
امریکا کے معروف اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے گزشتہ دنوں ترکی کی مشہور ’’خِذمت تحریک‘‘ کے سربراہ فتح اللہ گولن سے انٹرویو کیا۔ فتح اللہ گولن امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ یہاں ہم آپ کے لیے انٹرویو کے مندرجات پیش کر رہے ہیں:۔
☼ وال اسٹریٹ جرنل: چند ہفتوں کے دوران وزیراعظم رجب طیب اردوان نے آپ کو اور آپ کی تحریک ’’خذمت‘‘ کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب حکمراں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور آپ کی راہیں الگ ہونے والی ہیں؟
فتح اللہ گولن : ہمارے اور اے کے پارٹی کے درمیان ہم آہنگی جمہوریت، آزادی اور بنیادی حقوق سے متعلق تھی۔ ہم نے سیاست یا پارٹی کی سطح پر کبھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا سوچا ہی نہیں۔ ۲۰۱۰ء کے آئینی ریفرنڈم کے موقع پر میں نے کہا تھا کہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کے لیے جن اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے، اگر وہ متعارف کرادی جائیں، تو میں حکومت کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔
ترکی میں ایسے بہت سے لوگوں نے اے کے پارٹی کو ووٹ دیا، جو جمہوریت کو مستحکم اور فوجی آمریت کو معدوم دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ ہر اس چیز کی حمایت کی ہے جو جمہوری اقدار سے مطابقت رکھتی ہو، ہم آہنگ ہو۔ اور جب بھی ہمیں جمہوری اقدار سے متصادم کوئی چیز نظر آتی ہے، ہم کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ ہم جمہوریت کی حمایت اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کی روش پر گامزن ہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ اقتدار کے ایوان میں جو لوگ بیٹھے ہیں، وہ جمہوریت کے حوالے سے کیا رویہ اپناتے ہیں، اِس کا فیصلہ ترک عوام بہتر کرسکتے ہیں۔
☼ آپ کا اور رجب طیب اردوان کا کم و بیش ایک عشرے کا اتحاد رہا ہے۔ اس دوران کون سا لمحہ تھا، جب آپ کو اردوان سے اتحاد برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑا؟
فتح اللہ گولن : ہمارے اتحاد کی بنیاد سیاست نہیں، اقدار ہیں۔ ہم جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے پر اردوان کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں اور جب بھی ہم نے محسوس کیا ہے کہ حکومتی اقدامات یا اصلاحات سے شخصی آزادی اور بنیادی حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں، تب مخالفت کی ہے۔ ہم نے ۲۰۰۵ء میں انسدادِ جرائم کے ایک قانون کی مخالفت کی تھی، کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ اِس قانون کی زَد میں شخصی آزادی اور بنیادی حقوق بھی آئیں گے۔
۲۰۰۳ء اور ۲۰۱۰ء کے دوران ترکی میں جمہوری اقدار کو غیر معمولی رفتار سے فروغ ملا۔ سیاسی کلچر میں مثبت پہلو نمایاں ہوئے اور ہم نے ہر مرحلے پر اصلاحات کی حمایت کی۔ ۲۰۱۰ء کے ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ ۵۸ فیصد تھا، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ترک عوام جمہوریت اور اصلاحات دونوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ہر ایسے اقدام کو سراہا ہے جس کے نتیجے میں جمہوری اقدار مستحکم ہوتی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے پندرہ برس کے دوران معیشت اور سیاست، دونوں حوالوں سے غیر معمولی پیش رفت کو یقینی بنایا ہے۔
ہم جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کی ہر کوشش کا احترام کریں گے۔ مگر ترک عوام کو گزشتہ دو برس کے دوران بعض معاملات میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت نے شخصی آزادی اور اظہارِ رائے پر پابندی لگائی ہے۔ احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں سے بہتر طریقے سے نہیں نمٹا گیا۔ سویلینز کے ہاتھوں لکھا جانے والا جمہوریت نواز آئین شخصی آزادی اور حقوق کے حوالے سے اعلیٰ اقدار کا محافظ ثابت ہوسکتا تھا اور اس کے نتیجے میں زیادہ بہتری آتی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے پیش رفت رک چکی ہے۔
☼ پولیس فورس کی قیادت کے پَر کترنے کی جو کوشش رجب طیب اردوان نے کی ہے، اس پر آپ کا ردِعمل کیا ہے؟
فتح اللہ گولن : اگر پولیس یا کسی اور ریاستی ادارے کے اہلکاروں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، ریاست کے قانون کی شدید خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں، اور اگر انہوں نے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور انہیں محض نظریات یا رویے کی بنیاد پر کسی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو یہ ناقابل برداشت ہے، کیونکہ یہ تسلیم شدہ جمہوری روایات اور اقدار کے خلاف ہے۔ کسی کو سیاسی نظریات یا مخصوص تصورات کی بنیاد پر نشانہ بنانا اور اس کی راہ میں دیوار کھڑی کرنا ماضی کی (فوجی) حکومتوں کا وتیرہ تھا۔ اے کے پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران اس نکتے پر زور دیا تھا کہ وہ سیاسی بنیاد پر کسی کو نشانہ نہیں بنائے گی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عدلیہ اور پولیس سے تعلق رکھنے والے جو افسران چند ماہ پہلے تک ہیرو تھے، آج اُن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اور وہ بھی مناسب اور متوازن تفتیش کے بغیر۔
☼ کیا سبب ہے کہ ’’خذمت تحریک‘‘ نے اپنے معتقد نوجوانوں کو کھلم کھلا اس امر کی تحریک دی کہ وہ پولیس یا عدلیہ میں اپنا کیریئر بنائیں؟
فتح اللہ گولن : میں وضاحت کردوں کہ خذمت تحریک سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو دیتی ہے۔ معاشرے میں جس قدر بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کی پشت پر کوئی نہ کوئی فرد ضرور ہوتا ہے۔ یعنی انفرادی سطح پر بگڑنے والے معاملات ہی بڑھتے بڑھتے دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انفرادی سطح پر اصلاح کی کوشش کی جائے تاکہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینے کی طرف مائل ہو۔ خرابیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب فرد کو نظر انداز کرکے اجتماعیت کی بات کی جاتی ہے۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے، اس کی بات سنی جائے، اس کے مسائل کو درخور اعتناء سمجھا جائے، اس کی زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ ہم سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دیتے ہیں۔ تعلیم ہی کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ممکن ہے۔
میں چونکہ تعلیم پر بہت زور دیتا ہوں، اس لیے میرے فکر و عمل سے متاثر ہوکر بہت سوں نے تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دی ہے۔ ان اداروں کے قیام سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب معیاری تعلیم معاشرے کے ہر طبقے تک پھیل چکی ہے۔ پہلے صرف مراعات یافتہ طبقہ ہی اپنی اولاد کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم دلا پاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ترک معاشرے میں اس وقت تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ میں نے ترکی کے عوام کو اس بات کی تحریک دی ہے کہ وہ ملک کے تمام اداروں میں اپنی نمائندگی یقینی بنائیں تاکہ ان کی کارکردگی سے یہ ادارے بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں اور ساتھ ہی ساتھ ان اداروں میں معاشرے کا نسلی و ثقافتی تنوع بھی نمایاں ہو۔ طلبہ اور طالبات کے لیے مستقبل کی راہ منتخب کرنے کے معاملے میں والدین کی پسند و ناپسند بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ معاشی اعتبار سے کوئی شعبہ کیسا رہے گا۔ لوگ تعلیم کے معاملے میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھتے ہیں کہ ان کے بچے جن شعبوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کی معاشی وقعت کیا ہے۔
خذمت تحریک سے وابستہ افراد نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، ان میں طلبہ کون سے شعبے اپناتے ہیں، اس کا پورا احوال مجھے معلوم نہیں مگر ہاں جن شعبوں (عدلیہ اور پولیس فورس) کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کے حوالے سے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ترک معاشرے میں ان شعبوں کی اعلیٰ تعلیم ہی تفریق اور امتیاز کا باعث رہی ہے۔
☼ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے مقدمات پر نظر ثانی کرے گی۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے آپ کی تحریک اور اے کے پارٹی کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس حوالے سے آپ نے کیا حکمتِ عملی تیار کی ہے؟
فتح اللہ گولن : نئے شواہد کی روشنی میں یا مقدمے کی کارروائی کے دوران روا رکھی جانے والی بے قاعدگیاں منظر عام پر آنے کی صورت میں کسی مقدمے کا دوبارہ چلایا جانا کوئی ایسی بُری بات نہیں بلکہ تسلیم شدہ بنیادی حق ہے۔ اگر ٹھوس شواہد سامنے آجائیں یا مقدمہ جانب داری سے چلائے جانے کا ثبوت مل جائے تو مقدمے کی نئے سرے سے سماعت متعلقہ فرد کا حق ہے۔ کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ کسی بے گناہ کو سزا دی جائے۔
مگر خیر، ہزاروں مقدمات کے حوالے سے عدالت کی حتمی رائے کو کسی جواز کے بغیر ختم کرنے یا کالعدم قرار دینے سے نظامِ انصاف پر انگلیاں اٹھیں گی اور پندرہ برس میں جو جمہوری کلچر پروان چڑھا ہے، وہ داؤ پر لگ جائے گا۔ اگر حکومت ایسا کچھ بھی کرتی ہے تو ملک کے ان ۵۸ فیصد باشندوں کی رائے پر پانی پِھر جائے گا، جنہوں نے ۲۰۱۰ء کے ریفرنڈم میں اُس آئین کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت ملک میں پہلی بار فوجی بغاوت کے ملزمان کو سویلین کورٹ میں مقدمہ چلانے کی اجازت ملی۔ اگر حکومت تمام مقدمات پر نظر ثانی کرتی ہے تو ان وکلا اور ججوں کا کیا ہوگا جنہیں اب تک ان مقدمات ہی کے حوالے سے ہیرو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ سیاسی رہنما فوجی قیادت کو سیاسی قیادت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کرنے کا کریڈٹ لیتے آئے ہیں۔
سابق اور حاضر ڈیوٹی فوجی افسران کے خلاف مقدمات کو کسی ایک گروپ سے نتھی کرنے کا عمل دس برس کے اس جمہوری عمل سے یکسر متصادم اور متضاد ہے، جس میں سیاست دانوں نے فوجی قیادت کے خلاف خوب بڑھ چڑھ کر باتیں کیں۔ قدرے عدم سنجیدگی کا بھی اشارا ملتا ہے۔ جب ترک انٹیلی جنس سروس (ایم آئی ٹی) کے ڈائریکٹر سے بعض انٹیلی جنس افسران کے کرد علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ مل جانے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفتیش کا مرحلہ آیا تو حکومت نے فوری طور پر ایک قانون نافذ کرکے تفتیش کرنے والوں کو اس معاملے میں وزیراعظم سے اجازت لینے کا پابند کردیا۔ حکومت کوئی بھی قانون منظور اور نافذ کرنے کی پوزیشن میں تھی مگر فوجی سربراہ یا دیگر اعلیٰ فوجی افسران کے حوالے سے ایسا کوئی بھی قانون متعارف کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقدمات کا دوبارہ چلایا جانا نہ تو شواہد کی بنیاد پر ہے، نہ فوجی افسران کو انصاف دلانا مقصود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقدمات کی دوبارہ سماعت سے متعلق فیصلے کے سیاسی مقاصد ہیں۔
اگر حکومت نے مقدمات کی دوبارہ سماعت کے فیصلے پر عمل کیا تو ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران جو جمہوری اصلاحات ممکن ہوسکی ہیں اور ملک میں جو جمہوری کلچر پروان چڑھ چکا ہے اسے شدید نقصان پہنچے گا۔ جمہوری اداروں کو فوج کے غلبے سے بچانے کے لیے جو کچھ بھی کیا گیا ہے، وہ سب تلپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ نصف صدی کے دوران ترکی میں چار منتخب حکومتوں کو فوجی قیادت نے گھر بھیجا ہے۔
☼ حکومت نے ایسی کاروباری شخصیات کو ٹیکس کے معاملے میں جرمانے سے ’’نوازا‘‘ ہے، جن کے سیاسی نظریات وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے نظریات سے متصادم تھے۔ ان اقدامات کی روشنی میں کیا آپ خذمت سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات کے لیے بھی کوئی بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں؟
فتح اللہ گولن : آپ جس خدشے کی بات کر رہے ہیں، وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ استقبال، بینک ایسیا اور کوزا گروپ سمیت کئی کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کسی پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے، کسی کا لائسنس منسوخ کردیا گیا ہے اور کسی پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے آنے والی خبروں نے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔
☼ صدر عبداللہ گل اعتدال پسند ہیں۔ وہ رجعت پسند اور لبرل گروپوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خذمت کے معاملے میں ان سے مثبت کردار ہی کی توقع ہے۔ آپ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے انتخاب کی تائید کریں گے یا آپ کے خیال میں وہ صدر کی حیثیت ہی میں زیادہ مؤثر ہیں؟
فتح اللہ گولن : ہم نے ہمیشہ تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر تعلقات استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری نمایاں ہو۔ سول سوسائٹی موومنٹ کی حیثیت سے ہم نے کبھی کسی خاص جماعت یا امیدوار کی حمایت نہیں کی۔ خذمت سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والوں نے جسے بھی اپنے نظریات سے قریب دیکھا ہے، اس کی حمایت اور مدد کی ہے۔ مگر یہ خالص انفرادی عمل ہے۔ خِذمت نے تحریک کی سطح پر ایسا کچھ نہیں کیا۔ عبداللہ گل ہمارے صدر ہیں۔ اس مرحلے پر ان کے بارے میں کوئی بھی قیاس آرائی مناسب نہیں۔
☼ میڈیا میں خذمت کے بہت سے حامیوں نے حال ہی میں سی ایچ پی کی قیادت کے حوالے سے پسندیدگی اور نرم گوشے کا اظہار کیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں خذمت اور سی ایچ پی کے درمیان اتحاد ہوگا؟
فتح اللہ گولن: خذمت نے کبھی کسی سیاسی جماعت یا امیدوار سے اتحاد نہیں کیا۔ مستقبل میں بھی ایسا کوئی اتحاد نہیں ہوگا۔ سول سوسائٹی کی حیثیت سے ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ہم سب کے لیے اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ کسی ایک جماعت یا گروپ تک محدود رہنا ہمارا آپشن نہیں۔ ہم جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہمارا بنیادی مقصد ہے۔ ہم جمہوری اقدار کے فروغ کے معاملے میں کوئی سودے بازی نہیں کرسکتے۔ جب بھی مواقع آئیں گے، خذمت سے ہمدردی یا ہم آہنگی رکھنے والے لوگ اپنے طور پر اُسی طور فیصلے کریں گے، جس طور دیگر ترک باشندے کرتے ہیں۔ نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے افراد مل کر چل سکتے ہیں، یکساں فیصلے کرسکتے ہیں۔
(“Fethullah Gulen’s interview”…”Wall Street Journal”. Jan. 21, 2014)
Leave a Reply