
بات کرپشن کی ہو تو بھارت تیسری دنیا کے بہت سے ممالک سے مختلف ہے۔ بہت سے شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت کے باوجود معاشرے کو کرپشن سے پاک رکھنا بھارتی قیادت اور ریاستی مشینری کے لیے ممکن نہیں۔ کئی معاملات میں کرپشن اس قدر ہے کہ اسے ختم کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لایا جاسکتا۔ جو لوگ کرپشن سے پاک بھارت کا خواب دیکھتے ہیں، اُنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ انتخابات کا موسم ہو تو کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ مگر ہوتا کچھ نہیں۔ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں، وہ بھی کرپشن کی پتنگ اور زیادہ اونچی اڑاتے پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی بیشتر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی آئی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں برطانوی جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے بھارت میں کرپشن کے ناسور پر بحث کی ہے۔
بھارتی وزارتِ جنگلات کے افسران کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ معدنیات کس طور ملک سے اسمگل کی جاتی ہیں۔ گوا اور دیگر ساحلی ریاستوں سے بہت کچھ نکال کر چین اور دیگر ممالک کو بھیجا جاتا رہا ہے۔ خام لوہا چین اسمگل کرنے والی مافیا ایک زمانے سے سرگرم ہے اور اب انتہائی مستحکم ہوچکی ہے۔ متعلقہ وزارت کے اعلیٰ افسران کے علم میں ہے کہ کیا ہو رہا ہے مگر وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اوپر سے نیچے تک سب کو حصہ ملتا ہے۔ جب حصہ مل رہا ہو تو کوئی کیا کہے گا اور کیوں کہے گا؟
بھارت میں چند عشروں کے دوران مختلف سرکاری شعبوں میں غیر معمولی کرپشن نے راہ بنائی ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر کے لائسنسوں کی نیلامی کا معاملہ ہو یا معدنیات کی کھدائی کا، تعلیم اور دیگر شعبوں کی فنڈنگ کا قصہ ہو یا ترقیاتی اقدامات، ہر معاملے میں غیر معمولی کرپشن نے معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ سرکاری وسائل کی نجکاری کا قصہ ہو یا مرکزی بینک (ریزرو بینک آف انڈیا) سے قرضے لینے کی بات ہو، ہر معاملہ بہت سے مشکوک معاملات کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ بہت سے بڑے کاروباری ادارے تنازعات کی زد میں رہے ہیں۔ تیزی سے ابھر کر سامنے آنے والی کئی کاروباری شخصیات پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ ان الزامات نے بھارت کے عام آدمی کو بہت پریشان کیا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب کرپشن اتنے بڑے پیمانے پر ہے تو کسی بہتری کی کیا امید رکھی جائے۔ رگھو رام راجن کو خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت میں روس کی طرح وہ چند افراد انتہائی مالدار اور طاقتور ہوجائیں جو حکمرانوں کے بہت نزدیک ہوں۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ۹۶ فیصد بھارتی سمجھتے ہیں کہ کرپشن ان کے ملک کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے اور ۹۲ فیصد بھارتیوں کا خیال ہے کہ پانچ برس کے دوران کرپشن کی لعنت نے زیادہ شدت اختیار کی ہے۔
گزشتہ دسمبر میں بھارتی دارالحکومت اور اس سے ملحق علاقوں پر مشتمل ریاست دہلی کے انتخابات میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کامیاب ہوئی اور اس کے سربراہ اروند کجری وال نے لوک سبھا کا الیکشن لڑنے کے لیے وزارت اعلیٰ چھوڑ دی۔ عام آدمی پارٹی کو کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر عوام نے حمایت سے نوازا۔ دوسری طرف وزارت عظمٰی کے امیدوار، ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما نریندر مودی کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک کردیں گے۔ وہ کرپشن کے خلاف بڑھک مار کر انتخابی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کے کاروباری طبقے سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے ادوار میں گجرات کو غیر معمولی ترقی دی ہے۔ ایسے میں کرپشن ختم کرنے سے متعلق ان کے دعوے خاصے غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے کرپشن ختم کرنے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا۔ دوسری طرف حکمراں کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی کہتے ہیں کہ وہ سیاسی اور معاشی اصلاحات کا ایجنڈا لے کر میدان میں اترے ہیں۔ مگر ان کی بات پر یقین کرنے والے کم ہیں کیونکہ کانگریس کا ریکارڈ بھی شفافیت کے حوالے سے کچھ شاندار نہیں رہا۔
بھارت کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی کے لیے نجی شعبے سے تعاون درکار ہے۔ سڑکیں بنانی ہیں۔ فیکٹریاں تعمیر کرنی ہیں۔ شہروں کو ترقی دینی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بڑے کاروباری اداروں اور حکومت کے درمیان رابطہ تقریباً ٹوٹ چکا ہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ ہر معاملے میں کرپشن نے کاروباری طبقے کو بھی بہت حد تک بدظن کردیا ہے۔ بہت سے ملکوں میں کرپشن نے معیشت کو تیز کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔ کرپشن کرنے والے اپنی دولت کو کاروبار میں لگاتے ہیں۔ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت میں کرپشن کا سراغ ملنے پر ہونے والی کارروائی بہت سخت ہوتی ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طور کرپشن کے ذریعے کچھ جمع کرلیتے ہیں، وہ اسے چھپانے میں عافیت جانتے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کو قرضوں کے حصول کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے میں صنعتوں کا پہیہ درست ڈھنگ سے چل نہیں پارہا۔ معدنیات کا شعبہ بھی اب تک ترقی نہیں کر پایا۔ غیر معمولی کرپشن کے باعث معدنیات کے حوالے سے پیداوار وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ توانائی کے شعبے میں کرپشن اس قدر ہے کہ بیشتر معاملات رک سے گئے ہیں۔
بڑھتی ہوئی کرپشن کے باعث نجی شعبے کے بڑے اداروں نے سرمایہ کاری گھٹادی ہے۔ اب یہ اعداد و شمار ۱۷؍فیصد سے کم ہو کر خام قومی پیداوار کے ۱۱؍فیصد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خام قومی پیداوار میں اضافے کی شرح بھی گر کر ۵ فیصد سالانہ پر آگئی ہے۔ بھارت کا قانونی نظام بھی اس قدر پیچیدہ ہے کہ معاملات کو درست کرنے میں اپنا کردار عمدگی سے ادا نہیں کر رہا۔ کرپشن کرنے والوں اور کاروباری طبقے کو پریشان کرنے والوں کو بر وقت سزا دینا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے بہت سی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ اعلیٰ افسران میں سے چند ہی ہیں جنہیں کرپشن ثابت ہونے پر جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں گردن پھنستی بھی ہے تو نچلے درجے کے افسران کی۔
کرناٹک اور دیگر جنوبی ریاستوں میں جنگلات سے قیمتی لکڑی اور معدنیات کی اسمگلنگ ایک بڑا ایشو ہے۔ اس لعنت پر قابو پانے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اب تک زیادہ بار آور ثابت نہیں ہوئے۔ کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع بیلری شہر اور اس کے نواح میں کئی کاروباری گھرانوں کے سیاسی خاندانوں سے اچھے مراسم ہیں۔ ان مراسم ہی کی بدولت کرپشن ممکن ہے۔ جنگلات سے قیمتی لکڑی اور معدنیات نکال کر بیرون ملک اسمگل کرنا ایک خاصا نفع بخش دھندا ہے۔ یہ ہزاروں ارب روپے کا دھندا ہے جس پر قابو پانا اب تقریباً ناممکن ہے۔ سیاست دانوں اور مافیا والوں نے ہاتھ ملا رکھا ہے۔ بڑے کاروباری ادارے بھی اس سسٹم کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایسا کیے بغیر وہ اپنی مرضی کے مطابق کام نہیں کرسکیں گے۔
کرناٹک میں بیلیکیری سے روزانہ دو ہزار ٹرک بھر کر خام لوہا بندر گاہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ جب عدالت کے ذریعے چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ کم و بیش ۷۰ کاروباری گھرانے خام لوہے کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنا اس لیے ممکن نہیں ہو پایا ہے کہ وہ سب انتظامی مشینری کے پُرزوں کو باقاعدگی سے اس کا حصہ پہنچاتے ہیں۔ سیاست دان بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر اس دھندے کے خلاف کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے عدالتی کارروائی سے متعلق ۲۵ ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ اب یہ معاملہ پولیس اور عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔
خام لوہے کی اسمگلنگ تو بھارت میں کرپشن کے معمے کا صرف ایک حصہ ہے۔ معاملات کس حد تک بگڑے ہوئے ہیں اور کون اس گنگا میں کس طرح اور کس حد تک اشنان کر رہا ہے، پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ممبئی میں بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی روپیہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسیوں میں سے ہے۔ سیاست دان اسے اپنی مرضی کے لیے Manipulate کرتے ہیں۔ روپے کی قدر کا تعین سیاست دان اپنے اور کاروباری طبقے کے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کی غرض سے کرتے ہیں۔ بہت سے سیاست دانوں اور کابینہ کے ارکان نے بیرون ملک بڑے پیمانے پر اثاثے قائم کر رکھے ہیں۔ سنگاپور اور دوسرے بہت سے ممالک میں بڑی املاک خریدی گئی ہیں۔ کئی سیاست دانوں کی اولاد ملک ہی میں اپنی الگ سلطنت قائم کیے ہوئے ہے۔
’’دی اکنامسٹ‘‘ نے جب سیاست دانوں، سرمایہ کاروں، تفتیش کاروں، سرکاری افسران، صنعت کاروں اور بڑے تاجروں سے انٹرویو کرکے بھارت میں کرپشن کے اسباب جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ بہت وسیع اور منظم سیٹ اپ ہے۔ کرپشن کے معاملے میں کاروباری اور سیاسی طبقہ اس حد تک ہم آہنگ ہے کہ ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور جاتا ہے۔ جن لوگوں کا انٹرویو کیا گیا انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ ان کے نام منظر عام پر نہ لائے جائیں۔ مجموعی طور پر خاصی مایوسی کی فضا پائی جاتی ہے۔ بھارت میں کم ہی لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ کرپشن ختم ہوگی یا اس کے مرتکب افراد کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ سب جانتے ہیں کہ کرپشن کا نظام ہی ایسا ہے کہ کسی کو سزا ہو ہی نہیں سکتی۔ سب ایک دوسرے کو بچانے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کرپشن اعلیٰ طبقے تک محدود ہے۔ پورے معاشرے میں یہ ناسور پھیل چکا ہے۔ معمولی سرکاری افسران سے لے کر عام آدمی تک، سبھی کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے چھوٹے موٹے کام کرانے کے لیے کرپشن پر مجبور ہیں۔ پولیس اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کو معمولی کاموں کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ۵۴ فیصد بھارتی باشندوں نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ برس اپنے مختلف کام کرانے کے لیے سرکاری مشینری کو رشوت دی۔ نائیجریا میں یہ تناسب ۴۴ فیصد اور انڈونیشیا میں ۳۶ فیصد ہے۔ جن ملازمتوں میں رشوت کی آمدنی کا زیادہ موقع ہو، ان کے حصول کے لیے سبھی کوشاں رہتے ہیں۔
بہت سے کاروباری ادارے اپنا کام تیزی سے مکمل کرانے کے لیے سرکاری مشینری کو رشوت دیتے ہیں یا رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ اگر مطلوبہ حد تک رشوت نہ دی جائے تو فائل آگے نہیں سرکتی۔ بڑی کاروباری شخصیات اعتراف کرتی ہیں کہ انہیں اپنے کاغذات کی کلیئرنس اور دیگر امور کے لیے سرکاری اہلکاروں اور اعلیٰ افسران کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کے لیے رشوت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رشوت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ جب سرکاری افسران دیکھتے ہیں کہ ان کے اقدامات سے کسی کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ زیادہ رشوت طلب کرتے ہیں اور وہ ملتی بھی ہے۔
بھارت میں تین چار عشرے قبل رشوت اس قدر عام نہیں تھی۔ سرکاری افسران اور اہلکار بھی رشوت لیتے تھے مگر بہت سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر۔ انہیں یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن چھاپہ نہ مار دے۔ کوئی بھی شخص رشوت دیتے وقت ممکنہ عواقب پر غور کرتا تھا۔ رشوت دینے والے بھی ہچکچاتے رہتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ رشوت لینے کی طرح رشوت دینا بھی جرم ہے اور پکڑے جانے پر جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔
عالمی معیشت میں بھارت کی آمد نے بھی کرپشن کو راہ دی ہے۔ بڑے لائسنس کے حصول کے لیے اب زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے۔ بہت سے معاملات میں سُرخ فیتے کی لعنت پر قابو پانا ہر ایک کے لیے آسان نہیں رہا۔ عالمی منڈی میں اپنا مال پہنچانے کے لیے کاروباری طبقے کو سیاست دانوں اور سرکاری مشینری کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا ہے یعنی انہیں خوش رکھنا پڑتا ہے۔ نجکاری کے عمل نے معاملات کو مزید کرپشن کی طرف دھکیلا ہے۔ بڑے ٹھیکوں کی نیلامی میں بھی کرپشن تیزی سے بڑھی ہے۔ کسی بھی معاملے میں کاروباری طبقے جس قدر فوائد حاصل کرتے ہیں اُسی کے تناسب سے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ سیاست دان اور سرکاری افسران مل کر کاروباری طبقے کے مفادات کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں اور اس کا استحصال بھی کرتے ہیں۔ بہت سے بڑے سودوں اور درآمدی و برآمدی کنسائنمنٹس پر ڈیوٹی سے بچنا بھی اب کاروباری طبقے کی مجبوری ہے۔ اس معاملے میں بھی کرپشن بڑھی ہے کیونکہ رشوت دیے بغیر ڈیوٹی سے نجات پانا ممکن نہیں۔ کسی بھی بڑی رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی ذمہ داری سے بچانے کے لیے سیاست دان اور ریاستی مشینری مل کر کاروباری طبقے کی مدد کرتے ہیں اور اپنا حصہ پاتے ہیں۔
سول سروس اور انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس میں بھی کرپشن نے جڑ پکڑ لی ہے۔ سب اپنا حصہ پانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اعلیٰ افسران اور نچلے درجے کے اہلکاروں کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ ان کے رشوت لینے اور غیر قانونی اقدامات کو قانونی ٹھہرانے سے قومی خزانے کو اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کو کس حد تک نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ صرف اپنے حصے سے غرض رکھتے ہیں۔ دیگر معاملات پر ان کی نظر ہے، نہ وہ اس امر پر دھیان دینا چاہتے ہیں۔
بھارت میں کرپشن کی مجموعی مالیت کس قدر ہے، اس کا اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے کیونکہ تمام معاملات ایک دوسرے میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ فوائد بٹوریں اور اس کے لیے لازم ہے کہ سب ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں اور دے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے کہ سیاست دان، کاروباری طبقہ اور اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری افسران اس بہتی گنگا میں کس حد تک اشنان کر رہے ہیں۔ کاروباری طبقہ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر متوازی معیشت چلا رہا ہے جس کی مجموعی مالیت ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ بیشتر معاملات میں سرکاری ڈیوٹی اور ٹیکس ادا نہیں کیے جاتے۔ کاروباری ادارے اس مقصد کے حصول کے لیے سیاست دانوں کو باقاعدگی سے رشوت اور سہولتیں دیتے ہیں۔ حکمراں طبقے کو زیادہ سے زیادہ نوازا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورے جاسکیں۔
بھارت میں رشوت مختلف شکلوں میں لی جاتی ہے۔ نقد بھی اور سونے کی شکل میں بھی۔ بہت سے لوگ اپنی رشوت کی آمدن کو چھپانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ظاہر ہونے پر ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ بینکوں میں بھی زیادہ رقم نہیں رکھی جاتی کیونکہ اس صورت میں سرکاری تفتیشی اداروں کو بہت کچھ آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے۔ کرپٹ سرکاری افسران چاہتے ہیں کہ ان کی بالائی آمدنی ڈھکی چھپی ہی رہے کیونکہ ظاہر ہونے پر ان کی ملازمت ہی داؤ پر نہیں لگ سکتی بلکہ جیل کی سلاخوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ رشوت لینے والے اس لیے بھی محتاط رہتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں میں سے ہی بہت سے ان کے خلاف ہوجاتے ہیں۔
بہت سے سیاست دان اور سرکاری افسران اب رشوت سے ایک قدم آگے جاکر کاروباری اداروں میں حصہ چاہتے ہیں۔ اگر ڈیل بڑی ہو تو وہ اس میں پارٹنر بھی بن سکتے ہیں۔ اس صورت میں ان کے مفادات زیادہ محفوظ رہتے ہیں اور کالے دھن کو سفید کرنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔ اگر وہ کسی بڑے کاروباری ادارے کے پارٹنر ہوں تو اس ادارے سے ملنے والے حصے کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بھی آسانی سے قانونی شکل دی جاسکتی ہے۔ بھارت میں سونے کا بڑھتا ہوا استعمال اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ رشوت کے لیے سونے کو زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔
بہت سے سرکاری افسران اب رشوت زمین کی شکل میں بھی لیتے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے جب اپنے پروجیکٹس کا اعلان کرتے ہیں تو ان میں سرکاری افسران کو پلاٹس سے نوازتے ہیں۔ یہ دراصل ’’اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے‘‘ والا معاملہ ہے۔ جس سے جتنا فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے، اسے اسی قدر نوازا جاتا ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میںکوئی بھی لنچ فری نہیں ہوتا۔ بات سیدھی سی ہے، جس سے کوئی فائدہ پہنچتا ہو، اسی کو تو نوازا جاتا ہے۔ یعنی کوئی کسی پر یونہی مہربان نہیں ہوا کرتا۔ نئی دہلی میں حال ہی میں ایئر پورٹ کے نزدیک چند اعلیٰ افسران کو دیے جانے والے پلاٹس کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
بہت سے لوگ رشوت ملک میں وصول نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیرونی اکاؤنٹس میں رقوم ٹرانسفر کردی جائیں۔ بہت سے افسران اپنے رشتہ داروں کے کھاتے میں وصولی کرتے ہیں۔ اسی طور وہ زمین بھی اپنے رشتہ داروں کے نام پر خریدتے ہیں تاکہ کسی بھی کارروائی کی صورت ان کے خلاف کچھ نہ جائے اور معاملات شفاف رہیں۔ رشوت کی شکل میں بیرون ملک وصول کی جانے والی رقم بھی اتنی ہے کہ اب ماہرین اس کا اندازہ لگانے سے متعلق اپنے اندازوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بیرون ملک بھارتی سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے کھاتوں میں موجود رقم کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر ہے۔ اس میں کتنی رقم قانونی ہے، اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ اب بیشتر سرکاری افسران بیرونی ملک وصولی ہی کو اصول بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں گردن شاذ و نادر ہی پھنستی ہے۔
ایک بنیادی مسئلہ کالے دھن کو ملک میں واپس لانا ہے۔ بہت سے سیاست دان انتخابی مہم کے دوران طرح طرح کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان میں ایک نعرہ رشوت کا خاتمہ اور کرپشن کے ذریعے جمع کی ہوئی رقوم کو ملک میں واپس لانا بھی شامل ہے۔ مگر کس میں ہمت ہے کہ ایسا کر دکھائے۔ کسی بھی سیاست دان کے لیے ایسا کرنا انتہائی دشوار، بلکہ ناممکن ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو بڑے کاروباری اداروں اور اسمگلرز کی طرف سے اچھا خاصا مال ملتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو باضابطہ فنڈنگ کی جاتی ہے۔ بیشتر معاملات میں وہ کاروباری اداروں کے لیے کام کرتی ہیں۔ بجٹ کے موقع پر سیاسی جماعتوں کی وفاداری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ کاروباری طبقے کے مفادات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتیں۔ حکمراں طبقہ کاروباری طبقے کے مفادات کا خیال رکھتا ہے اور اپنی قیمت پاتا ہے۔ یہی حال سرکاری مشینری کا ہے۔ بیورو کریسی وہی کچھ کرتی ہے جو کاروباری طبقے کے مفاد میں ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنا حصہ پاتی ہے۔ جہاں معاملات اس حد تک ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہوں تو پھر کسی بہتری کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ جہاں معاملہ درجنوں ارب ڈالر کے لین دین کا ہو، وہاں قانون پر عمل کا تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے؟
سیاست اب مشن ہے نہ خدمت۔ یہ کاروبار ہے۔ میڈیا کو بھی بیچ میں لایا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ دولت کے بغیر چل سکیں۔ سیاست اب خاصا مہنگا بزنس ہے۔ کسی بھی جماعت کے لیے انتخابات میں حصہ لینا اب اربوں روپے کا معاملہ ہے۔ پارٹی کو بڑے پیمانے پر فنڈز درکار ہوتے ہیں جو کاروباری طبقہ دیتا ہے۔ بھارت میں اگر کسی جلسے میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو شریک ہونا ہو تو اس پر کم و بیش تین لاکھ تیس ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کا اہتمام کرنا کانگریس کے لیے انتہائی دشوار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیونکر کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ پارٹی کے وفادار اور بھلا چاہنے والے کاروباری ادارے سامنے آتے ہیں۔ وہ کھل کر فنڈنگ کرتے ہیں۔ اور جب پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو اپنی فنڈنگ کو سود سمیت وصول بھی کرلیتے ہیں۔ بھارت میں امسال جو انتخابات ہونے والے ہیں، ان کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر لگایا جارہا ہے۔ پارٹی کے لیے فنڈ جمع کرنا اب بجائے خود ایک دھندا ہے۔ اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ لوگ رکھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے زور بازو سے پارٹی کے لیے فنڈ کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔
کرپشن میں ایک بڑا حصہ سیاسی جماعتوں کے لیے فنڈ کا غیر قانونی طور پر وصول کیا جانا ہے۔ بڑے کاروباری اداروں، سرمایہ کاروں اور تاجروں سے وصولی کی جاتی ہے۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں کو فنڈز نہیں دیتے، ان کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے کاروباری مفادات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ دینے ہی میں بھلائی ہے۔ جب بات اعتراف کی آئے تو سبھی مکر جاتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت فنڈز لینے کا اعتراف نہیں کرتی۔ چند سخت قوانین متعارف کرائے گئے ہیں مگر ان پر عمل تو اس وقت ہوگا، جب غیر قانونی فنڈنگ کا کوئی ثبوت ملے گا۔
سرکاری مشینری میں قوانین کے نفاذ کی لگن برائے نام پائی جاتی ہے۔ جو لوگ رشوت لیتے ہیں، وہ ایسا کیوں کریںگے؟ اور جو رشوت نہیں لیتے، وہ اپنی گردن خواہ مخواہ کسی شکنجے میں نہیں پھنسانا چاہتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے غیر قانونی دھندے میں سبھی طاقتور ہیں۔ سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر چہ معنی دارد۔ بھارت میں کرپشن کے خلاف قوانین تو ہر دور میں نافذ کیے گئے ہیں مگر کارروائی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بہت کچھ ہل جاتا ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ معاملات خواہ مخواہ اتنے بگڑیں کہ سبھی لپیٹ میں آجائیں۔
چند ایک چھوٹے معاملات میں کرپشن کا خاتمہ ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے بہت سے بِچولیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور لوگوں کو اپنے کام براہ راست کرانے کا موقع ملے گا۔ اس صورت میں کرپشن کچھ کم ہوگی، مگر سوال تو بالائی سطح پر کرپشن کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔ جب تک انتہائی طاقتور اداروں کو درست نہیں کیا جائے گا، تب تک معاشرے میں مجموعی بہتری کی کوئی صورت نہیں نکلے گی۔
(“Fighting corruption in India: A bad boom”… “The Economist”. March 13, 2014)
Leave a Reply