
بنگلہ دیش میں جمہوریت دم توڑ چکی ہے۔ اس کی قبر پر حسینہ واجد نے اپنی تاج پوشی کی رسم ادا کی ہے۔ ۵ جنوری ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کو بہت اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا کہ اس مرتبہ انتخابات ہائی جیک کیے جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے پولنگ کا بائیکاٹ کیا۔ ملک بھر میں کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں کی شرح ۱۰ فیصد تک رہی۔ اس کے باوجود شیخ حسینہ واجد دعویٰ کر رہی ہیں کہ انہوں نے عوامی فتح حاصل کی ہے۔ پارلیمنٹ کی ۳۰۰ میں سے ۱۵۳ نشستیں تو ویسے ہی، بلا مقابلہ جیتی جاچکی تھیں۔ ان نشستوں پر انتخاب عوام کے ہاتھوں نہیں بلکہ شیخ حسینہ اور ان کے رفقا کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ آمریت میں عوام کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی مگر جمہوریت تو عوام کی رائے کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ شیخ حسینہ بضد ہیں کہ عوام کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات شفاف اور غیر جانبدار ہوئے ہیں اور یہ کہ جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ ہر اعتبار سے نمائندہ ہے۔
انتخابات کو مکمل طور پر ہائی جیک کرنے کے لیے لازم تھا کہ حکومتی مشینری میں سب کچھ اپنی مرضی کا ہوتا۔ سب سے پہلے تو آئین میں ترمیم کرکے نگراں حکومت کی راہ مسدود کی گئی۔ نگراں حکومت انتخابات کراتی تو دھاندلی کی ذرا بھی گنجائش نہ رہتی۔ اس کے بعد لازم تھا کہ حکومتی مشینری اپنی مرضی کی ہو۔ شیخ حسینہ واجد نے عدلیہ، فوج اور پولیس میں اپنی مرضی کے لوگ بٹھائے۔ ان سب نے مل کر گرتی ہوئی مقبولیت کے باوجود عوامی لیگ کے اقتدار کے تسلسل کی راہ ہموار کی۔ تقریباً تمام ہی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے پولنگ کا بائیکاٹ کیا۔
ڈھاکا سے شائع ہونے والے اخبار ’’پرتھوم آلو‘‘ نے لکھا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے حلقے ضلع گوپال گنج سے ایک لاکھ ۸۷ ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حلقے کے ۲ لاکھ ۱۲ ہزار ووٹروں میں سے ۸۸ فیصد سے بھی زائد نے ووٹ کاسٹ کیے ہوں گے۔ یہ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ووٹنگ کا اتنا بڑا تناسب اسی وقت ہوتا ہے جب کانٹے کا مقابلہ ہو اور ہر امیدوار اپنے ووٹروں کو رجھانے میں کامیاب ہوا ہو۔ شیخ حسینہ کو تو کسی سے مسابقت کا سامنا ہی نہیں تھا۔ پھر بھلا لوگ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے کیوں آتے؟ ملک بھر میں عوامی لیگ نے کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں کے تناسب کے حوالے سے جو کہانیاں سنائی ہیں، وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات کو ہر اعتبار سے جائز اور نمائندہ قرار دینے کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہوگی اور کس طور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا پھیلاکر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہوگی۔
انتخابات ہوچکے ہیں مگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنے والا کوئی نہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نے انتخابات کو انتہائی ناقص اور بے چہرہ بنادیا ہے۔ شیخ حسینہ نے جعلی انتخابات کرائے ہیں جن میں حاصل ہونے والی نام نہاد فتح کو عالمی برادری کسی بھی طور قبول نہیں کرسکتی۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے انتخابات کو محض ڈھکوسلہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بار تو کم ترین شرح سے پولنگ کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ عوام نے انتخابی عمل میں شرکت ہی نہیں کی۔ جمہوریت کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دور میں سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ جنگ میں برطانیہ فاتح کی حیثیت سے ابھرا مگر اس کے باوجود ونسٹن چرچل دوبارہ وزیر اعظم منتخب نہ ہوسکے۔ پارلیمنٹ میں دوبارہ قدم رکھنے کے لیے لازم تھا کہ ان کی پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے۔ یہ تو ہوا فاتح وزیر اعظم کا انجام۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنی قوم کے لیے کون سی جنگ جیت لی ہے۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب عوامی لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے پہلے دور میں شیخ حسینہ واجد نے کرپشن کے غیر معمولی ریکارڈ قائم کیے۔ ان کی کابینہ کے ارکان اور دیگر اہم شخصیات نے سرکاری زمینیں بیچ کھائیں، ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈ میں بڑے پیمانے پر خورد برد ہوئی۔ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک نے پدما برج کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈ روک لیے۔
شیخ حسینہ کے دور میں سوال صرف کرپشن کے پھیلنے کا نہیں، امن و امان کا مسئلہ بھی رہا ہے۔ ان کے دور میں دہشت گردی چند جرائم پیشہ افراد کا کام نہیں رہا بلکہ ریاست کی سرپرستی میں جاری رہنے والی سرگرمی بن چکا ہے۔ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق شیخ حسینہ کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں سرکاری مشینری، پولیس، جرائم پیشہ افراد اور ریپڈ ایکشن بٹالین کے ہاتھوں کم و بیش ۲۲ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ بہت سوں کو اغوا کیا گیا اور پھر اہل خانہ کو ان کی لاشیں ہی مل سکیں۔ اب بھی ہزاروں افراد جیلوں میں بغیر مقدمات کے سڑ رہے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں لوگ اس امید پر جیتے ہیں کہ انتخابات ہوں گے تو وہ ناپسندیدہ عناصر سے نجات پالیں گے اور اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کرکے حکومتی نظام بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ مگر شیخ حسینہ واجد نے انتخابی عمل ہی کو غیر موثر اور ناقص بنا ڈالا ہے۔
آئین کا بہانہ
شیخ حسینہ نے کہا ہے کہ انتخابات اس لیے کرانے پڑے کہ آئین کا تقاضا یہی تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ انہیں بھی اندازہ تھا کہ عوامی لیگ اور خود ان کی مقبولیت ریکارڈ گراوٹ کو چھو رہی ہے۔ ایسے میں آزاد اور شفاف انتخابات سے ان کی مراد بر نہ آسکے گی۔ ۲۰۰۱ء میں بھی شیخ حسینہ نے بیگم خالدہ ضیاء کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے فوجی بغاوت کا ڈراما رچانے کی کوشش کی تھی۔ وہ انتخابات میں شکست سے ایسی دل برداشتہ تھیں کہ وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہیں۔
شیخ حسینہ میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ عوام کا سامنا کرتیں کیونکہ ان کے پہلے دورِ حکومت میں لوگوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب وہ عوام کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لیے جعلی انتخابات کے ذریعے خود کو پانچ سال کے لیے وزیر اعظم قرار دلواچکی ہیں۔ اس وقت بھی حالت یہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی طرف سے واضح تحفظ فراہم نہ کیے جانے پر عوام میں نہیں جاسکتیں۔ وہ سڑک پر چل بھی نہیں سکتیں۔ آئین کے آرٹیکل (۲) ۵۶ کے تحت جائز حکومت کے قیام کے لیے انتخابات ناگزیر ہیں مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب پورا ملک ہی انتخابی عمل کو، بعض خرابیوں اور نقائص کے باعث، نظر انداز بلکہ مسترد کر بیٹھا ہو تو پولنگ کی وقعت کیا رہ گئی؟ ایسے میں جو لوگ ’’منتخب‘‘ ہوئے ہیں، انہیں کس طور عوام کے حقیقی نمائندے قرار دیا جاسکتا ہے؟ جمہوریت کو جاری رکھنے اور جمہوری کلچر کو توانا رکھنے کے لیے انتخابات ناگزیر ہیں مگر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ آزاد اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ اگر الیکشن کمیشن ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر پولنگ کی کوئی اہمیت اور وقعت باقی نہیں رہتی۔ جن حالات میں پولنگ ہوئی ہے ان کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے اقدامات کو جرائم میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولنگ کے نام پر عوام کی اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے۔ اقتدار پر ان لوگوں نے قبضہ کرلیا ہے جو عوام کے مفاد کی کوئی بات نہیں کرتے۔ ان غاصبوں کی چھٹی کرنا اب عوام کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
شیخ حسینہ واجد دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ آئین کی محافظ ہیں۔ گویا ۱۹۹۱ء، ۱۹۹۶ء اور ۲۰۰۱ء میں آئین کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جاسکا تھا۔ شیخ حسینہ واجد کو آئین کا کس حد تک خیال ہے، اس کا اندازہ اس ترمیم سے لگایا جاسکتا ہے جس کے ذریعے انہوں نے نگراں حکومت کی گنجائش مکمل طور پر ختم کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ حسینہ نے آئینی ترامیم کو کبھی ناپسند نہیں کیا۔ انہوں نے اقتدار ملنے پر اپنی مرضی کی آئینی ترامیم متعارف کرائیں تاکہ اقتدار کو طول بھی دیا جاسکے اور کوئی حساب بھی طلب نہ کرے۔ انہوں نے تو آئین میں سے وہ عہد بھی خارج کردیا جس کے ذریعے اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ نگراں حکومت کے تحت انتخابات ہوئے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ یہی سبب ہے کہ پہلی فرصت میں انہوں نے نگراں حکومت کا سیٹ اپ ختم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ حکومتی مشینری اپنی مرضی کی ہو تاکہ وہ پولنگ میں اپنی مرضی کے نتائج آسانی سے حاصل کرسکیں۔
مخالفین کو الگ رکھنے کی سیاست
کسی کو جائز عمل سے دور رکھنے کا عمل ہمیشہ بھیانک نتائج پیدا کیا کرتا ہے۔ عالمی سطح پر دیکھیے تو بڑی طاقتیں جب چھوٹی طاقتوں کو دور رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہتی ہیں تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور معاملات جنگ کے میدان میں طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دو عالمی جنگیں اسی حقیقت کی طرف اشارا کرتی ہیں۔ بڑی طاقتوں نے جنگیں اور مناقشے ٹالنے ہی کے لیے ایران، شمالی کوریا، کیوبا اور دیگر ممالک سے بات چیت کا راستہ اپنایا ہے۔
بنگلہ دیش میں معاملات اس کے برعکس ہیں۔ سیاسی عمل میں مخالفین کو حصہ لینے سے روکا جارہا ہے۔ انتخابی عمل کو بھی مخالفین کے لیے انتہائی ناقابل قبول بنادیا گیا ہے۔ جن کی رائے سے اختلاف ہو، انہیں سیاست یا انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا عمل معاشرے میں صرف خرابی پیدا کرسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ ہو رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی مشینری کا استعمال معاملات کو انتہائی پیچیدہ بنا رہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے سیاست اور آئین کو اپنے مخالفین کی طاقت کم کرنے اور انہیں شکست سے دوچار رکھنے کا آلہ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ ان کے والد شیخ مجیب الرحمن بھی یہی کرتے تھے۔ شیخ مجیب کے مخالفین کو جیل میں وقت گزارنا پڑتا تھا۔ ان کے سیاسی عمل میں پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی تھی۔ عوامی لیگ کے آشیرواد سے گھٹک دلال نرمول کمیٹی مذہبی رہنماؤں کو ختم کرنے کے نقطۂ نظر سے قائم کی گئی تھی۔ مخالفین کو ختم کرنے کا جواز بیان کرنے کے لیے انہیں اسلامی شدت پسند یا رجعت پسند کہہ دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ جماعت اسلامی، حزب التحریر یا کسی اور مذہبی جماعت یا گروپ نے بنگلہ دیش میں کسی ایک ہندو کو بھی قتل کیا ہو یا کسی ایک ہندو کے گھر کو بھی آگ لگائی ہو۔ مگر اس کے باوجود عوامی لیگ کی طرف سے ہر معاملے میں صرف اسلامی شدت پسندی کا رونا رویا جاتا ہے۔ گویا ہر معاملے میں خرابی صرف مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں پیدا کرتی ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن اور بھارت کے دیگر طفیلیوں اور حاشیہ برداروں نے بھارت کی سیاست سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بھارت کی سیاست اور معیشت میں مسلمانوں کو انتہائی کمزور کرنے اور غیر مؤثر رکھنے لیے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے انتہا پسند ہندو تنظیموں وشوا ہندو پریشد، شیو سینا، بجرنگ دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلمانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے حوالے سے فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ پانچ عشروں کے دوران بھارت بھر میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ مسلمان سیاست، معیشت اور معاشرت کے حوالے سے دوبارہ ابھر نہ سکیں، خطرہ نہ بن سکیں۔ گودھرا، احمد آباد، ممبئی، بریلی، مظفر نگر، علی گڑھ، الٰہ آباد، حیدرآباد دکن اور دیگر بہت سے شہروں اور قصبوں میں مسلمانوں کے لیے معاملات انتہائی خراب کیے جاتے رہے ہیں۔ ایودھیا میں پولیس کی موجودگی میں ہندو انتہا پسندوں نے تاریخی بابری مسجد شہید کردی۔ مسلمانوں کا مورال گرانے کے لیے اور بھی بہت کچھ کیا جاتا رہا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے بھارت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی بھارت میں کسی ایک بھی فرقہ پرست ہندو جماعت یا تنظیم پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ وہ سیاست میں حصہ لے سکتی ہیں، دفاتر کھول سکتی ہیں، اخبارات جاری کرسکتی ہیں اور الیکشن جیت کر حکومت بھی قائم کرسکتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی کا نام بنگلہ دیش کریشک شرمک عوامی لیگ تھا۔ کسی دوسری جماعت کے لیے قائم ہونے یا پنپنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ شیخ حسینہ بھی وہی غلطی کر رہی ہیں جو ان کے والد نے کی تھی۔ وہ مخالفین کو سیاسی عمل سے باہر کر رہی ہیں۔ شیخ مجیب کی ایسی ہی کوششوں نے انہیں سیاسی عمل ہی نہیں، اس دنیا سے باہر کردیا۔ اگر شیخ حسینہ واجد سیاسی عمل کو درست طریقے سے جاری رکھنا چاہتی ہیں تو مخالفین کو قبول اور برداشت کرنا ہوگا۔ مخالفین کو الگ تھلگ رکھ کر وہ سیاسی عمل کو بہتر انداز سے چلانے کے قابل نہیں ہوسکتیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعد ضیاء الرحمن کا دور آیا۔ انہوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سیاست اپنائی۔ انہوں نے پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی قبول کیا۔ اس کے نتیجے میں ضیاء الرحمن کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ عبدالرحمن بسواس بنگلہ دیش کے صدر اور شاہ عزیز الرحمن وزیراعظم بنے۔ پاکستان نے بھی کانگریس کے چند ہندو رہنماؤں کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت دی تھی گوکہ انہوں نے پاکستان ہی کے وجود سے انکار کیا تھا اور بھارت کی تقسیم کے خلاف پوری شد و مد سے تحریک چلائی تھی۔ شیخ حسینہ کو بھی رواداری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب تک تو یہ ہوا ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کے رفقا نے تمام اہم عہدوں سے مخالفین کو ہٹا دیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کوئی بھی مخالف کسی اہم منصب پر نہ رہے، کوئی بات نہ کہہ سکے، کوئی بات منوا نہ سکے۔
غداری کی سیاست
۵ جنوری کے انتخابات سے ثابت ہوچکا ہے کہ انتخابی عمل سے کسی بھی ناپسندیدہ جماعت کے اقتدار کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے ناپسندیدہ حکمران حسین محمد ارشاد تھے جنہوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی حکومت قائم کی تھی مگر انہیں بھی انتخابی عمل سے ہرانا ممکن نہ ہوسکا کیونکہ اس عمل پر وہ تسلط قائم کرکے مرضی کے نتائج حاصل کرلیتے ہیں۔ جب عوام میدان میں نکلے تب حسین محمد ارشاد کا بوریا بستر گول ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا زیادہ مشکل کام نہیں۔ اقتدار میں جو بھی ہو، وہ پوری مشینری کو اپنی مٹھی میں لے سکتا ہے۔ بہت غور و خوض کے بعد ۱۹۹۶ء میں تمام جماعتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ جب کسی منتخب حکومت کی میعاد پوری ہونے کو آئے تو ایک غیر جانبدار نگراں حکومت اقتدار اپنے ہاتھ میں لے، شفاف انتخابات کرائے اور عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت کو اقتدار سونپ کر رخصت ہو جائے۔ شیخ حسینہ واجد ہر حال میں اقتدار سے چمٹی رہنا چاہتی ہیں۔ وہ اس راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو پھینکتی جارہی ہیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ نگراں حکومت اگر شفاف انتخابات کرائے گی تو وہ تیسری بار وزیراعظم نہیں بن سکیں گی۔ انہوں نے نگراں حکومت کے سیٹ اپ ہی سے، آئینی ترمیم کے ذریعے، جان چھڑالی۔ کیا یہ غداری کی سیاست نہیں؟ جو کچھ سب نے مل کر طے کیا تھا، اسے شیخ حسینہ واجد نے آن کی آن میں اٹھاکر پھینک دیا۔ ایسے ماحول میں کسی بھی سطح پر دیانت کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟
وہ زمانے گزر گئے جب کسی ملک پر بیرونی دشمن قبضہ کیا کرتے تھے۔ یہ اندرونی قبضے کا دور ہے۔ بنگلہ دیش کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اس پر اپنے قابض ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت نے مخالفین کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ ہر قدم پر ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مخالفین کو چن چن کر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ہزاروں افراد کو قتل کردیا گیا۔ جنہیں اغوا کیا گیا ان کی لاشیں ہی گھر والوں کو مل سکیں۔ ہزاروں افراد ابھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے سیاسی کارکنوں کے خلاف یہ سب کچھ کسی اور نہیں، ان کے اپنے لوگوں نے کیا ہے جو عوامی لیگ کی صفوں میںہیں۔ اب کسی بیرونی دشمن کو بظاہر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ہی لوگ ملک اور قوم کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔ سرکاری مشینری مکمل طور پر حکمراں جماعت کی خادم ہوکر رہ گئی ہے۔ اصلاً تو وہ عوام کی خادم ہے مگر خدمت حکمراں جماعت کی ہو رہی ہے۔ اقتدار میں رہنے کے لیے لازم ہے کہ سرکاری مشینری کو ہر حال میں اپنا بناکر رکھا جائے یعنی خوش رکھا جائے۔ عدلیہ میں بھی اپنی مرضی کے لوگ بٹھا دیے گئے ہیں۔ پولیس اور فوج کے اعلیٰ منصب بھی عوامی لیگ سے ہمدردی رکھنے والوں کو دیے جاچکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ان تمام اداروں سے بیشتر معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی۔ ریاست کے بنیادی ڈھانچے اور آئین پر حملے کیے جارہے ہیں اور ہر حملے کو عدلیہ جائز قرار دینے کے لیے موجود ہے۔ ریاست اور قوم کے خلاف جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ آئین اور قانون کی پاس داری کے نام پر ہو رہا ہے۔ یہ شرمناک عمل ملک کو شدید نقصانات سے دوچار کر رہا ہے۔ برطانیہ نے برصغیر پر ۱۹۰ سال تک انہی ہتھکنڈوں کے ذریعے حکومت کی تھی۔
بھارت کی جنگ
شیخ حسینہ واجد نے بھارت کی ایما پر اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ملک بھر میں اسلامی ذہن رکھنے والے افراد اور جماعتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت کے لیے بنگلہ دیش میں مذہبی ذہن رکھنے والوں کے خلاف جنگ چھیڑنا انا کا مسئلہ ہے۔ بھارت نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو دولخت تو کردیا تھا مگر اسلام پر کاری ضرب لگانے میں ناکام رہا تھا۔ اب بھارتی قیادت اس مقصد کے حصول کے لیے شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والی عوامی لیگ کو استعمال کر رہی ہے۔ بھارت کو اس بات کا ڈر ہے کہ ایک زبان، ایک نسل، ایک خطے اور ایک ثقافت سے تعلق رکھنے والے بنگلہ دیشی مسلمان اگر اسلام کی راہ پر پوری طرح چل پڑے تو بہت مشکل ہوجائے گی۔ پاکستان، ترکی، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا یا کسی اور اسلامی ملک میں ایسی انفرادیت نہیں۔ ہر اسلامی ملک میں قبائل کا جھگڑا ہے، لسانی تنوع ہے، ثقافتی اختلافات ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایسا کچھ نہیں۔ ایسے میں بھارت کو اس وقت سے ڈر لگتا ہے جب بنگلہ دیش کے مسلمان ایک ہوکر اس کے خلاف ڈٹ جائیں۔ بھارت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اب شیخ حسینہ کو آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش کا استحکام اس امر میں مضمر ہے کہ سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کا عمل ترک کیا جائے اور بھارت یا کسی اور طاقت کی ایما پر کچھ کرنے کے بجائے قومی مفادات کے تابع ہوکر حکومت چلائی جائے۔ جو کچھ عوامی لیگ کر رہی ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی مخالفین اور بالخصوص اسلام نواز لوگوں کو نشانہ بنانے کا عمل اب بند ہونا چاہیے۔
بنگلہ دیش کے عوام جنوبی ایشیا میں بہت سی حقیقتوں کو تبدیل کرنے یا ان پر واضح طور پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی عناصر انتہائی طاقتور ہیں۔ وہ پورے ملک کو ایک دن میں ساکت کرسکتے ہیں۔ ایسے میں شیخ حسینہ کے ہتھکنڈوں کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز نہ کریں اور ملک کی ضرورت کے مطابق وہ تمام اقدامات کریں جو جمہوریت اور انصاف کے لیے ناگزیر ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بحران پرامن طریقے سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ بحران کا پرامن طور پر ختم ہونا بھارت کے مفاد میں نہیں۔ بھارتی قیادت بنگلہ دیش کے معاملات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اگر وہ ہٹ جائے تو بہت کچھ درست اور سیدھا ہوجائے۔ مگر حالات اس امر کی جانب اشارا کر رہے ہیں کہ اب خرابی بڑھتی جائے گی۔ ملک اس دلدل سے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب کچھ مخالفین کو کچلنے کی پالیسی پر بضد رہنے کے باعث ہو رہا ہے۔ متحدہ پاکستان میں بھی بھارت نے کھیل کھیلا تھا اور اب بھی بھارت ہی خرابی پیدا کر رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں گیند شیخ مجیب کے کورٹ میں نہیں تھی۔ اور اس بار گیند شیخ حسینہ واجد کے کورٹ میں نہیں۔ ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں۔ جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شیخ مجیب کو وزیراعظم بنایا تو وہ انہیں (جنرل یحییٰ خان کو) آئینی صدر بنادیں گے۔ جو کچھ بھارت نے متحدہ پاکستان کے ساتھ کیا تھا، وہی کچھ اب بنگلہ دیش کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس سازش کو سمجھنا اور ناکام بنانا ہوگا۔ اس سلسلے جی ڈبلیو چوہدری کی کتاب ’’دی لاسٹ ڈیز آف پاکستان‘‘ کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا۔
دشمن کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بھارت بنگلہ دیش کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اسلام کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی سطح پر جانے یا گرنے کو تیار ہے۔ اس نے اب بنگلہ دیش کی سرزمین ہی سے معاون اور کارندے حاصل کرلیے ہیں۔ بنگلہ دیش کو اسلام کی طرف جھکنے سے بچانے کے لیے بھارت کو مطیع و فرماں بردار حکمران درکار ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کی صورت میں بھارت کو مطیع حکمران میسر ہے۔ جعلی انتخابات کے ذریعے شیخ حسینہ کے اقتدار کو اسی لیے تسلسل فراہم کیا گیا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت رفتہ رفتہ، بھارتی ہدایات کے مطابق، ایسے اقدامات کرتی جارہی ہے جن کا بنیادی مقصد اسلام کی ترویج و اشاعت روکنا ہے۔ بنگلہ دیش میں اب اسلامی اجتماعات پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ کسی زمانے میں قرآن کی تفسیر پر مبنی جلسے عام تھے۔ اب ایسا ممکن نہیں۔ اسلامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے یا جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ جماعتِ اسلامی، حفاظتِ اسلام اور حزب التحریر کے تمام دفاتر بند کیے جاچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو بنگلہ دیش ہر اعتبار سے بحران زدہ اور غیر مؤثر ہوکر رہ جائے گا۔ سیاسی بحران نے معیشت کو ویسے ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ معاشی مسائل تیزی سے پیچیدگی اختیار کرتے جارہے ہیں۔
صورت حال ایسی الجھی ہوئی ہے کہ بنگلہ دیش کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بقا کے مسئلے کو حل کرنا بنگلہ دیشیوں کا سب سے بڑا دردِ سر ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے بھارت کے اشاروں پر ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ ملک کو بچانا لازم ہوگیا ہے۔ بھارت نے متحدہ پاکستان کو توڑ کر جغرافیائی سطح پر تو کامیابی حاصل کرلی مگر نظریاتی میدان میں وہ ناکام رہا ہے۔ اب وہ اپنی ناکامی کا بدلہ بنگلہ دیش کو ٹھکانے لگاکر لینا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں اہل وطن کا بر وقت جاگنا اور اپنا کردار ادا کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔
(“The fake election in Bangladesh & the existential threat”… “drfirozmahboobkamal.com” Jan. 18, 2014)
Leave a Reply