کسی بھی سماج میں برائیوں کا عام ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں انفرادی طور پر مفاد پرستی کی جڑیں گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں۔ جب کسی سماج کی اکثریت برائی پر مجتمع ہو جائے تو اس سماج کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ سماج کے یہی عناصر جب ملک کی نمائندگی کرتے ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی اجتماعیت کس سمت میں سفر کر رہی ہو گی۔ بات ملک کے مفاد کی ہو یا اجتماعی مفاد کی، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انفرادی سوچ کے مقابلے میں اجتماعی سوچ ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے بشرطیکہ سوچ انفرادی مفاد سے بالاتر ہو کر آفاقی سچائیوں کا پیرو ہو اور یہی اصول اس کے تمام فیصلوں میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیا جائے۔
حق یا سچائی ایک آفاقی حقیقت ہے۔ اس پر دنیا کا ہر انسان متفق ہے۔ اس کے باوجود حق یا سچائی کے متلاشی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سماج میں برائیاں تو عام ہو رہی ہیں لیکن سچائی پر مبنی اصول کو اب قصۂ پارینہ خیال کیا جانے لگا ہے۔ مفاد پرستی نے سچائی پر اتنے دبیز پردے ڈال رکھے ہیں کہ گناہ کو بھی جرم کے خانے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ کل تک شراب، زنا، سود، قمار بازی کو گناہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اب ان برائیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ واضح ہو کہ سماج میں جن برائیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، رفتہ رفتہ سماج میں ان کے تعلق سے احساس جرم پھر احساسِ گناہ بھی جاتا رہتا ہے۔۔ درحقیقت حق اور سچائی کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ موجودہ دور میں عوام ہی نہیں بلکہ خواص میں بھی اس کا فہم و ادراک کم ہی پایا جاتا ہے۔ عام طور پر سچائی سے مراد دو فریق کے معاملات میں ایک کا سچائی پر قائم رہنے کو ہی حق سمجھا جانے لگا ہے اور بالآخر سچائی کی جیت ہوتی ہے۔ سچائی کا یہ تصور اتنا محدود ہو گیا ہے کہ جیسے سورج کی پہلی کرن جو طلوع کے وقت نظر آتی ہے، اسے ہی سورج سمجھ لیا جائے۔ حالانکہ سورج کی اصل تمازت تو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنے دائرے کی ہر چیز کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے اور ایک ایک ذرّے پر اس کی کرن پڑتی ہے۔ عصرِ حاضر میں ہمارے سماج کا یہ بھی الیہ ہے کہ اب سچائی کی حیثیت بھی ایک نعرے سے زیادہ نہیں رہی۔ سچائی تو وہ ہے جو تمام انسانی سرگرمیوں (Human Activities) پر حاوی ہو،اس کی زندگی کا کوئی بھی شعبہ سچائی سے خالی نہ ہو۔ جمہوری حکومت یا ریاست درحقیقت انسانی فلاح و بہبود (Human Welfare) کا ادارہ ہوتی ہے جس کے تمام فیصلے سچائی کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں لیکن سماج کے مفاد پرست عناصر کے سبب انسانوں کے لیے کیے جانے والے انسانی فیصلے میں سچائی معدوم نظر آتی ہے حتیٰ کہ حق نا حق کی گفتگو بھی اب ہماری مجلسوں میں معیوب خیال کی جانے لگی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس مجلس میں کسی اہم فیصلے سے قبل حق اور ناحق کی گفتگو ہی نہ کی جائے اور نہ حق کے معیار پر فیصلے کا انحصار ہو تو وہاں کے منصوبے اور فیصلے انسانی فلاح و بہبود کے لیے کیونکر مفید ہو سکتے ہیں۔ سچائی اگر آفاقی حقیقت ہے تو حق ہی وہ معیار ہے جو ذات پات یا جنس کی سیاست کو حقیقی سمت دے سکتا ہے۔ حق میں انصاف کا ترازو ہوتا ہے۔ انصاف کے ترازو کا تقاضا ہے کہ جرم کا فیصلہ فوری ہو اور بلاتاخیر مظلوم کو انصاف سے ہمکنار کیا جائے۔ انسان کی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ کسی ڈسپلن کا پابند نہ ہو اور اگر وہ ڈسپلن شکنی کا مرتکب ہو تو اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے اور مجرم کو فی الفور قرار واقعی سزا نہ دی جائے۔ دانشمندوں کا قول ہے کہ ’’انصاف کے تقاضے میں تاخیر ظلم کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ سماج میں اگر بے قصوروں پر ظلم ہوتا ہے اور انہیں فوری انصاف نہیں ملتا تو اس معاشرے کو قہر خداوندی سے نہیں بچایا جا سکتا۔
ہمارے ملک میں زندگی کو آرام و تعیش فراہم کرنے یا کسی مادّی نقصان سے بچانے کے لیے ماہرین موجود ہیں اور ادارے قائم ہیں۔ گجرات کے دہشت ناک زلزلے اور سنامی طوفان کے خوفناک نتائج نے ہمیں مجبور کیا کہ Disaster Management پر خصوصی توجہ دی جائے یا عمارتوں کی تعمیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ عمارتیں زلزلے کے جھٹکوں سے Shock Proof ہوں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری توجہ ابھی تک اس بات پر مرکوز نہیں ہو سکی ہے کہ ملک میں جرائم کیوں ہوتے ہیں؟ مخصوص قسم کے جرائم میں تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ شاید ہمارے خیال ہی میں نہیں ہے کہ جرم سے قبل جرائم کے اسباب کا پتہ لگا کر ان کے سدباب کی فی الفور کوشش کی جائے۔ بعض اوقات اس احمقانہ فیصلے پر بے اختیار ہنسی آتی ہے کہ اگر صنفِ نازک کی چھیڑ خانی (Eve-teasing) پر قابو پانا ہے تو اسے جوڈو کراٹے کی ٹریننگ دی جائے۔ گویا ہماری فکر اور ہمارا اقدام محض اس مفروضے پر قائم ہے کہ اس طرح کے جرائم ہوتے رہیں گے لہٰذا خواتین خود ہی اپنی حفاظت کا بندوبست کریں۔ ملکی سطح پر اربابِ حل و عقد اگر اسی سوچ کے دائرے میں گھومتے رہے تو کل صورتحال پر قابو پانا شاید ہمارے بس میں نہ ہو کیونکہ فکری پستی اور اخلاقی زوال کے نتیجے میں ہمارا ملک سماجی اعتبار سے پستی کے عمیق غار میں گر سکتا ہے۔
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ملک کے تمام شعبوں میں حق یا سچائی قائم ہے یا نہیں؟ تمام شعبوں میں حق کی ترویج و اشاعت کے لیے ہماری منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کیا ہے؟ کسی بھی اہم شعبہ کا ذمہ دار اپنی قسم کی پاسداری اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اس کی فکری سطح بلند ہو اور وہ حق کا علمبردار ہو۔ اس کی قوتِ ارادی پختہ اور ہر حال میں وہ مفاد سے اوپر اٹھ کر حق کا طرفدار رہے۔ اس کے برعکس پست ذہنیت اور اخلاقی طور پر زوال آمادہ لوگ حق کے بھیس میں چاہے جتنی قسمیں کھا لیں ان کا کردار سماج میں شفافیت کی علامت نہیں بن سکتا۔۔ ایک معتبر شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کون ہے جس نے مئے نہیں چکھی
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
تعلیمی اداروں سے لے کر وزارت، عدلیہ، پولیس، دفاع، انٹیلی جنس یا بیورو کریسی میں حق یا سچائی کے قیام کے لیے کیا ہمارے پاس ایسا کوئی اخلاقی کورس ہے جس کے نتیجے میں ان شعبوں کے افراد ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے فرائض کو بخوبی سمجھتے ہوں اور عملاً حق پر ہر حال میں قائم رہنے کے پابند ہوں۔ وہ انسانی حقوق ہی نہیں بلکہ سماج میں چھوٹی بڑی تمام برائیوں پر گہری نظر رکھتے ہوں۔ وہ ملک کے عوام کے ہمدرد ہی نہیں بلکہ ان کے محافظ اور سچے خیرخواہ ہوں۔ فی الحقیقت برائی سے چشم پوشی اجتماعی جرم ہے اور اجتماعی جرم کا خمیازہ قدرت کی طرف سے پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے تعلیم و تربیت (Training & Workshop) کا ابھی تک ہم کوئی نظم نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی سماج میں پنپنے والی بے شمار برائیوں کے اسباب کا پتہ لگا کر ان کے سدباب کا کوئی نظام ہمارے یہاں قائم ہے۔ بہتر ہو گا کہ ملک کی ترقیاتی اسکیموں میں اخلاقی تعلیمات اور اخلاقی برائیوں کے سدباب کو خصوصی درجہ دیا جائے تبھی ہم ایک شفاف، مہذب، بااخلاق اور پُرامن ملک کا اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔
’’اردو بک ریویو‘‘ دہلی، انڈیا سے شائع ہونے والا سہ ماہی مجلہ ہے جس کا اداریہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حالات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ (ادارہ)
(بشکریہ: اداریہ سہ ماہی’’اردو بک ریویو‘‘ دہلی۔ اپریل تا جون ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply