
ہم نے حفظ پر فہم کے تقدم، مقاصد کے ظواہر پر تقدم اور اجتہاد کے تقلید پر تقدم کی بات کی ہے۔ اس کی ہمیں اس حوالے سے بھی بڑی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اجتہادی شرعی احکام اور فقہی آرا میں جب اختلاف پیدا ہو تو ان میں سے کس کو کس پر ترجیح دی جائے اور کس کو کس پر مقدم کیا جائے۔
یہاں ترجیح کا عمل بغیر کسی وجہ اور دلیل کے یا تُکّے سے نہیں ہوگا اور نہ اس میں خواہش کی پیروی کی جائے گی۔ بلکہ اس کے لیے کچھ معیارات کی ضرورت ہے جن کی طرف رجوع کیا جائے اور انہی کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔
اصولِ فقہ کی کتابوں میں ایک اہم اور طویل باب اس حوالے سے ہوتا ہے کہ مختلف دلائل میں تقابل اور ترجیح کیسے کی جائے۔ اس موضوع کو التعارض والترجیح کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سنت کے معاملے میں ائمہ حدیث بھی اس مسئلے کو چھیڑتے ہیں اور اس کے ذریعے مختلف احادیث کے درمیان ترجیح کا کام سرانجام دیتے ہیں۔
میں یہاں چند متعین اشیا کی طرف توجہ دلائوں گا جن کی، ہماری موجودہ صورتحال میں، خصوصی اہمیت ہے، جبکہ مختلف افکار، امت مسلمہ کو مضطرب کر رہے ہیں اور مختلف آرا انہیں تردد میں ڈال رہی ہیں، خواہ یہ اضطراب و تردد مسلمانوں اور ان کے مغربی اور سیکولر مخالفین کے درمیان ہو یا مختلف دینی مکاتب فکر اور تنظیموں کے درمیان۔۔۔ خاص طور پر ان لوگوں کے درمیان جو میدانِ دعوت میں سرگرمِ عمل ہیں اور اسلام کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں، جن کے اہداف الگ الگ اور جن کے طریقِ کار آپس میں مختلف ہیں۔
اب ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سی آرا ہیں جو قطعاً اختلاف کو قبول نہیں کرتیں، جن میں کسی دوسری رائے کو قبول نہیں کیا جاسکتا اور جن میں نرمی کی گنجائش بالکل نہیں ہے؟ کون سی آرا ہیں جو، اگرچہ بہت کم ہی کیوں نہ ہوں، نرمی کو قبول کرتی ہیں؟ اور کون سی آرا ہیں جن میں اختلاف اور تسامح کی بڑی گنجائش موجود ہے؟
قطعی اور ظنّی کے درمیان فرق
اہلِ علم کے ہاں یہ بات متعین ہے کہ جو چیز اجتہاد سے ثابت ہے، اس کا وہ مقام نہیں ہے جو نص سے ثابت شدہ چیز کا ہے۔ اور جو چیز نص سے ثابت ہے اور اس کی تائید اجماعِ یقینی سے بھی ہوئی ہے وہ اس چیز سے مختلف ہے جو نص سے ثابت ہے، مگر اس میں اختلاف ہوا ہے۔ اس میں اختلاف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ اجتہادی امور میں ایک عالم دوسرے پر نکیر نہیں کر سکتا۔ ہاں! وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اس کے بارے میں ایک دوسرے سے بحث و تکرار اور اختلاف کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نص سے ثابت ہوتی ہیں مگر ان کے قطعی یا ظنّی ہونے میں اختلاف ہوتا ہے۔
قطعیت اور ظنّیت کا تعلق نص کے ثبوت اور اس کی دلالت کے ساتھ ہوتا ہے۔
بعض نصوص ایسی ہوتی ہیں جن کا ثبوت اور دلالت دونوں بیک وقت ظنّی ہوتے ہیں۔
بعض ایسی ہوتی ہیں جن کا ثبوت ظنّی اور دلالت قطعی ہوتی ہے۔
بعض ایسی ہوتی ہیں جن کا ثبوت قطعی اور دلالت ظنّی ہوتی ہے۔
اور بعض ایسی ہیں جن کا ثبوت اور دلالت قطعی ہوتے ہیں۔
ظنی الثبوت نصوص احادیثِ غیرِ متواترہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جسے سند کی ابتدا سے لے کر اس کی انتہا تک ایک جماعت نے دوسری جماعت سے روایت کیا ہو اور وہ جماعت اتنی بڑی ہو جس کے افراد کا جھوٹ پر اتفاق ناممکن ہو۔ خبر واحد اس سے مختلف ایک ایک چیز ہے۔
بعض علما کہتے ہیں کہ سنت میں متواتر کا وجود بہت مشکل بلکہ قریب قریب ناپید ہے۔ جبکہ بعض علما نے اس میں بڑی وسعت سے کام لیا ہے یہاں تک کہ بعض ضعیف احادیث کو بھی، جنہیں شیخین نے چھوڑ دیا تھا، متواتر کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ چنانچہ اس بات سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کسی حدیث کو بغیر کسی دلیل کے متواتر ٹھہرایا جائے۔
بعض علما نے اُن احادیث کو متواتر میں شمار کیا ہے جن کے بارے میں بہت سے شواہد و قرائن پائے جاتے ہیں، مثلاً یہ کہ اسے امت نے قبولیت کا شرف بخشا ہو۔ جیسے صحیحین کی احادیث جن پر معتبر علما میں سے کسی نے بھی جرح نہیں کی۔
’’ظنی الدلالت‘‘ قرآن و سنت دونوں پر مشتمل ہیں۔ قرآن و سنت کی زیادہ تر نصوص ایسی ہیں جن میں متعدد مفہومات اور تفسیروں کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی زبان کے الفاظ طبعی طور پر حقیقت و مجاز، صریح و کنایہ، خاص و عام اور مطلق و مقید پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور ان میں بھی دلالتِ مطابقی، دلالتِ تضمُّنی اور دلالتِ التزامی کا احتمال موجود ہوتا ہے۔
اکثر اوقات ایساہوتا ہے کہ آدمی کا مختلف نصوص کا مفہوم لوگوں کی عقل، ان کے احوال اور ان کی نفسیاتی اور عقلی توجیہات کے تابع ہوتا ہے۔ مثلاً ایک متشدد آدمی کسی نص سے ایک بات سمجھتا ہے تو نرم مزاج آدمی اسی نص سے کوئی اور مفہوم سمجھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علمی ورثے میں اگر ایک طرف حضرت ابن عمرؓ کی سختیاں موجود ہیں تو دوسری طرف حضرت ابن عباسؓ کی رخصتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
جس کا علمی افق وسیع ہو وہ کسی نص سے ایک مفہوم اخذ کرتا ہے تو جس کے آفاق محدود ہوں وہ اسی نص سے کوئی اور مفہوم لے لیتا ہے۔
جو شخص مقاصد پر نظر رکھتا ہے اور نص کے الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی روح کو تلاش کرتا ہے وہ کسی نص سے ایک طرح سے استدلال کرتا ہے اور جو شخص نص کے ظاہر پر عمل کرتا ہے اور ظاہر سے ذرّہ برابر آگے پیچھے نہیں ہوتا وہ اس سے بالکل دوسرا استدلال کرتا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال بنی قریظہ میں نمازِ عصر کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔
اس میں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت پوشیدہ ہے کہ اس نے نصوص کو اس انداز سے پیش کیا کہ وہ اس تعدد کو قبول کرتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ہر قسم اور ہر ذہن کے لوگوں کے لیے عام ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی کتابِ خالد کو ایسے انداز میں نازل فرمایا کہ: مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۔ (اس میں کچھ آیات محکم ہیں وہ کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور اس کے علاوہ کچھ متشابہات ہیں۔۔آل عمران: ۷)
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ لوگوں کو ایک فہم اور ایک ہی رائے پر جمع کرے تو اپنی پوری کتاب کو آیاتِ محکمات کی صورت میں نازل کرتا اور ساری نصوص کو قطعی بنا دیتا۔ ثبوت کے لحاظ سے قرآن سارے کا سارا بِلاشک و شبہ قطعی ہے۔ مگر اس کی اکثر آیات اپنی جزئیات کے اعتبار سے ظنی الدلالت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے ان سے استنباط کرنے میں اختلاف کیا ہے۔
لیکن بڑے مسائل جیسے الوہیت، رسالت، جزا و سزا، اصولِ عبادات، بنیادی اخلاقیات [فضائل و رذائل] بنیادی عائلی احکام، میراث، حدود و قصاص اور اس طرح کے دوسرے احکام آیاتِ محکمات میں بیان ہوئے ہیں جو ان مسائل میں نزاع کو ختم کر دیتے ہیں اور سارے لوگ ایک ہی کلمے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کی سنت نبوی نے بھی قولی، فعلی اور تقریری لحاظ سے تاکید کی ہے، علمائے امت کے یقینی اجماع نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اس کے علاوہ امت کا عمل بھی اس کے ساتھ شامل ہے۔
یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ مختلف نصوص کو جان بوجھ کر یا ناسمجھی میں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دینا جائز نہیں ہے۔
اس شخص کو معذور سمجھا جائے گا [یعنی وہ اپنے طور پر حق بجانب ہوگا] جو کسی ظنی الثبوت نص کو مسترد کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے پاس کوئی دلیل موجود ہو جس کی رُو سے وہ اس کے نزدیک غیر ثابت ہو۔
اسی طرح اس شخص کو بھی معذور سمجھا جائے گا جو کسی ظنی الدلالت نص پر مشتمل رائے کو مسترد کرتا ہے یا اس کی کوئی نئی تفسیر کرتا ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو، مگر اس کا احتمال موجود ہو۔
بعض اوقات اِسے یا اُسے [یعنی پہلے یا دوسرے شخص کو] کسی ظنی نص کو بھی رد کر دینے میں معذور نہیں سمجھا جائے گا، جبکہ اِس کا یا اُس کا مقصد صاف طور پر مکر و فریب ہو۔ البتہ اُس کے اِس عمل سے نہ اسے کافر کہا جائے گا اور نہ ملت سے خارج کیا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے بدعتی قرار دیا جائے اور اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ اہل سنت کے عمومی راستے سے ہٹ گیا ہے۔ باقی اُس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ہر کس و ناکس کو حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری محققین اور معتمد اہلِ علم پر عائد ہوتی ہے۔
جو بات یقینی طور پر رد کرنے کے قابل ہے اور جس کے قائل کو پَرے پھینکنا چاہیے وہ یہ ہے کہ آدمی ایسی نصوص کو مسترد کرے جو بیک وقت قطعی الدلالت بھی ہوں اور قطعی الثبوت بھی۔ یہ نصوص اگرچہ بہت کم ہیں مگر یہ دین میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ کیونکہ یہی امت مسلمہ کے عقائدی، فکری، شعوری اور علمی وحدت کو وجود بخشتی ہیں، یہی ہیں جن کو نزاع کے وقت فیصلہ کن بنایا جاتا ہے اور یہی ہیں جن کی طرف اختلاف میں رجوع کیا جاتا ہے۔ اگر یہی محلِ نزاع و اختلاف بن جائیں تو لوگ رجوع کس کی طرف کریں گے۔
اسی وجہ سے ہم نے اپنی کتابوں میں اس فکری سازش سے لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو قطعیات کو ظنیات میں اور محکمات کو متشابہات میں تبدیل کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ مثلاً کچھ لوگ حرمت شراب والی آیت کے بارے میں نزاع کر رہے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (یہ شراب اور جُوا، اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔۔ المائدہ: ۹۰)
وہ فَاجْتَنِبُوْہُ کی دلالت میں تشکیک پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ لوگ ہیں جو سود کی حرمت، سؤر کے گوشت، عورت کی میراث، مرد کی قوامیت، حجاب اور اس طرح کے دوسرے امور کے بارے میں نزاع پیدا کر رہے ہیں جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت نصوص سے ثابت ہیں، ان کے بارے میں اجماع بھی ہو چکا ہے اور امت مسلمہ چودہ سو سال سے فکری و نظریاتی اور عملی طور پر ان کے اوپر ثابت قدم ہے۔
دین کے یہ واضح اور بیّن معاملات ہیں جن کے لیے علما مَاعُلِمَ مِنَ الدِّیْنِ بِالضَّرُرَۃ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس کو ہر خاص و عام مسلمان جانتا ہے، ان پر کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، کیونکہ اس کے دلائل بہت معروف، بہت زیادہ اور امت کے وجدان میں راسخ ہوتے ہیں۔
یہ وہ بات ہے جس کا انکار کرنے والے پر کفر کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ حکم لگانے سے پہلے اس قول کے قائل سے شبہ دفع کیا جائے گا، اس پر اتمام حجت کیا جائے گا اور اس کے عذر کو ختم کیا جائے گا۔ اس کے بعد اسے امت کے جسم سے الگ کر دیا جائے گا۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی توجہ اجماعی قطعیات پر مرکوز کریں اور مختلف فیہ ظنیات پر مجادلہ سے بچیں۔ امت کو جس چیز نے مشکلات سے دوچار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے قطعیات کو چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت دنیا کے کونے کونے میں داعیانِ اسلام اور داعیانِ سیکولرازم کے درمیان جو معرکہ برپا ہے وہ انہی قطعیات کے بارے میں ہے۔ عقیدے کے قطعیات، قانون کے قطعیات، فکر کے قطعیات اور کردار کے قطعیات۔
یہ قطعیات ہی ہیں جن کے لیے ضروری ہے کہ یہ تفہیم و تلقین، دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت اور پوری اسلامی زندگی کے وجود کی بنیاد بنیں۔
اسلامی دعوت اور دینی کام کے لیے یہ بات سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ لوگوں کو ان امور کی طرف دعوت دی جائے جن میں اختلافات ختم ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، ان کے گرد جنگ و جدل کا بازار گرم رکھا جائے، لوگوں کو مسلکوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اور اسی کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تعلق قائم اور کسی سے تعلق قطع کیا جائے۔
ہم نے اپنی کتاب الصَّحوۃُ الاسلامیۃُ بینَ الاختلافِ المشروعِ والتَّفَرُّقِ المذمومِ میں اس بات کی اچھی طرح وضاحت کی ہے کہ اس طرح کے اختلافات امت کی ضرورت، اللہ کی رحمت اور دین میں وسعت کا ذریعہ ہیں۔ ان کا ازالہ نہ ممکن ہے اور نہ مفید۔
ہماری بات کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم کسی اختلافی مسئلے میں زبان تک نہ کھولیں۔ یا ہم عقیدے، فقہ، یا کردار کے حوالے سے کسی ایک رائے کو کسی دوسری پر ترجیح بھی نہ دیں۔ یہ تو ناممکن ہے۔ اگر یہ بات ہو کہ علما کسی رائے کو صحیح اور کسی کو کمزور نہ کہیں اور کسی کو راجح اور کسی کو مرجوح نہ کریں تو پھر ان کا کام اور کیا ہوگا۔
میں تو اس بات پر نکیر کر رہا ہوں کہ لوگ اس چیز کو اپنے لیے ایک دائمی مشغلہ بنا لیں اور متفق علیہ مسائل سے زیادہ توجہ اختلافی مسائل کی طرف دیں، نیز یہ کہ وہ ظنیات کی فکر میں پڑے رہیں، حالانکہ لوگوں نے قطعیات سے بھی منہ موڑ لیا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی اضطراب اور خطرے کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ایسے مسائل پیش کریں جن میں بہت سارا اختلاف ہو چکا ہو اور ہم ان کو ایسے انداز میں پیش کریں جیسے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہوگا کہ اس میں ہم دوسروں کی آرا سے جہالت برتیں جن کا اپنا نقطہ نظر اور اپنے دلائل ہوتے ہیں، خواہ ان دلائل کے بارے میں ہماری رائے کچھ بھی ہو اور ہم انہیں معتبر سمجھتے ہوں یا نہیں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوسری رائے جمہور علمائے امت کی بڑی تعداد کی رائے ہوتی ہے اور… وہ اگرچہ غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، کیونکہ اس پر یقینی اجماع نہیں ہوتا، مگر پھر بھی… اس کی شان کو ہلکا نہیں کیا جاسکتا۔
اس کی مثال وہ لوگ ہیں جو چہرے کا پردہ کرنے اور نقاب اوڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ انہی کی رائے درست ہے اور اس میں خطا کا احتمال نہیں ہے، وہ اپنے مخالفین پر سخت نکیر کرتے ہیں، حالانکہ ائمہ و فقہا کی ایک بڑی تعداد ان سے مختلف رائے رکھتی ہے، جن کی وہ مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ کتاب و سنت اور عملِ صحابہ کے روشن دلائل کی بھی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔
میں یہاں پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض معتبر ترین علما کی آرا بھی بعض اوقات کسی خاص ماحول اور خاص دور میں شاذ بن جاتی ہیں۔ کیوں کہ وہ زمانے میں قدیم ہوتی ہیں اور پھر کہیں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعد میں کوئی زمانہ ایسا آیا ہو جس میں کسی نے ان کی تائید کی ہو اور ان آرا یا ان کی تائید نے شہرت حاصل کر لی ہو یہاں تک کہ انہیں فتویٰ کی بنیاد بنایا گیا ہو۔ یہی معاملہ امام ابن تیمیہؒ کی آرا کے ساتھ ہوا۔
☼☼☼
Leave a Reply