
آر ایس ایس مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی مخالف ہے اور آر ایس ایس کے کارکنان نے امریکا میںیہودی امیروں سے سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے۔ بے شمار دولت امریکا میں خیراتی مقاصد کے تحت جمع کی جاتی ہے اور اُس کا استعمال ہندوستان میں اقلیتوں کی سرکوبی کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ صیہونیت ہی یہودیت ہے اور ہندو توا ہندو ازم ہے۔ آر ایس ایس اُن نرم دل ہندوئوں کی بھی دشمن ہے جنہیں اقلیتوں سے ہمدردی ہے، جبکہ دوسری طرف اعلیٰ ذات ہندوئوں کو دیگر پسماندہ جماعتوں اور دلتوں سے لِلٰہی بیر ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ تمام دھماکے اسی مقصد کے تحت کیے یا کرائے جاتے ہوں تاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوں، یعنی مارے بھی مسلمان جائیں اور الزام بھی انہی کے سر آئے۔ یہی تو یہودیوں کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔ زیر نظر مضمون میں انہی نکات پر گفتگو کی ہے، جسے ہفت روزہ انگریزی جریدے تہلکہ کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔
انسانی حافظہ کی عمومی عمر کم ہوتی ہے، لہٰذا ماضی اور حال کے واقعات کو ترتیب دینا کار دارد۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل محترمہ سونیا گاندھی کے روڈ شو بگولوں نے عوام کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ وہ یقینی طور پر مئی ۲۰۰۴ء کے انتخابات کے بعد ملک کی وزیراعظم ہوتیں۔ آر ایس ایس سے تحریک یافتہ نجومیوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ سونیا کی حکومت ۲۷/ جون ۲۰۰۴ء سے پہلے دَم توڑ دے گی، لیکن جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا گیا تو آر ایس ایس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اگر کوئی ۸ ۲ جون ۲۰۰۴ء سے ایک مہینے کے اخبارات کا مطالعہ کی زحمت گوارا کرے تو وہ صاحب یا صاحبہ یہ پڑھیں گی کہ ان دنوں ہزاروں بم بیشتر بڑے شہروں اور قصبوں سے برآمد کیے گئے تھے۔ اگر محترمہ سونیا گاندھی بطور وزیراعظم برسرِ اقتدار آ جاتیں تو ہر مسلم اور عیسائی بستی شعلہ پوش ہو جاتی۔ دہشت گردی ہندوستانی وفاقیت اور یگانگت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ ہر وہ شہری جسے اپنے وطن سے محبت ہو تو اسے اس کی مذمت اور اس لعنت کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ نہرو نے سچ ہی کہا تھا کہ ’’ہندوستان کے اتحاد اور یکجہتی کو خطرہ کمیونسٹوں سے نہیں بلکہ بنیاد پرست ہندوئوں سے ہے‘‘۔ انہوں نے آر ایس ایس کو غدارِ وطن، فرقہ پرست اور تشدد پسند لکھا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ نہرو نے حق کہا۔ سردار پٹیل جن کی تصاویر اُس کی دیواروں پر آویزاں ہیں انہوں نے ہندو راشٹر کو ’’احمقانہ خیال‘‘ قرار دیا تھا۔ حالیہ واقعات نے یہ بتا دیا کہ دہشت گردی صرف انتہا پسند مسلمانوں کی سرشت میں نہیں بلکہ آر ایس ایس بھی اس میں برابر کی حصے دار ہے۔ کاشی کے آر ایس ایس دفتر میں بم دھماکے کا معاملہ لے لیں۔ وہ ایس کمار کی کارستانی تھی جو کہ ایک رکشہ ڈرائیور وی نارائن شرما اور ایس روی پانڈین کیبل ٹی وی آپریٹر ہے۔ مزید براں یہ کہ تینوں شیطان اے بالمروگن، مسانم، ایس ویلو مروگن اور مرو گن بھی وہاں بس اسٹینڈ پر ہوئے بم دھماکوں میں ملوث ہیں۔ یہ انکشافات تیرو نویلی رینج کے ڈی آئی جی پی کوناپن کے ہیں۔ جن کے مطابق یہ سبھی دہشت گرد آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ واضح رہے کہ اپریل ۲۰۰۶ء اور فروری ۲۰۰۷ء کے دوران ماندیڑ میں بم بناتے ہوئے آر ایس ایس کے چار سرگرم کارکنان ہلاک ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں تہلکہ نے اُجاگر کر دیا کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی دہشت گرد تنظیموں نے بم سازی کی اور راکٹ لانچر تک بنا لیے تاکہ پس از گودھرا عرصے میں مسلمانوں کو مار ڈالا جائے۔ گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے ہریش بھٹ نے کیمرہ کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بابو بجرنگی نے کئی معصوم مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ ۱۷ اپریل ۲۰۰۸ء کو مالیگائوں پولیس نے چھاپہ مار کر پیتھولوجی لیبارٹری سے ایک ریوالور، آر ڈی ایکس، ۱۰۰۰ روپے کے جعلی کرنسی نوٹ ضبط کر کے لیبارٹری کے مالک جیتندر کھیرا کونتیش اشیرے اور صاحب رائو سکھ ویو دھیورے کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ تینوں آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ ۱۶ جون ۲۰۰۸ء کو مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ نے ہندوجن جاگِرتی سمیتی کے سرگرم اراکین رمیش ہنو منت گڈکا کی اور منگیش وینکرنکم کو وشنوداس بھاوے کو آڈییٹوریم میں خام بم نصب کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا۔ انہوں نے گزشتہ دیوالی پر ایک مسجد میں دھماکہ کر دیا تھا۔ مکہ مسجد دھماکہ کے متاثرین میں جو شخص نقلی ڈاڑھی کا حامل نکلا وہ پولیس کی توجہ حاصل نہیں کر سکا ! وجہ آسان ہے ۵ جولائی ۲۰۰۸ء کو ایک اور معاملے میں ماند یڑ پولیس نے موہن لال ہر دیوجی اور بھور لال بھاگشو کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے ۳۶۵ الیکٹرانک ڈیٹونیٹرز، جلیٹن کی ۴۰۰ چھڑیاں، نیز بیٹری ہولڈرز اور مزید ۱۰ ڈیٹونیٹرز و ۱۰ جلیٹن اسٹک ضبط کر لیے۔ وہ بھی آر ایس ایس کے کارندے ہیں۔ ۲۴ اگست ۲۰۰۸ء کو آر ایس ایس کے ہی کارکنان بم بناتے ہوئے کانپور میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اُن کے قبضے سے جو دھماکہ خیز مادہ برآمد کیا گیا وہ پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں ناکارہ بم درختوں پر پیدا ہوتے ہوں تاکہ ان کے پروپیگنڈے سے عوام کی توجہ بنائی جا سکے، وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ واقعات دہشت گردانہ سرگرمیوں کی انتہا نہیں ہیں۔ لاینحل بم دھماکوں کے پسِ پشت بدبختی کار فرما ہے۔ اس سیکولر ملک میں ’را‘ جیسی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اقلیتی طبقات کے اہلکار تعینات نہیں کیے جاتے باوجود اس حقیقت کے کہ وزیراعظم خود انہی طبقات میں سے آئے ہیں۔ ایسا ہی آر ایس ایس وائرس جو تمام ہندوستانی محکموں میں سیاسی طور پر سرایت کر چکا ہے اسے بمشکل تمام شناخت کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہندی فلم کے منصوبے میں، رام گوپال ورما نے اسرائیلی افواج کو دہشت گردوں سے بھڑا دیا۔ بیشتر کثیر ملکی کمپنیاں جو ہندوستانی مارکیٹ میں داخل ہو چکی ہیں اُن کے مالکان اسرائیل اور امریکا سے وابستہ یہودی ہیں۔ جو اپنی بھارت مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے شاذ ہی ذرائع ابلاغ کی نظر میں آتے ہوں۔ نوم چومسکی اپنی کتاب ”Hegemony or Survival: Americas Quest for Global Domination” میں رقمطراز ہیں ’’چونکہ یہاں کی حکومت ہندو قانون مجریہ ۱۹۹۸ء کے تحت آگئی ہے، لہٰذا ہندوستان نے بڑی حد تک اپنا بین الاقوامی مؤقف تبدیل کر دیا ہے، یوں وہ اپنے فوجی حلیف امریکا اور اس کے موکل اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے میں لگا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اس منافقت کی اساس مرارجی ڈیسائی کی حکومت میں بطور وزیر خارجہ اے بی واجپائی نے رکھی تھی، وہی واجپائی جنہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دایان کو خفیہ طور پر راتوں رات ہندوستان اسمگل کر لیا تھا۔ لیکن ڈیسائی نے انہیں ٹھکرا دیا اور اس سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں وزیراعظم واجپائی نے اسرائیلی وزیر اعظم اور لبنان کے قصائی (خدا اس کی عمر اور دراز کرے!) ایریل شیرون کو مدعو کیا۔ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی برجیش مشرا وہ نامور شاطر ہندوستانی ہے جس نے اولین ہندوستانی عہدیدار کے طور پر واشنگٹن میں امریکن جیوش کونسل سے خطاب کیا جہاں اس نے ’’امریکا۔ اسرائیل ۔ ہند، تریشول کا تصوّر پیش کیا اسے سیاسی و اخلاقی خود مختاری دی گئی جسے دہشت گردوں (آپ مسلمانوں پڑھیں) کے مقابلے کے لیے ٹھوس فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایسے فوجی اور سیاسی ٹھیکے امریکا میں قائم ضمنی تنظیمیں کوآرڈینیشن آف دی انفلواینشل ہندو نیشنلٹس اینڈ اسرائیلی لابیز ان یو ایس کہلاتی ہیں۔ جنگِ ویتنام کا اختتام عالمی دہشت گردی کا نقطہ آغاز ہے جب امریکی سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت کے دہانے کی طرف رینگ رہا تھا، امریکا نے مارکس کے اس نظریے میں پناہ لی کہ ’’مذہب عوام الناس کی افیوم ہے، لہٰذا سی آئی اے نے عرب شیوخ کو ترغیب دی کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مدرسوں کو سرمایہ فراہم کریں۔ تیل کی قیمتیں ڈالر سے منسوب تھیں رئوسائے عرب نے امریکا میں اپنے پٹرو ڈالرز کے انبار لگا کر اس کی لبِ گور معیشت کو نئی زندگی عطا کر دی۔ چنانچہ افغانستان کی سرد جنگ نے طالبان اور بن لادن برانڈ کے القاعدہ دہشت گرد تیار کیے۔ جبکہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی امریکا نے انہیں اے کے ۴۷ جیسی خود کار بندوقیں، راکٹ لانچرز وغیرہ فراہم کیے جن کا زبردست استعمال ہوا اور آج بھی ہندوستان کے خلاف کشمیر میں پاکستان سے آئے جنگجوئوں کے ذریعہ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکا اور پاکستان ایک چیز فراموش کر گئے کہ دہشت گرد، کیکڑوں کی طرح اپنے ہی والدین کو ختم کر دیتے ہیں۔ دس لاکھ سے زائد عراقیوں نے اپنی جانیں گنوا دیں اور تقریباً ۶۰ لاکھ پناہ گزین ہو گئے اس ردعمل نے دنیا بھر میں دہشت گردی کو ہوا دی۔ جب امریکی خواب یہودی قالب میں ڈھل جاتے ہیں تو بے حد خطرناک اور تباہ کن ہو جاتے ہیں تب اجنبی آپ کے جتھے کو غذا فراہم کرنے پر آمادہ اور اتحادی آپ کے زر خرید غلام بن جاتے ہیں تاکہ آپ کو شراب و کباب پیش کر سکیں۔ لیکن آپ اسے صیہونی رہبانیت سے منسوب کریں گے، آدمی آپ کو اپنے خدا کے فرستادے پکاریں گے اور آپ قوموں کی دولت ہڑپ کر رہے ہوں گے اور کامیابیاں آپ میں غضب کی توانائی بھر دیں گی۔ اگر سکھ دہشت گردی کینیڈا کے وینکوور اور ٹورنٹو میں بسی عفریت کا لمبا ہاتھ تھی تو بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش امریکا میں رچی گئی جہاں ایک علامتی اینٹ ایودھیا کے رام مندر میں استعمال سے قبل جس پر عطیہ کنندہ کا نام کندہ کیا جانا تھا، ۱۰۰ ڈالر میں بیچی گئی جس کے عوض بہشت (سورگ) میں ایک مقام کی ضمانت دی گئی۔ آر ایس ایس مسلانوں اور عیسائیوں دونوں کی مخالف ہے اور آر ایس ایس کے کارکنان نے امریکا میں یہودی امیروں سے سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے۔ بے شمار دولت امریکا میں خیراتی مقاصد کے تحت جمع کی جاتی ہے اور اس کا استعمال ہندوستان میں اقلیتوں کی سرکوبی کے لیے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ صیہونیت ہی یہودیت ہے اور ہندو توا ہندو ازم ہے۔ آر ایس ایس اُن نرم دل ہندوئوں کی بھی دشمن ہے جنہیں اقلیتوں سے ہمدردی ہے جبکہ دوسری طرف اعلیٰ ذات ہندوئوں کو دیگر پسماندہ جماعتوں اور دلتوں سے لِلٰہی بَیر ہے۔ ہندو توا کا دوسرا رُخ جیسا کہ ویر ساورکر نے ظاہر کیا جو کہ آر ایس ایس کے مخفی ایجنڈے پر مبنی، جس کا مقصد ذات پات کو مٹا کر ایک ایسا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہمہ ازدواجی نظام قائم کرنا ہے تاکہ ہندو ازم کو استحکام حاصل ہو اور وہ فولاد جیسا بن جائے۔ موساد نے کثیر ملکی کمپنیوں کے اہلکاروں کے ذہنوں کو مسموم کر دیا جو ہندوستان میں طوفان جگا رہے ہیں۔ کوئی دھماکہ پولیس جس کا سراغ نہ لگا پائے وہ موساد کی کار ستانی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ آر ایس ایس اور صیہونیت میں گاڑھی چھنتی ہے۔ ایسی کئی کتابیں موجود ہیں جو واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں کہ ۱۱/۹ ایک داخلی فتنہ تھا۔ جس طیارے نے ڈبلیو ٹی سی کو یہ تھیلا دیا اس کے ذریعہ محض ۲۵۰ درجہ حرارت پیدا ہوا جو ہوا بازی کا ایندھن جلنے کے سبب تھا۔ مگر وہ ۴۷ طاقتور فولادی ستون جن پر ڈبلیو ٹی سی نے سر ابھارا تھا اسے بنیادوں سمیت زمین دوز ہونے کے لیے ۱۰۰۰ درجہ کی حرارت درکار تھی۔ ایک نہایت طاقتور دھماکے کا استعمال کیا گیا۔ شک کی انگلی سیدھے موساد اور سی آئی اے کے اشتراک پر اٹھائی گئی تھی۔ جنتا پارٹی کا فسوں چھننے کے بعد، آر ایس ایس سربراہ بالا صاحب دیورس نے ۱۶ جولائی ۱۹۷۹ء کو اس ملک سے عہد کیا کہ آر ایس ایس ایک سیکولر حکومت کی حمات اور سبھی مذاہب کا احترام کرے گی۔ کوئی چیتا اپنی کھال کے دھبے تو بدل سکتا ہے لیکن اپنے شکاروں سے کھلواڑ کی فطرت نہیں بدل سکتا۔ بابری مسجد کی شہادت اسی کلیہ کو ظاہر کرتی ہے۔ وجہ صرف مودی جانتا ہے کہ گودھرا کیوں اور کیسے برپا ہوا۔ اب متعدد دھماکوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ محض ایک سراب ہیں یا چار ریاستوں اور لوک سبھا کے لیے انتخابات سے قبل پھر گودھرا کی ریہرسل۔ غالباً اُس مال سے کچھ ذخیرہ بچا رہ گیا جو گزشتہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے بھنگار کے ساتھ برآمد کیا گیا تھا! جب وہ ان کا انتہائی نظم و ضبط برداشت نہ کر سکے تو صیہونیوں نے موسیٰ کو شہید کر دیا جنہوں نے مصر میں انہیں فرعونیوں کی غلامی سے نجات دلائی تھی (سگمنڈ فریڈ) گوڈ سے، جو آر ایس ایس سے وابستہ تھا اُسی نے گاندھی جی کو ان کے ہندو مسلم اتحاد پر قتل کر دیاجنہوں نے ہندوستان کو فرنگی استعماریت سے آزادی دلائی تھی۔ حتیٰ کہ بی جے پی صدر دین دیال اپادھیائے کو داخلی انسانیت پر اصرار، گاندھیائی معاشی فلسفہ اور ’’مسلمانوں کو اپنا جسم اور خون، کہنے کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔ ۱۵ اگست ۲۰۰۲ء کو وزیر اعظم واجپائی مودی کی مذمت کیے بغیر دہاڑے کہ مذہب اور سماج کا یہ فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کرے۔ جبکہ ان کے غیر مہذب بربر پریوار والے عیسائیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ ان کے گھر پھونک کر ان کے کلیسا نذر آتش کر رہے ہیں تو وہ سادھوانہ مون برت اختیار کر چکے کیونکہ ہٹلر کے Storm Troopers کی طرح زعفرانی غنڈے اڑیسہ میں ’’کریسٹل نائٹ‘‘ منا رہے ہیں۔ آر ایس ایس نے گجرات میں الیکشن جیتنے کے لیے ہندو توا کا تجربہ کیا۔ لوٹ مار، تاراجی اور معصوم مسلمانوں کے قتل عام کو مقتدروں کی حمایت حاصل تھی۔ عصمت دریوں کو ہزاروں انتقام کا حربہ بنا لیا گیا تاکہ نسلی جبر قائم کیا جا سکے۔ ۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں شائننگ انڈیا، مصیبت زدہ ہندوستان (سفرنگ انڈیا) کو کہیں نظر نہیں آیا اور بی جے پی کا شیرازہ منتشر ہو گیا۔ اس کے متوقع وزیراعظم اپنے آخری موقع پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اس بار ستم رسیدوں میں دلتوں کی باری ہے چاہے وہ ہندو ہوں یا عیسائی۔ آر ایس ایس ،خود کو ثقافتی تنظیم ظاہر کرتی آئی ہے دراصل وہ قطعی غیر مہذب ادارہ اور فاشسٹ مافیا ہے جس کے ہاتھ معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ اُس کا جنم ۱۹۲۵ء میں دسہرہ کے دن ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب راون مرا تو اس کی روح آر ایس ایس میں حلول کر گئی۔ اب سراپا ہائیڈرا جیسی اس عفریت کے دس سَر ہیں: آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی، بجرنگ دَل، بھارتیہ مزدور سَنگھ، سودَیشی جاگرن منچ، اے بی وی پی، انٹرنیشنل ہندو پریشد، ہندی جاگرن منچ اور سیوا بھارتی۔ اگر ایک سر قلم کر دیا گیا (بھارتیہ جن سَنگھ) تو دوسرا (بی جے پی) سَر ابھارتا ہے۔ جب مہذب سماج اقلیتوں کی حفاظت نہیں کرتا اور حکومت مفلوج ہو جاتی ہے اور ان کی حفاظت کے اپنے اخلاقی فریضے سے منہ موڑ لیتی ہے تب اقلیتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحد ہو کر اپنی آواز اٹھائیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ مدعی بن کر روم کے اسٹیچیو آف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے رجوع کرے، جسے نسل کشی کے انفرادی مجرموں، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے قائم کیا گیا ہے اکثریت کی فرقہ واریت قوم پرستی کے مماثل ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ اقلیتی طبقات کے حقیقی مطالبات کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۴ اگست کو کانپور میں بم بنانے والوں کی ہلاکت کو مبینہ طور پر ہندوستان بھر میں ہو رہے بم دھماکوں کے انتقام کی تیاری ثابت کیا جا رہا ہے۔ بہر طور پولیس نے تصدیق کی ہے کہ وہ دونوں ہی ماضی میں بجرنگ دَل کے سرگرم کارکن رہے ہیں۔
واضح رہے کہ تیسا سنتیل واد نے اس ضمن میں اے ٹی ایس اور سی بی آئی کی فردِ جرم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(بشکریہ: ’’تہلکہ میگزین‘‘ بھارت۔ ۱۳ ستمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply