
نیو یارک اور لندن میں مالیاتی مراکز کے محاصرے کی عوامی کوششیں اس غصے کو ظاہر کرتی ہیں جو مالیاتی بحران کے اسباب کے حوالے سے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ نیویارک کی طرح لندن میں بھی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کے محاصرے کی کوشش کی گئی۔ حیرت اس امر پر نہیں ہوئی کہ ایسا کیوں کیا گیا بلکہ اس بات پر ہوئی کہ اس قدر تاخیر کیوں ہوئی! حکومت اور مالیاتی اداروں کو توقع تھی کہ گزشتہ ماہ پیش کی جانے والی وکرز کمیشن کی رپورٹ بینکاری کے شعبے کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ایک حد ضرور مقرر کرے گی جیسا کہ باسل فالٹی نے کہا تھا ’’میں نے ایک بار عالمی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا مگر بچ نکلا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ مالیاتی نظام کے خلاف عوام کا احتجاج ختم کیوں نہیں ہوگا؟ بنیادی سبب یہ ہے کہ مالیاتی خرابیوں کے بارے میں اب تک حکومتی سطح پر تفتیش کی جامع کوشش نہیں کی گئی۔ جن لوگوں نے جہاز کو چٹان سے ٹکرادیا ان کا محاسبہ کرنے کی کوئی صورت یا کوشش دکھائی ہی نہیں دی ہے۔ اب تک یہ عندیہ نہیں دیا گیا کہ مالیاتی مارکیٹ پر عوام کی رائے کسی بھی طرح مقدم ہے۔ حقیقی معیشت کے لیے بینکوں پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دی ہے۔ عالمگیر مالیاتی نظام کے خلاف کوئی بھی سیاست دان کھڑا نہیں ہوا ہے۔ نیو لبرل معیشت کے کالعدم نظریات کو چیلنج کرنے کی کوئی صورت نہیں نکالی گئی۔ ایک فیصد طبقے کے ہاتھ میں باقی ۹۹ فیصد کی دولت ہے مگر اس صورت حال کے خلاف کوئی بھی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔
مالیاتی نظام کے خلاف احتجاج پر ہمیں کیوں حیرت ہونی چاہیے اور ان ناکامیوں کے اسباب جاننے اور معاملات درست کرنے کی کوشش کی راہ ہموار کیے بغیر ہی اس احتجاج کو کیوں ختم ہو جانا چاہیے؟
نیو یارک میں وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والی تحریک نے مرکزی نکتہ بالکل درست منتخب کیا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کی کوکھ سے اندرونی و بیرونی قرضوں کے بحران، کم ہوتی ہوئی آمدنی کے باوجود چند افراد کی دولت میں بے تحاشا اضافے اور کسی بھی معاشرے میں اکثریت کے لیے معاشی عدم تحفظ نے جنم لیا ہے۔ کئی عشروں سے جاری نیولبرل پالیسیوں اور دی ریگیولیشن نے بھی صورت حال کو اس نہج تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
تین سال قبل جب عالمی معیشت کے جسم میں خرابی پیدا ہوئی تو عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اسے انجیکشن دے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ حتمی علاج کے بارے میں بھی تب بھی نہیں سوچا گیا تھا۔ بیل آؤٹ پیکیجز کے ذریعے مالیاتی بحران کو قرضوں کے سنگین بحران میں تبدیل کردیا گیا۔ اب یہ قرضوں کا بحران ایک بار پھر مالیاتی بحران کے رگ و پے میں سما رہا ہے۔ بیل آؤٹ پیکیجز کے بارے میں سوچا جارہا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ مکمل مالیاتی شکست و ریخت کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔
حکومتوں کی جانب سے سادگی پر زور دیا جانا کافی نہیں۔ اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات معاملات کو درست کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے اقدامات معاشی خرابی کو مزید تیز کریں گے۔ معیشت کے حوالے سے ایسی نئی سوچ کی ضرورت ہے جو مالیاتی اداروں اور قرضوں کے ذریعے معیشت کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والوں کو چیلنج کرے۔
معاشی نظام تو اب خرابی سے دوچار ہوچکا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے، خرابی کو دور کس طور کیا جائے۔ بڑے بینکوں کو تحفظ فراہم کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ پہلا قدم تو یہ ہوگا کہ بڑے بینکوں کو توڑ کر ان کی جگہ چھوٹے بینکوں کو سسٹم میں لایا جائے، ان کی اہمیت میں اضافہ کیا جائے۔ مقامی سطح کے بینکوں کو معیشت میں اہم مقام دینے کی ضرورت ہے۔ یہ جرمن ماڈل ہے۔ عوامی بچتوں سے قائم چھوٹے بینکوں نے چھوٹے کاروباری اداروں کو خاصی مدد فراہم کی ہے۔ کساد بازاری کے زمانے میںبڑے بینک تو نکل بھاگتے ہیں، چھوٹے بینک لوگوں کی مدد کے لیے میدان میں رہتے ہیں۔ چھوٹے بینکوں کو اپنی بقاء کے لیے کسی بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بینکوں اور مالدار طبقے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مزید زر چھاپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ اگر زر میں اضافہ ہی مقصود ہے تو زیادہ ملازمتوں اور مزید دولت پیدا کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ کسی بھی اقدام سے پیدا ہونے والی مزید دولت کو بنیادی ڈھانچے کی بہتری، مزید ملازمتوں کی فراہمی، غربت کے خاتمے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مہارتیں فراہم کرنے پر خرچ کرنا ہی معاشی بحالی کی طرف اہم قدم ہے۔ ماحول کی خرابی کو دور کرنا بھی ناگزیر ہے۔ اگر ایسا کیے بغیر کوئی قدم اٹھایا جائے گا تو خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ لوگوں کو دور افتادہ قرض خواہوں کا غلام بننے سے روکیے۔ یہ وقت قرضوں سے نجات پانے کے بارے میں سوچنے کا ہے۔ برطانیہ کا اصل مسئلہ بجٹ خسارے کا نہیں بلکہ نجی قرضوں کا ہے جو ایک طرف تو جاب مارکیٹ پر اور دوسری طرف پراپرٹی کی قیمتوں اور کرایوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے لوگوں کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ انہیں اس حوالے سے ریلیف دیا جائے۔
ہمیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ دولت کہیں سے ٹپکنا شروع ہوگی۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ایسی سوچ خرابی ہی لاتی ہے۔ ہمیں مقامی پر سطح پر بارٹر کرنسی کا اہتمام کرنا ہوگا۔ جو زمینیں ضائع ہوچکی ہیں انہیں نئی زندگی دینا ہوگی۔ املاک کو کام میں لانا ہوگا۔ افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانا ہے۔ قدرتی، انسانی اور مالیاتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ہی ہماری سوچ کا محور ہونا چاہیے۔ مالیاتی معاملات کچھ اس طرح چلائے جانے چاہئیں کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر نہ رہ جائے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قبل ایسا نہیں تھا۔ ہمیں اس وقت کی صورت حال کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ مختصر یہ کہ ہمیں عوامی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ مالیاتی امور کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لالچ بالآخر صرف خرابی پیدا کرتا ہے۔ چند افراد کی رائے پر جمہور کی آراء کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ مالیاتی امور میں بھی جمہوریت درکار ہے۔ بینکاری نظام کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے جس میں عوام کے مفاد کو اولیت دی جاتی ہو۔
(بشکریہ: ’’دی گارجین‘‘لندن۔ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply