اختلافِ رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اختلافِ رائے کو شناخت یا پہچان کے اظہار کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ شناخت کا یہ عمل انفرادی یا پھر کسی گروہ، قوم، نظریے یا ایک عقیدے کے ماننے والوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ بعض حالات میں اختلافِ رائے جدوجہد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے اختلافات جب حاکموں اور عوام کے مابین جنم لیتے ہیں تو حکام کے جبر واستبداد سے بچنے کے لیے بہت سے راہنما ملک سے باہر، جِلاوطنی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے اس عمل کو وہ ایک ایسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں جو دراصل ان کی جدوجہد کی بقاء کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ایسے ہی کچھ جلا وطن رہنمائوں اور ان کی تشکیل کردہ جِلاوطن حکومتوں کا احوال پیشِ خدمت ہے:۔
جمہوریہ سربین کراجینا:
۱۹۹۰ء کی دہائی میں مشرقی یورپ کا ملک یوگوسلاویہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ان ریاستوںمیں سے ایک ’’جمہوریہ کروشیا‘‘ بھی تھی جو ۸؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو یوگوسلاویہ سے آزاد ہوئی۔ قدرتی وسائل سے مالامال جمہوریہ کروشیا میں غالب اکثریت کروشین نسل (Croats) کے لوگوں کی ہے جو مذہباً کیتھولک عیسائی ہیں اور رومن چرچ سے وابستہ ہیں۔ تاہم کروشیا کے سرحدی علاقوں میں آزادی کے وقت آرتھوڈوکس عیسائی فرقے سے تعلق رکھنے والے یونانی چرچ سے وابستہ سرب نسل کے عیسائی بھی آباد ہیں۔ ان سربوں نے خانہ جنگی کے دوران ۱۹۹۱ء میں ’’سربین جمہوریہ کراجینا‘‘ کے نام سے ایک نیم خودمختار ریاست قائم کی تھی جو ۱۹۹۵ء تک قائم رہی۔ اس دوران سرب باشندوں کی جانب سے سربین جمہوریہ کراجینا کے لیے چار مرتبہ سربراہانِ ریاست بھی منتخب کیے گئے۔ سابق یوگوسلاویہ کی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی جمہوریہ کروشیا کے حکام اپنی سرحدوں میں قائم سربین جمہوریہ کراجینا کو علیحدگی پسند باغیوں کا گڑھ قرار دیتے تھے، حالانکہ جون ۱۹۹۳ء میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں ۹۳ فیصد سربین باشندوں نے آزاد سربین جمہوریہ کراجینا کے قیام کے حق میں ووٹ دیے تھے۔ اس واضح تائید کے باوجود جمہوریہ کروشیا کی افواج نے مجوزہ سربین جمہوریہ کراجینا پر حملہ کر دیا اور ۴ سے ۸ اگست ۱۹۹۵ء تک لڑی جانے والی جنگ میں سربین جمہوریہ کراجینا کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کو ’’آپریشن اسٹارم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ آپریشن اسٹارم سے قبل کروشین حکام مختلف حیلے بہانوں اور معاہدوں کی آڑ میں سربین جمہوریہ کراجینا کی حکومت سے اسلحہ لے کر اسے نہتا کر چکے تھے، بلکہ اس ضمن میں دونوں فریقوں کے مابین یہ معاہدہ بھی طے پایا تھا کہ جب علاقہ اسلحہ سے پاک ہو جائے گا تو سربین جمہوریہ کراجینا کے سرحدی علاقے کو اقوام متحدہ کی حفاظتی تحویل میں دے کر اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ دونوں متحارب گروپوں میں امن کے لیے ایک منصوبہ بھی پیش کیا گیا تھا، جسے کروشیا کے دارالحکومت زغرب (Zagreb) کی مناسبت سے Z-4Plan کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے ضامن امریکا، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین تھے۔ تاہم منصوبے پر عملدرآمد سے پہلے ہی اسے کروشین حکومت نے مسترد کر دیا تھا اور اس کے فوراً بعد آپریشن اسٹارم شروع کر کے جمہوریہ سربین کراجینا کو ختم کردیا۔ آپریشن اسٹارم کی تباہ کاریوں کے بعد کروشیا میں واقع سربین عوام کی تحریک خود ارادیت زمانے کے سرد و گرم کا شکار ہو کر محدود ہو گئی اور اس کے سرگرم راہنما زیر زمین چلے گئے تھے۔ تاہم دس سال بعد جمہوریہ سربین کراجینا کے رہنمائوں نے ۲۶؍ فروری ۲۰۰۵ء کو ’’آزاد جمہوریہ سربیا‘‘ کے دارالحکومت بلغراد میں ’’جمہوریہ سربین کراجینا‘‘ کی جلاوطن حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا جس کے اولین صدر کا منصب Rajko Lezaic نے سنبھالا جب کہ مشرقی کروشیا کے قصبے ’’بیلی ماناسٹر‘‘ (Beli Manastir) سے تعلق رکھنے والے Milorad Buha کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ اس حکومت کی چھ رکنی کابینہ بھی تشکیل دی گئی۔ اس موقع پر سابقہ جمہوریہ سربین کراجینا کے کم و بیش ۴۰ سابقہ اراکین پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کروشیا نے ۸؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو یوگوسلاویہ سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ اس سے قبل یکم اپریل ۱۹۹۱ء کو ’’جمہوریہ سربین کراجینا‘‘ نے جمہوریہ کروشیا سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا، جس پر عمل نہ ہو سکا۔ قدیم کروشیائی اور سربیائی زبان میں Krajina کے معنی ’’سرحد‘‘ کے ہیں۔ اس مناسبت سے کروشیا کی سرحدوں پر بسنے والے سرب باشندوں نے اپنی جمہوریہ کا نام ’’جمہوریہ سربین کراجینا‘‘ منتخب کیا ہے جس کا رقبہ ۱۷۰۲۸ مربع کلومیٹر ہے۔
’’جمہوریہ سربین کراجینا‘‘ کی جلاوطن حکومت کے قیام پر خود سربوں اور دیگر اقوام کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے اور اسے خطے میں امن کے قیام کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا گیا ہے۔ کروشین حکام کی جانب سے دس سال بعد جلاوطن حکومت کے قیام کو بے وقت کی راگنی قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سربوں اور کروشینز کے درمیان وجہ نزاع علاقائیت اور نسل پرستی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ ان دونوں قوموں کا تعلق عیسائیت کے دو مختلف فرقوں سے ہے جو تاریخی لحاظ سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں لہٰذا اس جنگ میں مذہبی عناد بھی شامل ہے۔ سربین جموریہ کراجینا کی جلاوطن حکومت آپریشن اسٹارم کے دوران ہونے والے مالی نقصان کے اَزالے کے لیے کروشیا سے جھگڑ رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ نقصان کی مد میں اسے ۳۰ بلین یورو ادا کیے جائیں، لیکن یہ مطالبہ کرتے وقت وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا تعلق اس سربین نسل کے افراد سے ہے جنہوں نے متعصب اہل یورپ کی مدد سے مسلم ریاست ’’بوسنیا ہرزیگوینیا‘‘ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان کی ذاتی املاک اور مساجد کو ملیامیٹ کر دیا تھا اور سابق یوگوسلاویا کی اس سب سے خوشحال ریاست کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔
نیشنل کولیشن گورنمنٹ یونین آف برما:
سابق برما جس کا نیا نام ’’یونین آف میانمار‘‘ ہے ۴؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو برطانیہ سے تو آزاد ہو گیا لیکن محض بارہ سال بعد اپنے ہی محافظوں کی قید میں چلا گیا۔ برمی عوام تقریباً نصف صدی سے آمروں کے بوٹوں تلے کچلے جارہے ہیں۔ ۱۹۶۲ء میں جنرل Ne Win اور اس کے فوجی ٹولے نے منتخب صدر Sao Shwe Thaik اور وزیراعظم ’’یونو‘‘ (U Nu) کی جمہوری حکومت پر شبِ خون مار کر ملک کو سوشل ازم کا گہوارہ بنانے کا اعلان کیا۔ تاہم ہوس اقتدار نے تمام وعدوں کو دھندلا دیا۔ جنرل نی ون اور اس کے ساتھیوں نے دنیا کے سامنے اپنا جمہوری تشخص ثابت کرنے کے لیے فوجی عہدوں سے استعفے دے کر سویلین عہدے حاصل کیے جس کے کچھ عرصے بعد ۱۹۷۴ء میں ’’برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی‘‘ (BSPP) کے قیام کا اعلان کیا اور پھر فوراً نام نہاد الیکشن بھی کرائے گئے، جس میں فوجی آمروں کی چھتری تلے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت صرف BSPP کے نمائندوں کو تھی۔ انتخابات کے فوراً بعد ملک کا نام تبدیل کرکے ’’سوشلسٹ ری پبلک آف دی یونین آف برما‘‘ (SRUB) کر دیا گیا اور نیا آئین بھی نافذ کر دیا گیا۔ آئین میں ۲۰۰۸ء میں مزید تبدیلیاں کی گئیں۔
برما کے سیاسی ماحول میں زہر گھولتا یہ جمود اس وقت ٹوٹا جب برمی عوام اور طالب علموں نے ۸؍اگست ۱۹۸۸ء کو فوجی ٹولے کے خلاف مظاہرے شروع کیے (ان مظاہروں کو تاریخ کی مناسبت سے 8888 کے مظاہرے بھی کہا جاتا ہے) تاہم مظاہروں کا آہنگ اس وقت مزید بلند ہوگیا جب ۱۹۸۸ء میں عظیم جمہوریت پسند خاتون رہنما ’’آنگ سان سوچی‘‘ لندن سے برما آئیں۔ لندن میں وہ اپنی ڈاکٹریٹ کی تکمیل کے لیے مقیم تھیں۔ برما پہنچتے ہی انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد شروع کردی اس مقصد کے لیے انہوں نے ۲۷؍ستمبر ۱۹۸۸ء کو ’’نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی‘‘ (NLFD) کے نام سے ایک پارٹی تشکیل دی جو مستقبل میں عوام کی امنگوں کی آئینہ دار ثابت ہوئی۔ عوام کے برانگیختہ ہوتے جذبات سے ڈر کر حکمرانوں نے اپنی ہی صفوں سے نئی کمک طلب کی اور راتوں رات ’’جنرل سامیوانگ‘‘ اور ’’جنرل تھان شیوی‘‘ نے نام نہاد جمہوری حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاء لگا دیا اور اگلے تین ماہ میں انتخابات کے انعقاد کے بعد جمہوری حکومت کے قیام کا وعدہ کیا۔ آمروں کے اس سیاسی حربے سے عوامی مظاہروں میں ٹھہرائو آگیا، لیکن عوام شاید یہ بھول گئے تھے کہ فوجی بوٹوں کی چمک نئی ضرور تھی مگر ان سے پیدا ہونے والی دھمک کی گونج ۲۶ سال سے قابض فوجی ٹولے کے جوتوں جیسے ہی تھی۔
فوجیوں کی نام نہاد جمہوری حکومت پر فوجیوں ہی کے اس بزدلانہ قبضے کے فوراً بعد جنرلوں نے وعدہ خلافی کرتے وئے مارشل لاء کو توسیع دے دی اور اس کالے قانون کے تحت ۲۰؍جولائی ۱۹۸۹ء کو NLFD پارٹی کی جنرل سیکریٹری آنگ سوچی اور چیئرمین U Tin Oo کو حق گوئی کی پاداش میں نظربند کر دیا گیا۔ بعدازاں عالمی دبائو پر فوجی آمر اور اس کے حواری ۱۹۹۰ء میں انتخابات کرانے پر مجبورہوگئے۔ انتخابات میں NLFD نے ۴۹۴ میں سے ۳۹۲ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے عوام میں اپنی مقبولیت ثابت کردی اور فوجی طالع آزمائوں کی نیندیں اڑا دیں۔ اس متوقع کامیابی کے بعد NLFD نے آنگ سوچی کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا، لیکن نظربند ہونے کے باعث ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ چنانچہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۹۰ء کو NLFD نے حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ’’نیشنل کولیشن گورنمنٹ یونین آف برما‘‘ (NCGUB) کے نام سے اتحاد قائم کیا۔ اس اتحاد نے متفقہ طور پر آنگ سوچی کے فرسٹ کزن Dr.Sein Win کو وزیراعظم نامزد کر دیا (آنگ سوچی کے والد اور ان کے کزن Dr.Sein Win کے والد کو فوجی آمروں نے آزادی کے فوراً بعد قتل کر دیا تھا۔ ان دونوں کا برما کو برطانیہ سے آزادی دلانے میں کلیدی کردار تھا) لیکن آمروں نے حسب روایت اقتدار جمہوری قوتوں کے حوالے نہیں کیا اور نتائج سے گھبرا کر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی، جس کے بعد جمہوریت پسند عوام اور فوجی ٹولے کے درمیان پانچ سال تک جھڑپیں جاری رہیں۔
۱۹۹۵ء میں آمروں کے جبر واستبداد کے خلاف جاری جدوجہد کے بعد نظربند رہنما آنگ سوچی کی ہدایت پر NLFD کے جلاوطن رہنمائوں نے سوئیڈن کے شہر ’’بومر سوک‘‘ میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد کیا۔ ۱۶ سے ۲۳ جولائی تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں پارٹی ہی کے نام سے جلاوطن حکومت ’’نیشنل کولیشن گورنمنٹ یونین آف برما‘‘ (NCGUB)‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلامیے کو ’’بومر سوک ڈیکلریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس جلاوطن حکومت کا منتہائے نظر برما کی عالمی سطح پر شناخت اور نظربند نوبل انعام یافتہ ۶۴ سالہ خاتون رہنما آنگ سوچی کو جبری نظربندی سے رہائی دلانا ہے جس کا وہ کم و بیش گزشتہ ۱۵ سال سے شکار ہیں۔ اس کے علاوہ برما میں ایک کثیر جماعتی جمہوری نظام حکومت قائم کرنا ہے۔ جلاوطن حکومت کی اس جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی اور حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ برما میںگزشتہ ۱۸ برس سے فوجی آمر ’’جنرل تھان شیوی‘‘ کی غیرآئینی حکومت قائم ہے۔ جو پچھلے جنرل Ne Win کی ۲۶ سالہ آمرانہ حکومت کا تسلسل ہے۔ مہذب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جنرل تھان شیوی نے کابینہ بھی تشکیل دے رکھی ہے جس میں اس کے منظورِ نظر افراد کی اکثریت ہے۔ اگرچہ اس کابینہ میں جلا وطن حکومت کے بہت سے حامی رہنما بھی شامل ہیں لیکن فوجی ٹولے کی جانب سے انہیں کوئی منصب نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ۱۹۹۰ء میں ہونے والے الیکشن میں NLFD کے ۳۴ منتخب اراکین اسمبلی امریکا، بھارت، آسٹریلیا، ناروے، تھائی لینڈ اور ہالینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ برما میں جمہورت کے لیے کوشاں کثیر الجماعتی جلاوطن حکومت کا موجودہ صدر دفتر امریکی ریاست میری لینڈ کی ’’راک ویلی‘‘ میں ہے۔ جلاوطن حکومت کو برما کے مسلم اکثریتی علاقے ’’اراکان‘‘ کے ’’روہینگا‘‘ نسل کے مظلوم مسلم عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جو فوجی حکمرانوں کے جوروستم کے باعث کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈائر شہنشاہیت:
جنوب مشرقی ایشیا کے چاروں جانب خشکی سے گھرے ملک لائوس میں مختلف خاندانوں کی شہنشاہیت ۱۹۵۳ء سے ۱۹۷۵ء تک قائم رہی ہے۔ تاہم موجودہ حدود اربع پر مشتمل ملک لائوس پر ۱۹۴۵ء سے ۱۹۷۵ء تک دو بادشاہوں نے حکومت کی۔ بادشاہ Sisavang Vong نے ۲۳؍اپریل ۱۹۴۶ء سے ۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۹ء تک اور پھر ان کے بیٹے Savang Vatthana نے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۵۹ء سے ۲؍دسمبر ۱۹۷۵ء تک لائوس پر حکمرانی کی۔ تاہم ۱۹۷۵ء میں خانہ جنگی کے بعد کمیونسٹوں کی تحریک Pathet Lao نے بادشاہت کا یہ سلسلہ ختم کردیا اور حکمراں شاہی خاندان کو معزول کر کے جلاوطن کردیا۔ واضح رہے کہ اس تحریک کے دوران کمیونسٹوں کو سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تحریک کے کامیاب ہوتے ہی کمیونسٹوں نے اپنی سیاسی جماعت Peoples Revolutionary Party کے قیام کا اعلان کردیا، جو اس وقت بھی لائوس کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک کا تاریخی نام لائوس جس کے معنی ’’ہزاروں ہاتھیوں کی سرزمین‘‘ کے ہیں تبدیل کرکے Lao People’s Democratic Republic رکھ دیا۔
معزول اور جلاوطن شاہی خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ عنقریب لائوس میں دوبارہ شہنشاہیت قائم کرے گا اور انتخابات کا انعقاد کرکے آئینی بادشاہت کا قیام عمل میںلایا جائے گا، جس کے پہلو بہ پہلو اصل اور پرامن جمہوریت کا دور دورہ ہوگا اور ہر فرد آزادی رائے سے لطف اندوز ہو سکے گا۔ اس وقت لائوس کے معزول شاہی خاندان کے سربراہ شہزادہ Sauryavong Savang ہیں، جو ۱۹۸۴ء میں جلاوطنی کے دوران انتقال کر جانے والے معزول بادشاہ Savang Vatthana کے فرزند ہیں، جب کہ ولی عہد شہزادہ Soulivong Savang ہیں جو ان کے کزن ہیں، واضح رہے کہ معزول شاہی خاندان کی سربراہی میں لائوس کی جلاوطن حکومت Royal Lao Government امریکا میںمتحرک ہے جس کے وزیراعظم اورچیئرمین مشہور وکیل رہنما Khamphoui Sisavatdy ہیں۔
پروگریسو پارٹی استوائی گنی:
براعظم افریقا کے وسط مغرب میں واقع ملک گنی اگرچہ ’’استوائی گنی‘‘ کہلاتا ہے لیکن جغرافیائی لحاظ سے ملک کا کوئی بھی حصہ خطِ استوا کو نہیں چھوتا۔ محض خطِ استوا سے قربت کے باعث اس کا یہ نام پڑ گیا ہے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے براعظم کے مختصر ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے باعث امیر و غریب میں نمایاں فرق ہے۔ ہسپانوی نوآبادی کی حیثیت سے ۱۹۶۸ء میں آزادی حاصل کرنے والا یہ ملک براعظم افریقا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کی سرکاری زبان ہسپانوی ہے۔ گزشتہ برسوں میں تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت نے عالمی سطح پر اس ملک کی اہمیت دوچند کر دی ہے۔ تاہم آزادی کے بعد ہی سے استوائی گنی سیاسی افراتفری کا شکار رہا ہے بالخصوص اولین صدر Francisco Macias Nguema کے ملک کو ایک جماعتی ریاست بنانے کے فیصلے نے استوائی گنی کو سخت نقصان پہنچایا، جس کے بعد ۳؍ اگست ۱۹۷۹ء کو صدر ’’فرانسسکو ماکیاس‘‘ ہی کے منتخب کردہ بریگیڈیئر جنرل Teodoro Obiang نے ان کی حکومت پر شب خون مارا اور خود ملک کے صدر بن گئے۔ بعدازاں نومنتخب آمر ’’تیوڈورواو بیاآنگ‘‘ نے معزول صدر ’’فراسسکو ماکیاس‘‘ پر نسل کشی کے الزامات لگا کر انہیں فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعہ کے تین سال بعد ۱۹۸۲ء میں آمر ’’تیوڈورو اوبیاآنگ‘‘ نے صدارتی الیکشن منعقد کروا کر خود پر سے آمر کی چھاپ ختم کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے کیونکہ وہ ۱۹۸۲ء سے اب تک چھ نام نہاد انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ملک کے مسلسل صدر بنے ہوئے ہیں اور ہوس اقتدار میں مبتلا ہو کر بدترین آمر کا روپ دھار چکے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت مالی بے ضابطگیوں اور آمرانہ روش کا آئینہ دار ہے جس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بعض تقاریر میں خود کو ’’نعوذباللہ‘‘ ’’خدا‘‘ کے درجے پر فائز کیا ہے۔
صدر تیوڈو رواوبیاآنگ کے ۱۹۸۲ء میں منتخب ہوتے ہی ان کے اہم ساتھی اور مشہور سیاسی رہنما Severo Moto Nsa سے سیاسی اختلافات شروع ہو گئے۔ ’’سیوروموٹونسا‘‘ پچھلے صدر ’’فرانسسکو میکاس‘‘ کے دورِ حکومت میں بھی مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ صدر تیوڈو راوبیاآنگ سے سیاسی اختلافات کے باعث انہوں نے اپنی سیاسی جماعت ’’پروگریسو پارٹی آف ایکیٹوریل گنی‘‘ (PPEG) کے قیام کا اعلان کیا، جو بہت جلد عوام میں مقبول ہو گئی لیکن یہ مقبولیت پارٹی کے قائد ’’سیوروموٹونسا‘‘ کے لیے پریشانی کا آغاز ثابت ہوئی اور وہ جلد ہی آمر ’’اوبیانگ‘‘ کے زیرعتاب آگئے، چنانچہ انہوں نے ۱۹۸۶ء میں اسپین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد اپنی پارٹی ہی کے نام سے استوائی گنی کی جلاوطن حکومت قائم کرلی جس کے وہ اولین صدر بھی ہیں۔ بعض وجوہات کے باعث ہسپانوی حکومت نے جنوری ۲۰۰۶ء میں ان کی سیاسی پناہ ختم کردی، جس پر انہوں نے اپیل دائر کردی۔ مارچ ۲۰۰۸ء میں اسپین کی سپریم کورٹ نے ان کی سیاسی پناہ بحال کردی۔ اس فیصلے کے کچھ ہی دنوںبعد ’’سیورو موٹونسا‘‘ کو ہسپانوی حکومت نے اسلحے کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ’’سیوروموٹونسا‘‘ کی زیر قیادت میڈرڈ اسپین میں استوائی گنی کی جلاوطن حکومت بہت فعال ہے۔ ان کی جماعت کے بہت سے اراکین سخت پابندیوں کے باوجود استوائی گنی کی سیاست میں سرگرم ہیں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے یکسو ہیں۔
کرائون کونسل آف ایتھوپیا:
براعظم افریقا کاملک ایتھوپیا دنیا کے قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق یہاں ایک ہزار قبل مسیح سے ۱۹۷۴ء تک شہنشاہیت رہی ہے۔ مختلف ادوار میں اس ملک پر حکومت کرنے والے تمام بادشاہوں نے خود کو حضرت سلیمان اور ملکہ سبا (بلقیس) کی اولاد قرار دیا۔ ایتھوپیا میں آخری شہنشاہیت ’’ہیلاسلاسی‘‘ سلسلے کی تھی۔ جو ’’ہیلاسلاسی اول‘‘ نے ۱۹۳۰ء میں ملکہ Zewditu I سے حاصل کی تھی۔ اگرچہ بادشاہت کا یہ سلسلہ اٹلی کے ایتھوپیا پر قبضے کے دوران ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۱ء تک موقوف رہا تاہم محض پانچ سال بعد جِلاوطن بادشاہ ’’ہیلاسلاسی اول‘‘ نے برطانیہ کی مدد سے ایتھوپیا کا تخت سنبھال کر آئینی بادشاہت کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ ہیلا سلاسی اول جن کا اصل نام “Lij Ras Tafari Makonnen” تھا، اس منصب پر ۱۲؍ ستمبر ۱۹۷۴ء تک فائز رہے۔ ان کے نام سے ایک عیسائی مذہبی تحریک ’’راستا فارین‘‘ (Rastafarian) بھی موجود ہے۔ جس کے زیادہ تر ماننے والے بحیرہ کیریبین میں واقع جزیرے جمیکا میں آباد ہیں۔
جب ۱۹۷۴ء میں کمیونزم سے متاثر فوجی افسران کی تحریک “Derg” نے زور پکڑا تو ہیلا سلاسی شہنشاہیت کی بساط بھی لپیٹ دی گئی اورآئینی اور شہنشاہیت کا سلسلہ ختم کر کے شہنشاہ اور دو سابق وزرائے اعظم کو پابند سلاسل کر دیا گیا، جبکہ شاہی حکومت سے متعلق زیادہ تر افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ کمیونسٹوں نے اختیارات حاصل ہوتے ہی نظامِ مملکت لینن اور مارکس کے نظریے کے تابع کرنے کا اعلان کردیا۔ اس دوران شہنشاہ ہیلاسلاسی اول اگست ۱۹۷۵ء میں دوران قید وفات پاگئے۔ جب کہ شاہی خاندان کے دیگر افراد جلاوطن کردیے گئے۔
۱۹۸۷ء میں تیرہ برس بعد Derg تحریک کی قائم کردہ حکومت بھی کمیونزم کے زوال کے ساتھ ختم ہو گئی اور اب ایتھوپیا میں ’’عوامی انقلابی جمہوری ایتھوپین محاذ‘‘ (EPRDF) کی حکومت ہے اور ملک کا نام ’’وفاقی جمہوری جمہوریہ ایتھوپیا‘‘ (FDRE) رکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ صدر Girma Wolde-Giyorgis Lucha ہیں۔ اس دوران ۸؍اپریل ۱۹۸۸ء کو جلاوطن ولی عہد Amha Selassie نے لندن میں جلاوطن حکومت بنانے کا اعلان کردیا، جس کے ساتھ ہی انہوں نے شاہی کونسل بنا کر اس کا نام The Crown Council of Ethiopia رکھ دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جلاوطنی ہی میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ ایک سال بعد وہ واشنگٹن منتقل ہوگئے ۱۷؍ جنوری ۱۹۹۷ء کو ان کا جلاوطنی میں انتقال ہوگیا۔ جس کے بعد ان کے بیٹے اور ولی عہد Zere Yacob Amha Selassie کو شاہی خاندان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ چونکہ وہ ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں رہائش پذیر ہیں لہٰذا ملکی قوانین کے تحت بادشاہت کااعلان کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے انہیں ابھی ولی عہد ہی پکارا جاتا ہے۔ تاہم جلاوطن حکومت کے پہلے بادشاہ ’’اماہ سیلاسی‘‘ نے اپنی موت سے قبل ۱۹۹۳ء میں اپنے بھتیجے اور شہزادے ’’ارمیازصالح سیلاسی‘‘ (Ermias Sahle-Selassie) کو جلاوطن شاہی کونسل کا صدر منتخب کر دیا تھا۔ اس کونسل کا بنیادی کام شاہی سلسلے کی حفاظت ہے۔ اس کونسل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ایتھوپیا کی اصل بادشاہت کی امین ہے اور ملک میں آئینی بادشاہت بحال کرانے میں مصروف عمل ہے۔ ۱۵؍مارچ ۲۰۰۵ء کو ولی عہد Zere Yacob Amha Selassie نے شہزادے ’’ارمیاز صالح سیلاسی‘‘ کی بطور چیئرمین اور بطور صدر شاہی کونسل توثیق کی جن کی سربراہی میں واشنگٹن میں قائم جلاوطن شاہی کونسل برائے ایتھوپیا آئینی بادشاہت کی بحالی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کا سب سے اہم ہتھیار فلاح و بہبود کے کام ہیں جو وہ ایتھوپیا کے اندر اور بیرون ملک رہائش پذیر ایتھوپین عوام کے لیے کر رہے ہیں۔
جمہوریہ کابِندا
’’جمہوریہ کابندا‘‘ جو سیاسی لحاظ سے جمہوریہ انگولا کا شمالی صوبہ کہلاتا ہے براعظم افریقا کے وسط مغربی حصے میں واقع ہے جس کی جنوبی اور مشرقی سرحد ’’ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو‘‘ (DRC) سابق زائر، سے اور شمالی سرحد ’’ری پبلک آف ری کانگو‘‘ سے ملتی ہے۔ جب کہ مغربی سمت پر بحیرہ اوقیانوس کا کنارا ہے۔ اس لحاظ سے کابندا ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحدیں اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک سے ملتی ہیں (ایسے علاقے کو جس کی سرحدیں اپنے ہی ملک کی سرحدوں سے نہیں ملتیں Enclave Territory کہا جاتا ہے، بالکل اس طرح جیسے سابق مشرقی پاکستان کی سرحدیں مغربی پاکستان سے جغرافیائی لحاظ سے نہیں ملتی تھیں اس جغرافیائی صورتحال اور ماضی کے سیاسی واقعات کی بنیاد پر ’’کابندا‘‘ کے عوام جمہوریہ انگولا سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا دعویٰ ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے ’’کابندا‘‘ کبھی بھی جمہوریہ انگولا کا حصہ نہیں رہا، کیونکہ ’’کابندا‘‘ اور جمہوریہ انگولا کے درمیان DR کانگو کا ساٹھ کلومیٹر وسیع علاقہ اور دریائے کانگو بہتا ہے۔ دوسری طرف ’’کابندا‘‘ کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاسی لحاظ سے ’’کابندا‘‘ کا علاقہ ۱۸۸۳ء سے پرتگال کی علیحدہ تشخص کی حامل نوآبادی تھا اور کابندا کے عوام نے بھی ۱۹۶۰ء کی دہائی میں انگولا کے شانہ بشانہ پرتگالیوں سے آزادی کی تحریک شروع کی تھی لیکن جب ۱۹۷۵ء میں انگولا نے پرتگال سے آزادی حاصل کی تو جمہوریہ انگولا نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’کابندا‘‘ کو علیحدہ آزاد تشخص دینے کے بجائے اس پر غاصبانہ طریقے سے قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ نومبر ۱۹۷۵ء میں انگولا نے سوویت یونین، کیوبا اور پرتگالی کمیونسٹوں کی مدد سے کیا تھا۔ تاہم پرتگال سے آزاد ہوتے ہی ’’کابندا‘‘ کی عوام نے جمہوریہ انگولا سے آزادی کا اعلان کردیا لیکن ان کی یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی، چنانچہ ’’کابندا‘‘ کے علیحدگی پسندوں کے ایک گوریلا گروپ نے جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے پڑوسی ملک DR کانگو میں ’’جمہوریہ کابندا‘‘ (Republic of Cabinda) کی جلاوطن حکومت قائم کرلی۔ یہ عسکری گروپ ’’فرنٹ آف لبریشن آف دی انکلیو آف کابندا (FLEC)‘‘ کے نام سے شناخت رکھتا ہے اور جمہوریہ انگولا میں عسکری کارروائیوں اور اغوا کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں ۸؍جنوری ۲۰۱۰ء کو ’’ٹونگو‘‘ کی فٹ بال ٹیم جو ’’افریقن کپ آف نیشن‘‘ میںشرکت کے لیے انگولا آئی ہوئی تھی کی بس پر FLEC کے گوریلوں نے حملہ کر کے اسسٹنٹ کوچ، ٹیم آفیشل اور بس ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
’’جمہوریہ کابندا‘‘ کی جلاوطن حکومت کو ’’ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو‘‘ (DR Congo) کی حمایت حاصل ہے جس کے دارالحکومت ’’کنشاسا‘‘ میں جلاوطن حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ تاہم ’’کابندا‘‘ کی جلاوطن حکومت کے صدر Nzita Hanriques Tiago پیرس میں رہائش پذیر ہیں Loyo قبیلے سے تعلق رکھنے والے جلاوطن صدر کی جانب سے ’’کابندا‘‘ کا علامتی پاسپورٹ، ڈاک ٹکٹ، شناختی کارڈ اور کرنسی (Ibinda) کا اجراء کیا گیا ہے۔ ’’ڈی آر کانگو‘‘ کی جانب سے ’’تابندا‘‘ کی جلاوطن حکومت کی حمایت پر جمہوریہ انگولا اور DR کانگو کے درمیان آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ جمہوریہ انگولا کی جانب سے ’’کابندا‘‘ پر قبضے کی بنیادی وجہ علاقے کا ہیروں اور پیٹرول کی دولت سے مالا مال ہونا ہے۔ واضح رہے کہ ’’کابندا‘‘ کے ساحلی علاقوں میں پورے انگولا کا ۶۵ فیصد تیل پایاجاتاہے جو نو لاکھ بیرل روزانہ کے لگ بھگ بنتا ہے۔ پیٹرول کی یہ مقدار پورے براعظم میں دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے اور اسی بناء پر کابندا کو افریقا کا کویت بھی کہا جاتا ہے، لیکن بدعنوانیو ںاور حکومت کی تعصب پر مبنی پالیسیوں کے باعث ’’کابندا‘‘ کا شمار جمہوریہ انگولا کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہ احساسِ محرومی بھی جمہوریہ کابندا کی جلاوطن حکومت کے قیام کی ایک اہم وجہ ہے۔
قومی جمہوریہ بیلاروس
مشرقی یورپ میں واقع ’’بیلارشین نیشنل ری پبلک‘‘ کی جلاوطن حکومت ۱۹۱۸ء سے قائم ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی قدیم ترین جلاوطن حکومت کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب روس کا وسیع رقبہ جرمنی کے حوالے کر دیا گیا تو بیلاروس بھی اس میں شامل تھا، لیکن جب اس علاقے سے جرمنی کا انخلا ہوا تو بیلاروس کے عوام نے ’’بیلارشین ڈیموکریٹک ری پبلک‘‘ کے نام سے علیحدہ مملکت کی داغ بیل ڈال دی، جس کا پہلے صدر مشہور مصنف Jan Sierada کو بنایا گیا۔ تاہم ۱۹۱۹ء میں سوویت یونین کی ریڈ آرمی نے علاقے پر قبضہ کر لیا اور علاقے کا نام ’’سوویت سوشلسٹ ری پبلک آف بیلاروس‘‘ (SSRB) رکھ دیا گیا، جسے مقامی حکومت نے اپنی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا۔ ردعمل میں ریڈ آرمی نے پکڑ دھکڑ شروع کی تو مقامی انتظامیہ نے پڑوسی ملک لیتھونیا کے دارالحکومت Vilnius منتقل ہو کر ’’جلاوطن حکومت بیلارشین نیشنل ری پبلک‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے بعد جلاوطن حکومت چیک ری پبلک سابق چیکوسلواکیہ کے دارالحکومت پراگ منتقل ہوگئی۔ اس وقت جلاوطن حکومت کی سرگرمیاں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں جاری ہیں اور حکومت کی باگ ڈور موجودہ چیئرپرسن خاتون رہنما Ivonka Survilla کے ہاتھوں میں ہے جو ۱۹۹۷ء سے اس عہدے پر فائز ہیں اور جلاوطن حکومت کی ۱۹۱۸ء کے بعد سے چھٹی سربراہ ہیں ۷۴ سالہ خاتون راہنما کی سربراہی میں جلاوطن حکومت کے معاملات چلانے کے لیے ایک ۱۴ رکنی کونسل بھی ہے، جسے Rada کہا جاتا ہے، جب کہ جلاوطن حکومت کا دارالحکومت ’’پراگ‘‘ میں ہے ’’بیلارشین نیشنل ری پبلک‘‘ کی جلاوطن حکومت کو عالمی سطح پر خاصی حمایت حاصل ہے۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۲۷جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply