مصر: منتخب حکومت کا تختہ الٹا جانا غیر آئینی و غیرشرعی ہے!

یہ فتویٰ مصر میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کی غرض سے جاری ہوا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی اور اس کے رفقائے کار پر زور دیا گیا کہ وہ شریعت اور جمہوریت کو بچانے کی خاطر ان اقدامات سے کنارہ کش ہو جائیں، جو صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کو ختم کرنے کی خاطر کیے گئے ہیں۔

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور صلوٰۃ و سلام ہو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔

یہ فتویٰ مصر کے تمام باشندوں کے لیے ہے جو اسلام کے پیرو ہیں اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی ہادی، قرآن کو اپنا ضابطۂ حیات اور شریعت کو ہر اس معاملے میں اپنا راہ نما مانتے ہیں جس کے حوالے سے ذہنوں میں خلفشار پیدا ہو اور صحیح و غلط کا تعین مشکل ہوجائے۔ کسی بھی معاملے میں اللہ کی کتاب اور نبیٔ آخر الزماں کی سنت سے بڑھ کر کوئی راہِ ہدایت ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اللہ جسے ہدایت نہیں دینا چاہتا اسے کسی بھی حال میں ہدایت کی روشنی نہیں ملتی۔ جس کی توثیق مصر کی جامعہ ازہر، عرب اور اسلامی دنیا کے علما اور انٹر نیشنل کونسل آف مسلم اسکالرز نے کی۔ اس فتوے کے مندرجات درجِ ذیل ہیں:

مصر کے عوام تیس سال تک اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینے کے جمہوری حق سے یکسر محروم رہے۔ پھر اللہ نے ان پر کرم کیا اور انہوں نے ووٹ کی طاقت سے اپنے لیے محمد مرسی کو صدر منتخب کیا۔ مصر کے عوام نے صدر محمد مرسی کو اپنی مکمل حمایت سے نوازا اور یہ عہد بھی کیا کہ کسی بھی مشکل مرحلے میں وہ اپنے منتخب صدر کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور جن معاملات کو وہ پسند یا ناپسند کرتے ہیں، ان کے حوالے سے منتخب صدر کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ تمام سویلین اور فوجی حلقوں نے قانون کی حکمرانی کے تابع رہنے کا عہد کیا۔ ان میں جنرل عبدالفتاح السیسی بھی شامل تھے، جو وزیر اعظم ہشام قندیل کے دور میں دفاعی امور اور دفاعی پیداوار کے وزیر رہ چکے تھے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے بھی صدر محمد مرسی کے حکم کے تابع رہنے کا حلف اٹھایا تھا اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے اپنے عہد کی پاس داری نہ کی اور منتخب صدر کی حکومت کا تختہ الٹ کر مصر کی آبادی کے ایک مختصر مگر طاقتور گروہ کا ساتھ دیا اور یہ کہا کہ وہ اکثریت کے ساتھ ہیں۔

منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل عبدالفتاح السیسی اور اس کے ساتھیوں نے جمہوریت اور شریعت کے منافی اقدام کیا ہے۔ جمہوریت یہ کہتی ہے کہ جسے عوام کی رائے سے منتخب کیا گیا ہو، اسے اپنی مدتِ نمائندگی پوری کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ اس وقت تک اپنے منصب پر رہ سکتا ہے، جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ اپنے فرائض کے مطابق خدمات انجام نہیں دے رہا۔

اگر وہ غلطی کرے (جیسا کہ محمد مرسی نے اعتراف بھی کیا ہے) تو سیاست دانوں اور قوم کا فرض ہے کہ اسے مشورہ دے اور اس کے معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کرے مگر بہر حال اس حالت میں بھی وہ سب کے لیے صدر ہی رہے گا۔

مگر چند لوگوں کی طرف سے اقتدار پر قبضہ، صدر کو ہٹاکر نیا صدر اور آئین کو ختم کرکے نیا آئین لانا سراسر غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے اور اسے کسی بھی حیثیت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے وہ اختیار استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو عوام نے انہیں دیا ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے اللہ اور عوام سے کیے ہوئے عہد کو توڑا ہے۔ انہوں نے کئی زمانوں پر محیط جمہوری جدوجہد کا تمسخر اڑایا ہے۔ لوگوں نے صدیوں جس حکومتی نظام کے لیے قربانیاں دی ہیں، اُسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ آئین اور جمہوری نظام کی رُو سے وہ تمام اقدامات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہیں جو مصر میں مہم جُو عناصر نے کیے ہیں۔ شریعت کی رُو سے بھی ریاست کے تمام افراد اور طبقات پر لازم ہے کہ جب تک حکمران شرعی حدود کا خیال رکھتا ہو، تب تک اس کی مکمل اطاعت کریں اور حکومتی و ریاستی امور میں اس کا ساتھ دیں تاکہ معاشرے کو بہتر انداز سے چلانا ممکن ہو۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث درج ہیں جن میں حاکم کی بات ماننے یعنی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ ’’اگر کسی حبشی غلام کو بھی حاکم مقرر کردیا جائے تو اس کی بات ماننا ریاست کے تمام افراد اور طبقات کا فرض ہے۔ کسی نے اگر ایک ہاتھ کی لمبائی کے برابر بھی ریاست سے دوری اختیار کی (یعنی بغاوت کی) اور اس حالت میں مرا، تو گویا وہ جہالت کی حالت میں مرا‘‘۔

ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ’’جب تک حاکم کسی گناہ کے ارتکاب کا حکم نہ دے، تب تک اس کی اطاعت لازم ہے، خواہ اس کی چند باتیں پسند نہ بھی ہوں‘‘۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ علی الاعلان اللہ کے خلاف جانے کو کہتا ہو۔ ایسی حالت میں حاکم کی اطاعت کا فرض ساقط ہو جاتا ہے۔ قرآن میں بھی خواتین کے حوالے سے یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ جو کچھ برحق ہے، اس کے واسطے اطاعت لازم ہے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ صدر محمد مرسی نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا، جس سے اللہ کے خلاف جانے پر اکسانے کا تاثر ملتا ہو۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ انہوں نے تحریر اسکوائر اور دیگر مقامات پر مظاہروں کے ذریعے اللہ کی اطاعت پر مبنی نظام کے قیام کی کوششوں کا ساتھ دیا۔

کسی بھی حاکم کی اطاعت کا فرض اس وقت بھی ساقط ہو جاتا ہے جب وہ ریاست کے لوگوں کو برملا ایسے اعمال پر اکسائے جن سے کفر کی تائید ہوتی ہو۔ یعنی اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے سے گریز کی حالت پیدا ہوتی ہو۔ یہ حدیث عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا کہ ’’ہم ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیں گے اور جب دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے گی، تب بھی ہم ان کے خلاف نہیں جائیں گے جنہیں اختیار سے نوازا گیا ہو، سوائے اس کے کہ تم اللہ کی راہ پر چلنے سے گریز کا کوئی اشارا پاؤ یعنی حالتِ کفر واقع ہوتی ہوئی محسوس ہو‘‘۔ جو اللہ کا حکم مانتا ہو، راتوں کو قیام کرتا ہو، روزے کثرت سے رکھتا ہو اور تقوٰی اختیار کرتا ہو، وہ حاکم کے درجے پر فائز رہے گا۔ ایسی حالت میں لازم ہے کہ محمد مرسی کو صدر کے منصب پر فائز رہنے دیا جائے اور انہیں برطرف کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔

عبدالفتاح السیسی کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ اس نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم ہونے سے روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا یعنی منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ اس دلیل کو کسی بھی حیثیت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک چھوٹے سے گروہ کا نمائندہ ہے۔ دی کونسل آف سینئر اسکالرز کے ڈاکٹر احمد طیب نے ہم سے مشاورت نہیں کی اور ہم نے انہیں اپنی طرف سے بولنے کا استحقاق و اختیار بھی نہیں دیا۔ انہوں نے بغاوت کا ساتھ دے کر اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی ہے اور امت کے اجماع کے خلاف گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف میں قرآن اور سنت سے کوئی بھی حوالہ نہیں دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کے تمام حوالے محمد مرسی کی صدارت کے برقرار رکھے جانے کی طرف اشارا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد طیب نے مسلم علما کے طرزِ عمل کے بھی برعکس کیا جو اپنا علم کسی بھی شخص یا چیز کے لیے بیچا نہیں کرتے۔ انہوںنے یہ کہا ہے کہ انہوں نے چھوٹی برائی کو قبول کیا ہے۔ ایک منتخب، آئینی حکمران کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے شخص یا گروپ کو قبول کرنا کسی بھی اعتبار سے اس دلیل کا متحمل نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر احمد طیب نے حسنی مبارک کے معاملے میں جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ مرسی کے لیے کیوں نہیں اپنایا؟ یہ منافقت کیوں؟ یہ تو جامعہ ازہر کے علما کی روایات کے منافی ہے جو ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، جابر حکمرانوں کے ساتھ نہیں۔

قبطی عیسائیوں نے پوپ ٹیواڈروس کو منتخب کیا کہ وہ ان کی طرف سے بولیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود قبطی عیسائیوں نے بھی انتخابات میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اور دیگر اسلامی جماعتوں کا ساتھ دیا تھا۔

محمد البرادعی کو نیشنل سالویشن فرنٹ نے مقرر نہیں کیا تھا۔ سَلَفی اور دیگر اسلامی عناصر، قوم پرست جماعتیں اور دیگر طبقات بھی منتخب حکومت کی بساط لپیٹ دیے جانے کے حق میں نہیں کیونکہ وہ ایسا کرنے کے مضمرات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

میں جنرل عبدالفتاح اور اس کے رفقا پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس غیر جمہوری اقدام کو کالعدم قرار دے کر عوام کے حقیقی نمائندوں کو حکمرانی کا حق لوٹائیں۔ میں مصر کے تمام اہلِ سیاست اور تمام علما اور بیرونی دنیا کے اہلِ حکمت و دانش پر بھی زور دیتا ہوں کہ وہ مصر میں منتخب حکومت کو ختم کرنے کے عمل کو منسوخ کرنے اور محمد مرسی کی صدارت بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدر محمد مرسی کو بحال کرکے ریاستی امور کی انجام دہی میں مدد دی جائے، انہیں بہتر منصوبوں کی تیاری اور ان کی تکمیل کے لیے مشوروں اور مدد سے نوازا جائے۔ حسنی مبارک نے تیس سال تک کرپشن کو فروغ دیا، اپنے ساتھیوں کے تحفظ کے لیے غنڈے بھرتی کیے اور ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کا بھی اہتمام کیا مگر فوج نے اسے برطرف نہیں کیا۔ یہ کیا تضاد ہے کہ فوج نے حسنی مبارک کے معاملے میں تو تیس سال تحمل سے کام لیا مگر محمد مرسی کے معاملے میں اس کے صبر اور تحمل کا پیمانہ محض ایک سال میں لب ریز ہوگیا۔

خرابیاں سیاسی نظام میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ میں ہیں۔ نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی۔ منتخب، آئینی حکمران کو نکال پھینکنا اہلِ مصر پر حرام ہے۔ یہ شریعت کے بیان کردہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کبھی کسی کو اس گمان میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ جو کچھ بھی غلط وہ کر رہے ہیں، اللہ ان سے بے خبر ہے۔ میں مصر کے تمام باشندوں سے مخاطب ہوں، جن سے میں محبت کرتا ہوں اور جن کے لیے بہت کچھ قربان کرنے کو تیار ہوں اور جن سے میں کسی صلے کی تمنا نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا ہی میرا انعام ہے۔ میں مصر کے تمام باشندوں سے کہتا ہوں کہ وہ آزادی اور جمہوریت کی صورت میں میسر ہونے والی نعمت کی حفاظت کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہمیں آزادی اور جمہوریت جیسی نعمت سے کسی آمر کے حق میں دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے وہ آمر فوجی ہو یا سویلین۔ جن اقوام نے ایسا کیا ہے ان کی آزادی بالآخر ختم ہوکر رہی ہے۔

اے اللہ! مصر اور مصری عوام کی حفاظت فرما۔ اور ہمیں چند احمقوں کے اعمال کے نتیجے میں واقع ہونے والی تباہی سے محفوظ رکھ۔ آمین۔

(“Fatwa of Shaikh Yusuf Al-Qaradawi on the Military Coup in Egypt”… “albalagh.net”.July 9, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*