
اسلامسٹس آن اسلام ازم ٹوڈے‘‘ بروکنگز کے نئے پراجیکٹ ’’ری تھنکنگ پولیٹیکل اسلام‘‘ کا حصہ ہے۔ اس سیریز میں ہمیں اسلامی تحاریک کے کارکنوں اور قائدین کو براہِ راست سننے کا موقع ملتا ہے کیونکہ وہ اس سیریز کے مصنفین سے براہِ راست گفتگو کرتے ہیں اور بحث میں حصہ لیتے ہیں۔ ایک تعمیری مکالمے کے ذریعے اسلام پسندوں کو اسلام کے چند بڑے علمی قائدین سے متفق ہونے یا اختلاف کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس صورت میں وہ اپنی رائے زیادہ معتبر اور وقیع انداز سے دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
(بروکنگز)
مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکیں عمومی طور پر اور مصر کی اخوان المسلمون خصوصی طور پر خود کو ایک طرف تو مصر کی فوجی حکومت سے اور دوسری طرف شام میں سرگرم عمل ’’داعش‘‘ سے الگ ثابت کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ جدید اعتدال پسند تحریکیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتدال اور اوسط دو ایسی اصطلاحیں ہیں جنہیں داعش جیسی تنظیموں کے ہاتھوں دین کے نام پر سرزد ہونے والے مظالم سے دور رہنے کا دعویٰ کرنے والے گروپ مثبت انداز سے بروئے کار لاتے ہیں۔ خود کو اعتدال پسند یا اوسط قرار دینے والے گروپ دراصل یہ دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں کہ اسلام کو اگر سمجھا ہے تو انہوں نے، داعش جیسی تنظیموں نے نہیں۔
داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں سے خود کو الگ ثابت کرنے کا یہ دعویٰ اگر نیک نیتی پر مبنی ہو تب بھی کسی کام کا نہیں اگر یہ (اعتدال پسند) گروپ اپنی صفوں میں موجود ان لوگوں کے خیالات اور نظریات کا جائزہ نہ لیں جن کی سوچ تحریکوں پر مجموعی اعتبار سے اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے شام میں انتہا پسندی کو فروغ دینے اور داعش جیسے گروہوں کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
محض مثبت ہونے، اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے، انسانی جان کا احترام کرنے اور اس حوالے سے بہت کچھ لکھنے سے خود کو انتہا پسندوں سے الگ ثابت کرنے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان المسلمون جیسی مرکزی دھارے کی تنظیموں اور داعش جیسے انتہائی انتہا پسند گروہوں کے درمیان موجود فرق کو سمجھا جانا چاہیے، مگر اس معاملے میں صرف دعوے کسی کام کے نہیں۔ یہ بھی تو ثابت کرنا پڑے گا کہ سوچ کا حقیقی فرق موجود ہے اور عمل کی دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ نظریے کی نظریے سے لڑائی کا معاملہ ہے۔ اصل کام ان بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ان شخصیات کو (ان کے نظریات سمیت) کچرا کنڈی میں پھینکنا ہے جن کے نظریات اور اعمال نے انتہا پسندی کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ بہت سی شخصیات کو یکسر نظر انداز کرنا یا تاریخ کے کوڑا دان میں بھی تو پھینکنا ہے۔ ان شخصیات اور ان کے نظریات کے پیچھے ہی تو داعش جیسے گروہ چھپتے پھرتے ہیں اور اپنے افکار و اعمال کو اسلامی دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
داعش جیسے گروہوں کے فیصلے قرآن اور شریعہ کی مخصوص تعبیر و تشریح پر انحصار کرتے ہیں۔
داعش اور اس کے ہم خیال گروپوں نے مغرب میں نئی نسل کو متاثر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ ان گروپوں کا حصہ بنتے ہوئے ہتھیار اٹھاکر جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں گے، بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ بہت سے نوجوان داعش جیسی تنظیموں کے نظریات سے متاثر ہوکر اُس کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور اخلاقی انحطاط کے اس دور میں گزرے ہوئے زمانوں کے احیاء کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔ نمازِ جمعہ کے خطاب کے دوران نوجوانوں نے جن سِحر انگیز شخصیات کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے انہیں وہ داعش جیسی تنظیموں کی صفوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی قائد وہ ہے جو عربی لباس میں نمودار ہوگا، لمبی داڑھی ہوگی اور تلوار تھامے ہوئے ہوگا جس سے وہ اسلام پر عمل نہ کرنے والے کافر اور مسلمان دونوں ہی کو قتل کرے گا۔ شکست و ریخت کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ شخصیت مسلمانوں کو انحطاط کے دور سے نکال کر فتح سے ہم کنار کرنا چاہے گی۔ وہ ان حالات کی بات کرے گا جنہوں کی کوکھ سے موجودہ خرابیوں نے جنم لیا ہے یعنی جنگیں اور نوآبادیاتی نظام۔ ساتھ ہی ساتھ وہ قدیم، کلاسیکی عربی میں بات کرے گا جو آج کل بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ اس کا مدعا یہ ہوگا کہ اسلام کی عظمتِ رفتہ لَوٹ آئے۔
آئیے، ذرا کھل کر اور دیانت سے بات کرتے ہیں۔ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے قائدین پر نظر دوڑائیے تو وہ اخوان المسلمون اور دیگر اعتدال پسند تحریکوں کے قائدین سے زیادہ مستند اور ’’اسلامی‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ قائدین ایک ریاست اور خلافت رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہ اپنا رشتہ قریش اور بنو ہاشم سے جوڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ انہیں زیادہ سے زیادہ قابل قبول بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں یہ سب کچھ ہو وہاں آپ کس طور مقابلہ کرسکتے ہیں۔ محض اعتدال پسندی کا دعویٰ کرنے سے تو مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ داعش اور اس کے ہم خیال انتہا پسند گروپوں میں جو کشش پائی جاتی ہے وہ کس طور ختم یا دور کی جاسکے گی؟
دنیا کو ایسی اسلامی تحریکوں کی ضرورت ہے جو اعتدال پسند ہوں، میانہ روی کی بات کرتی ہوں اور تشدد کی راہ پر گامزن ہونے سے یکسر گریز کرتی ہوں۔ داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کا عروج ہی اس مقصد کے حصول کی راہ میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جو کچھ یہ گروپ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے ہی میں دنیا محسوس کرے گی کہ اعتدال پسند اسلامی تحریکیں وقت کی ضرورت ہیں اور انہیں جوش و خروش کے ساتھ اپنانے، گلے لگانے کی ضرورت ہے۔
داعش جیسے گروہوں نے اسلامی تحریکوں پر شدید منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ داعش اور اس کے ہم خیال گروہوں نے عراق، شام اور لبنان میں مسلکی اختلاف کی بنیاد پر طاقت کے استعمال اور ’’دشمن‘‘ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے۔ ان گروہوں کے نزدیک اعتدال پسند گروہ واضح اور دور بیٹھے ہوئے دشمن سے زیادہ خطرناک دشمن ہیں! انتہا پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں کا صفایا کیے بغیر حقیقی اور حتمی فتح کا حصول ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے سے ان غیر فعال مسلمانوں، یعنی اعتدال پسندوں کو نکال باہر کرنے یا ختم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے بعد سے مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں کے خلاف داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی بھرپور کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ جو نوجوان اخوان المسلمون اور دیگر اعتدال پسند گروہوں سے وابستہ ہونے کا ذہن رکھتے ہیں انہیں ورغلایا جارہا ہے کہ ایسا کرنا کسی بھی اعتبار سے اسلام کی خدمت کرنا نہ ہوگا۔ کچلے ہوئے اور حقوق سے محروم لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ جابر مطلق العنان حکمران صرف طاقت ور انقلاب کی زبان سمجھتے ہیں۔ انتہا پسند گروہ نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ نکتہ ٹھونستے ہیں کہ مطلق العنان اور جابر حکومتیں جس قدر جبر ڈھاتی ہیں اُسی قدر جبر اُن پر ڈھایا جانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ داعش اور اس کے ہم خیال گروہ سرحد پار کرکے دور افتادہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی جبر کا مزا چکھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چونکہ میدان میں آکر طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس لیے عام مسلم نوجوان کے لیے وہی ’’آئیڈیل‘‘ کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری عام نوجوانوں کے لیے تو ایسے ہی گروہ آئیڈیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو کچھ داعش جیسے گروپ کر رہے ہیں اُس سے عام مسلم نوجوان کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ ہوتا جاتا ہے کہ اعتدال پسند گروہوں کا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مرحلہ وار آگے بڑھنا غلط ہے کیونکہ اس سے کمزوری ظاہر ہوتی ہے، طاقت نہیں۔ دوسری طرف وہ داعش جیسے گروہوں کی طرف سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ دیکھتے ہیں تو اُن میں اِنہیں خاصی کشش محسوس ہوتی ہے۔
بعض ممالک میں انتہا پسند گروہوں نے سیاسی دھارے میں شامل ہوکر اقتدار بھی حاصل کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کا طریق ہی درست تھا۔ اس معاملے میں ترکی کی اے کے پارٹی اور تیونس کی النہضہ پارٹی کی مثال دی جاتی ہے۔ ایسا تجربہ ہر اسلامی ملک میں کامیابی سے ہم کنار ہوں، اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ معاشرتی حالات اور مذہبی رویے پاکستان اور لبنان جیسے ممالک میں انتہائی مختلف ہوسکتے ہیں۔
داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے ابھرنے سے روایتی، مرکزی دھارے کی اعتدال پسند اسلامی تحریکوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں کشش کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ اپنی بات زیادہ زور دے کر، مدلل انداز سے کہنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔ ان سے وابستہ غیر سرکاری ادارے اور دوسرے بہت سے لوگ دیگر اسلامی گروہوں کی طرف جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اعتدال پسند اسلامی عناصر کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو انہیں انتہا پسند گروہوں سے خطرہ ہے اور دوسری طرف مطلق العنان حکمران اور سیکولر عناصر بھی انہیں دبوچنے اور ان کا قد گھٹانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یعنی انہیں دو محاذوں پر دادِ شجاعت دینی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اعتدال پسند یا مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکیں یکسر دم توڑ دیں گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں، ان میں عوام کے لیے زیادہ کشش نہیں رہے گی۔ لوگ اپنے مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ایسی تحریکوں سے وابستہ رہنا اچھا لگتا ہے جو طاقت کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرتی ہوں۔
مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں کی قیادت اب تک تبدیلیوں کو سمجھنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دی۔ ان کے اطوار اب بھی خاصے غیر لچک دار ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنے اور تحریک کو نئے تحرک سے ہم کنار کرنے پر انہوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس معاملے میں غیر معمولی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ محسوس ہو کہ کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انتہا پسند گروپوں کے چیلنج سے نمٹنے کی ان میں بھرپور صلاحیت ہے اور یہ کہ اس صلاحیت کو وہ بروئے کار بھی لانا چاہتی ہیں۔
عام مسلمان عجیب مخمصے سے دوچار ہیں۔ ایک طرف تو انہیں اسلامی عناصر کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے کہ وہ دین کے لیے کچھ کر نہیں رہے۔ دوسری طرف سیکولر عناصر ان پر انتہا پسند ہونے کا، انتہا پسندوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایسے میں عام مسلمانوں کے لیے معقول انداز سے سوچنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔
اسلامی تحریکوں کا اندرونی انقلاب
۶ سال قبل عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر (عرب اسپرنگ) نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ بہت سے ممالک اور تحریکوں کے اندر انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جدید ترین ’’کمیونی کیشن ٹیکنالوجی‘‘ نے سیاسی اور معاشرتی معاملات پر خیالات کے اظہار کو ناقابل یقین حد تک ممکن بنادیا۔ آج عرب دنیا کے لوگ سیاسی اور سماجی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ باشعور ہیں۔
اخوان المسلمون کے پچھلی نسل کے رہنماؤں نے ایک صدی کے دوران جابر حکمرانوں کی طرف سے مقدمات اور طاقت کے استعمال کا بھرپور سامنا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان میں مزاحمت کے ساتھ ساتھ استقامت اور شعور بھی پیدا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اخوان معدوم ہونے سے محفوظ رہی۔ ہاں، ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اخوان کی قیادت اندرونی سطح پر ایسا کچھ کرنے میں ناکام رہی جس سے نئی نسل اس تحریک کی طرف زیادہ متوجہ ہو۔ غیر معمولی احتیاط پسندی نے جمود پیدا کردیا۔ یہی سبب ہے کہ آج اخوان کی طرف متوجہ ہونے والوں کی واضح کمی ہے۔
اخوان السلمون میں زیر نقاب جمہوریت اندرونی سطح پر کشمکش کا ذریعہ بن گئی۔ اس وقت تحریک کو اندرونی سطح پر ایک طرح کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ سوال صرف اندرونی سطح پر انتخاب کے ذریعے جمہوری اقدار کو اپنانے سے کہیں زیادہ اختلاف رائے کو کھل کر قبول کرنے، اس کا اظہار یقینی بنانے اور تحقیق کے ذریعے تحریک کا ڈھانچا اس طور تبدیل کرنے کا ہے، کہ معاملات بے قابو بھی نہ ہوں اور بہت کچھ تبدیل کرنے کی گنجائش بھی پیدا ہو۔
آئیے، چند ایسے امور کا جائزہ لیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوان اور ایسی ہی دیگر تحریکوں کو زیادہ انقلابی نوعیت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
٭ جمہوریت کے نام پر شوریٰ کا نظام اپنایا گیا ہے۔ مجلسِ شوریٰ جو کچھ کہتی ہے وہ محض سفارشات کی سطح پر ہوتا ہے جس پر عمل قیادت کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا۔ یعنی شوریٰ کا بنیادی مقصد مل بیٹھنا اور اظہارِ خیال کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اچھی خاصی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ قیادت کو اگر اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے ہیں تو پھر شوریٰ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسلامی تحریکوں نے جمہوریت کو اپنایا ضرور ہے مگر ایک خاص حد تک اور صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے آپ کو کسی عہدے کے لیے پیش نہیں کرسکتا۔ انتخابی عمل میں بھی یہی چیز حائل ہو رہی ہے۔ اسلامی تحریکوں کے ڈھانچے میں یہ بات بہت بری سمجھی جاتی ہے کہ کوئی خود کو کسی منصب کے لیے پیش کرے۔ اس سلسلے میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث بیان کی جاتی ہے جس میں انہوں نے قاضی مقرر کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور حضورؐ نے فرمایا کہ ہم ایسا نہیں کرتے یعنی جو اپنے آپ کو کسی منصب کے لیے پیش کرے اسے قبول نہیں کیا جاتا۔
اسلامی تحریکوں میں بہت سے لوگ اپنے خیالات یا تجاویز پیش کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان پر اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہونے کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں میں فیصلے اتفاق رائے سے بھی ہوتے ہیں۔ کسی کو کسی بھی منصب پر فائز کرنے سے قبل سب کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے۔ مسئلہ کسی نظام کو اپنانے کا نہیں بلکہ اس کا اطلاق کرنے کا ہے۔ مگر خیر، بعض کیسز میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ قیادت کسی خاص گروہ یا فرد کی حمایت کا بھی کہہ سکتی ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ اپنے طے کردہ اصولوں اور طریق کار کی نفی کر رہی ہوتی ہے۔
٭ ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکیں خالص دینی سوچ اور سیاسی فکر کے درمیان بٹی ہوئی ہیں۔ وہ بہت سے اہم معاملات میں اب تک کھل کر کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکی ہیں۔ معاشرے میں اس حوالے سے اسلامی تحریکوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ لوگ اسلامی تحریکوں کے بارے میں دین و سیاست کے حوالے سے کوئی واضح رائے قائم کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کسی بھی تحریک کے لیے خیالات کا تنوّع غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
٭ مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکیں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اپنے ارکان یا حامیوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے عشروں کی سیاسی جدوجہد کے باوجود سیاسی اعتبار سے وہ نتائج نہیں دیے جو دینے چاہیے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے لیے دلوں میں نرم گوشہ رکھنے والے لاکھوں افراد نے مایوس، بدظن یا بددل ہوکر انتہا پسند گروپوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اعتدال پسند تحریکیں اپنے حصے کا کام کرنے میں بہت حد تک ناکام رہی ہیں۔ مصر کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاید عدم تشدد کے پرچار کے باوجود (یا اس کے باعث) اخوان سے وابستہ بہت سے لوگوں نے صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے تشدد کا راستہ اپنانے کی بھرپور کوشش کی۔
٭ اخوان المسلمون کی صفوں سے بہت سے لوگوں نے الگ ہوکر مصر میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو اخوان کے سابق مرکزی رہنما عبدالمنعم ابو الفتوح نے قائم کی تھی۔ شام میں نصرۃ فرنٹ اور احرار الشام کا قیام عمل میں آیا۔ ان تینوں جماعتوں سے وہ لوگ وابستہ ہوئے جن کا تعلق اصلاً اخوان سے تھا اور ان میں سے بیشتر نے بعد میں تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا۔ مصر اور شام میں غیر معمولی سیاسی تبدیلیوں کے رونما ہونے پر مطلوبہ کردار ادا کرنے میں اخوان کی ناکامی کے بعد اس سے وابستہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد نے دیگر بہت سے گروپوں میں شمولیت اختیار کی۔
٭ ہم جس بحران کا شکار ہیں اس سے نکلنے یا بچنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا مگر سب سے پہلے تو ہمیں ان حالات کا جائزہ لینا پڑے گا جنہوں نے ان حالات کو جنم دیا ہے۔ مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں نے جو غلطیاں کی ہیں ان کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ان کی کارکردگی کا تجزیہ کرنا پڑے گا۔ عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے مخصوص حالات کو بھی ذہن نشین رکھنا پڑے گا۔ مگر خیر، عرب دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو زیادہ دیر تک تناظر کے طور پر کام نہیں آسکتا۔ ایسے میں نئی تبدیلیوں کے لیے زیادہ تیار ہوکر، کمر کس کر میدان میں آنا پڑے گا۔
بدلتی ہوئی دنیا اور حالات کے تناظر میں قانون سازی کے اسلامی یعنی شرعی اصولوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ اس وقت متعدد مسلم ممالک کی حکومتیں شرعی اصولوں کی بنیاد پر وضع کیے گئے قوانین کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ دیکھنا پڑے گا کہ ان حکومتوں نے دین کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح اور کس حد تک استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے گی۔
مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکوں کو اسلام کی حقیقی شکل دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے صدیوں کے عمل میں اسلامی اصولوں اور مبادی سے جڑ جانے والے بہت سے بے بنیاد تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے نزدیک دین کا جو تصور ہے وہ حقیقی ہے اور اُسے آج کی دنیا میں عمدگی سے زندگی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں تحقیق و تجزیے کے جو مسلّم طریقے رائج ہیں انہیں بہتر انداز سے بروئے کار لاکر اسلامی شریعہ اور تفاسیر وغیرہ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے معاملات کو سمجھنے اور ضرورت کے مطابق اپنانے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔ ان جدید طریقوں کی مدد سے اسلامی دنیا میں پائی جانے والی بہت سی روایات، احادیث اور قرآنی تعلیمات کی بنیاد کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جہاں جہاں اسلامی تعلیمات اور ان کے عملی اطلاق کے حوالے سے واضح تضاد پایا جاتا ہو وہاں نظر ثانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ داعش نے بنیادی اسلامی تعلیمات کے علاوہ بہت سے صحابۂ کرام کے اعمال کو بھی بنیاد بناکر کام کیا ہے۔ بہت سے جنگی قیدیوں کو سزا دینے کے معاملے میں صحابہ کی طرز عمل کو ذہن نشین رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے واضح تضادات کی نشاندہی کرنا پڑے گی تاکہ عام مسلمانوں کو بتایا جاسکے کہ داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے کہاں کہاں اسلامی تعلیمات اور اعمال کے ریکارڈ سے غیر ضروری فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر کہیں کسی آیت کا سہارا لے کر بچوں اور بوڑھوں تک کو نہیں بخشا گیا تو اس آیت کا تناظر تلاش کرنا پڑے گا، تاکہ بتایا جاسکے کہ داعش یا کسی اور انتہا پسند گروہ نے تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ دین کے نام پر غلط اعمال کو درست ثابت کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے حقیقی پس منظر بیان کرنا لازم ہے۔
آج داعش اور دیگر انتہا پسند گروپ جو کچھ کر رہے ہیں اس کی بنیاد ماضیٔ قریب یا موجودہ زمانے کے کسی واقعے یا نظریے سے نہیں بلکہ صدیوں سے اسلامی کتب میں ایسے نظریات موجود رہے ہیں جن کا سہارا لے کر انتہا پسند گروہ اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فقہ میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے، بہت سے امور پر جو بحث موجود ہے اس کا خالص علمی انداز سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تاکہ موجودہ دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھنے والے قوانین کی تیاری میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور دین کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی روش پر گامزن رہنے والے ناکامی سے دوچار ہوں۔ اگر مرکزی دھارے کی اسلامی تحریکیں ایسا کریں گی تو عمل کو عمل سے اور نظریے کو نظریے سے ختم کریں گی، محض تردید اور تنقید و تنقیص کا بازار گرم نہیں کریں گی۔ اگر اعتدال پسند اسلامی تحریکوں کو نظریات کے محاذ پر موثر ثابت ہونا ہے تو انہیں دو چار لیکچرز دینے اور چند ایک سیمینارز کرادینے پر اکتفا کرنے کے بجائے میدانِ عمل میں آنا پڑے گا، نظریات کو نظریات کی سطح پر شکست سے دوچار کرنا پڑے گا۔ ایسا کیے بغیر کسی بڑی کامیابی کی امید رکھنا فضول ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Fighting ideology with ideology: Islamism and the challenge of ISIS”. (“Brookings Institution”. January 5, 2017)
Leave a Reply