
مصر کی سپریم فوجی کونسل (Scaf) نے لاکھ کوشش کی مگر صدارتی انتخاب کے نتائج کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ ۱۶؍ اور ۱۷؍ جون کو صدارتی انتخاب کے دوسرے اور آخری مرحلے کی پولنگ ہوئی۔ میدان میں صرف دو امیدوار تھے۔۔۔ اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ محمد مرسی اور سابق وزیراعظم احمد شفیق۔ فریقین نے اپنی اپنی فتح کے دعوے کیے تھے مگر محمد مرسی کی پوزیشن زیادہ مضبوط تھی کیونکہ انہیں نصف سے زائد ووٹ ملنے کی پیش گوئی سیاسی پنڈت کرچکے تھے۔ پہلے مرحلے میں بھی ان کی پوزیشن نمایاں رہی تھی۔
فوج نے جب یہ دیکھا کہ پارلیمان میں اسلام پسند عناصر کی اکثریت واقع ہوچکی ہے اور اب صدر کے منصب پر بھی ایک اسلام پسند امیدوار ہی رونق افروز ہوگا تو اس نے تمام اختیارات اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے عبوری آئین نافذ کردیا۔ عبوری آئین کے تحت قانون سازی سمیت تمام اختیارات فوج کی سپریم کونسل کو حاصل ہوگئے۔ معاملہ صرف یہیں نہیں رکا بلکہ پارلیمان کو تحلیل کردیا گیا۔ جواز یہ گھڑا گیا کہ ایک تہائی نشستیں جن پر غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب ہونا تھا کہ ارکان کی سیاسی وابستگی ظاہر ہوچکی ہے۔ دوسری طرف سابق حکومت سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں انتخابی میدان میں اترے مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ نومنتخب پارلیمان میں اکثریت اسلام پسندوں کی تھی اس لیے اسے فوج اور سیکولر عناسر نے اپنے اقتدار کی راہ میں بڑی رکاوٹ سے تعبیر کرتے ہوئے ہٹانا مناسب سمجھا۔
پارلیمان کی تحلیل کے بعد صدارتی انتخاب کے دوسرے اور آخری مرحلے کی پولنگ ہونی تھی۔ ۲۱؍ جون کو حتمی نتائج کا اعلان کیا جانا تھا۔ اس معاملے میں بھی فوج کی سپریم کونسل نے من مانی کی کوشش کی۔ ۲۱؍ جون کو اعلان کیا گیا ہے کہ صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان غیر معینہ مدت کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔ سبب یہ بیان کیا گیا کہ صدارتی امیدواروں نے ۴۰۰ سے زائد عذر داریاں دائر کی ہیں۔ عوام نے بھانپ لیا کہ فوج کے ارادے نیک نہیں۔ لاکھوں مصری سڑکوں پر نکل آئے۔ دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں چار دن تک لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے۔ دیگر شہروں میں بھی زبردست احتجاج ہوا۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ فوج نے صدارتی انتخاب کے نتائج میں گڑبڑ کی کوشش کی تو نتیجہ اچھا برآمد نہیں ہوگا۔ فوج بھی اس بات کو سمجھ گئی۔ ایسے میں بہتر یہ سمجھا گیا کہ نتائج کا اعلان کردیا جائے۔ یوں اخوان المسلمون کے نظریات کی حامل فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے امیدوار محمد مرسی صدر منتخب ہوگئے۔ وہ مصر کے پہلے اسلام پسند صدر ہیں۔
مصر سمیت کئی عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی جو لہر اٹھی ہے اس کا سب سے روشن اور امید افزا پہلو یہ ہے کہ عوام بھی اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ ہیں۔ ایک طرف مقتدر ادارے ہیں اور دوسری طرف عوام۔ اور عوام کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ بہت سی بیرونی قوتیں نہیں چاہتیں کہ ان کے ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہو۔ مصر میں فوج اب بھی مغرب کے اشارے پر ناچ رہی ہے۔ اس نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھنے والوں کو تشدد کی راہ پر ڈالا جائے۔ پارلیمان کی تحلیل ایک ایسا فیصلہ تھا جو کسی بھی جماعت کو باغیانہ روش اختیار کرنے پر اکسا سکتا تھا۔ اخوان نے کمال ضبط و تحمل اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ایک نئی زندگی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اخوان اور اس کی ہم خیال جماعتیں اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ جمہوری طریقے سے ان کے اقتدار میں آنے کی راہ روک کر در اصل اُنہیں تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ مغرب نہیں چاہتا کہ اسلامی دنیا میں آمریت کا دور ختم ہو اور جمہوریت کی فصل پکے۔ بیشتر اسلامی ممالک میں مغرب نواز حکمرانوں نے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اپنا اقتدار مضبوط کیا ہے اور مغرب کے مقاصد کی نگہبانی کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کٹھ پتلی حکمرانوں کو نکال باہر کیا جائے اور عوام کی رائے کے مطابق حکومتیں تشکیل دی جائیں۔
مگر کیا مغرب ایسا ہونے دے گا؟ تمام معاملات معاشی امور کے گرد گھومتے ہیں۔ امریکا ہر حال میں اسلامی دنیا کو صنعتی اور تجارتی طور پر پس ماندہ اور سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ اگر تیل کی دولت سے مالا مال خطہ کاروباری اور علمی دنیا میں آگے بڑھ گیا تو مغرب کی بالا دستی کو زبردست ضرب لگے گی۔ یہ بات مغربی دنیا کو کسی طور گوارا نہیں۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی کا اقتدار تو ختم کردیا گیا مگر اس کے بعد وہاں کوئی باضابطہ حکومت قائم نہیں ہونے دی جارہی۔ ڈر یہ ہے کہ اسلام پسند اقتدار میں آ جائیں گے۔ تیونس میں اسلام پسند النہضہ پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ مگر لیبیا میں سابق دور حکومت سے وابستہ افراد اب بھی اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار سے الگ ہونے کو تیار نہیں۔ عوامی انقلاب برپا تو ہوچکا ہے مگر انقلاب کے بعد کا ایجنڈا انقلابیوں کے پاس نہیں۔ عوام بھی مخمصے میں ہیں۔
لیبیا کی صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی ایجنڈے اور پروگرام کے بغیر کوئی بھی انقلاب بار آور ثابت نہیں ہوسکتا۔
مصر خوش نصیب ہے کہ اسلام پسندوں کے پاس باضابطہ ایجنڈا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کو ایسے نظام سے ہمکنار کریں جس میں عوام کی رائے کو مقدم رکھا جائے اور تمام فیصلے مشاورت سے ہوں۔ قومی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھنے کی روایت ڈالنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اب تک تو ہر طالع آزما نے قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو مقدم رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں افراد کی زندگیاں شدید مشکلات سے دوچار رہی ہیں۔ مصر میں لوگ یہ بات شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں کہ فوج اب جمہوریت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئی ہے۔ کسی کو یقین نہ تھا کہ گزشتہ برس برپا ہونے والے انقلاب کی کوکھ سے اسلام پسندوں کی اکثریت والی پارلیمان پیدا ہوگی۔ مصر کے عوام نے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش ہے تو ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ مصر کے عوام کو داد دینا پڑے گی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اخوان سے تعلق رکھنے والے صدر کی راہ روکی جارہی ہے تو وہ ایک بار پھر کمر کس کر میدان میں آگئے اور تحریر اسکوائر بھردیا۔ مغرب کو پیغام مل جانا چاہیے کہ مصر اور دیگر عرب ممالک کے عوام اب کسی بھی حالت میں اس بات کو برداشت نہیں کریں گے کہ ان کی رائے پر مسلط ہونے کی کوشش کی جائے۔
عبوری آئین نافذ کرکے آئین تحلیل کرنے اور صدارتی انتخاب کے نتائج کے اعلان میں تاخیر پر مصر کے عوام نے جو ردعمل ظاہر کیا اس سے مصر کی عبوری حکمراں فوجی کونسل کو بھی یہ پیغام مل گیا ہوگا کہ ہر معاملے میں اپنی مرضی چلائی نہیں جاسکتی۔ صدر کے منصب کو اختیارات سے محروم کردیا گیا ہے اور پارلیمان کی تحلیل کے ذریعے بھی اخوان کی کمر توڑنے، ارادوں کو متزلزل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ عوام نے اخوان کو پیغام دیا ہے کہ وہ پیچھے نہ ہٹے اور منزل تک پہنچ کر دم لے۔
☼☼☼
Leave a Reply