
صرف یہی نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکا جو اپنے آپ کو مہلک ترین ہتھیاروں کے خلاف محاذ آرائی کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس مسئلے پر اتنا کچھ دائو پر لگا دیا ہے وہ خود مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے پھیلائو کے مجرم ہیں اور امریکا نے یہ ہتھیار برطانیہ کو منتقل کیے ہیں۔ یہ سب کچھ ۱۹۵۸ء کے باہمی دفاع کے معاہدے Mutual Defence Agreement کے قانونی دائرے میں ہوا جس کی ہر دس سال بعد امریکا کی کانگریس تجدید کرتی ہے اور جس کی تجدید اس سال بھی ہونی ہے۔ امریکا سے برطانیہ کو مہلک ترین ہتھیاروں کی فراہمی ہی برطانیہ کی طرف سے امریکی پالیسی کی حمایت کی ضامن ہے۔ اس وقت جو مہلک ترین ہتھیار امریکا سے برطانیہ برآمد کیے جارہے ہیں‘ ان میں ٹرائیڈنٹ ڈی ۵ میزائل (Trident D5 Missiles) اور جوہری توانائی کے ہتھیاروں کے اجزائے ترکیبی (پرزے) اور ان کی ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ برطانیہ بھی اپنے جوہری توانائی کے ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے امریکا میں نو ادا کے مقام پر عرصے سے دھماکے کر رہا ہے۔ جوہری توانائی کے ہتھیاروں اور بے حد مہلک ہتھیاروں پر امریکا اور برطانیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر جو آج کل کام ہو رہا ہے‘ اس میں ٹیکنیکل معلومات کے باہمی تبادلے میں مندرجہ ذیل موضوعات شامل ہیں:
حرکی اثرات کی ٹیکنالوجی (Kinetic Effects Technology)‘ توانائی پیدا کرنے والے مواد (Energetic Materials)‘ جوہری توانائی پیدا کرنے والے مواد (Nuclear Materials)‘ بجلی کے مختلف آلات کے ذریعہ دھماکہ خیز مواد کے بھرنے کے طریقے اور ٹیکنالوجی (Warhead Electrical Components and Technologies)‘ وہ مواد جن سے جوہری توانائی حاصل نہ کی جاسکے اور ان کو حاصل کرنے کی سہولتیں (Non-Nuclear Materials, Facilities)‘ جوہری توانائی کے ہتھیاروں کی انجینئرنگ (Nuclear Weapons Engineering)‘ دھماکہ خیز مواد رکھنے والے جوہری توانائی کے ہتھیاروں کی فزکس (Nuclear Warhead Physics)‘ دھماکہ خیز مواد رکھنے والے جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی (Computatonal Technology)‘ ایئر کرافٹ میزائل اور کرۂ ہوائی کے لطیف و کثیف حصے (Aircraft Missile And Space System Hardening)‘ مادے کے بہت زیادہ حرارت اختیار کرنے سے توانائی حاصل کرنے کا علم (Laboratory Plasma Physcis)‘ مادے کی پیداوار کا حصول (Manufacturing Practices)‘ جوہری توانائی کے وار ہیڈ کے اندر اچانک دھماکہ اور اس پر قابو پانے کی ٹیکنالوجی (Nuclear Warhead Accident Response Technology)‘ جوہری توانائی کے مختلف کوڈ نمبر جو صیغۂ راز میں رکھے جاتے ہیں (Nuclear Weapon Code Development)۔
برطانوی پارلیمنٹ میں جوہری توانائی کے مخالف ممبر ایلان سمپسن (Alan Simpson) کے سوال کے جواب میں پارلیمنٹ کے افسران نے ایک سرکاری بیان میں مندرجہ بالا فہرست فراہم کی تھی‘ جس سے بے حد مہلک ہتھیاروں کے شعبے میں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر جوہری توانائی کے پھیلائو کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس اشتراک سے ان کوششوں کا بھی اظہار ہوتا ہے جو امریکا اور برطانیہ جوہری توانائی کے ہتھیاروں کو زیادہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے کرتے رہے ہیں۔ اس فہرست سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ملک بین الاقوامی معاہدوں کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے اور ان کی خلاف ورزی کے جرم میں حکومتی سطح پر مرتکب ہیں۔
