امریکا بھارت اشتراکِ عمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ۲۶ جون ۲۰۱۷ء کو ایوان صدر (وائٹ ہاؤس) میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی میزبانی کی۔ اس دورے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔ آئیے، امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات اور اشتراکِ عمل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

دفاع اور سلامتی

قابل اعتماد شراکت دار

امریکا اور بھارت دفاع کے حوالے سے بہت اچھے پارٹنرز رہے ہیں۔ امریکا نے بھارت کو جنگی ساز و سامان اور محدود پیمانے پر ٹیکنالوجی کی فراہمی کے حوالے سے قابل اعتماد دوست کا کردار ادا کیا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھارت کو اپنی دفاعی صلاحیت کی تجدید اور اصلاح کی ضرورت تھی۔ سرد جنگ کے دور میں بھارتی قیادت سوویت یونین کی طرف جھکی ہوئی تھی اور دفاعی معاملات میں اُسی پر انحصار کرتی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے پر ناگزیر تھاکہ بھارت اپنی فوج کی تشکیلِ نو کرے اور اسلحہ کے ذخائر کو بھی تجدید کے مرحلے سے گزارے۔ امریکا نے اس معاملے میں اس کا خوب ساتھ دیا ہے۔ امریکا نے بھارتی بحریہ کے لیے فضائی نگرانی کا نظام بھی فراہم کیا ہے۔ اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹر دیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ C-17 طیارے بھی فراہم کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا نے بھارتی فوج کو دشمن کے طیاروں اور دیگر ساز و سامان پر جھپٹنے کی جارحانہ صلاحیت پروان چڑھانے میں بھی معاونت کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو دفاعی سودے طے پائے ہیں اُن کی تکمیل سے بھارتی فوج غیر معمولی صلاحیت کی حامل ہوجائے گی۔ ۱۹ ؍ارب ڈالر سے زائد کے ان دفاعی سودوں کی تکمیل سے امریکا میں ہزاروں افراد کو ملازمت بھی ملے گی۔ امریکا نے بھارت کو ایف۔۱۶ اور ایف اے۔۱۸ لڑاکا طیاروں کی بھی پیشکش کی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دفاع کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کی خاص نشاندہی کرتی ہے۔

Defense Technology and Trade Initiative

دونوں ممالک کے درمیان (DTTI) دفاعی امور کے حوالے سے خصوصی نوعیت کے تعاون اور اشتراکِ عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس فورم سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اور بھارت دفاعی ساز و سامان کی مشترکہ پیداوار کے حوالے سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس فورم کے تحت سات ورکنگ گروپ قائم کیے گئے ہیں، جو دفاع کے حوالے سے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ امریکا سے محض اسلحہ حاصل نہ کرے بلکہ ٹیکنالوجی بھی لی جائے اور دفاعی ساز و سامان کی مشترکہ پیداوار کے حوالے سے بھی اشتراکِ عمل بڑھایا جائے۔ ڈی ٹی ٹی آئی کے حوالے سے دونوں ممالک کے نمائندوں کے تازہ ترین اجلاس اپریل۲۰۱۷ء میں ہوئے۔

افواج کی سطح پر اشتراکِ عمل

امریکا اور بھارت کی افواج کے درمیان تعلقات زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے عسکری اور سول حکام آئے دن ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ دونوں ممالک سالانہ بنیاد پر مالابار بحری مشقیں کرتے ہیں۔ ماہ رواں کے دوران بحر ہند میں ہونے والی مالابار مشقیں اب تک کی سب سے وسیع البنیاد مشقیں ہوں گی۔ ان میں امریکا اور بھارت کے علاوہ جاپان کی بحریہ بھی شریک ہوگی۔ مالابار بحری مشقوں کے علاوہ امریکا اور بھارت کی افواج وجر پرہار اسپیشل فورسز مشقوں، ریڈ فلیگ ایئر فورس مشقوں اور یدھ ابھیاس آرمی مشقوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

انسدادِ دہشت گردی

امریکا اور بھارت نے دہشت گردی کی مختلف اقسام کا سامنا کرنے کے معاملے میں بھی اشتراکِ عمل بڑھانے پر توجہ دی ہے۔ اس حوالے سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے کا نظام بھی اپنایا گیا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود رکھنے پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے۔ دونوں ممالک دہشت گردوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے ایک دوسرے کی غیر معمولی حد تک مدد کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں U.S. Terrorist Screening Center اور بھارت کے اسی نوعیت کے اداروں نے اشتراکِ عمل بڑھانے پر توجہ دی ہے۔

قانون کے نفاذ میں تعاون

امریکا نے ۲۰۰۸ء کے بعد سے بھارت کے ۱۲۰۰ سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق خصوصی تربیت فراہم کی ہے۔

تزویراتی تجارت

The High Technology Cooperation Group (HTCG) کی تشکیل سے دونوں ممالک کے درمیان دفاع کے شعبے میں غیر معمولی اشتراکِ عمل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس گروپ کی تشکیل سے بھارت کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول میں مدد ملی ہے۔ امریکا نے اسے ’’میجر ڈیفنس پارٹنر‘‘ کی حیثیت سے نوازنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ۱۹۹۹ء میں بھارت کے لیے امریکی برآمدات کے ۲۴ فیصد اشیاکے لیے لائسنس کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب یہ تناسب بہت ہی کم رہ گیا ہے۔۲۰۱۶ ء میں صرف اعشاریہ چار فیصد اشیا کے لیے لائسنس کی ضرورت پڑی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کے لیے بھارت دفاعی اور تجارتی امور میں کس حد تک اہم ہے۔

آزاد تجارت

تجارت
امریکا اور بھارت کے درمیان اشیا و خدمات کے حوالے سے تجارت ۲۰۱۶ء میں ۱۱۴؍ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ بھارت میں معاشی شرح نمو ۷ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شعبے میں اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

ہوابازی

۲۰۱۷ء میں بھارتی ایئر لائن اسپائس جیٹ نے ۱۰۰ بولنگ MAX-8s-737 طیاروں کا آرڈر دیا۔ اس آرڈر کے بعد بھارت کی طرف سے دیے جانے والے طیاروں کے آرڈر کی مجموعی مالیت ۲۰ ارب ڈالر سے زائد ہوگئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے دیے جانے والے ان آرڈرز کے ذریعے امریکا میں ملازمت کے ایک لاکھ تیس ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔ جون میں منعقد کیے گئے پیرس ایئر شو کے دوران اسپائس جیٹ نے مزید ۲۰ بوئنگ طیارے خریدنے کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ہوابازی کی تیسری بڑی مارکیٹ

ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ بھارت ۲۰۲۰ء تک تیسری بڑی ایوی ایشن مارکیٹ میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان شہری ہوابازی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تعاون کی بدولت اب امریکا بھارتی شہری ہوابازی میں سلامتی کے معیار کو بلند تر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ متعلقہ اشیا و خدمات فراہم کرنے کے حوالے سے امریکا نے ۶۰ کروڑ ڈالر کی آمدن بھی ممکن بنائی ہے۔

تجارتی سہولت کاری

بھارت اور امریکا نے تجارت میں تعاون بڑھانے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ دونوں ممالک عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تحت Trade Facilitation Agreement (TFA) پر بھی دستخط کرچکے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں تجارتی محاصل اور ٹیکسوں کی شرح نیچے لانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

سرمایہ کاری

بھارتی حکومت نے بتایا ہے کہ امریکا کی بیرون ملک سرمایہ کاری کے حوالے سے بھارت پانچ پسندیدہ ممالک میں سے ہے۔ ’’امریکی ادارہ برائے معاشی تجزیہ‘‘ بتاتا ہے کہ بھارتی تجارتی اداروں نے امریکا میں کم و بیش ۱۱ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملازمت کے کم و بیش ۵۲ہزار نئے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔ صنعتی ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارت کے تجارتی اداروں کی سرمایہ کاری امریکا کی ۳۵ ریاستوں پرپھیلی ہوئی ہے۔

سرمائے کی منڈیاں

امریکی محکمہ خزانہ اور بھارت کی وزارت مالیات کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف تو ٹیکس سے متعلق معاملات کو درست کیا جارہا ہے اور دوسری طرف سرمائے کی منڈیاں مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دو طرفہ سرمایہ کاری بڑھانے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ بھارت کی ترقی کا بڑھتا ہوا گراف امریکا کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور وہ بھارت کو مزید مستحکم کرکے اُسے اپنے لیے تجارت کے ساتھ ساتھ سرمائے کی بھی ایک بڑی منڈی میں تبدیل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میونسپل بونڈ کی مارکیٹ کو پروان چڑھانے کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔

نئے بھارت کے لیے توانائی

مائع گیس کی فراہمی
توانائی کے شعبے کی بھارتی کمپنیوں نے امریکا سے مائع گیس کی خریداری کے لیے ۳۰ ارب ڈالر سے زائد مالیت کے طویل المیعاد معاہدے کیے ہیں۔ لوزیانا اور میری لینڈ سے مائع گیس (ایل این جی) درآمد کی جائے گی۔ صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی اداروں نے امریکا میں ایل این جی اور شیل سیکٹر میں کم و بیش ۱۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

جوہری توانائی

امریکا اور بھارت کے درمیان جوہری توانائی کے شعبے میں بھی غیر معمولی اشتراکِ عمل پایا جاتا ہے۔ بھارت نے چھ Westinghouse Electric AP-1000 جوہری ری ایکٹر آندھرا پردیش میں نصب کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ ان منصوبوں سے لاکھوں بھارتی شہریوں کو بجلی میسر ہوگی۔

قدرتی تیل و گیس

امریکی محکمہ برائے تجارت و ترقی سال رواں کے دوران بھارتی تیل کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیداران کے لیے ایک خصوصی تربیتی کورس کا اہتمام کرے گا، تاکہ بھارتی اداروں کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے مطلوب مہارت فراہم کی جاسکے۔ امریکی قیادت تیل کی صفائی کے حوالے سے بھارتی مہارت کو غیر معمولی حد تک بلند کرنے میں خاص دلچسپی لے رہی ہے۔

گرڈ کی توسیع اور تجدید

امریکا نے بھارت میں بجلی کی پیداوار و ترسیل کا معیار بلند کرنے میں بھی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ تجارت اس حوالے سے نئی دہلی میں Smart Grid and Energy Storage Business Development Mission متعارف کرارہا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں ممبئی اور حیدر آباد میں جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے گی تاکہ بھارت بھر میں توانائی کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جاسکے۔ دونوں ممالک جوائنٹ کلین انرجی اینڈ ریسرچ ڈیویلپمنٹ سینٹر کے ذریعے اسمارٹ گرڈ اینڈ انرجی اسٹوریج کنسورشیا بھی قائم کر رہے ہیں۔

توانائی میں سرمایہ کاری

امریکا بھارت کلین انرجی فنانس ٹاسک فورس امریکا سے جدید ترین متعلقہ ٹیکنالوجی کی بھارت منتقلی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ بھارت میں توانائی کی ۱۲۰۰ ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے۔ امریکا اس میں اپنا حصہ بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ بھی غیر معمولی حد تک متحرک ہے تاکہ دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک آئیں اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کریں۔

عوامی رابطے

امریکا میں بھارتی شہری

اس وقت امریکا میں بھارتی اور بھارتی نژاد شہریوں کی تعداد ۴۰ لاکھ سے زائد ہے، جبکہ بھارت میں مقیم امریکی شہریوں کی تعداد ۷ لاکھ سے زائد ہے۔ دونوں ممالک میں عوامی سطح کے رابطے بڑھتے جارہے ہیں۔ گزشتہ برس امریکا نے بھارتی شہریوں کو ۹ لاکھ ویزے جاری کیے۔ ساتھ ہی ساتھ ۱۷ لاکھ بھارتی شہریوں کو امریکا آنے میں مدد دی گئی۔

سفری سہولیات

امریکی حکومت زیادہ سے زیادہ بھارتی شہریوں کو سفری سہولتیں فراہم کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں بھارتی شہریوں کی آمد سے امریکا میں کم و بیش ۱۳؍ارب ڈالر کی آمدن ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت امریکی سیاحت کی منڈی میں چھٹا بڑا شراکت دار ہوگیا۔

مہارت پروان چڑھانے کا شعبہ

۲۰۱۶ء میں امریکا میں تعلیم پانے والے بھارتی نوجوانوں کی تعداد ایک لاکھ ۶۶ہزار تھی۔ ان کی آمد سے امریکی تعلیمی اور دیگر اداروں کے لیے کم و بیش ۵؍ارب ڈالر کی آمدن کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ملازمت کے ۶۴ ہزار مواقع پیدا کرنے میں مدد ملی۔ ایک عشرے کے دوران بھارتی طلبہ کی آمد سے امریکا میں ۳۱ ؍ارب ڈالر کی آمدن ہوئی۔

انٹرپرینائرشپ

رواں سال بھارت اور امریکا مل کر گلوبل انٹر پرینائر شپ سمٹ کی میزبانی کریں گے۔ اس کا بنیادی مقصد اکیسویں صدی کے تقاضوں کی روشنی میں آجرانہ سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خواتین کے کردار کو بڑھانا بھی ہے۔

امریکا میں بھارتی شہری

امریکا میں رہنے والے بھارتی اور بھارتی نژاد باشندوں نے مختلف شعبوں میں جدید ترین رجحانات کو خوب اپنایا ہے۔ سلیکون ویلی میں بھارت کے ماہرین کی تعداد غیر معمولی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مالیات، تعلیم اور دیگر شعبوں میں بھی بھارتی باشندوں کا کردار وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سلیکون ویلی میں ۱۵ فیصد ماہرین کا تعلق بھارت سے ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں غیر معمولی مہارت کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا خوب منوایا ہے۔

عالمی چیلنجوں سے زور آزمائی

خلائی تحقیق
امریکا اور بھارت نے خلائی تحقیق میں بھی اشتراکِ عمل کو وسیع کیا ہے۔ چاند کی سطح پر پانی کی تلاش اور مریخ سے متعلق مواد کا آپس میں تبادلہ بھی اہم امور میں شامل ہے۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا اور بھارتی ادارے اسرو نے مل کر Synthetic Aperture Radar تیار کیا ہے جو ۲۰۲۱ء میں لانچ کیا جائے گا۔ اس راڈار سے ماہرین کو روئے زمین پر چند انتہائی پیچیدہ نظاموں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

افغانستان کی ترقی
امریکا اور بھارت نے افغانستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے بھی اشتراکِ عمل نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری ۲؍ارب ڈالر ہے۔ وہ مزید ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔ ستمبر ۲۰۱۷ء میں امریکا نئی دہلی میں India-Afghanistan Export, Trade and Investment Fair کی مشترکہ میزبانی کرے گا۔

زرعی شعبے میں تعاون
غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے بھی امریکا اور بھارت نے ایک دوسرے سے تعاون کا معاملہ نظر انداز نہیں کیا۔ ایشیا اور افریقا کے ۱۷ ممالک کے بہت سے ماہرین کو پیداوار میں اضافے کے حوالے سے مہارت کا گراف بلند کرنے میں دونوں ممالک نے غیر معمولی مدد دی ہے۔

امن کی بحالی میں مدد
امریکا اور بھارت نے مل کر امن کی بحالی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی معاونت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ افریقی اتحاد کے ۱۳ ممالک میں دونوں کا اشتراکِ عمل نمایاں رہا ہے۔ ان ممالک کو امن کی بحالی سے ترقی یقینی بنانے کے اقدامات تک مختلف شعبوں میں امریکا اور بھارت کا تعاون حاصل رہا ہے۔ رواں ماہ دونوں ممالک افریقی اتحاد کے ممالک کے لیے اس حوالے سے خصوصی تربیت کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔

بیماریوں پر تحقیق اور علاج
امریکا نے چار عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران مختلف متعدی اور غیر متعدی امراض کے علاج اور ان سے متعلق تحقیق میں بھارت سے غیر معمولی حد تک تعاون کیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ۲۰۲۵ء تک بھارت سے تپ دق کا مکمل خاتمہ ہوجائے۔

Global Health Security Agenda (GHSA)
بھارت اور امریکا (جی ایچ ایس اے) کے ارکان ہیں۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان اشتراکِ عمل مثالی نوعیت کا ہے۔ متعدی امراض کے تدارک کے حوالے سے دونوں ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔ antimicrobial resistance کے حوالے سے بھی انہوں نے خوب اشتراکِ عمل کیا ہے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Fact Sheet: The United States and India — Prosperity Through Partnership”.(“whitehouse.gov”. June 26, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*