تیار کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس نظام کا بنیادی مقصد ایرانی میزائل سسٹم سے بچاؤ ہے۔ لیکن ماسکو سمجھتا ہے کہ اس نظام میں جدیدیت لا ئی جا سکتی ہے، جس سے خطے میں عدم توازن پیدا ہو گا۔
روسی جارحیت نے نیٹو راہنماؤں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ یورپ کے دفاع پر ازسر نو غور کریں، خاص کر مشرقی یورپ کی صورتحال پر۔
۲۰۱۵ء میں نیٹو راہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چھ مشرقی ریاستوں میں کمانڈ سینٹر قائم کیے جائیں گے، جن میں بلغاریہ، اسٹونیا، لتھوینیا، لٹویا، پولینڈ اور رومانیہ شامل ہیں۔ امید ہے کہ یہ کمانڈ سینٹر ۲۰۱۶ء میں کام کا آغاز کر دیں گے، ان کے تحت پانچ ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک نئی فورس بنائی جائے گی، جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری ردعمل دے گی۔ نیٹو کے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ چالیس ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک اور فورس بنانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ادھر امریکا بھی بھاری ہتھیار ان ریاستوںمیں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے کانگریس سے کہا ہے کہ ۲۰۱۷ء کے بجٹ میں یورپ میں امریکا کے فوجی اخراجات میں چارگنا اضافہ کر کے ۴ء۳؍ارب ڈالر کرنے کی منظوری دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو اتحادی ممالک خاص کر امریکا، ڈنمارک، جرمنی اور برطانیہ نے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں فضائی گشت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
سال ۲۰۱۵ء کے دوران روسی طیاروں نے چار سو سے زائد مرتبہ اتحادی ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ جس پر بیشتر مرتبہ انھیں نیٹو کے لڑاکا طیاروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اورمتعدد بار انہیں تنبیہ بھی کی گئی۔ ماہ دسمبر میں ترک لڑاکا طیاروں نے روسی فضائیہ کا طیارہ مار گرایا، انقرہ کا موقف تھا کہ بار بار متنبہ کرنے کے باوجود روسی طیارے نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس پر ہم انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔اس واقعے سے روس ترک تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہوگیا۔ روس نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کو اس حرکت کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے اس موقع پر ترکی سے اظہار یکجہتی کیا، لیکن ساتھ ساتھ اتحادی ممالک اور روس پر زور دیا کہ وہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں۔
نیٹو ارکان نے یوکرین سے، جو کہ ۱۹۹۴ء سے اتحاد کا شراکت دار ہے، براہ راست سیکیورٹی تعاون میں اضافہ کر دیا ہے۔ چونکہ وہ نیٹو کا مستقل رکن نہیں ہے، اس لیے وہ نیٹو کے دفاعی حدود میں آتاہے اور نہ ہی اس پر نیٹو کے قواعدوضوابط لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکا اور برطانیہ نے ۲۰۱۵ء میں یوکرین کی فوج کو تربیت دینے کے لیے کچھ فوجی دستے روانہ کیے لیکن او باما انتظامیہ نے کیف کو روسی حمایت یافتہ باغیوں سے لڑنے کے لیے جدید ہتھیار دینے سے اجتناب کیا۔ اس کو ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹو کے بہتر مستقبل کے لیے فن لینڈ اور سویڈن کوبھی اتحاد میں شامل کیا جانا چاہیے، یہ دونوں ممالک نیٹو کے ’’شراکت داری برائے امن‘‘ معاہدے کا حصہ ہیں، ماضی میں ان ریاستوں نے اپنے آپ کو عسکری تعاون سے دور ہی رکھا۔ لیکن یوکرین میں روسی مداخلت کے بعد دونوں ممالک نے نیٹو کے ساتھ فوجی تعاون کا خیرمقدم کیا ہے۔
(ان کے ساتھ کے نورڈک ممالک یعنی شمالی ممالک، ڈنمارک، آئس لینڈ اور ناروے پہلے ہی نیٹو اتحاد میں شامل ہیں)۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Everything you need to know about NATO”. (“defenseone.com”. Feb. 22, 2016)
Leave a Reply