فکری اور نظریاتی میدان کو فعال بنانے کی ضرورت!

ایک جریدہ کی اشاعت کے ذریعہ ہم نئے سرے سے اپنی جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں اور اس موقع پر ہمیں علامہ اقبال کا یہ مصرعہ یاد آرہا ہے:

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

ہمارے پیش نظر اس کا مقصد آج بھی ’’فروغِ فکر و آگہی‘‘ ہے۔ اسلامی نظریہ کی اشاعت کی راہ میں حائل رکاٹوں اورمسائل کا ذکر کیا جائے تو بات طویل ہو جائے گی اور ہم یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ ہم اپنے مہربانوں میں سے کسی کا شکوہ کریں۔ ہمیں اللہ ہی پر بھروسہ ہے اور وہی بھروسہ کے لائق ہے۔ ماضی میں ہم نے ایسے مضامین شائع کیے ہیں جن کا ایک اہم مقصد امتِ مسلمہ میں ہم آہنگی اور اخوت کے فروغ کے لئے افکار اور نظریات کا ابلاغ تھا، اب بھی ہم اس ہدف کو آگے بڑھائیں گے۔ گیارہ ستمبرکے واقعے کے بعد یورپ اور امریکہ میں اسلام کے بارے میں بہت سے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ وہاں کی نوجوان نسل میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے نئے نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ترقی کے اس دور میں ضروری ہے کہ اسلام کے علمی اورنظریاتی سرمائے کا بڑے پیمانے پر ابلاغ کیا جائے۔ عالم اسلام کے اندر مختلف مکاتب فکر کے درمیان جو چیز پل کا درجہ رکھی ہے وہ اجتہاد ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں اجتہاد کا علمی حوالے سے احیاء ضروری ہے۔ اسلامی دنیا کی نوجوان نسل بھی ایسے ایسے استفسارات کر رہی ہے جن کے جواب دینا ازبس ضروری ہو چکا ہے۔ یہ جوابات ہم اجتہادی بصیرت کے بغیر نہیں دے سکتے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے اور سیرت النبیﷺ اس کی عملی تفسیر ہے۔ بعض مسائل جو عہد حاضر میں درپیش ہیں‘ چودہ سو سال پہلے ان کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ لیکن قرآن حکیم میں بنیادی اسلامی تعلیمات واضح طور پر موجود ہیں اور ہر دور کے مسائل کے حل کرنے کے لئے نیز ہر سطحِ فکر کے انسان کو مطمئن کرنے کے لئے اسلام نے اصول بیان کر دیے ہیں۔ انہی اصولوں کی روشنی میں عہد حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیں جواب دینا ہوگا۔ عصر حاضر میں اجتہاد کی یہی جہت اپنا کر ہم اسلام کا دفاع بھی کر سکتے ہیں اور اس کے فروغ کا اہتمام بھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اہل فکر و نظر کے مابین مختلف ایشوز پر مکالمے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ یہ کام اُن سبھی گروہ کو کرنا چاہیے جو اسلام کے احیاء کا درد رکھتے ہیں اور ان شاء اﷲ ہمارے جریدہ یعنی ’’پیام‘‘ کے صفحات بھی انہی مقاصد کے لئے مختص ہوں گے۔ اب یہ دانشور طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشن کی تکمیل کے لئے قلم کے ذریعے رہنمائی کرے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افکار و نظریات کی صحت مندانہ تنقید سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھا جاسکتا ہے اور اصلاح کا پہلو نکل سکتا ہے۔ البتہ تنقیص اور نفرت انگیزی کا رویہ درست نہیں، کیونکہ اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ اسلام کو منظور نہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ مشترکات کو عام کیاجائے اور اختلافات کو علمی بنیادوں پر زیر بحث لانے کے علاوہ ان میں بھی خیر کا عنصر تلاش کیا جائے۔

٭٭٭

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*