امریکا اور یورپ کے حوالے سے حکومتی سطح پر جو جوہری توانائی کا پھیلائو عمل میں آتا رہا ہے اس کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف پاکستان ہی کو کیوں اکیلا ذمہ دار قرار دیا جائے جبکہ پاکستان میں حکومتی سطح پر جوہری توانائی کے پھیلائو کی حمایت کو اختیار نہیں کیا گیا درآں حالیکہ پاکستان نہ تو این پی ٹی (NPT) کا رکن ہے اور نہ این ایس جی (NSG) کا؟ دوسرے یہ کہ صرف پاکستان کے شہری ہی کیوں عالمی سطح پر اس مسئلے میں قربانی کا بکرا بن جائیں؟ کیا پاکستان کے ساتھ یہ عمل پاکستان کے اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان کی ترقی کا کوئی بھی پروگرام مغرب کو ہمیشہ سے بے چین کر دیتا ہے؟
ڈاکٹر خان کے معاملے میں امریکا کا اوپن ہیمرکیس (Oppenheimer Case) ذہن میں آتا ہے۔ رابرٹ اوپن ہیمر جو بابائے ایٹم کہا جاتا ہے‘ جس سے امریکا کے اٹامک انرجی کمیشن (Atomic Energy Commission) نے اس کے بے خطر ہونے کی ضمانت واپس لے لی تھی‘ جب ہائیڈروجن بم کی تیاری کے مسئلے پر اس کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا گیا اور اس کی وفاداری مشکوک ہو گئی۔ کیونکہ اس پر الزام عائد کیا گیا کہ اس کا رابطہ کمیونسٹ پارٹیوں اور کمیونسٹ گروپوں سے ہے۔ حد سے زیادہ اشتراکیت نواز سرگرمیوں یا حکومت سے غداری کی تہمت لگائے جانے کے دور میں جسے (Mccarthyism) میکارتھی ازم کہا جاتا ہے‘ اوپن ہیمر کے معاملے کی چھان بین کی گئی اور معلوم ہوا کہ ۱۹۵۳ء میں ایٹمی توانائی کمیشن نے اس کے بے خطر ہونے کی ضمانت واپس لے لی اور یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے کیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں امریکا کی حکومت نے اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کر دیا لیکن اس کے لیے اسے جس آزمائش سے گزرنا پڑا اس نے اسے بہت نقصان پہنچایا جب کہ اس نے امریکا کی خدمت میں ساری عمر گزار دی تھی۔ اس معاملے میں طنز یہ ہے کہ اسے سب سے زیادہ نقصان اس کے ساتھ سائنسدان ایڈورڈ ٹیلر (Edward Teller) نے پہنچایا جو ہائیڈروجن بم بنانے کے حق میں تھا اور جسے اس بم کے بنانے کے سلسلے میں اوپن ہیمر کی مخالفت ناقابلِ برداشت ہو گئی تھی لہٰذا نظریاتی شکوک نے مرکزی شکل اختیار کر لی اور ٹیلر نے سکیورٹی بورڈ کو بتایا کہ وہ امریکا کے عظیم مفادات کو صرف ایسے ہاتھوں میں دینا پسند کرے گا جن سے وہ اچھی طرح واقف ہے اورجن پر پورا بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال امریکن یہ بتاتے ہیں کہ اوپن ہیمر کے معالے میں ہائیڈروجن بم بنانے کے اقتصادی پہلوئوں کے بجائے اس کے نظریات اس کے زوال کا سبب بنے لیکن بالآخر نتیجہ ایک ہی جیسا نکلا۔ پاکستانی نقطۂ نظر سے امریکی ایٹمی توانائی کا کمیشن جس نتیجے پر پہنچا تھا‘ وہ قابلِ توجہ ہے۔ سکیورٹی بورڈ کے مطابق گو اوپن ہیمر ایک تابعدار شہری ہے جس کی شاندار خدمات کے لیے پورا ملک ممنون ہے لیکن اس کے کردار اور اس کے تعلقات سے اندازہ ہوا کہ وہ ملک کی حفاظت اور سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ یہ معاملہ صرف اتنا ہی ہے۔ اس سے زیادہ نہ پریس نے اس کے خلاف چھان بین کی اور نہ امریکا کے بابائے بم کے خلاف کوئی مزید کارروائی ہوئی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ واضح ہو گیا ہے کہ دنیا کو پاکستانی سائنسدانوں کے اعترافات سے کوئی دلچسی نہیں ہے۔ دراصل امریکا اور یورپ کا ہدف پاکستان کا جوہری توانائی کا پروگرام ہے جسے وہ ہندوستان کے جوہری توانائی کے حصول کے خلاف ردِعمل کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جوہری توانائی کے اس مسئلے سے پاکستان کا فوجی ادارہ بھی متاثر ہو رہا ہے جو ملک کے اندر واحد مربوط ادارہ ہے۔
اس حوالے سے اب تک ہمارے اعلانیہ اعترافات کو بہت اچھالا جاچکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جوہری توانائی کے مسئلے پر بحث و مباحثے کو ختم کر دیں کیونکہ ہمارے اس بحث و مباحثے سے دنیا لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہو جانا چاہیے کہ ہمارے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی بلکہ این پی ٹی (NPT) کے حوالے سے ایران اور لیبیا کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان دونوں ملکوں نے این پی ٹی (NPT) کی طرف سے عائد شدہ پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا انہیں ان پابندیوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی مملکت نے کوئی غلط عمل نہیں کیا ہے اور اسی پر ہمیں قائم رہنا چاہیے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ بات یورپ کے ان ملکوں کے متعلق نہیں کہی جاسکتی جو این پی ٹی (NPT) کے ممبر ہیں اور جن کے شہریوں نے جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کے نٹ بولٹ تک دوسرے ملکوں کو فراہم کیے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ملکوں کی مذمت کیوں نہیں کی گئی اور ان کے افراد کو کیوں بے نقاب نہیں کیا گیا؟
لہٰذا اب اس سارے مسئلے پر بحث و مباحثے کو ختم کر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جوہری توانائی کے شعبے میں قومی سطح پر ہم نے مکمل انتظامات کر لیے ہیں۔ ۲۰۰۰ء میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے جس کس سیکرٹریٹ اسٹراٹیجک پلانز ڈویژن (Strategic Plans Division-SPD) ہے۔ اس کے بہت سے فرائض ہیں۔ ان میں ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ کامرس منسٹری سے نکاسی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے علاوہ برآمدات کے لیے اندرونی انتظامات کا بھی خیال رکھتا ہے۔ غیرفوجی یعنی سویلین سہولتوں کے لیے نیشنل ریگولیٹری اتھارٹی (National Regulatory Authority-NRA) ۲۰۰۱ء میں قائم کر دی گئی ہے۔ یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جو پاکستان کے نیو کلیئر سیفٹی کنونشن میں شامل ہونے کے بعد قائم ہوا ہے۔ توانائی کی تمام تنصیبات کی اجازت دینا اور تمام تابکاری موادات کی رجسٹریشن (بشمول فوجی اسپتالوں میں استعمال ہونے والے آلات کی رجسٹریشن) پاکستان کے اس ادارے کی ذمہ داری ہے جس میں درآمدات اور ان کی تقسیم‘ توانائی کی تنصیبات کا تحفظ وغیرہ بھی شامل ہے۔
اس ادارے کی کارگزاری کا اندازہ ایک مثال سے ہو سکتا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) چشمہ کی تنصیبات کے تحفظ کے بارے میں این آر اے (NRA) کو مطمئن نہ کر سکا لہٰذا اسے اپنے پلانٹ کو تحفظ سے متعلق تمام اندیشے دور ہونے تک بند کرنا پڑا۔ کنوپ (KANUPP) بھی ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند ہے حالانکہ پی اے ای سی (PAEC) نے احتجاج بھی کیا اس کے لیے دوبارہ اجازت لینا ضروری ہے۔
اگر جوہری توانائی کے پھیلائو کے مسئلے کو جس کا پاکستانی سائنسدان نشانہ بنے ہوئے ہیں‘ قطعی طور پر ختم نہیں کر دیا جاتا تو اندیشہ اس بات کا ہے کہ پاکستان سے یہ مطالبہ ہو گا کہ پاکستانی سائنسدانوں سے براہِ راست رابطہ کرنے کی اجازت دی جائے اور جو معلومات انہوں نے حکومتِ پاکستان کو فراہم کی ہیں‘ ان کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ہمیں اس عمل کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دینا چاہیے‘ ورنہ ہمیں مزید مذمت اور سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا۔ امریکا کے تجزیہ نگار پہلے ہی سے اپنی حکومت کو اس جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ امریکا پاکستان کے جوہری توانائی کے پروگرام کے تحفظ کی نگرانی کرے جس میں جوہری توانائی کے سائنسدانوں سے ادویات کے ذریعے معلومات حاصل کرنا اور پاکستان کے جوہری توانائی کے تمام کوائف معلوم کرنا شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان اپنے جوہری توانائی کے پروگرام کے حوالہ کر دے۔ اگر کچھ لوگوں کو اس میں شک ہے تو وہ ۱۱ جنوری ۲۰۰۴ء کے ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ کے شمارے کے آرا کے کالم میں جون ولفس تھل (Jon Wolfsthal) کے مضمون کو پڑھیں۔ اس سلسلے میں کاکس رپورٹ (Cox Report) کو دیکھنا بھی دلچسپی سے باہر نہیں ہو گا جس میں امریکا کی جوہری توانائی اور میزائل ٹیکنالوجی کی سہولتوں کے تحفظ کے بارے میں امریکا کی ناکامیوں کا ذکر ہے۔
ستّر اور اسّی کی دہائیوں کی طرح فی الوقت پاکستان ایک مرتبہ پھر جوہری توانائی کے مسئلے پر دبائو میں ہے اور اپنے سائنسدانوں سے باز پرس کرنے کے عمل نے اس دبائو کو اور بڑھا دیا ہے۔ ڈاکٹر خان کی معافی میں مشروط معافی کی تبدیلی اور پاکستان کی تحقیقاتی کارروائیوں میں کسی مداخلت کی اجازت نہ دینے کے مصمم ارادے کے باوجود امریکا کی مداخلت کے لیے رضامندی کے اظہار نے یورپ‘ جاپان اور آئی اے ای اے (IAEA) کو بھی موقع دیا ہے کہ وہ ہماری اس نرمی سے دھکم پیل کے ذریعے فائدہ اٹھائیں۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ پاکستان اس بات کو واضح کر دے کہ معافی کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ پہلے ہی پاکستان نے اپنے قومی ہیرو سے باز پرس کر کے جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے طریقوں کی پابندی سے اتفاق کیا ہے‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اندرونی و بیرونی دونوں طرف سے بداندیش مفاد پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے لیکن اس سے بیرونی لیڈروں اور ان کے نمائندوں کے اسلام آباد کا رخ کرنے کے مقاصد واضح ہو جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ خاموشی اختیار کر کے ہندوستان نے بھی بالآخر پاکستان کے جوہری توانائی کے پروگرام کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان کو مخالفت کا اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا لہٰذا ہندوستان کے وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے ۶ فروری کو اعلان کیا کہ ڈاکٹر خان کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہو جائے گا کیونکہ یہ مسئلہ پاکستان کا محض اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق پوری بین الاقوامی برادری سے ہے۔ ہندوستانی تجزیہ نگار بین الاقوامی مجالس کے ذریعے بھی پاکستان کی جوہری صلاحیت کی مخالفت کر رہے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی جوہری صلاحیت کو تنقید کا نشانہ نہ بننے دیں تاکہ ہندوستان بین الاقوامی برادری سے اپنی جوہری صلاحیت کو باضابطہ منوا کر اس کے جواز کو بھی تسلیم کرالے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں واشنگٹن کے نیوکلیئر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Nuclear Research Institute) میں ایک مباحثے کے دوران ٹائمز آف انڈیا (Times of India) کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر گوتم ادھکاری نے اعلان کیا کہ پاکستان جس سمت میں قدم بڑھا رہا ہے‘ اس کے خلاف اضطراب برابر بڑھتا جارہا ہے۔
لہٰذا پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ پہلی بات یہ ہے کہ خود تادیبی کا وقت گزر چکا۔ ہم جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے سلسلے میں خاصے آگے بڑھ چکے ہیں اور اب ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ ہم اپنی جوہری توانائی کی صلاحیت کو کسی طرح بھی ناقابلِ استعمال یا ناکارہ نہیں بننے دیں گے جو ہم نے بہت سے شدائد کا مقابلہ کر کے حاصل کی ہے۔ دراصل ہم تو ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری اس حیثیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ذمہ داریوں اور فرائض کا احساس استحقاق کے تسلیم کیے جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اولاً جیسا کہ حال ہی میں اور فروری ۲۰۰۳ء میں بھی جوہری توانائی کے پھیلائو اور تحفظات کے سلسلے میں ہونے والے ویانا (Vienna) کے سیمینار میں مَیں نے تجویز کیا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ہندوستان اور اگر ممکن ہو سکے تو اسرائیل کو بھی جوہری توانائی کے حامل ملکوں کی حیثیت سے جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے عالمی ادارے کے تحت لے آیا جائے۔ ایسا کرنے کے لیے این پی ٹی (NPT) میں ایک اضافی نظم و ضبط کے قواعد کا مسودہ (Protocol) شامل کرنا ہو گا جس کے یہ ممالک جوہری توانائی کے حامل ملکوں کی حیثیت سے پابند ہوں گے۔
این پی ٹی پر ریویو کے لیے ۲۰۰۵ء میں کانفرنس ہونے والی ہے۔ این پی ٹی کے سلسلے میں ریویو کا مقصد ہی یہ ہے کہ وقفے وقفے کے بعد اس بات پر غور کیا جائے کہ این پی ٹی کو کس طرح زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔ اضافی تحفظات کے لیے نظم و ضبط کے قواعد کا مسودہ (Protocol) بھی تو این پی ٹی میں کافی دیر کے بعد شامل کیا گیا تھا۔
اسی طرح پاکستان اور ہندوستان کو این پی ٹی کے زیرِ اثر لانے کے لیے ایک نئے پروٹوکول کا اضافہ اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ جوہری توانائی کی حامل ملکیت کی حیثیت سے جب تک ہم این پی ٹی کا حصہ نہیں بنیں گے‘ ہمیں جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے قواعد اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حسن اتفاق سے بہت سے یورپین ملکوں نے پاکستان اور ہندوستان کے لیے اس اضافی پروٹوکول کے نظریے کو تسلیم کیا ہے حالانکہ یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے اسرائیل اپنے جوہری توانائی کے خول سے باہر آنا پسند نہ کرے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اسرائیل کو بے حد مہلک ہتھیاروں (WMD) کے مسئلے پر بحث میں شامل نہیں کیا جاتا جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کی کوششوں میں بہت کم کامیابی کا امکان ہے۔
اس سلسلے میں اور بھی خود اقدامی کے طریقے ہیں جن کو پاکستان اختیار کر سکتا ہے جو وقتاً فوقتاً تجویز کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں کوئی حرج نہیں کہ پاکستان کی حکومت ازخود اپنی طرف سے این ایس جی اور ایم ٹی سی آر کی ہدایات کے پابند ہونے کا اعلان کر دے۔
ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم علی الاعلان پی ایس آئی کے رکن بننے کے لیے کوششیں کریں جس میں تقریباً ۱۱ ممالک شامل ہیں جو سب کے سب مغربی ممالک ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف گہرے سمندروں میں ممانعت کے مسئلے پر اعتراض ہو سکتا ہے ہمیں یہ بتا دینا چاہیے کہ ایسا عمل کیونکہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے لہٰذا اسے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
فوری طور پر حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کو ایران اور لیبیا کے معاملے میں مثبت انداز سے متحرک ہونا چاہیے اور اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کو تحقیقات کرنے والوں کی ایک ٹیم جرمنی بھیجنے کی اجازت دی جائے جو جرمنی کی ان افراد سے پوچھ گچھ کرے جن کی ایران نے نشاندہی کی ہے اور جرمنی کے ایکسپورٹ کنٹرول سسٹم اور اس کی کمزوریوں کا جائزہ بھی لے۔ بہرحال ہمیں یورپ کے جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کے ناجائز کاروبار کے طور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سائنسدانوں نے اس میں صرف تھوڑا سا حصہ لیا‘ اس کا مواد اور اس کے نٹ بولٹ یورپ نے فراہم کیے۔ اب جب کہ ہمارے سائنسدانوں کو عوام کی نظروں میں ذلت اٹھانی پڑی ہے اور حکومت کی طرف سے بھی ان کی مذمت کی گئی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم یورپی ممالک سے بھی یہ توقع رکھیں کہ وہ بھی اپنے شہریوں سے جو اس جوہری توانائی کے پھیلائو میں ملوث ہیں‘ ایسا ہی برتائو کریں۔ امریکا اور فرانس جیسے ملکوں کے ساتھ جو اسرائیل کو جوہری توانائی فراہم کرنے میں ملوث ہیں کیا برتائو ہونا چاہیے یہ ایک دلچسپ مسئلہ ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ امریکا اپنے اتحادیوں یعنی اسرائیل اور برطانیہ کو جوہری توانائی فراہم کر رہا ہے۔
اب امریکا نے غیرفوجی یعنی سویلین جوہری توانائی‘ فضائی ترقی اور میزائل کے ذریعے تحفظ کے شعبوں میں ہندوستان کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا ہے۔ ان دوہرے عمل والی ٹیکنالوجی کی بالادستی کے پیشِ نظر اس معاہدے کی اس اعتبار سے کون نگرانی کر سکے گا کہ ان ٹیکنالوجیز کا پھیلائو نہ ہو۔
لہٰذا جو جوہری توانائی کے پھیلائو کے مسئلے کے سلسلے میں ایک بالکل نئے رجحان کی ضرورت ہے لیکن یہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ کچھ ملک اس سلسلے میں اپنے ساتھ امتیازی سلوک کے داعی ہیں جیسا کہ آئی اے ای اے کے افسر خاص البرادی نے کہا ہے:
’’ہمیں اس ناقابلِ عمل نظریے کو ترک کر دینا چاہیے کہ کچھ ممالک کے لیے بے حد مہلک ہتھیاروں کا استعمال اخلاقی اعتبار سے قابلِ مذمت ہے جب کہ کچھ ملکوں کے لیے نہ صرف اپنے تحفظ کی خاطر بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور ان کے استعمال کے لیے تدابیر اختیار کرنے کا جواز ہے‘‘۔
(بشکریہ: ششماہی ’’تاریخ و ثقافت پاکتان‘‘۔ اسلام آباد۔شمارہ اپریل تا ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply