
جون ۱۹۴۷ء میں دو ہفتے کا وقفہ ملا اور جاؤرہ چلا گیا۔ ہماری دوسری بیٹی نزہت چند ماہ کی تھی، اس کے اور شاہدہ کے ساتھ اچھا وقت گزرا۔ ایک روز حکومت ہند کا ایک تار آیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کے جملہ ملازمین کو صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ ہندوستان میں ملازمت کرنا پسند کریں گے یا پاکستان میں۔ اس سلسلے میں میری پسند کے بارے میں جلد ازجلد جواب مانگا گیا تھا۔ میرا پانسہ ہندوستان میں تھا، مستقبل کے پاکستان میں کسی سے واقف نہیں تھا، مجھ میں سیاسی خُو بُو نہیں تھی ہر وہ شخص جس سے مجھے پیار تھا وہ ہندوستان میں تھا اور میری تمام جائیداد بھی یہیں تھی۔ میں اس بارے میں سوچتا ہی رہا فیصلہ نہ کر سکا تو مشیت ایزدی پر چھوڑ دیا۔ وہ دن نواب جاؤرہ کی سالگرہ کا تھا، جو میرے خسر بھی تھے۔ پورا خاندان مبارکباد دینے محل میں جمع تھا، جب سب لوگ جاچکے تو میں نے عرض کیا کہ کچھ کہنا چاہتا ہوں، اجازت پاکر وزارت داخلہ کا تار دکھایا، جب میں نے اپنا جواب بھی ملاحظہ کرایا تو ان کا ناخوش ہونا واجب تھا۔ وہ نہ صرف ریاست کے حکمراں تھے بلکہ خاندان کے سربراہ بھی تھے۔ جواب ارسال کرنے سے قبل ان کی رائے اور منظوری لینا چاہیے تھی، اس کے بعد انہوں نے اس مسئلے پر پھر کبھی بات نہیں کی اور مجھے اپنی دنیا آپ بنانے پر چھوڑ دیا۔
جب میں جون کے آخر میں دہلی واپس آیا تو ماحول میں بیّن تبدیلی تھی۔ سکھوں کی بڑی تعداد جنہیں شمال مغرب اور پنجاب کے مغربی علاقوں سے نکال دیا گیا تھا دہلی آگئے تھے۔ وہ اپنا مال و متاع اور جائیداد کھو چکے تھے، کچھ کے افرادِ خاندان بھی مارے گئے تھے۔ جیسے جیسے یوم آزادی اور تقسیم ملک کا دن یعنی ۱۴؍اگست نزدیک تر ہوتا جاتا تھا ویسے ہی ان لوگوں کی شبینہ مجلسیں گرم ہوتی جاتی تھیں۔ ان مجالس میں بدلہ اور غصب شدہ متاع کی واپسی کا مطالبہ زور و شور سے کیا جاتا تھا۔ مسلم باشندگانِ دہلی کے بارے میں ان کے الفاظ میں تلخی اور اقدامات میں جارحیت آگئی تھی اور وہ بے چارے نروس ہو کر نصیب لکھے کے منتظر بیٹھے تھے۔ میٹکاف ہاؤس کا ٹریننگ پروگرام اس ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ باہمی گفتگو کا موضوع قتل و غارت کی مختلف مقامات سے آنے والی خبریں تھیں، یا آزادی کی توقعات! جب مسلم آفیسروں میں سے کوئی اس گفتگو میں شریک ہوتا تو ہمارے ہندو ساتھی محتاط ہو جاتے اور تیور بھی قدرے کڑوے کر لیتے۔ ردعمل میں مجوزہ پاکستان میں ملازمت کو منتخب کرنے والے ایک دوسرے کے نزدیک آگئے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کا میرا ایک ہندو دوست دہلی کا باشندہ تھا میں بارہا اس کے گھر جاچکا تھا، اس کے گھر میں میری پذیرائی بھی خوب ہوتی تھی لیکن جب میں جولائی کے آخر میں ملاقات کے لیے گیا تو وہ متفکر ہوگیا اور گھر کے اندر آنے کی دعوت بھی نہیں دی بلکہ یہ کہاکہ وقت بدل گیا ہے۔ تمہارا یہاں آنا خلاف مصلحت ہے، میرے اور میری فیملی کے لیے بھی خالی از خطرہ نہیں کیونکہ لوگ مجھے تمہارے جیسا سمجھ لیں گے۔ مجھے یہ سُن کر صدمہ ہوا لیکن یہ بھی جان گیا کہ یہ دوست زندگی کے حقائق بیان کر رہا ہے، جو دہلی اور دیگر مقامات پر نمایاں ہیں۔
۱۴؍ اگست کو ہم نے قائداعظم کی تقریر سنی، جو پاکستان کی آزادی پر کراچی سے نشر ہوئی تھی۔ ۱۴؍اگست کی نصف شب گزرتے ہی پنڈت نہرو نے بھی آزادیٔ ہند کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ ہندو نجومیوں نے ۱۴؍ اگست کو مبارک دن نہیں مانا تھا، ایوان وائسرائے پر میٹکاف ہاؤس سے ہم سب کو بھی قبل از اعلانِ آزادی کے استقبالیہ میں مدعو کیا گیا تھا۔ ۱۵؍اگست کو بھی عام استقبالیہ جو ایمپیریل گیٹ وے کے کشادہ میدان میں منعقد کیا گیا تھا، اس میں ہم مدعو تھے لیکن یہ عام استقبالیہ جلد ہی بدنظمی اور انتشار کا شکار ہوگیا۔ عوام جذباتی اور بے قابو ہو گئے، یہ ایک عجوبہ ہی تھا کہ ماؤنٹ بیٹن، ان کے اہل و عیال، پنڈت نہرو اور دیگر قائدین ہند اس بھگدڑ سے کس طرح صحیح سالم نکلنے میں کامیاب رہے!
سرحد کے دونوں طرف فرقہ وارانہ مارکاٹ زیادہ ہو گئی تھی۔ انسانوں کے غول تھے کہ بے خانماں ہو کر اِدھر سے اُدھر حیران اور پریشان ہجرت کر رہے تھے۔ دہلی جلد ہی قتل و غارت گری کی آگ میں جھلس گیا۔ مسلمانوں کے مکانات پر قبضہ کیا جانے لگا۔ قرول باغ، عیدگاہ، پہاڑ گنج، دریا گنج اور چاندنی چوک جیسے مقامات پر مسلم مقبوضہ جائیدادوں پر حملے اور لوگوں کا صفایا ہو رہا تھا۔ ایسے میں پولیس یا تو خاموش تماشائی تھی یا اس مقام سے کھسک جاتی تھی۔ دہلی کو پولیس فورس میں جتنے مسلمان تھے ان کو غیر مسلح کرکے گھر بیٹھنے کو کہہ دیا گیا تھا۔
آزادی کی اس افراتفری اور خلفشار میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمیں بھلا دیا گیا ہے۔ لہٰذا سجاد حیدر، افتخار علی اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان ہائی کمیشن (سفارتخانہ) جائیں جو اس وقت نوابزادہ لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان کی رہائش گاہ دہلی، بنام گُلِ رعنا میں واقع تھا اور آج تک ہے۔ گُلِ رعنا کے احاطے پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھتے ہی دل میں ایک ولولہ پیدا ہوا، پاکستان کے ہائی کمشنر مسٹر زاہد حسین کو مبارکباد پیش کی۔ وہ بزرگ اور مہذب انسان تھے، ماہر اقتصادیات و مالیات تھے، لیکن اس وقت صحت گری ہوئی تھی۔ جیسے ہی انہیں علم ہوا کہ ہم کون ہیں تو فرمانے لگے کہ تمہاری خدمات کی سخت ضرورت ہے، اس لیے میٹکاف ہاؤس فوراً چھوڑ دیں اور پٹودی ہاؤس منتقل ہو جائیں جو سینئر سرکاری ملازمین کی جائے قیام ہے اور اگلے روز گُلِ رعنا آکر کام پر لگ جائیں۔ دو کمرے مسٹر زاہد حسین کے لیے وقف تھے بقیہ حصے میں دفاتر تھے۔ مسٹر اختر حسین (جو بعد میں روم اور ماسکو وغیرہ میں سفیر رہے) نائب ہائی کمشنر تھے اور مسٹر حسن فیروز (بعد میں چیف پاسپورٹ آفیسر کراچی) فرسٹ سیکرٹری تھے اور مختلف اقسام کے نائبین، اہلکاران اور ڈرائیوروں کے انچارج تھے۔ فیروز دہلی کے قدیمی باشندے تھے، سیکریٹریٹ کے ممتاز افسر اور انسانی معلومات میں دائی اماں کا درجہ رکھتے تھے۔ حکومتِ ہند و پاکستان کی تقریباً تمام معروف ہندو مسلم ہستیوں کے شجروں اور ان کے ماضی و حال سے بخوبی واقف تھے۔ دہلی میں لاقانونیت کا دور دورہ ہونے کے باوجود فیروز دفتر پابندی سے آتے تھے۔ اپنی ظریفانہ طبیعت اور بذلہ سنجی سے ان پُرآشوب ایام میں بھی انہوں نے ہمارے مزاجوں کو بشاش رکھ کر ہمیں برسرکار رکھا۔
۲۰؍اگست تک ایسا ماحول ہوگیا کہ پٹودی ہاؤس میں رہنا مخدوش ہوگیا۔ لہٰذا سجاد، افتخار اور میں گُلِ رعنا چلے آئے۔ انہی دنوں مردوں عورتوں اور بچوں کا ہجوم گُلِ رعنا میں سر چھپانے کے لیے آگیا۔ ان میں کچھ بیمار تھے، کچھ تلوار کے زخم خوردہ، دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی آمد کا یہ سلسلہ سیلاب کی شکل اختیار کر گیا۔ اندرون خانہ جب کوئی جگہ نہ رہی تو لوگ چھت پر، مکان کے سامنے اور عقب میں جو لان تھے اُن پر، جہاں بھی جگہ ملی وہیں پڑ رہے۔ دفتری کام کا شائبہ بھی نہ رہا اور فکر لاحق ہوگئی اس مخلوق کے کھانے پینے، علاج معالجہ، ادویات کی فراہمی، حفظان صحت اور تحفظ کی۔ اس وقت تک بہت سے ممالک نے اپنے سفارت خانے نئی دہلی میں کھول لیے تھے، جب ان کے عملے کے مقامی مسلمانوں کو خطرات لاحق ہوئے تو کچھ سفراء پنڈت نہرو سے ملے اور سفارت خانوں کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی۔ ان کا جواب تھا ’’میں اپنی ہی حفاظت نہیں کرسکتا تو آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں؟ آپ کہیں بھی جانے کے لیے آزاد ہیں، حالات معمول پر آجائیں تو لوٹ آنا‘‘۔ ایک روز میں نئی دہلی کے کناٹ پیلس کی دکانوں کے پاس سے گزر رہا تھا تو دیکھا اس علاقے کی واحد مسلم غنی کی دکان لوٹی جارہی تھی، قریب ہی کچھ سپاہی چارپائیوں پر سونے کا ناٹک کر رہے تھے۔ یکلخت ایک کار آکر رکی اور پنڈت نہرو اس میں سے برآمد ہوتے ہی اُن بناوٹی خوابیدہ پولیس والوں کی طرف لپکے، اُن میں سے ایک کی لاٹھی اٹھا کر انہی پر پِل پڑے۔ انہیں للکارتے بھی جاتے تھے کہ اس لوٹ کو روکو! سپاہی ہندوستان کے وزیراعظم کو دیکھ کر ہکا بکا ہو گئے اور فوراً ان کے حکم کی تعمیل میں جٹ گئے اور دکان کو پوری طرح غارت گری سے بچا لیا۔ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ ان کے جاتے ہی غارتگری پھر شروع ہو گئی ہوگی۔
گُلِ رعنا کا جائے وقوع پُر خطر تھا۔ یہ ایک ایسا آسان نشانہ تھا کہ کسی وقت بھی حملہ ہو سکتا تھا۔ بلوچ رجمنٹ کے دس سپاہیوں پر مشتمل ایک سیکشن صدر دروازے پر تعینات تھا اور قطعی اس قابل نہیں تھا کہ پورے مکان کا دفاع کر سکے۔ لیکن ہمارے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کا وافر ذخیرہ تھا جو پناہ گزیں اپنے ساتھ لائے تھے۔ سادہ کاغذ کے ٹکڑوں پر ان اسلحہ کی رسیدیں ان کے مالکوں کو دے دی گئی تھیں۔ پاکستان جانے کے بعد ان کے ہتھیار ان کو واپس مل گئے۔ سجاد، افتخار اور میں ہم تینوں نے گُلِ رعنا کے چاروں طرف دفاع کا ایک حلقہ ترتیب دیا اور جسمانی لحاظ سے موزوں جوان آدمیوں کو چُن کر رات کو مدافعت کے لیے چوکس رکھا۔ جھٹپٹے سے صبح صادق تک ہم باری باری ان کی مستعدی کو چیک کرتے رہتے تھے۔ سیکڑوں آدمیوں کے کھانے پینے کا بندوست ہماری ثانوی پریشانی تھی۔ کاروبار تقریباً ختم چکا تھا، دکانیں بند تھیں۔ ہائی کمیشن کے چند آنے والوں میں ایک لالہ شری رام بھی تھا، دہلی کا مشہور صنعتکار، جس کا ایک کپڑے کا کارخانہ پاکستان میں بھی تھا، اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ ہائی کمشنر سے مدد کا طالب تھا، وہ ایک ٹرک بھر کر چاول کی بوریاں اور پرمل کی سبزی لے آیا۔ ہفتہ بھر یہی ہماری غذا رہی اور وہ بھی بغیر نمک کے! رکابیوں کی قلت تھی، اس لیے ہم میں سے بیشتر اپنی خوراک دھوبوں میں بھر لیتے، دوبارہ لینے کے لیے پھر لائن میں لگنا پڑتا، کھانا اتنا نہیں ہوتا تھا کہ تیسری مرتبہ لینے کی باری آئے۔
ہائی کمشنر مسٹر زاہد حسین پرانے قلعے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تاکہ گل رعنا میں مسلسل آنے والے پناہ گزینوں کے قافلوں کو وہاں سر چھپانے کی جگہ مل جائے۔ روزانہ تقریباً ایک درجن ٹرکوں میں بھر بھر کر ان لوگوں کو قلعہ میں منتقل کیا جاتا۔ سولہویں صدی عیسوی میں اس قلعہ کی تعمیر شہنشاہ ہمایوں نے کی تھی، ۱۹۴۷ء تک اس کی باقیات میں صرف دیواریں اور صدر دروازہ تھا۔ اندرون قلعہ ہوحق تھا، ویران وسیع و عریض میدان، جس میں چند درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ موسلا دھار بارش نے کیچڑ آلود کر رکھا تھا۔ دیواروں تلے جن لوگوں نے سر چھپانے کے انتظامات کیے ان میں سے بیشتر دیوار سے گرنے والے پتھروں سے شدید زخمی ہوگئے۔ ملیریا اور پیچش تو عام بیماریاں تھیں، مزید یہ کہ ان آفات سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تھی۔
جب ہم اس مایوس کن صورتحال سے نبرد آزما تھے تب ہی ہائی کمشنر اور نائب ہائی کمشنر کو کراچی صلاح مشورے کے لیے طلب کر لیا گیا اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ ایک آئی سی ایس افسر انعام الرحیم نائب ہائی کمشنر مقرر ہوئے، مگر ابھی انہیں چند روز ہی ہوئے تھے کہ ان کی جگہ میاں عبدالعزیز کو مقرر کر دیا گیا۔ یہ صاحب سابقہ کپور تھلا ریاست کے دیوان رہ چکے تھے، اردو کے مشہور ادیب تھے، فلک پیما کے قلمی نام سے مشہور تھے۔ یہ بڑے شائستہ انسان اور باہمی گفتگو میں بڑے دلچسپ تھے، لیکن دہلی کے جانگسل حالات میں کام کرنا ان کے بس میں نہ تھا، لہٰذا ان کی مدت بھی جلد ختم ہوگئی۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نے خود حالات کو ملاحظہ کرنا چاہا، اس لیے ستمبر کے اوائل میں دہلی تشریف لے آئے، پرانے قلعے میں ان کی آمد کی یاد ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے۔ ان کی حفاظت کی خاطر ہتھیار بند بہت سے ہندوستانی افسر ان کے ہمراہ چل رہے تھے لیکن جیسے ہی وہ صدر دروازے میں داخل ہوئے، ان محافظین کو برطرف کرکے پاپیادہ آگے بڑھ گئے۔ راستہ کے دونوں طرف زبوں حال افراد قطار در قطار کھڑے تھے۔ وہ لوگ جو اپنا سب کچھ کھو چکے تھے، وہ لوگ جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے چہیتوں کو قتل ہوتا دیکھ چکے تھے، وہ غیض و غضب میں تلملا رہے تھے مگر ہندوستانی افسروں کے سامنے اپنے وزیراعظم کو مشکلات میں نہ ڈالنے کے الہامی جذبے کے تحت پُروقار اور صبر و استقامت سے اُف تک نہ کی۔ لیاقت علی خان کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑیاں بہہ نکلیں، لیکن کسی کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا! اس سلسلے میں جب پنڈت نہرو سے انہوں نے گفتگو کی تب کہیں جاکر مدد کے فوری اقدامات عمل میں آئے اور ہفتے میں دو بار نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پرانے قلعہ کے پناہ گزینوں کو پاکستان لے جانے لگی۔ جو بات کئی دن تک معلوم نہ ہو سکی وہ یہ تھی کہ ان میں سے دو ٹرینیں ایسی تھیں کہ جب لاہور پہنچیں تو ایک بھی مسافر زندہ نہیں بچا تھا۔ اُدھر بھی کچھ ٹرینیں ایسی تھیں جو پاکستان سے امرتسر پہنچیں وہ بجائے زندہ انسانوں کے لاشوں یا نیم جان مسافروں سے پَٹی پڑی تھیں۔ ستمبر کے وسط سے دہلی میں حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے تھے، کیونکہ حکومتِ ہند نے تیسری مدراس رجمنٹ کو نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے دہلی طلب کر لیا تھا۔ یہ رجمنٹ فرقہ وارانہ ذہنیت سے عاری تھی۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ قتل و غارت گری میں ملوث چند شرپسندوں کو مختلف مقامات پر شوٹ کر دیا اور اس طرح ان قاتلوں اور غارت گروں کی عقلیں ٹھکانے آنے لگیں۔
مجھ پر بار بار ملیریا کے حملے ہونے لگے۔ اُبلے چاولوں اور پرملوں نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور میں کئی روز بیمار رہا۔ حالات کو قدرے معمول پر آتا دیکھ کر کچھ دنوں کی رخصت آرام کی غرض سے لی اور جاؤرہ چلا گیا۔ دو ہفتے وہاں رہ کر پھر دہلی واپس آگیا، لیکن چونکہ براہ راست دہلی کا سفر اب بھی خالی از خطرہ نہیں تھا لہٰذا میں نے چکر دار راستہ اختیار کیا۔ مسلح گارڈ کے ساتھ بمبئی گیا اور وہاں سے کشتی کے ذریعے کراچی اور وہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعہ دہلی پہنچا۔
کراچی کا یہ میرا پہلا سفر تھا۔ دہلی کے پرآشوب تین ماہ گزارنے کے بعد پہلی بار خوف اور خطرات سے نجات ملی، قلب کو سکون نصیب ہوا گنجان سڑکوں پر پس پشت آنے والے آدمی کو کنکھیوں سے دیکھے بغیر بے خوف گھوم سکتا تھا۔ میں مہٹّہ پیلس گیا جہاں وزارت خارجہ کا دفتر قائم کیا گیا تھا، وہاں میں نے حب الوطنی کا جوش و خروش اور خود سپردگی کا جذبہ ہر ایک میں دیکھا۔ ذاتی بے آرامی اور ضروریاتِ دفتر کی قلت پر نہ کوئی شاکی تھا نہ ہراساں، ہر شخص کو ایک دھن سوار تھی کہ بہتر سے بہتر کام کرے۔ وزارت خارجہ کے پہلے سیکرٹری مسٹر اکرام اللہ سے ملنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ انتہائی مصروف ہوں گے اور اس وجہ سے بھی کہ میں بہت جونیئر افسر تھا، لیکن جیسے ہی وہ کار سے اتر کر دفتر کی طرف بڑھے انہوں نے ایک اجنبی کو کھڑے دیکھا تو پوچھ بیٹھے، کہ میں کون ہوں اور یہاں کیا کر رہا ہوں؟ ان کے سوالات کے جواب دے چکا تو مجھے خوش آئند حیرت ہوئی، وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئے اور دہلی ہائی کمیشن کے بارے میں ڈھیر سارے سوالات کر ڈالے۔ میرے جانے سے پہلے مسٹر اکرام اللہ نے کہاکہ مجھے وزارت میں جلد حاضر ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ مجھے قاہرہ بھیجا جائے گا جہاں ہمارا نیا سفارت خانہ کھلا ہے۔ درحقیقت جب میں دہلی پہنچا تو کراچی طلبی کے احکامات میرا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دن بعد میں جاؤرہ جا پہنچا تاکہ اپنے اہل و عیال کو ہمراہ لیتا جاؤں۔ ایک بار پھر جاؤرہ سے میں ایک مسلح گارڈ کے ساتھ بمبئی روانہ ہوا اور وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچ گیا۔ سجاد اور افتخار مجھ سے پہلے ہی کراچی جاپہنچے تھے اور بندرگاہ پر ہمیں لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ساتھ میں اشوک بھٹ کمکار بھی تھا جو الٰہ آباد یونیورسٹی کے زمانہ کا میرا عزیز دوست تھا اور اب کراچی میں انڈین ہائی کمیشن میں تعینات تھا۔ کراچی آنے کی خوشی عارضی تھی کیونکہ پہنچتے ہی تاروں کا ایک چھوٹا سا پلندہ ملا جس میں میرے خسر محترم کی وفات اطلاع تھی۔ پہلے تو ہم نے جاؤرہ جانے کا ارادہ کیا، مگر پھر سوچ کر ترک کر دیا اور نئی زندگی کی ڈگر پر گامزن ہونے کا ارادہ مصمم کرلیا۔
کراچی میں رہائش کی جگہ کا ملنا جوئے شیر کے حصول جیسا تھا، بڑی تگ و دو کے بعد سلور نیسٹ ہوٹل میں دو کمرے لیے۔ یہ ہوٹل کینٹن مینٹ ریلوے اسٹیشن کے پاس تھا، لیکن کرایہ پچاس روپیہ یومیہ تھا جو ۱۹۴۷ء میں ایک موٹی رقم تھی کیونکہ اس وقت میری تنخواہ چھ سو ماہوار ہی تھی، لہٰذا ایک ہفتہ بعد ہم بامبے ہوٹل میں منتقل ہوگئے جس کی جائے وقوع اب چندریگر روڈ پر ہے۔ سلور نیسٹ ہوٹل کو منہدم کر دیا گیاہے لیکن بامبے ہوٹل ہنوز موجود ہے۔ موہٹّہ پیلس کے دفتر خارجہ کی روزانہ آمدورفت باقاعدہ بس سروس کے فقدان اور ٹیکسیوں کے عنقا اور مہنگی ہونے سے ایک طول عمل تھا۔
آج کے مقابلے میں اس وقت کا دفتر خارجہ سادگی کا مظہر تھا۔ مجھے کریگ کوہین کے پاس کام کرنا تھا قبل آزادی کے بچے کھچے افسروں میں سے یہ بھی ایک برٹش افسر تھے جنہوں نے پاکستان کی خدمت کرنے کی خواہش کی تھی، یہ جوائنٹ سیکرٹری تھے اور صرف اکیلے ایسے افسر تھے جو مسٹر اکرام اللہ کے انتظامی معاملات میں ممد و معاون تھے۔ تنخواہوں کا تعین، تبادلوں اور اخراجات سفر کی تفصیلات وغیرہ بلا واسطہ انہی کے ذمہ تھا۔ ان امور میں وہ کارآمد اور سوجھ بوجھ کے ثابت ہوئے۔ کرنل فلیچر نے بھی جو قبل آزادی انڈین پولیٹیکل سروس میں تھے مسٹر کوہین کی طرح پاکستان کو اپنی خدمات پیش کی تھیں۔
بھوپال ہاؤس، موہٹّہ پیلس کے بالمقابل ایک وسیع میدان تھا، اسے بھی دفتر خارجہ کے لیے حاصل کر لیا گیا اور یہیں میں نے قاہرہ میں اپنی تقرری کی جملہ تفاصیل تیار کیں۔ چونکہ ہم پہلی بار سفارتخانہ کھول رہے تھے، قبل ازیں نہ کوئی نظیر تھی نہ متعلقہ کاغذات کہ جن کا مطالعہ کوئی کر سکے، نہ ہی دفتر خارجہ کو تجربہ تھا اور نہ فرصت کہ کوئی تربیتی پروگرام کی کوشش کرے۔ سجاد، افتخار اور میں نے باہم ایک لائحہ عمل تیار کیا جس میں دو گھنٹے کے لنچ کا وقفہ بھی شامل تھا، جس کا کچھ حصہ ہم کلفٹن (کوٹھاری پریڈ) میں گزارتے، تاکہ دفتر خارجہ کے کینٹین کے کھانے کا نعم البدل ہو سکے۔ اس دو گھنٹے کی غیر حاضری کو تضیع اوقات پر محمول کیا گیا۔ لہٰذا ایک دن مسٹر کریگ کوہین کے رو برو ہمیں طلب کیا گیا اور ہمارے غیر مناسب رویہ پر ایک ناصحانہ تقریر کی گئی۔ مجھے ان کا یہ برتاؤ ناگوار گزرا، کیونکہ انہوں نے ہم سے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا۔ میں نے اپنی خفگی کا اظہار ’’مسٹر کوہین‘‘ کہہ کر کیا ہی تھا کہ انہوں نے مجھے غصہ سے ٹوک کر کہا: ’’میرا نام کریگ کوہین ہے، کوہین نہیں‘‘۔ میری سمجھ میں نہ آسکا کہ اس سے کیا فرق پڑا؟ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص نیم یہودی تھا اور اس بات کو پسند نہیں کرتا تھا کہ صرف نصف یہودی نام سے مخاطب کیا جائے۔ اس طوفانی انٹرویو سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ہمارا طے شدہ لائحہ عمل بدستور جاری رہا۔ کرنل فلیچر کو میں نے باور کرایا کہ میری دو کمسن بچیاں ہیں اور میری بیوی بغیر آیا کے نہیں رہ سکتیں اور یہ کہ ہماری آیا کے بھی ایک بچہ ہے جس کے بغیر وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ یہ واضح کرکے معاملے کو میں نے اور بھی پیچیدہ کر دیا کہ میری مالی حالت قاہرہ تک ان دونوں کے اخراجاتِ سفر بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں، وہ بہت رحم دل انسان تھے، دوسرے ہی دن اس مسئلہ کا حل نکال لیا۔ چونکہ اس وقت تک پاکستان کی خارجہ ملازمت کے بارے میں کوئی قاعدے قانون وضع نہیں ہوئے تھے اور کرنل فلیچر برطانوی قاعدے قانون سے استفادہ لے رہے تھے، اس لیے کہنے لگے: ’’میرے جیسے معاملے میں وہ بعد میں کوئی فیصلہ کر سکیں گے اگر رقم کا کہیں سے میں انتظام کر سکوں تو بچے کو بھی لے جاؤں، بعد میں یہ رقم ادا کر دی جائے گی۔ کچھ مہینے بعد آیا کے بچے کے اخراجات بھی قاہرہ میں مجھے اداکر دیے گئے۔ کرنل فلیچر صادق القول ثابت ہوئے۔
(کتاب ’’چمن پہ کیا گزری‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply