ترکی: صدارتی ترجمان، ابراہیم قالن کا خصوصی انٹرویو

رپورٹر: جناب ابراھیم قالن ٹی آرٹی ورلڈ کے ون آن ون پروگرام میں خوش آمدید۔ صدر ایردوان ایک طویل عرصے سے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والی اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ تشکیل دینے والی ’’متوازی حکومتی ڈھانچے‘‘ کی موجودگی کا کہتے چلے آئے تھے۔ ان معلومات سے آگاہی ہونے کے باوجود یہ کیسے ہوا کہ ملک میں بغاوت کی کوشش کی گئی؟ کیا اس میں خفیہ معلومات کی کمزوری بھی شامل ہے؟

ابراھیم قالن: یہ گروہ ایک طویل عرصے سے ملک میں کارروائیوں میں مصروف تھا۔ خاص کر ۱۷ تا ۲۵ دسمبر کی کارروائی کے بعد انہوں نے قومی خطرے کی ماہیت اختیار کر لی۔ ہم نے اس تاریخ کے بعد سے کئی ایک تدابیر اختیار کیں۔ ان لوگوں کا تعین کرنے ا ور حکومت سے نکال باہر کرنے کی خاطر بعض اقدامات اٹھائے گئے، یعنی اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ہماری کارروائیاں جاری تھیں۔ فوج کے اندر بغاوت کی کوشش گولن تحریک کے آخری حملوں میں سے ایک تھی۔ فوج کے اندر، لیکن پوری فوج کی نمائندگی نہ کرنے والے فوجیوں کے ایک اقلیتی گروہ نے یہ حرکت کی جو کہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کسی خونی حملے کی ماہیت اختیار کر گئی۔ گلی کوچوں میں دکھائی دینے والے مناظر نے ان انسانوں کے کس حد تک غدار اور سفاک ہونے کا واضح طور پر مظاہرہ ہوا۔ ہمیں اس ملک میں اس سے قبل کبھی نہ دیکھے جانے والے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے فوجیوں نے اپنے ہی عوام پر فائر کھول دیا۔ نہتے معصوم شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان حملوں میں ۲۴۲؍افراد شہید جبکہ ڈیڑھ ہزار سے زائد زخمی ہو ئے۔ جو کہ ایک انتہائی افسوس دہ بات ہے۔ تاہم، ۱۵جولائی کو ’’ایک سیاہ شب‘‘ کے طور پر شروع ہونے والی کارروائی آئندہ روز بغاوت کو ناکام بنائے جانے کے بعد ’’ایک روشن دن‘‘ کے ساتھ نکتہ پذیر ہوئی۔ ہم اس چیز کا دوبارہ سامنا نہ کرنے کے زیر مقصد قانونی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ اس چیز میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے فوج، عدالتوں، سیکورٹی قوتوں اور حکومتی عناصر میں ڈیرے جمانے والے ان انسانوں کا تعین کرنا لازم و ملزوم ہے۔ یہ عمل ملک و ملت کے تحفظ، جمہوریت و قوانین کی پاسداری کے لیے ایک لازمی فعل ہے۔ جہاں تک فوجی بغاوت کا سوال ہے تو اس دوران کئی اقدامات اٹھائے گئے تاہم ترک قوم کی قابل ستائش بہادری نے اس کو ناکام بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ہماری ملت نے دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ یہ دشمن جو کوئی بھی کیوں نہ ہو، یہ جمہوری اقدار، آزادی اور قوانین کی بالا دستی سے کس قدر وابستہ ہیں۔

رپورٹر: عوام کا رد عمل غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ جیسا کہ آپ نے بھی زور دیا ہے کہ دیگر جمہوری مملکتوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عوام کسی ایسے رد عمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ صدر کی جانب سے عوام کو گلی کوچوں میں نکل آنے کی اپیل کرتے وقت کیا حکومت کو یہ اندازہ تھا کہ ترک عوام اس موقف کا مظاہرہ کریں گے؟

ابراھیم قالن: جب ہم نے جوابی کارروائی شروع کی تو ہم یہ جاننے کی کوشش میں تھے کہ یہ بغاوت کس حد تک موثر ہے، قلیل مدت کے اندر ہی ہمیں یہ پتا چلا کہ انہوں نے اولین طور پر انقرہ اور استنبول کے فوجی دستوں کو حرکت دلائی تھی۔ جب ہمیں اس حقیقت کا اندازہ ہو گیا کہ یہ واقعی حکومت کا تختہ الٹانے کی ایک کوشش ہے تو پھر صدرِ ترکی نے ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام سے اس بغاوت کو پسپا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس عمل نے ایک افسانوی قصے کی شکل اختیار کر لی۔ سچ پوچھیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اس سطح کی کوشش کا تخمینہ نہیں لگا سکتا تھا۔ باغیوں کے اس حد تک نیچ اور گھٹیا حرکتیں کرنا، کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہو سکتا تھا۔ پہلے پہل سب کو ایک دھچکہ سا لگا لیکن بغاوت کے خاتمے پر ظفر و خوشی کے جذبات نمایاں ہونے لگے۔

رپورٹر: عوام کا رد عمل بلاشبہ لاجواب تھا، اس واقعہ کے بعد کئی روز گزرنے کے باوجود یہ لوگ تاحال گلی کوچوں میں پہرہ دے رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ صورتحال سیاستدانوں کی مرہونِ منت ہے یا پھر صدر ِ ترکی سے عوام کی والہانہ وابستگی اور یقین ہے؟

ابراھیم قالن: اس کی وجہ اولین طور پر عوام کی جمہوریت و قوانین کی بالادستی سے وابستگی ہے۔ ترکی میں ۱۹۶۰ء، ۱۹۷۲ء اور ۱۹۸۰ء اور دیگر ادوار میں فوجی بغاوتیں ہوئی تھیں، لیکن پہلی بار کسی فوجی بغاوت کو عوام کی کوششوں سے ناکام بنایا گیا ہے۔ ترک عوام ایک جانب اس فتح کو منا رہے ہیں تو دوسری جانب اس طرح کے واقعات کے نہ دہرائے جانے کے لیے کوششیں صَرف کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ مضبوط ترین پیغام ہے کہ چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو ہم ملک و وطن کی رکھوالی اور تحفظ کے لیے برسرپیکار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ صدر ِ ترکی نے نہ صرف باغیوں اور غداروں بلکہ بیک وقت دنیا بھر کو دیے جانے والے اس پیغام کو مزید تقویت دینے کے زیر مقصد گلی کوچوں میں چوکیداری کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ لوگ ترکی کے ہر طبقے اور سیاسی جماعتوں اور نظریات سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ کسی ملک میں عوامی اتحاد و یکجہتی کی بہترین مثال تشکیل دیتے ہیں۔ اسی طرح صدر ایردوان نے حزب اختلاف کے سربراہان سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرتے ہوئے بغاوت کے خلاف یک آواز ہونے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ یعنی یہ محض اقتدار پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے یہاں پر ایک اہم امر صدر کا عوام کو باہر نکلنے کا کہنا تھا۔ لیکن ہمیں عوام تک اس پیغام کو پہنچانے میں کچھ دیر لگی کیونکہ ہمیں فنی مسائل کا سامنا تھا۔ باغیوں نے سرکاری ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹی آرٹی پر قبضہ کر رکھا تھا اور یہ الیکٹرونک اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو روکنے کی کوشش میں تھے۔ تا ہم، ہم نے ان تمام تر حربوں کا کامیابی سے سامنا کرتے ہوئے ان کو ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس بنا پر صدر کی اپیل بغاوت مخالف کارروائی کے لیے ایک انتہائی سنگِ میل ثابت ہوئی۔

رپورٹر: ایک جانب عوام سڑکوں پر حکومت کی حمایت کر رہے تھے اور دوسری طرف ہنگامی حالات کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جس کی تائید حزب اختلاف نے بھی کر دی ہے، مگر عالمی برادری اس حوالے سے کافی متضاد بیانات دے رہی ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

قالن: ہر چیز سے پیشتر ناکام بغاوت کی وجہ سے ہمیں یہ اعلان کرنا پڑا جو کہ دستور کے مطابق تھا اور جس کی اجازت قانون دیتا ہے۔ اس فیصلے سے ایوان کو آگاہ کیا گیا، جس پر حکومت سمیت حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی اور یہ بل ایوان سے منظور ہوا۔ اب تک حکومت نے اس نفاذ کے تحت قانون کے دائرے میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، البتہ آپ کے چینل کے توسط سے یہ بتاتا چلوں کہ اس ہنگامی حالات اور ملکی صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ترکی میں تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں، فوج، پولیس عدالتوں تقریباً ہر شعبے میں اس تنظیم سے وابستہ لوگ موجود ہیں جن کو منظر عام پر لانے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔ ان افراد کی گرفتاریوں پر ہمیں غیر ملکی اعتراضات کا بھی سامنا ہے اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ ہی عرصے میں اتنی زیادہ گرفتاریاں کس طرح سے عمل میں آسکتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں گولن تنظیم کے خلاف جدوجہد کافی عرصے سے جاری تھی۔ بغاوت کے پس پردہ کارفرما فوجی جرنیلوں کی اکثریت اگست میں ریٹائر کر دی جانی تھی، اسی لیے انہوں نے سوچا کہ جو وقت بچا ہے اس میں ملک پر یہ شبِ خون مار لیتے ہیں، گولن تنظیم اس سازش کی تیاری کافی عرصے سے کیے ہوئی تھی۔ ان کے تازہ بیانات میں انہوں نے اس سازش کی مخالفت کی ہے جو کہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں نہ تو ان کے کوئی بینک ہیں، نہ ہی اسکول ہیں، نہ ہی ٹی وی چینل اور نہ ہی فلاحی ادارے ہیں۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو ان کی اس سلطنت کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور یہ کیسے کھڑی کی گئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس بغاوت میں ان کا ہاتھ ہے کیونکہ یہ لوگ بے اعتبار ہیں۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ بغاوت کی کوشش ایک ڈھونگ ہے جو کہ صدر ایردوان کی حیثیت کو مزید مستحکم بنانے کے لیے رچایا گیا ہے، حکومت پر یہ الزام لگانے والے اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ میں مغربی میڈیا کے اس طرح کے بیانات کو صحیح نہیں مانتا بلکہ یہ سارا عمل ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملوں کے بعد امریکی حکومت کے اور پیرس اور نیس کے حالیہ حملوں کے بعد فرانسیسی انتظامیہ کی طرف سے لاگو کردہ احکامات کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر ترکی کا جب سوال اٹھتا ہے تو مغرب اپنے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان واقعات کو پیچیدہ اور گھما پھرا کر پیش کرتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں محتاط رہنا ہوگا۔ یہ فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی جسے فوج اور عوام نے جمہوریت کے حق میں بڑھنے سے روکا، جس کی وجہ سے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ ناگزیر ہوا جس کا مقصد قوم کے حقوق، جمہوری روایات کا تحفظ کرنا ہے، مگر یہ بتاتا چلوں کہ اس ہنگامی حالت سے عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی پر اثر نہیں پڑے گا۔ آزادیٔ اظہار اور بیرونی ممالک کی سیاحت بھی معمول کے مطابق جاری رہے گی جیسا کہ فرانس میں ہو رہا ہے۔

رپورٹر: ترکی نے امریکا سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا، اس بارے میں حکومت کی توقعات کیا ہیں؟ بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ امریکا ترکی سے اپنی بعض شرائط منوانے کے لیے اسے بطور آلہ کار استعمال کرے گا، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ابراہیم قالن: دیکھیے گولن کی ترکی حوالگی کا مسئلہ قانونی ہے، ہم اس بارے میں عرصہ دراز سے امریکی حکام سے رابطے میں ہیں۔ ۱۵جولائی کے واقعے کے بعد وزارت قانون نے دستاویز کی شکل میں بعض دلائل دفتر خارجہ کے توسط سے امریکا بھجوائے۔ ہمیں مزید دلائل درکار ہیں جنہیں جمع کر کے ہم جلد ہی انہیں روانہ کر دیں گے۔ اُمید ہے کہ امریکی حکام ہمارے مطالبے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے غور کریں گے۔ قانونی کارروائی مکمل ہوتے ہی ہم گولن کی ترکی حوالگی کے منتظر رہیں گے۔

رپورٹر: رسوماتِ جنازہ، کزلائے چوک اور دیگر مقامات پر ہونے والی تقریروں میں سزائے موت کا بھی بھرپور طریقے سے مطالبہ کیا۔ میں نے، اگر ترکی میں سزائے موت بحال ہو جائے تو پھر یورپی یونین میں داخل ہونے کی توقعات متاثر ہوں گی کے بارے میں دریافت کیا۔ ان میں سے ایک جواب کچھ یوں تھا: اگر یورپی یونین میں شمولیت ترکی کی سلامتی اور وقار کے حوالے سے رعایت دینے کا مفہوم رکھتی ہے تو پھر ہمیں یورپی یونین کی ضرورت نہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ترکی میں یورپی یونین سے بیزاری کے جذبات پیدا ہوئے ہیں؟ کیا یورپی یونین ان کو ان کی شناخت کی وجہ سے نظر انداز کر رہی ہے؟

قالن: خیال رہے کہ ہم ایک طویل عرصے سے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لیے پاپڑ بیل رہے ہیں۔ ایسی صورتحال کا کسی دوسرے رکن ملک کو کبھی بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہم ۲۰۰۵ء سے رکنیت مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سلسلہ بہت سست روی سے آگے بڑھا ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے پیش قدمی نہ ہو سکی ہے۔ ملک سے باہر مقیم ترکوں کو بغاوت کی اس کوشش کے بعد ملک میں جذباتی صورتحال کو سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ شہریوں کو انہی کے ہم وطنوں نے گولیوں سے چھلنی کیا ہے، لہٰذا ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کرنا ایک فطری رد عمل ہے۔ اس کے جواب میں جناب صدر نے کہا ہے کہ ’’اگر پارلیمان نے اس چیز کا مطالبہ پیش کیا تو میں بھی اس حوالے سے قانون کی منظوری دے دوں گا‘‘۔ ملک بھر میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس امر کے حق میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگر اس ضمن میں کسی قانون کا اجرا ہوا تو یورپی یونین کے ساتھ بعض مشکلات کا سامنا کرنا ایک غیر متوقع بات نہیں ہو گی۔ اگر اس کے نتیجے میں یورپی یونین کی رکنیت کے سلسلے میں خلل آتا ہے تو ہم اس صورتحال پر اس وقت غور کریں گے۔

رپورٹر: جب آپ عوام کے جذبات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا آپ کے خیال میں سلسلہ رکنیت کے حوالے سے ریفرنڈم ہونا چاہیے یا نہیں؟

قالن: واضح رہے کہ اس موضوع پر چند ماہ قبل ویسے بھی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ سلسلہ رکنیت کی طوالت سے یورپ میں ’’وسعت کی ٹریفک‘‘ سامنے آنے لگی جبکہ یہاں پر سلسلہ رکنیت کی تھکاوٹ اور بیزاری زور پکڑنے لگی۔ آپ ہر ممکنہ اقدامات اٹھاتے ہیں، قوانین میں ترمیم کرتے ہیں لیکن یہ ہے کہ یونین کے مطالبات ختم ہونے کو نہیں آتے۔ انہوں نے شامی مہاجرین کے حوالے سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جیسے وہ ترکی کے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں۔ در حقیقت ہم نے یورپ کو غیر قانونی نقل مکانی کا سلسلہ روکتے ہوئے ان سے اچھائی کی ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کا معاہدہ طے پایا جس کے بدلے میں ترک شہریوں پر ویزے کی پابندی کا خاتمہ مقصود تھا جس پر انہوں نے نئی شرائط پیش کرتے ہوئے اس معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی قانون کا مطالبہ کس قدر غلط ہونے کا گزشتہ ہفتے واضح طور پر مشاہدہ ہوا ہے۔ ہم مسلسل داعش اور ’’پی کے کے‘‘ کے خلاف نبرد آزما ہیں، اب ہمیں فتح اللہ دہشت گرد تنظیم کے خلاف بھی جدوجہد کرنی ہو گی۔ لہٰذا دہشت گردی کے حوالے سے قانون میں کوئی ردوبدل کرنا نا ممکن ہے۔

رپورٹر: آپ نے ترکی کی جانب سے اٹھائے جانے والے بعض اقدامات کا ذکر کیا، تا ہم اگر اس کا خلاصہ پیش کیا جائے تو اس قسم کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے کون سی تدابیر اختیار کی جائیں گی؟ علاوہ ازیں زمانہ قریب میں ترکی نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں بعض تبدیلیاں لانی شروع کر دی ہیں۔ روس اور اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں قربت آنے لگی ہے، کیا اس تبدیلی کے نتیجے میں ترکی کے یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ آنے کا احتمال موجود ہے کہ نہیں؟

قالن: جی نہیں! میں مجموعی طور پر اس حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا، تا ہم یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بعض نمایاں معاملات میں تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں جن کو ہم رفع دفع کر لیں گے۔ جی ہاں! روس اور اسرائیل کے ساتھ حالات اپنی ڈگر پر آرہے ہیں۔ ہماری شروع سے ہی یہی پالیسی تھی۔ ۲۰۱۰ء میں بلیو مرمرا کے واقعہ اور ماضی قریب میں روسی جنگی طیارے کی بنا پر ان ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی جو کہ اب ماضی کا حصہ بنتی چلی جارہی ہے۔ اس معاملے میں اب کوئی مسئلہ باقی نہیں بچا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خطے میں خطرات ابھی تک نہیں ٹلے۔ شام میں خانہ جنگی اور عراق میں سیکورٹی کا معاملہ جاری رہنے تک ترکی اس سے متاثر ہوتا رہے گا۔

(بحوالہ: ’’ٹی آر ٹی ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*