
لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کو ختم ہوئے تین سال ہوچکے ہیں۔ اس مدت میں لیبیا کا جو حال ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ جسے افریقا کی چند عظیم اقوام میں شمار کیا جاتا تھا، وہ آج غیر معمولی شکست و ریخت سے دوچار ہے اور ہر طرف عدم استحکام ہے۔
معمر قذافی نے ۱۹۶۷ء میں جب اقتدار سنبھالا تھا، تب لیبیا کا شمار افریقا کی کمزور ترین اور انتہائی غریب ریاستوں میں ہوتا تھا۔ مگر انہوں نے لیبیا کو افریقا کی خوش حال ترین ریاستوں میں شامل کیا۔ پورے افریقا میں سب سے زیادہ اوسط عمر اور سب سے زیادہ انفرادی یا فی کس آمدن لیبیا میں تھی۔ لیبیا میں ہالینڈ کے مقابلے میں کم افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے تھے۔
۲۰۱۱ء میں نیٹو کی مداخلت کے بعد سے اب لیبیا ناکام ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ ریاست کی عملداری ختم ہو جانے اور ملیشیا کا کنٹرول بڑھنے سے تیل کی پیداوار تقریباً رک چکی ہے۔ مقامی، قبائلی، علاقائی، اسلامی اور کریمنل ہر طرح کی ملیشیا نے نیٹو کی مداخلت کے بعد سے لیبیا کے استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ اب ملیشیاؤں کے دو گروپ بن چکے ہیں۔ یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور ان کی باہمی لڑائی سے لیبیا کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ اس وقت لیبیا میں دو حکومتیں ہیں۔ ان دونوں حکومتوں کا اپنا اپنا وزیراعظم، پارلیمنٹ اور فوج ہے۔ اسی سے ملک کی اصل حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیبیا کے مغرب میں اسلامی عسکریت پسندوں نے دارالحکومت ٹریپولی سمیت بہت سے علاقوں کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی فوج بنا رکھی ہے اور گزشتہ موسم گرما میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ دوسری طرف مشرقی لیبیا میں مسلم شدت پسندوں کے خلاف قائم حکومت خود کو قانونی اور جائز کہتی ہے مگر اس کا دائرۂ عمل بہت محدود ہے۔
معمر قذافی کا اقتدار ختم ہونے کے بعد سے لیبیا مکمل انتشار کی حالت میں ہے۔ اس کی سرحدیں اب کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی آمد و رفت بہت بڑھ گئی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا دھندا بھی عروج پر ہے۔ مصر، الجزائر اور تیونس نے لیبیا سے ملنے والی سرحدیں بند کردی ہیں۔ مغربی سفارت خانے لیبیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ لیبیا کا موجودہ نام نہاد حکمران سی آئی اے کا تربیت یافتہ ہے۔ اُس نے سی آئی اے کی مدد سے لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کی کئی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک بڑی کوشش ۱۹۹۶ء میں کی گئی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے بتایا تھا کہ ہفتر کا شمار اُن ۶۰۰ جنگجوؤں میں ہوتا ہے کہ جنہیں سی آئی اے نے معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خصوصی تربیت دی تھی۔ یہ سب کچھ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی خواہش پر ہوا تھا کیونکہ وہ لیبیا میں حکومت کی تبدیلی کی شدید خواہش رکھتے تھے۔
اب ہفتر کی فورسز القاعدہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم الانصار الشریعہ کے ساتھ مل کر لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ الانصار الشریعہ کو معمر قذافی کے مقابل نیٹو فورسز نے کھڑا کیا تھا۔ سی آئی اے اور نیٹو کی دوسری بہت سی کوششوں کی طرح یہ کوشش بھی بیک فائر کرگئی ہے۔ امریکا نے الانصار الشریعہ پر اپنے سفیر اسٹیونز کی ہلاکت کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکا اب بھی ہفتر کی حمایت اور مدد کر رہا ہے۔ سبب یہ ہے کہ ہفتر لیبیا کو سیکولر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا کو ایسا ماحول چاہیے جس میں وہ کسی طرح کی رکاوٹ کے بغیر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرسکے اور لیبیا کے قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے۔
لیبیا کے سابق لیڈر کا جرم کیا تھا؟ معمر قذافی چاہتے تھے کہ بیرونی سرمائے پر علاقائی اور مقامی مفادات کو ترجیح دیں۔ وہ علاقائی لیڈروں کو ساتھ ملا کر علاقائی مفادات کو اولیت دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ افریقی ریاستوں کو ہم آہنگ اور متحد کرکے پورے افریقا کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی بھی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ یہ امریکا اور یورپ سے گوارا نہ ہوا کیونکہ اِس صورت میں اُن کے تمام مفادات داؤ پر لگ سکتے تھے۔ ایسے میں ناگزیر تھا کہ معمر قذافی سے جان چُھڑائی جاتی۔ معمر قذافی تو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کے لیے افریقا کی سطح پر بھی ایسا ہی ادارہ قائم کرنے کے بھی درپے تھے۔ انہوں نے افریقا کے لیے ایک سینٹرل بینک کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ اس مقصد کے لیے معمر قذافی نے لیبیا کے مرکزی بینک میں ۳۰؍ارب ڈالر بھی رکھے تھے جو اگست ۲۰۱۱ء میں امریکی صدر براک اوباما نے ضبط کرلیے۔ اب یہ بات سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ نیٹو فورسز نے لیبیا میں جو کچھ کیا، اس کا مقصد لیبیا کے عوام کی مدد کرنا نہیں تھا کیونکہ وہ تو پہلے ہی بہت اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اصل مقصد معمر قذافی کی حکومت ختم کرنا اور خود قذافی کو عبرت کا نشان بنا دینا تھا۔ جرم اِس کے سوا کیا تھا کہ قذافی نے افریقا میں مکمل ہم آہنگی اور اتحاد و یگانگت کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کے بعد لیبیا میں اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت کا قیام آسان ہو جاتا اور یہی ہوا۔ اب امریکا اور یورپ لیبیا کو عبرت کا نشان بناکر دیگر افریقی ریاستوں کے لیے مثال قائم کرچکے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی علاقائی سطح پر اتحاد کا خواب کیوں دیکھے گا؟
معمر قذافی نے کم و بیش چالیس سال تک لیبیا بھر میں معیارِ زندگی بلند کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تیل اور گیس کی دولت کو بہبودِ عامہ پر خرچ کیا گیا۔ ملک بھر میں تعلیم بھی مفت تھی اور صحت کی تمام سہولتوں پر بھی کسی کو ایک دھیلا خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ لیبیا کے ہر باشندے کو خطیر رقوم پر مشتمل قرضے بھی ملتے تھے۔ ملک بھر میں بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں مفت میسر تھیں۔ جب سے معمر قذافی کا اقتدار ختم ہوا ہے، ملک بھر میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فلپائن سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ ورکر نے ملک سے چلے جانے کو ترجیح دی ہے۔ جس ملک میں ایک پل بھی بجلی نہیں جایا کرتی تھی، وہاں اب دارالحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹوں کا بلیک آؤٹ عام بات ہے۔ معمر قذافی سے گلو خلاصی نے لیبیا کو کسی سہولت سے ہمکنار نہیں کیا بلکہ تقریباً سب کچھ چھین لیا ہے۔
نیٹو نے لیبیا کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس کا سب سے بُرا نتیجہ لیبیا کی خواتین کو بھگتنا پڑا ہے۔ عرب دنیا میں لیبیا ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کی آزادی تھی۔ وہ جائیداد بھی رکھ سکتی تھیں اور اپنی الگ آمدن کا حق بھی حاصل تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق کمیشن نے خواتین کو ان کے حقوق دینے کے حوالے سے معمر قذافی کو سراہا ہے۔
آج کے لیبیا میں خواتین کے لیے بے انتہا مشکلات ہیں۔ جب معمر قذافی نے اقتدار سنبھالا تھا تب چند ہی خواتین یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم پاتی تھیں۔ اب یونیورسٹی میں نصف تعداد طالبات کی ہے۔ معاشرہ ایک بار پھر قبائلی ثقافت کی برتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مردوں کے غلبے اور تسلط والے معاشرے میں خواتین کے لیے امکانات محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں۔ اسلامی شدت پسندوں کو تیزی سے بڑھاوا ملا ہے جو خواتین کی آزادی کو مغرب کی طرف سے مداخلت کا ایک طریقہ گردانتے ہیں۔
تین سال قبل نیٹو نے بہت فخر سے اعلان کیا تھا کہ لیبیا میں اس کا مشن انتہائی کامیاب رہا ہے۔ بلکہ اُس نے تو لیبیا کے مشن کو اپنی بڑی کامیابیوں میں شمار کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹو نے مداخلت کرکے لیبیا، شام اور عراق کو مکمل تباہی سے دوچار کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک غیر معمولی حد تک مستحکم اور ترقی یافتہ تھے اور ان کے باشندوں کو اعلیٰ ترین معیارِ زندگی میسر تھا۔ مغربی دنیا نے عسکری مداخلت کے ذریعے ان ممالک کو تباہ کیا ہے۔ اب عوام پریشان ہیں کہ وہ معیارِ زندگی کہاں سے لائیں اور استحکام کس طور بحال کریں۔
ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہوا ہے، اُس سے اِس خطے کے لوگوں ہی کو نہیں بلکہ خود امریکی عوام کو بھی کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس صورت حال سے اگر فائدہ پہنچا ہے تو صرف امریکی اسلحہ ساز اداروں کو۔ اُن کی تو چاندی ہوگئی ہے۔ امریکی منتخب حکومت اور فوج نے مل کر ایسی صورت حال پیدا کی ہے جس میں وہ خرابیوں سے فوائد بٹورنے میں مصروف ہیں۔ عراق پر لشکر کشی کے بعد کویت، متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب اور قطر میں امریکی فوجی اڈے تعمیر کیے گئے۔ اس کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا۔ یہ سب کچھ امریکی عوام کی جیب سے گیا۔
افغانستان میں نیٹو کی لشکر کشی کے بعد امریکا نے پاکستان، تاجکستان، قازقستان اور ازبکستان میں فوجی اڈے تعمیر کیے۔ اسی طور لیبیا میں بھرپور عسکری کارروائی کے بعد خطے کے تمام ہی ممالک میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں امریکا نے نیجر، برکینا فاسو، جنوبی سوڈان، سیشلز اور کینیا میں بھی فوجی اڈے تعمیر کیے ہیں۔ ان اڈوں کے قیام کا بنیادی مقصد خطے کے تمام ممالک کو امریکی طاقت دکھانا ہے۔ لیبیا میں قدم جمانے کے بعد امریکیوں نے پورے خطے کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے۔
لیبیا میں نیٹو نے جو کارروائی کی وہ امریکا کے اسلحہ ساز اداروں اور آئل کمپنیوں کے لیے تو سود مند ثابت ہوئی ہو گی مگر لیبیا کے عوام کی مشکلات کے پیش نظر اِسے اکیسویں صدی کی ناکام ترین کارروائیوں میں شمار کیا جائے گا۔
“Libya: From Africa’s richest state under Gaddafi, to failed state after NATO intervention”.
(“Global Research”. Oct. 19, 2014)
Leave a Reply