جنوبی امریکا کے ملک بولیویا کے صدر ایوو موریلز نے کہا ہے کہ وہ انتخابی فتح کے ذریعے چوتھی بار اقتدار میں آئے مگر بعض قوتیں اُن کے اقتدار کو سخت ناپسند کرتی ہیں، اس لیے اُن کے خلاف ایک ہوگئیں۔ ایوو موریلز نے اتوار ۱۰ نومبر کو یہ کہتے ہوئے صدر کا منصب چھوڑ دیا کہ اُن کے خلاف معاشرتی و سیاسی تنظیموں کے ساتھ ساتھ پولیس فورس نے بھی بغاوت کی۔
ایوو موریلز کا استعفیٰ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اٹھارہ روزہ ملک گیر مظاہروں کے بعد سامنے آیا۔ ان اٹھارہ دنوں میں ملک تہ و بالا ہوتا رہا۔ موریلز ملک کی اصل آبادی سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے صدر رہے ہیں۔ پہلی بار ۲۰۰۶ء میں اقتدار میں آنے والے ایوو موریلز نے سوشلسٹ ایجنڈے کے تحت ملک کو نئی زندگی بخشنے کا عمل شروع کیا۔ اینڈین تہذیب سے تعلق رکھنے والے بولیویا کی معاشی حالت بہت بُری تھی۔ اُنہوں نے ملک کو حقیقی معاشی استحکام سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی سبب ہے کہ وہ عوام میں غیر معمولی حد تک مقبول رہے ہیں۔ خاص طور پر دیہی عوام اُنہیں زیادہ چاہتے ہیں۔
۲۰۱۶ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس بات پر پابندی عائد کی گئی کہ کوئی تیسری یا چوتھی بار صدر کے منصب کے لیے میدان میں اُترے۔ ایوو موریلز اس فیصلے کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں گئے۔ عدالت نے اُن کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اکتوبر ۲۰۱۹ء میں صدارتی انتخاب ہوا، جس میں ایوو موریلز کو سابق صدر کارلوس میسا سے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑا۔
انتخابی نتائج کا اعلان کرنے کے کچھ ہی دیر بعد الیکشن کمیشن نے نتائج کو چوبیس گھنٹے کے لیے معطل کردیا۔ چوبیس گھنٹے کے بعد جو انتخابی نتائج شائع کیے گئے اُن کے تحت ایوو موریلز کم و بیش ۱۰ فیصد کی برتری کے ساتھ فاتح قرار دیے گئے۔ بولیویا کے قانون کے تحت اگر دو بڑے حریفوں کے درمیان فتح کا فرق ۱۰ فیصد سے کم ہو تو دوبارہ انتخاب کرانا پڑتا ہے۔
بہت سے لوگ انتخابی نتائج کے خلاف میدان میں نکل آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے ذریعے ایوو موریلز کو چوتھی بار اقتدار دیا جارہا ہے۔ احتجاج شروع ہوا اور تشدد کو بھی راہ ملنے لگی۔ ۲۲؍اکتوبر کو معاملات اُس وقت زیادہ خراب ہوگئے جب الیکشن کمیشن کے ایک رکن نے استعفیٰ دے دیا۔ ۲۵؍اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کا تصحیح شدہ ورژن جاری کیا، جس کے تحت ایوو موریلز نے ڈالے جانے والے ووٹوں کا ۱ء۴۷ فیصد حاصل کیا تھا۔ اِس سے عوام کے جذبات مزید بھڑک اٹھے۔ یوں پورا ملک شدید نوعیت کے ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا، برازیل، ارجنٹائن اور کولمبیا نے بولیویا کی حکومت پر زور دیا کہ وہ پولنگ کا ایک اور راؤنڈ کروالے تاکہ برتری واضح ہوسکے۔ امریکی ریاستوں کے اتحاد (او اے ایس) نے اکتوبر ۲۰۱۹ء کے صدارتی انتخاب کے نتائج کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس تنظیم میں خطے کی تمام بڑی قوتیں شامل ہیں۔
میڈرڈ (اسپین) سے شائع ہونے والے اخبار El País نے بتایا کہ او اے ایس نے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا تو ابتدائی رپورٹ میں چند ایک بے قاعدگیوں کا ذکر کیا۔ اس رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُس بلیک آؤٹ کا بھی ذکر کیا گیا، جس کے بعد جاری کیے جانے والے تصحیح شدہ انتخابی نتائج میں صدر ایوو موریلز کو کارلوس میسا پر ۱۰ فیصد برتری کا حامل بتایا گیا۔ او اے ایس کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انتخابی نتائج ایک الگ یا بیرونی آئی ٹی سرور کے ذریعے سامنے آئے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران بہت سی بے قاعدگیاں بھی تسلیم کی گئیں۔
ایوو موریلز نے او اے ایس کی رپورٹ کو تکنیکی کم اور سیاسی زیادہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے قاعدگیوں کا الزام بے بنیاد اور بے معنی ہے تاہم عوام کی تشفّی کے لیے دوبارہ انتخاب کرائے جائیں گے۔ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ لوگوں کے جذبات غیر معمولی حد تک بھڑک چکے تھے۔ اب اُن پر قابو پانا ممکن نہ رہا تھا۔ پولیس بھی مظاہرین سے مل گئی تھی اور یوں ایوو موریلز کے جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔
ایوو موریلز کے لیے لے دے کر صرف فوج کا آسرا رہ گیا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ فوج اس معاملے میں کود کر معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی مگر یہ امید بھی اُس وقت دم توڑ گئی، جب فوج نے ایک بیان میں واضح کردیا کہ وہ اس معاملے سے الگ رہے گی اور عوام کو دبانے یا کچلنے کے عمل میں کسی بھی صورت حصہ نہیں لے گی۔ یہ بیان مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ El Diario کے ذریعے پوری قوم تک پہنچا۔
۱۱ نومبر کی اشاعت میں El País نے لکھا ’’بولیویا بہت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ معاملات صرف خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ پورا ملک شدید انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت کا سفر جاری رکھا جاسکے۔ طاقت کا خلا پیدا ہوچکا ہے، جسے پُر کرنا لازم ہے۔ اگر مقتدر قوتوں نے فوری توجہ نہ دی تو ملک تباہی کے دہانے تک جا پہنچے گا۔ سینیٹ اور چیمبرآف ڈیپیوٹیز کے صدور طاقت کا خلا پیدا ہونے کی صورت میں معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں تاکہ ملک نراجیت کی طرف نہ جائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِن دونوں ایوانوں کے صدور بھی مستعفی ہوچکے ہیں۔ مظاہروں کے سربراہ لوئی فرنینڈو کاماچو (Luis Fernando Camacho) نے تجویز دی ہے کہ ملک کو عبوری طور پر چلانے کے لیے ایسا حکومتی بورڈ تشکیل دیا جائے، جو فوج اور پولیس کی ہائی کمان پر مشتمل ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا تو ملک دوبارہ مطلق العنان حکومتوں کے دور میں داخل ہوسکتا ہے۔ بولیویا میں اقتدار کے ایوانوں پر فوج کے غلبے کی تاریخ رہی ہے۔ اِس مرحلے پر فوج کو بلانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Explained: Why Bolivia has become the latest South American nation to fall into chaos”. (“Indian Express”. Novermber 11, 2019)
Leave a Reply