
عمرانیات کا ایمان یا ایمانیات سے کیا تعلق ہے؟ بس یوں سمجھئے جیسے ہی دو انسان اکٹھا ہوتے ہیں ایمان بھی آموجود ہوتا ہے۔ ابن خلدون نے کیا خوب کہا ہے کہ انفرادی زندگی گزارنا یا تنہا رہنا تو حیوانی زندگی کا حصہ ہے۔ انسان تو ہمیشہ مل جل کر رہتا ہے اور انسان جب مل جل کر رہتا ہے تو اسے مومن ہوکر رہنا پڑتا ہے یعنی امن و امان سے رہنا اس کے ملنے جلنے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ایمان کی روح اگر سچ پوچھیے تو امن و امان ہی ہے اور لفظ ایمان نکلا بھی امن ہی سے۔ یوں دیکھا جائے تو ایمان انسان کی فطرت میں اسی طرح ہے جس طرح اس کے جسم میں خون گردش کرتا ہے اور جس طرح خون انسان کے جسم کے لیے وجہ حیات ہے‘ اسی طرح انسان کی روح کے لیے ایمان وجہ حیات ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہاں روح کا ذکر کیوں آگیا تو جناب آپ جانتے ہی ہوں گے کہ روح جسم سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔ جسم جب زندگی کی لطافتوں سے دورچار ہوجاتا ہے تو سمجھ لیجئے یہی جسم روح کی صورت اختیار کرلیتا ہے ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ جسم تمام کا تمام روح بن جاتا ہے اور یاد رکھیے کہ جسم اسی وقت روح بنتا ہے جب جسم کو امن و امان نصیب ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر جب جسم میں ایمان خون بن کر دوڑنے لگتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ مل جل کر رہنا انسان کی فطرت میں ہے یا مل جل کر رہنے کے لیے انسان مجبور ہے اور جیسے ہی انسان آپس میں مل جل کر رہنے لگتے ہیں ایک انسانی معاشرہ ظہور میں آنے لگتا ہے۔ انسانی معاشرہ ظہور میں آتا ہے تو اس کی حفاظت کا بھی سوال پیدا ہوتا ہے اور اس طرح ایک حکومت اور ریاست کی تشکیل ہوتی ہے اور حکومت کا کام کیا ہے امن و امان قائم رکھنا۔ گویا لوگوں کو ایمان کے ساتھ اور مومن بن کر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حکومت اور ریاست بھی ایمان کے لیے ظہور میں آتے ہیں۔ حکومت اور ریاست کے ضمن میں سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کام لوگوں پر حکم چلانا یا صرف حکومت کرنا ہے یہ تو ایک جبر کی بات ہوئی۔ ممکن ہے آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ حکم ماننا یا اطاعت کرنا بھی انسان کی فطرت میں ہے۔ وہ اطاعت کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی اس سے صحیح معنی میں اطاعت کرانا چاہے۔ صحیح معنی میں اطاعت کا مطلب خود لفظ اطاعت میں موجود ہے یعنی خوشی خوشی حکم ماننا اور انسان خوشی سے اس وقت حکم مانتا ہے جب اسے یہ پتا چل جاتا ہے کہ اس کا حکم ماننا اس کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ یاد رکھیے کہ انسان وقتی طور پر حکم عدولی کرتا ہے جب تک کہ اسے دیے گئے حکم میں اپنا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ جونہی اسے اپنا فائدہ نظر آتا ہے یا اس کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اس حکم میں اس کا فائدہ ہے تو اس حکم کے ماننے میں وہ ذرا بھی دیر نہیں لگاتا۔ گویا ایمان لانے اور مومن بننے میں انسان ذرا بھی تاخیر سے کام نہیں لینا چاہتا۔ ساری تاخیر ایمان کے بیان کرنے میں اور اس کی وضاحت کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
بقول ابن خلدون ایک انسانی معاشرے پر تین چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں پہلی چیز دین ہے دوسری چیز جغرافیہ اور تیسری چیز وسائلِ حیات کی فراوانی اور عمدگی۔ بقول ابن خلدون ہر معاشرہ یا قوم بہت سوچ سمجھ کر اپنا مذہب اختیار کرتی ہے اور اس مذہب کے عقائد و افکار کا اس قوم کے افراد پر بہت اثر ہوتا ہے۔ لیکن عام اہل دانش اور علماء دین کی طرح ابن خلدون نے یہ نہیں کہا کہ صرف دین ہی کا کسی قوم کے افراد پر زیادہ اثر ہوتا ہے جہاں وہ قوم آباد ہوتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابن خلدون نے مذہب کے اثر کو کم کیا ہے ۔ یہ تو ابن خلدون کی حقیقت پسندی ہے کہ اس نے اردگرد کے حالات اور جغرافیہ کو نظرانداز نہیں کیا اور جہاں تک آب و ہوا اورماحول کی دوسری جغرافیائی خصوصیات کا تعلق ہے اس نے انہیں فراموش بھی نہیں کیا۔ کیونکہ ایمان بہرحال جغرافیہ پر بھی حاوی ہوجاتا ہے۔
مومن کے لیے سردی گرمی‘ پہاڑ یا میدان اور آب و ہوا ایک خاص حد تک ہی موثر ہوتے ہیں آخر اور فیصلہ کن اثر تو دین یا عقیدے ہی کا ہوتا ہے۔ اسی طرح تیسری بنیاد کے بارے میں ابن خلدون کا یہ کہنا ہے کہ وسائلِ حیات کی فراوانی یا آسودہ حالی ایک انسانی معاشرہ پر مزید اثر انداز ہوتی ہے مگر اس طرح نہیں کہ ہم دین یا اپنے عقائد ہی کو بھول جائیں۔ یا سارے عقائد کا اثر بالکل ہی غائب ہوجائے۔ لیکن ہمیں ان تینوں بنیادوں کے اثر انداز ہونے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے یہ تینوں اپنا اپنا اثر دکھاتے ہیں لیکن سب پر دین کا اثر حاوی ہوتا ہے۔ ایمان کی توانائی بشرطیکہ انسان اس توانائی کو اپنے ذہن میں رکھے تو انسان کو کہیں سے کہیں بلند مقام پر پہنچاسکتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے عجیب اور سوچنے کی بات ابن خلدون یہ کہتا ہے کہ عمدہ اور اعتدال کی آب و ہوا اور اچھے علاقوں ہی میں انبیائؑ مبعوث ہوئے ہیں۔ حالانکہ انبیاء تو بہت بڑی بات ہے اپنے وقت کے نابغے اور بڑے لوگ بھی کسی بھی جغرافیائی اعتبار سے خراب جگہ پیدا ہوکر بھی اپنا اثر دکھاتے رہے ہیں۔ گویا بڑے لوگ زمان و مکان سے بلند ہوتے ہیں۔ غالباً ابن خلدون کا یہ مطلب ہرگز نہیں جیسا کہ کچھ مستشرقین نے سمجھ لیا کہ ابن خلدون دین اور مذہب کو آب و ہوا اور ماحول کی پیداوار یا نتیجہ سمجھتا ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ابن خلدون بنیادی طو رپر ایک مذہبی آدمی تھا اور یہ اس کے دینی شعور کا ایک بہت ہی حقیقت پسندانہ پہلو ہے کہ اس نے انسانی معاشرے کا تجزیہ کرتے وقت مادی احوال کو نظرانداز نہیں کیا۔ اسی طرح ابن خلدون نے تو یہ بتانے سے بھی کوئی گریز نہیں کیا کہ اپنی آب و ہوا اور عمدہ ماحول کی خوبیوں پر ناز کرنے سے اس معاشرہ کے لوگ نازیبا تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں جس طرح ارسطو اپنے یونانی ہونے پر فخر کرتا ہے۔ حالانکہ اپنی آب و ہوا کے ساتھ یونان تو آج بھی ہے۔ اب وہاں سقراط اور افلاطون کیوں پیدا نہیں ہوتے۔ اب وہ علاقہ بنجر کیوں ہوگیا ہے؟
اسی طرح وسائل حیات کی قلت و کثر سے متعلق ابن خلدون نے ایک فصل قائم کی ہی اور ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح آسودہ حالی سے انسانی معاشرہ بگڑتا چلا جاتا ہے اور افراد کے اخلاق و عادات اور ان کے جسموں پر کیا اثر پڑتاہے۔ بقول ابن خلدون کھانے پینے کی فراوانی سے فاسد رطوبتیں جسم میں جابجا ابھرتی ہیں اور پھر ان فاسد رطوبتوں سے مادی فضلات پیدا ہوتے ہیں اور پھر یہ دونوں مل کر جسم کی ساخت کو بگاڑنے اور ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد تو درست ہے لیکن بالکل درست نہیں ہے ۔ بہرحال ابن خلدون نے ہر احسان کا اظہار کیا ہے۔ ورنہ آسودہ حالی سے تو جسم بھی خوبصورت ہوتا ہے اور خیالات و افکار میں بھی حسن پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ ضروری بھی نہیں ہے ہاں آسودہ حالی کے ساتھ ایمان‘ عمل صالح اور حق و صبر کی تلقین بھی ہو تو پھر زندگی کی اعلیٰ سطحوں کی بھی کوئی کمی نہیں رہتی۔ انسان کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔ یوں تو آسودہ حالی کے حالات میں بھی یہ چیزیں زندگی کو بلندیاں عطا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’شاہکار میگزین‘‘۔ لاہور۔ شمارہ۔ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply