
اس نکتے کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ نئی حکومت میں بشارالاسد کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ملک کی سنی اکثریت کا بنیادی شکوہ ہی یہ ہے کہ بشار الاسد کے ہاتھوں ان پر بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔
لیبیا کا بحران اب شام میں پوری طرح جھلک رہا ہے۔ ہاں، عالمی برادری نے جتنی توجہ شام کے معاملات پر دی ہے، لیبیا کے معاملات پر نہیں دی۔ امریکا کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ لیبیا کا بحران حل کیے بغیر، وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم کیے بغیر معاملات کو درست کرنے میں مدد نہیں مل سکتی۔ ساتھ ہی ساتھ یورپی طاقتوں کو لیبیا کا بحران حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینا ہوگی۔ یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب نیت میں اخلاص پایا جاتا ہو یعنی نیت یہ ہو کہ خطے کے معاملات درست کیے جائیں۔ یورپی طاقتوں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ لیبیا میں خرابی سے مغرب کے مفادات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ امریکا کے لیے یہ زیادہ خسارے کا سودا نہیں مگر ہاں، یورپ کے لیے غیر معمولی تشویش کی بات ضرور ہے۔ لیبیا میں معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے نیٹو نے ۲۰۱۱ء میں جو کردار ادا کیا تھا وہ یورپ کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ مگر یہ بات بھی طے ہے کہ یورپی طاقتیں لیبیا کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کی تحریک اسی وقت پائیں گی جب امریکا بھی عملاً کچھ کرنے کا خواہش مند دکھائی دے رہا ہوگا۔ امریکا کو یہ بات عملاً ثابت کرنا ہوگی کہ وہ مشرق وسطیٰ کے بحران کو حل کرنے کے معاملے میں غیر معمولی حد تک سنجیدہ ہے اور کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں خطے کے تمام یا بیشتر ممالک میں استحکام پیدا ہو۔ یورپی طاقتیں لیبیا کے بحران کو ختم کرنے میں اگر کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں تو امریکا کو بھی ان کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ امریکی قیادت کو عمل کی سطح پر یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ یورپی طاقتوں کو لیبیا میں لاجسٹک سپورٹ دینے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس کے معاملے میں بھی اشتراک عمل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اور یہ کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو امریکا میدانی و فضائی لڑائی کے حوالے سے بھی تعاون کرے گا۔
یمن میں خلیجی ممالک کے فضائی حملوں نے کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کی تاہم زمینی معرکوں کے لیے متحدہ عرب امارات کی قیادت میں ایک چھوٹی سی فورس نے معاملات کو کنٹرول کرنے میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں بات چیت کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کی راہ ہموار کرنا متعلقہ فریقوں کا فرض ہے۔ افسوس اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ خلیجی قوتیں یمن کی حزب اختلاف کو ایسی کوئی بھی پیشکش کرنے کے موڈ میں نہیں جس کے نتیجے میں اسے اقتدار میں شراکت کا موقع ملے اور معاشی مفادات کو بھی استحکام حاصل ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیجی قوتیں یمن کی حزب اختلاف کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ یہی وقت ہے کہ امریکا اور یورپ مل کر خلیجی ریاستوں کو سمجھائیں کہ یمن کی اپوزیشن کو کچھ نہ کچھ ضرور پیشکش کرنا ہوگی۔ اور اگر وہ تب بھی راضی نہ ہوں تو انہیں سمجھایا جائے کہ اگر وہ یمن میں اپوزیشن کو کچھ دینا نہیں چاہتیں تو پھر اس بحران سے دور رہیں، کیونکہ ان کے ملوث ہونے سے یمن کے معاملات تو مزید بگڑیں گے ہی، خود ان کی اپنی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو خانہ جنگیاں جاری ہیں انہیں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کو یہ بات بھی یقینی بنانا ہوگی کہ دیگر ریاستوں میں خانہ جنگی نہ ہو۔ تیونس، مصر، اردن اور ترکی میں یہ خطرہ برقرار ہے۔ ان تمام ممالک کے حوالے سے امریکا اور یورپ کو ابھی سے کوئی نہ کوئی حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی اور حکمت عملی تیار کرنے میں بھی کچھ حرج نہیں۔ داعش، القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپ جو کچھ کرتے ہیں وہ بھی بہت سی خرابیوں کے پیدا کرنے کا باعث ضرور بنتا ہے، مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگیاں اس لیے شروع ہوتی ہیں اور معاملات دن بہ دن اس لیے بگڑتے چلے جاتے ہیں کہ ریاستی مشینری کمزور پڑ جاتی ہے۔ جب ریاستی ڈھانچا کمزور ہو اور ریاست اپنی رٹ قائم کرنے یا برقرار رکھنے میں ناکام رہے تو کسی بھی سطح کی خرابی کو روکنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تین چار ممالک ایسے ہیں جنہیں اس وقت ریاستی ڈھانچا مستحکم کرنے اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے غیر معمولی امداد کی ضرورت ہے۔ اگر ریاستی ڈھانچا مستحکم ہوگا اور معیشت ڈھنگ سے کام کر رہی ہوگی تو عدم استحکام خود بخود دور ہوتا جائے گا اور خانہ جنگی یا دیگر خرابیوں کی طرف لے جانے والی راہیں بھی مسدود ہوتی چلی جائیں گی۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کا فرض ہے کہ سیاسی اصلاحات کے لیے بھی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں۔ مگر یہ سب کچھ رضا کارانہ سطح پر ہونا چاہیے۔ کسی بھی ملک پر اپنی مرضی کی سیاسی اصلاحات مسلط کرنے کا وہی نتیجہ برآمد ہوگا جو اب تک برآمد ہوتا آیا ہے۔ جمہوریت کسی بھی ملک میں نافذ نہیں کی جاسکتی۔ جمہوری کلچر تو اپنے طور پر پروان چڑھتا جاتا ہے اور معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کی ذمہ داری ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو سیاسی اصلاحات کی طرف لے جائیں۔ زور مغرب کے لبرل ڈیموکریٹک ماڈل کو اپنانے پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے کہیں بڑھ کر گڈ گورننس کی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے عوام استحکام چاہتے ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ مضبوط معیشت درکار ہے۔ وہ تجارت میں اضافہ چاہتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی تو معیشت خود بخود مستحکم ہوتی جائے گی۔ یہ ممالک گڈ گورننس کی شکل میں انصاف، بہتر معاشی امکانات اور قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں تاکہ معاشرے میں استحکام واضح طور پر دکھائی دے۔
امریکا اور یورپ کے سامنے سب سے بڑا ٹاسک یہ ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصلاحات لائی جائیں۔ اگر ان ممالک کو ان تینوں شعبوں میں اصلاحات سے ہم کنار نہ کیا گیا تو پرنالے وہیں بہتے رہیں گے۔ یعنی جب کبھی کوئی خرابی پیدا ہوگی تب پھر وہی جنگیں عود کر آئیں گی، جن پر بہت مشکل سے قابو پایا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کو بہت بڑے پیمانے پر اور بنیادی سطح سے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی حقیقی تبدیلی لانی ہے تو خطے میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی یقینی بنانا ہوگی۔ محض باتوں سے، کانفرنسوں کا انعقاد کرنے اور اعلامیے جاری کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ عمل کی دنیا میں بہت کچھ دکھائی دینا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ کے حکمران عجب مخمصے میں پڑے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا دور حکمرانی بہت طویل رہا ہے۔ اقتدار پر ایک طویل مدت سے قابض و متصرف رہنے کے باعث اب وہ اس بات کے لیے ذرا بھی تیار دکھائی نہیں دیتے کہ اقتدار ہاتھ سے جاتا رہے۔ وہ جمہوریت کو بھی اسی لیے اپنانے کے موڈ میں نہیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں عوام انہیں اکھاڑ پھینکیں گے۔ امریکا اور یورپ کے لیے سب سے مشکل مرحلہ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو حقیقی سیاسی اصلاحات کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے ہی پر کوئی واضح مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ خطے کے بیشتر حکمران (یعنی آمر) چاہتے ہیں کہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔ بشار الاسد کی مثال سامنے ہے۔ انہوں نے ملک کو داؤ پر لگادیا مگر اقتدار سے الگ ہونا اب تک گوارا نہیں کیا۔ جب ضد اور انا پرستی کا یہ عالم ہو تو کسی بھی حقیقی تبدیلی کا محض خواب دیکھا جاسکتا ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمام علاقائی حکمرانوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ خرابیاں پھیل رہی ہیں۔ کسی ایک ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اور دوسرے ممالک کو بھی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ایسے میں ان کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ اور یہ تشویش محض اس لیے ہے کہ انہیں اپنے اقتدار کے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں۔ جب تک اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تب تک علاقائی حکمران کسی بھی معاملے میں پریشان ہونے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ ان کی ہر تشویش صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان کی اپنی کرسی ڈگمگا رہی ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمران اس وقت امریکا اور یورپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ خطے میں ہو رہا ہے، جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ان سے محفوظ رہنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے تو وہ صرف مغرب ہے۔ امریکا اور یورپ کو بھی اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لیے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا آسان ہوجائے گا۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی کے لیے ان بحرانوں میں بہت سے امکانات بھی چھپے ہیں۔ روس اور دیگر طاقتیں اب تک اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
عرب ریاستیں اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ خطے میں جہاں کہیں بھی طاقت کے حوالے سے خلا پیدا ہوا ہے، ایران نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔ یہ ریاستیں چاہتی ہیں کہ امریکا اور یورپ مل کر ایسی صورت حال پیدا کریں کہ کوئی ایک علاقائی ملک صورت حال کا زیادہ فائدہ نہ اٹھاسکے اور یوں معاملات کو قابو میں رکھنا ممکن ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ خطے کے بڑے ممالک کو حقیقی سیاسی اصلاحات کے لیے آمادہ اور تیار کرنا ہے۔ اس کے لیے واضح قوتِ ارادی کی ضرورت ہے۔ امریکا اور یورپ اگر چاہیں تو مذاکرات کا ایک دور شروع کرکے تمام بڑی ریاستوں کو اعتماد میں لے کر معاملات کو درست کرنے کا عمل شروع کرسکتے ہیں۔
اگر صدر اوباما فی الحال نہیں چاہتے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار وسیع ہو اور معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو لازم ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کی پالیسی اپنائیں۔ کسی بھی خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لیے یا تو بھرپور قوت، وسائل اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنا پڑتا ہے تاکہ فریقین بات مانیں اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوں۔ اگر امریکا مشرق وسطیٰ میں زیادہ آگے بڑھنے سے گریز کرے تو خطے کی ریاستیں بھی اپنے معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے اپنے اپنے حالات، وسائل اور عزائم کے اعتبار سے کچھ کریں گی۔ ایسی صورت میں امریکی مفادات کو اگر تقویت نہیں مل پائے گی تو نقصان بھی نہیں ہوپائے گا۔
امریکا نے اب تک اردن کو خانہ جنگی سے بچانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ مصر، ترکی، لبنان اور تیونس بھی اب تک فل اسکیل خانہ جنگی سے بچنے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطمئن ہوکر بیٹھا جائے۔ ایسی کسی بھی صورت حال کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے لازم ہے کہ چند بڑے ممالک مل کر کوئی ایسی حکمت عملی اپنائیں جو تمام متعلقہ ممالک کے لیے قابل قبول ہو۔
امریکا کے لیے مشرق وسطیٰ کے معاملات سے الگ یا لاتعلق ہونا کہنے کو بہت آسان ہے، مگر در حقیقت بہت مشکل ہے۔ امریکا کے لیے خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر اس معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی تو ہوسکتا ہے کہ معاملات درست ہونے کے بجائے مزید خرابی کی طرف چلے جائیں۔ امریکا کے لیے اپنے مفادات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ مشرق وسطیٰ سے مکمل لاتعلق ہوجانا امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ خطے کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں امریکا کو غیر معمولی حد تک سوچ بچار کرنا پڑے گا۔ جب وسیع تر منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچنا پڑے گا تب اسرائیل، دہشت گردی، تیل اور دیگر معاملات کو لازمی طور پر ذہن نشین رکھنا پڑے گا۔
امریکا میں کئی انتخابات کے دوران یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ اسرائیل کو ہر حال میں زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ امریکا نے اسرائیل کو محفوظ بنانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ایک طرف تو اس نے اسرائیل کو دفاعی اعتبار سے اس قدر مضبوط کیا ہے کہ وہ خطے کے کسی بھی ملک کی طرف سے روایتی یا غیر روایتی حملے کو آسانی سے ناکام بناسکتا ہے۔ اور دوسری طرف امریکا نے اسرائیل کو بچانے کے لیے کسی بڑی قوت کو دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کی یوم کپور جنگ میں امریکا نے اسرائیل کے دفاع کو یقینی بنانے کی خاطر سابق سوویت یونین کو جوہری حملے کی دھمکی بھی دے دی تھی۔ اس وقت اسرائیل اتنا ہی مضبوط ہے جتنا امریکا اسے بنا سکتا ہے۔ پھر بھی اگر مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار محدود کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا کو اسرائیل کی دفاعی استعداد بڑھانے کی ضرورت پیش آئے تو اسے جدید ترین ہتھیار فراہم کرنے کا آپشن موجود ہے۔
مشرق وسطیٰ سے دور رہنے میں امریکا کا ایک بڑا فائدہ ضرور ہے۔ جب امریکا مشرق وسطیٰ کے ممالک کی خانہ جنگیوں سے دور رہے گا تو اس کے خلاف دہشت گردی کا خطرہ بھی کم ہوجائے گا۔ امریکا اور یورپ میں دہشت گردی کا خطرہ اس لیے بھی توانا ہوا ہے کہ خانہ جنگی سے دوچار ممالک میں بہت سے عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاں حالات خراب کرنے میں امریکا اور یورپ کا کردار بہت نمایاں ہے۔ مغربی دنیا نے لیبیا کے معاملات کو جس طور خراب کیا ہے اس نے صورت حال کو مزید گنجلک بنادیا ہے۔ امریکا اگر مشرق وسطیٰ سے دور رہے تو اس کے لیے دہشت گردی کے خطرے کا کم ہونا کچھ عجب نہ ہوگا۔
مشرق وسطیٰ سے دور رہنا امریکا کی یوں بھی مجبوری ہے کہ یہ انتخابات کا سال ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم ابھی باضابطہ شروع نہیں ہوئی ہے کیونکہ اب تک دونوں بڑی جماعتوں کے باضابطہ امیدواروں کا تعین بھی نہیں ہوا ہے۔ جب انتخابی مہم شروع ہوگی تب مشرق وسطیٰ میں امریکی عمل دخل ویسے بھی نمایاں حد تک گھٹ جائے گا۔ ایسے میں امریکا سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے حوالے سے کسی بھی نمایاں اقدام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ امریکی قیادت یہ بات پسند نہیں کرے گی کہ مشرق وسطیٰ میں بلا ضرورت الجھا جائے۔ ایسی کوئی بھی کیفیت امریکا میں صدارتی انتخاب پر بری طرح اثر انداز ہوگی۔ ڈیموکریٹک پارٹی نہیں چاہے گی کہ انتخابات کے زمانے میں کوئی ایسی ویسی بات ہو اور پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوجائے۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال اب روس پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ روس نے شام کے بحران میں مداخلت کی ہے، اس لیے اب اسے بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس معاملے میں سوئٹزر لینڈ کی مثال بہت نمایاں ہے۔ اس ملک کا مشرق وسطیٰ کی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں اس لیے اسے دہشت گردی کے خطرے کا کسی بھی سطح پر سامنا نہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران سے لاتعلق ہوجانے پر امریکا کے لیے دہشت گردی کے خطرے کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عوام اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ امریکا کے ہاتھوں ہوئی ہیں اور جو کوئی بھی اچھا کام نہ ہوسکا اس کا ذمہ دار بھی امریکا ہے۔ یہ بات مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ امریکا اب تک مشرق وسطیٰ میں نمایاں حد تک ملوث رہا ہے۔ اس نے اس خطے کے بہت سے ممالک سے ایسی شراکت داری قائم کی ہے، جس کے نتیجے میں چند ایک ممالک کا ناراض ہونا فطری امر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے باشندوں میں یہ عمومی تاثر اب تک مضبوط ہے کہ ان کا جینا حرام کرنے میں بنیادی کردار امریکا نے ادا کیا ہے۔ امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کا جس طور ساتھ دیا ہے، اس سے بھی بہت سے ممالک میں عوام بددل ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر امریکا نے اسرائیل اور سعودی عرب کا کھل کر ساتھ نہ دیا ہوتا تو معاملات کچھ اور ہوتے۔
امریکا نے توانائی کے متبادل ذرائع پروان چڑھانے کی بہت کوشش ہے۔ امریکا میں تیل بڑے پیمانے پر نکالا جاتا ہے اور غیر روایتی ذرائع سے ایندھن حاصل کرنے کی بھی وہاں بہت کوشش کی جاتی رہی ہے مگر اب تک تیل اور گیس پر گزارا ہے۔ امریکا کو تیل کی ضرورت ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ کی صورت حال خراب رہی تو امریکا کے لیے تیل اور گیس کی مطلوبہ مقدار حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
امریکا کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ سے تیل کی رسد جاری رکھنے کے نام پر وہ کب تک عسکری مہم جوئی کرتا رہے گا۔ امریکا کو تیل کی ضرورت ضرور ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ داؤ پر لگادیا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں موجود تیل کے لیے امریکا لڑ سکتا ہے مگر اس لڑائی کی اتنی قیمت نہیں ہونی چاہیے کہ تیل کی شکل میں ملنے والے فائدہ کی کوئی قیمت ہی نہ رہے۔
امریکا میں شیل آئل پیدا کرنے والے اداروں نے مشرق وسطیٰ میں تیل کی پیداوار میں رونما ہونے والی کمی دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ لیبیا میں خانہ جنگی چھڑنے کے بعد تیل کی پیداوار میں ۸۰ فیصد کمی واقع ہوئی ہے تاہم دیگر ممالک اپنی تیل کی پیداوار بحال کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے لیے یوں بھی لازم تھا کہ معیشت کا مدار تیل کی آمدن ہی پر تھا۔
سعودی عرب تیل کی پیداوار کے معاملے میں غیر معمولی انفرادیت کا حامل ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی کھپت کا ۱۰ فیصد سعودی عرب پیدا کرتا ہے۔ اس کی اضافی پیداوار کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو سعودی عرب تیل کی پیداوار میں تیزی سے غیر معمولی اضافہ کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا خاص خیال رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ سعودی عرب کو ناراض کرے گا تو وہی نہیں بلکہ اس کے بیشتر اتحادی بھی ناراض ہوں گے اور یوں امریکی مفادات پر ضرب لگے گی۔ ایک طرف تو تیل کی سپلائی میں غیر معمولی کمی واقع ہوسکتی ہے اور دوسری طرف سفارتی سطح پر بھی کشیدگی پیدا ہوگی، جس سے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
سعودی عرب کو بہت سے اندرونی بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی سعودی عرب میں آلِ سعود کے اقتدار کے خاتمے کی پیش گوئی کے لیے تیار نہیں، مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سعودی عرب میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر انتشار پایا جاتا ہے۔ ملک کے بیشتر شیعہ تیل کی دولت سے مالا مال مشرقی حصے میں مرتکز ہیں۔ وہ عشروں سے حکمراں خاندان کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں۔ خطے میں آنے والی عوامی بیداری کی لہر کی مدد سے سعودی عرب میں شیعہ آبادی کی آواز بھی بلند ہوئی ہے۔ امریکا یا یورپ کو کوئی بھی بڑی کارروائی کرنے سے قبل ان تمام معاملات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ زمینی حقائق نظر انداز کرکے کوئی بھی بڑی کارروائی محض خرابیوں کا گراف بلند کرے گی۔
عرب دنیا میں آنے والی بیداری کی لہر سے سعودی عرب مجموعی طور پر محفوظ رہا کیونکہ سعودی فرماں رواں عبداللہ بن العزیز نے ایک طرف تو سیاسی اصلاحات پر توجہ دی اور دوسری طرف عوام کو جی بھر کے نقدی سے نوازا۔ مگر ان کے انتقال کے بعد اقتدار ہاتھ میں لینے والے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اب تک ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ اصلاحات جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہاں، ملک میں اور بیرون ملک مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر خرچ کی رفتار یہی رہی تو قومی خزانہ چار پانچ سال میں خالی ہوجائے گا۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ شاہ سلمان کو اس سے بہت پہلے ہی اندرونی محاذ پر کئی بحرانوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکا کس طور سعودی عرب کو خود اُسی کے ہاتھوں سے بچا سکتا ہے۔ یہ بات تو بظاہر ناممکن ہے کہ امریکا سعودی عرب میں عوامی سطح پر رونما ہونے والی کسی بغاوت کو کچلنے یا بادشاہت کو بچانے کے لیے فوجی دستے تعینات کرے۔ مزید برآں، جب تک سعودی عرب کی شمالی سرحد پر عراق میں اور جنوبی سرحد پر یمن میں خانہ جنگی جاری ہے، یہ بات خارج از امکان نہیں کہ سعودی عرب کمزور ہوگا۔ ایسے میں اردن میں کسی خانہ جنگی کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر امریکا مشرق وسطیٰ سے نکلنے کی بات کرتا ہے یا دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے ایک طرف ہو جاتا ہے تو یہ بات بھی یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ اس خطے میں جاری خانہ جنگیاں ختم کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے گا۔ اور یہ بات بھی پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ واشنگٹن اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں کہ سعودی حکمراں خاندان کو اصلاحات نافذ کرنے پر زیادہ مائل کرسکے۔ امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ سعودی چاہتے ہیں وہ بھی امریکی قیادت نہیں کر پارہی یا نہیں کرنا چاہتی۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ خطے میں جاری خانہ جنگیاں بند کرائی جائیں اور ایران کو صورت حال کا غیر معمولی فائدہ بٹورنے سے روکا جائے۔ اس صورت حال میں امریکی قیادت سعودی عرب کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں کچھ خاص کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سعودی حکمران اصلاحات نافذ کرنے کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ وہ اب تک خزانے کے منہ کھول کر لوگوں کو رام کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی اصلاحات نافذ کیے بغیر حقیقی استحکام کی راہ ہموار کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ امریکا مشرق وسطیٰ سے لاتعلق سا ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں سعودی حکمرانوں کو تھوڑی بہت تبدیلی کا عندیہ ضرور دینا چاہیے مگر وہ ایسا کرنے کے لیے بظاہر تیار نہیں۔
امریکا کے لیے پیچھے ہٹنا بھی ایک مسئلہ ہے مگر اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پسپائی اختیار کرنے کی صورت میں وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کس طور یقینی بناسکے گا۔ خانہ جنگیوں کے اثرات کو کسی ایک علاقے تک محدود رکھنا انتہائی دشوار ہے۔ تمام ممالک مذہبی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے یکسر لاتعلق رکھنا ممکن نہیں۔ اگر امریکا نے مشرق وسطیٰ سے دور رہنے کی پالیسی پر سوچے سمجھے بغیر عمل کیا تو مصر، اردن، لبنان، تیونس اور ترکی میں صورت حال خطرناک شکل اختیار کرلے گی۔ ان میں سے کوئی بھی ملک تیل کی دولت پر انحصار نہیں کرتا مگر جب ان میں خانہ جنگی چھڑے گی تو تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی لپیٹ میں آئیں گے اور وہ خانہ جنگی سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ایران، عراق، کویت اور الجزائر میں تیل کی پیداوار گر جائے تو معاملات چلائے جاسکتے ہیں مگر سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کا گرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں آگے ہی نہیں بلکہ مستحکم حالت میں ہے۔ وہ جب چاہے، اضافی پیداوار بھی دے سکتا ہے۔ تیل کی پیداوار سے برآمد تک اس کا پورا نظام مکمل طور پر کام کرنے کی حالت میں ہے۔ اگر سعودی عرب میں معاملات بگڑے اور تیل کی پیداوار میں کمی واقع ہونے کا عمل شروع ہوا تو عالمی منڈی میں تیل کا حقیقی بحران سر اٹھائے گا اور یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ عالمی منڈی تیل پیدا کرنے والے چند چھوٹے ممالک کی ناکامی جھیلنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔
امریکا اگر پیچھے ہٹتا ہے تو اس پر سے ایک بہت بڑا بوجھ کم ہوجائے گا اور یہ بوجھ ہے مشرق وسطیٰ میں استحکام پیدا کرنے کا۔ مگر پیچھے ہٹنے کے ساتھ کئی خطرات جڑے ہوئے ہیں۔ امریکا اچانک کوئی بھی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اگر امریکا ان ممالک کی فہرست سے کچھ کٹوتیاں کرتا ہے، جن کی حفاظت کا ذمہ اس نے لے رکھا ہے تو بوجھ کم ضرور ہوگا مگر ساتھ ہی چند ایک بڑے خطرات ابھر کر سامنے آئیں گے۔ جن ممالک کے دفاع کا مدار امریکی قوت پر ہے، وہ بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے اور ان کے لیے اس صورت حال کو زیادہ دن برداشت کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ اگر اردن یا کویت میں خانہ جنگی چھڑ جائے تو کیا امریکا وہاں ایک لاکھ یا اس سے زائد فوجی تعینات کرنے کی پوزیشن میں ہوگا؟ واضح رہے کہ ایسا کوئی بھی قدم اٹھانا ان ممالک سے زیادہ سعودی عرب کے لیے اہم ہوگا۔ اردن یا کویت کو بچانے کا واضح مطلب ہے سعودی عرب کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا۔ کسی بھی خطرناک صورت حال میں سعودی عرب کو امریکی عسکری امداد کی فوری ضرورت ہوگی۔ اس کام میں معمولی سی بھی تاخیر انتہائی خطرناک نتائج کو جنم دے گی۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کو محفوظ رکھنے کا اور کوئی طریقہ بھی ہے۔ حالات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کے لیے دانائی اسی میں ہے کہ خطے کے ممالک کو آپس میں مزید الجھنے سے روکے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی راہ پر ڈالے۔
امریکا کو مشرق وسطیٰ سے نکلنا بھی نہیں چاہیے اور غیرمعمولی جوش و خروش سے آگے بڑھ کر انقلابی نوعیت کے اقدامات بھی نہیں کرنے چاہییں۔ دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرکے ایسی راہ نکالی جائے جس پر چلنے میں سب کا بھلا ہو۔ کسی ایک فریق کو لیوریج دینا، اس کی پوزیشن بہتر بنانا اور دوسروں کو دبوچ کر رکھنا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ امریکا کو نچلی سطح پر وسائل بھی خرچ کرنے چاہییں مگر اس کی بنیادی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی نہ کسی طور متحارب فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لائے اور اس بات پر آمادہ کرے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے معاملات درست کریں۔ امریکا کو غیر معمولی کمٹمنٹ سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ وہ اب سفارتی سطح پر زیادہ دور تک جانے کی پوزیشن میں نہیں۔ خانہ جنگی ختم کرنے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ فریقین اور ثالثوں کی نیت میں اخلاص کس حد تک ہے۔ اگر نیت میں اخلاص نہ ہو تو معاملات کو بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر کوئی بیرونی قوت معاملات کو درست کرنا چاہتی ہے تو اسے درست سمت میں قدم اٹھانا ہوگا اور مذاکراتی عمل کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ اگر وہ اس معاملے میں بخل سے کام لے گی تو کوئی بھی اس کی بات پر بھروسہ کرنے کو تیار نہ ہوگا۔ ایسے میں صورت حال فریقین کے ساتھ ساتھ خود اس کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ امریکی قیادت اس وقت مخمصے میں ہے۔ یہ امریکی قیادت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ بیشتر معاملات میں امریکی قیادت کوئی بھی واضح فیصلہ کرنے سے گریز کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نومبر میں جس نئی حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی وہ بھی عملی سطح پر کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ امریکا بہت پیچھے بھی نہیں ہٹے گا اور زیادہ آگے بھی نہیں جائے گا۔ یعنی ساحل پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والا معاملہ ہے۔ اور اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو شدید بحرانی کیفیت پائی جاتی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی واضح نتیجے تک نہ پہنچنا اور کوئی فیصلہ نہ کرنا سب سے غلط فیصلہ ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Fight or flight. America’s choice in the Middle East”. (“Foreign Affairs”. Mar-Apr. 2016)
Leave a Reply