
پاکستان نے ۱۹۷۱ء میں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کا سامنا کیا۔ ہم نے ایسی وجوہ کے باعث اپنے ملک کا ایک بازو گنوا دیا جنہیں جانتے تو سب ہیں مگر کچھ ہی لوگ سمجھ پائے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں بنگالی علیحدگی پسند تحریک کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
بنگالی علیحدگی پسند تحریک کوئی راتوں رات نہیں ابھری تھی۔ اس کی جڑیں پاکستان کی تاریخ میں تھیں۔ اس المیے کے حوالے سے اہل دانش آج بھی سوچتے رہتے ہیں کہ بنگلہ علیحدگی پسند تحریک سیاسی قیادت کی ناکامی کا نتیجہ تھی، عسکری قیادت کی سیاسی خواہشات کا عکس تھی یا پھر کوئی بین الاقوامی سازش تھی؟
بنگالیوں میں علیحدگی پسند رجحانات کو پروان چڑھانے میں کئی عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ جغرافیائی، معاشرتی اور ثقافتی فرق نمایاں تھا۔ لسانی مسئلہ بھی ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان ابتدا ہی سے موجود تھا، مشرقی پاکستان کا اقتصادی استحصال، سول اور ملٹری سروس میں بنگالیوں سے عدم مساوات پر مبنی رویہ، آئین سازی میں اختلافات، مسلم لیگ کا رفتہ رفتہ کمزور پڑنا اور بنگالی قوم پرست جماعتوں کا ابھرنا وہ عوامل تھے جو بالآخر مشرق پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئے۔
اس تحقیقی مقالے میں اس امر کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے حقیقی عوامل اور اسباب کیا تھے اور یہ دانش اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیے جانے والے کون سے اقدامات ملک کو ٹوٹنے سے بچا سکتے تھے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کچھ لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اب اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں تو صرف اس امر کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملک کو توڑنے کی ذمہ دار شخصیات کون تھیں۔ اس رپورٹ میں اس عظیم المیے کے تاریخی اسباب جاننے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
بنگالی قوم پرستی کا ارتقاء
پاکستان کے قیام کے ابتدا ہی سے اس کے دونوں بازوؤں کے تعلقات خاصے کشیدہ اور پیچیدہ تھے۔ بنیادی ایشو تین تھے: زبان کا مسئلہ، آئین سازی کے حوالے سے اختلافات اور سب سے بڑھ کر معاشی امور کی مرکزیت۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک بنگالی زبان کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل کرلیا گیا تھا، تاہم آئین سازی اور معاشی امور کی مرکزیت کا معاملہ آخر تک حل طلب ہی رہا۔ ذیل میں ہم ان عوامل کا جائزہ لے رہے ہیں جن کے باعث مشرقی پاکستان کے باشندوں میں بنگالی قوم پرستی نے سر اٹھایا۔
الف: جغرافیائی اور سماجی و ثقافتی اختلافات
پاکستان کے قیام کی ابتداء ہی سے اس کے دو بازوؤں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا اور بیچ میں دشمن ملک تھا۔ بھارت فضائی اور بحری رابطہ کسی بھی وقت ختم کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ یہ جغرافیائی خصوصیت کسی بھی وقت ملک کی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ بن کر سامنے آسکتی تھی۔ مذہب اور آزادی کی جدوجہد کے سوا ملک کے دونوں بازوؤں میں کسی نوعیت کی یکسانیت یا مشترکہ اقدار نہ تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ان تمام خصوصیات کی شدید کمی تھی جو کسی بھی قوم کو متحد رکھتی ہیں۔ سماجی، ثقافتی، لسانی اور معاشی امور میں غیرمعمولی اختلافات نے معاملات کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید خراب کیا۔
جغرافیائی فرق نے لسانی شناخت، زبان، طرزِ زندگی اور ثقافت کے حوالے سے شدید اختلافات کو جنم دیا۔ مشرقی پاکستان ملک کے مجموعی رقبے کا پندرہ سے بیس فیصد تھا تاہم اس کی آبادی ملک کے دیگر تمام حصوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ مغربی پاکستان کے لوگ مختلف زبانیں بولتے تھے تاہم اردو کو قومی یا رابطے کی زبان بنانے کے حوالے سے ان کے درمیان خاصا متذبذب اتفاق پایا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی واحد زبان ہی نہیں بلکہ بنگالی قوم پرستی کی شناخت کی بنیاد بھی تھی۔ بنگالیوں کو تہذیبی روایت اور ادبی ورثے کی حیثیت سے اپنی زبان پر فخر تھا۔ مغربی پاکستان میں آبادی کی غالب اکثریت مسلم تھی۔ مشرقی پاکستان میں ایسا نہ تھا۔ وہاں غیرمسلم اور بالخصوص ہندو بھی بڑی تعداد میں تھے اور معاشی امور کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے پر بھی خاصے متصرف تھے۔ مشرقی پاکستان کی معیشت کا غالب حصہ ہندوؤں کے تصرف میں تھا۔ نوجوان بنگالیوں کے اذہان میں بنگالی قوم پرستی کا زہر بھرنے اور نظریہ پاکستان کے خلاف تنفر ابھارنے میں ہندو اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے تعلیمی اداروں کی دیواروں پر قائداعظمؒ کے بجائے موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی تصاویر آویزاں ملتی تھیں۔ بنگالی دانشوروں میں ایک ایسی لابی موجود تھی جو بھارت سے بھیجے جانے والے پاکستان مخالف لٹریچر کو بخوشی قبول کرتے اور پھیلاتے تھے۔
مغربی پاکستان میں قیادت بنیاد طورپر جاگیرداروں اور وڈیروں سے آتی تھی۔ مشرقی پاکستان میں معاملہ یکسر مختلف تھا۔ وہاں سیاسی قیادت سابق سرکاری ملازمین، اساتذہ اور وکلاء پر مشتمل ہوتی تھی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی اور وہ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ باخبر تھے جبکہ مغربی پاکستان میں لوگ جاگیرداروں اور قبائلی سربراہوں کے زیر اثر تھے۔ پورے مشرقی پاکستان میں تعلیم کی جڑیں گہری تھیں اور متوسط طبقہ باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بات کہنے کے معاملے میں خاصا بے باک بھی تھا۔
معاشرے کے مختلف طبقات اور دھاروں سے آنے کے باعث مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین مختلف مقاصد اور خواہشات کے حامل تھے اور انہوں نے کبھی ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ بنگالی قائدین اور منتظمین مزاج کے اعتبار سے زیادہ جمہوری تھے اور مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے تھے۔ وہ عوام سے زیادہ قریب رہ کر کام کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ابھرنے والی سیاسی قیادت نے مشرقی پاکستان کے نقطہ نظر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اردو کو قومی اور اسلامی شناخت کی بنیادی علامت کی حیثیت سے اپنایا، مضبوط مرکز پر زور دیا اور پوری معاشی اور معاشرتی ترقی کی قیمت پر مغربی پاکستان میں افواج کو انتہائی مستحکم کرنے کو بنیادی مقصد قرار دیا۔ مغربی پاکستان کے قائدین مشرقی پاکستان کے ہر مطالبے کو ملک کی اسلامی شناخت اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
تنوع ہی وفاق کا حسن ہوا کرتا ہے مگر جہاں تنوع کی ضرورت ہو وہاں بھی یک رنگی مسلط کرنے کی کوشش خطرناک نتائج پیدا کیا کرتی ہے۔ مغربی پاکستان کے رویے سے بد دل ہوکر مشرقی پاکستان کے دانشوروں نے ثقافتی شناخت کے لیے مغربی بنگال کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ ۱۹۷۱ء سے بہت پہلے ملک ثقافتی اور نفسیاتی طور پر منقسم ہوچکا تھا۔
ب: زبان کا مسئلہ
زبان کا مسئلہ تو قیام پاکستان سے بھی پہلے اٹھایا گیا تھا۔ ۱۹۳۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنؤ سیشن میں بنگالی مسلمانوں کے وفد نے اردو کو آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلم انڈیا کی سرکاری زبان قرار دینے کی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بنگالی زبان کی تحریک شروع کردی گئی تھی۔ مطالبہ یہ تھا کہ بنگالی کو تعلیم اور ابلاغ عامہ کا ذریعہ اور دفاتر و عدالتوں کی سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ بنگالی قوم پرستوں نے کہتے ہوئے اردو کو واحد سرکاری زبان بنانے کی مخالفت کی کہ ایسا کرنے کی صورت میں مشرقی پاکستان کے پڑھے لکھے افراد ناخواندہ کہلائیں گے اور سرکاری ملازمت کے لیے نا اہل قرار پائیں گے۔
بنگالی زبان کی تحریک کو بنگالی سول سرونٹس، اہل علم، طلبہ، صوبائی اسمبلی کے چند ارکان اور چند وزراء کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ فروری ۱۹۴۸ء ہی سے یہ لسانی تنازع سڑکوں پر آچکا تھا۔ جنوری ۱۹۴۸ء کے پہلے ہفتے میں شیخ مجیب الرحمن نے دی ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹ لیگ قائم کی جس نے لسانی تحریک کی قیادت کی۔ ۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو بنگالی زبان کے حق میں ایک مظاہرہ کیا گیا جس پر پولیس کے لاٹھی چارج سے چند طلبہ زخمی ہوئے اور چند کو حراست میں لیا گیا۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں قائد اعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ صوبے (مشرقی پاکستان) کی زبان بنگالی ہوگی تاہم سرکاری زبان اردو ہی رہے گی۔ اس اعلان پر کانووکیشن میں تھوڑی سی گڑبڑ بھی ہوئی۔ جنوری ۱۹۵۲ء میں خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکہ کے دورے میں واضح کیا کہ سرکاری زبان اردو ہی رہے گی۔ اس پر پریس میں شدید احتجاج کیا گیا۔ بنگالی کے حق میں چند مظاہرے بھی ہوئے۔
۲۶ جنوری ۱۹۵۲ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی بنیادی اصول کمیٹی نے قرار دیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہونی چاہیے۔ مشرقی پاکستان میں اس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ ڈھاکہ میں کئی جلسے ہوئے جن میں طے کیا گیا کہ ۲۱ فروری کو بنگالی کو سرکاری زبان بنانے کے مطالبے پر زور دینے کے لیے ہڑتال کی جائے گی۔ نورالامین کی انتظامیہ نے مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی تھی تاہم اس کے باوجود ڈھاکہ میں مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا پولیس سے تصادم ہوا اور تین طلبہ سمیت کئی افراد مارے گئے۔
۱۹۵۶ء کے آئین میں بنگالی کو بھی اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان کا درجہ دیا گیا تاہم تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور بنگالی قوم پرستی کے جذبات کو سرد کرنا ممکن نہ رہا۔
ج: معاشی ناہمواری اور سابق مشرقی پاکستان کا معاشی استحصال
پاکستانی قوم پرستی کے لیے سب سے بڑا چیلنج مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان ان کا شدید معاشی استحصال کر رہا ہے اور ترقیاتی فنڈ اور بیرونی امداد میں انہیں وہ حصہ نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے۔ قومی آمدنی کا بڑا حصہ مغربی پاکستان میں خرچ کیا جاتا تھا کیونکہ دارالحکومت وہاں تھا۔ بجٹ کا ایک معقول حصہ دفاعی اخراجات پر خرچ ہوتا تھا اور یہ اخراجات بھی مغربی پاکستانی ہی میں مرتکز تھے۔ برآمدات میں غالب حصہ پٹ سن کا تھا جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتا تھا مگر اس سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ مغربی پاکستان میں صنعتی عمل تیز کرنے پر خرچ کردیا جاتا تھا۔
بنگالیوں کا بنیادی شکوہ یہ تھا کہ وہ جو کچھ مشرقی پاکستان میں کماتے ہیں، وہ مغربی پاکستان میں خرچ ہوتا ہے۔ قومی آمدنی میں مشرقی پاکستان کا حصہ ۶۰ فیصد تھا تاہم آمدنی کی تقسیم میں اسے صرف ۲۵ فیصد ملتا تھا۔ جبکہ ۷۵ فیصد مغربی پاکستان میں خرچ ہوتا تھا۔
د: ترقیاتی منصوبہ بندی میں بھی عدم مساوات
پہلے چھ سالہ ترقیاتی منصوبے (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۷ء) اور پہلے دو پنجسالہ منصوبوں (۱۹۵۵ء تا ۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۰ء تا ۱۹۶۵ء) میں بھی بنگالیوں نے نا انصافی برتنے کی شکایت کی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں سرکاری سطح پر قائم کی جانے والی کئی کمیٹیوں نے اپنی رپورٹس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی ناہمواری اور عدم مساوات کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دور کرنے پر زور دیا۔ خود ایوب خان نے بھی تسلیم کیا کہ مشرقی پاکستان پس ماندہ رہ گیا ہے اور اس کی ترقی کی رفتار تیز کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ ۱۹۶۲ء کے آئین میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان معاشی ناہمواری ختم کرنے پر خاص توجہ دی جائے گی تاہم ایوب خان کے دس سالہ دور اقتدار میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی اور معیار زندگی میں فرق بڑھتا ہی گیا۔
۶۰۔۱۹۵۹ء میں مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی ۳۲ فیصد زیادہ تھی اور ۷۰۔۱۹۶۹ء میں یہ فرق ۶۱ فیصد تک جا پہنچا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے بھی مشرقی پاکستان کی پس ماندگی دور کرنے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کی یقین دہانی کرائی تاہم تب تک بنگالیوں کی بے تابی اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ ارتقائی مراحل کے بجائے انقلابی مراحل کا تقاضا کرنے لگے۔
ہ: سول سروس اور مسلح افواج میں بھی عدم مساوات
سول سروس اور مسلح افواج میں بھی مشرقی پاکستان کی نمائندگی خاصی کم تھی۔ اور ستم ظریفی یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے جو سول اور فوجی افسران مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جاتے تھے وہ بنگالیوںکو کمتر ہندو ذاتوں سے قبول اسلام کرنے والوں کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ ۱۹۷۰ء میں ملک کی آبادی کا بڑا حصہ مشرقی پاکستان سے تھا مگر مسلح افواج میں ۸۵ فیصد کی حد تک نمائندگی مغربی پاکستان کی تھی۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ناہمواری یا عدم مساوات دانستہ نہیں تھی کیونکہ برٹش انڈیا میں فوج میں بھرتی کے حوالے سے پنجاب کے لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پنجابیوں میں عسکری خدمات انجام دینے کے حوالے سے موروثی رجحان پایا جاتا تھا اور وہ فوج میں بخوشی بھرتی ہوتے تھے۔ مگر خیر، بیورو کریسی میں تو ناہمواری کا کوئی بھی جواز نہ تھا۔ سول سروس اور فوج میں چونکہ بنگالیوں کی نمائندگی خاصی کم تھی اس لیے انہوں نے کبھی پاکستان میں فوجیوں کے اقتدار کی حمایت نہیں کی اور پاکستان کی خونیں سیاست میں ان کی ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(بشکریہ: ’’پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر‘‘۔ جلد۲۹، شمارہ۲)
Leave a Reply