
موالات: الفت ومحبت اور تعاون و سرپرستی کا تعلق
اس مفہوم کی تائید اس ہدایت سے بھی ہوتی ہے جو قرآن و سنت نے جماعت کے ساتھ تعلق اور امت ہونے کے احساس کو قبیلے، خاندان اور فرد کے ساتھ تعلق پر مقدم رکھنے کے حوالے سے دی ہے۔ چنانچہ اس میں نہ فردیت ہے، نہ عصبیت اور نہ جماعت سے لاتعلقی۔
جاہلی معاشرے میں قبیلہ ہی ایک دوسرے سے تعلق کی بنیاد اور ایک نصب العین پر اکٹھا ہونے کا مرکز تھا۔ ایک فرد حق اور باطل دونوں میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی تعبیر شاعر کے اس قول میں موجود ہے:
’’ان لوگوں کو جب ان کے بھائی مصیبتوں میں پکارتے ہیں تو یہ اُن سے یہ نہیں پوچھتے کہ تمہاری بات کی دلیل کیا ہے۔‘‘
ان کا شِعار یہ تھا کہ ’’اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو‘‘۔
پھر جب اسلام آیا تو اس نے ولایت کو اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور جماعتِ مؤمنین یعنی امتِ مسلمہ کے لیے خاص کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تمہارے رفیق تو حقیقت میں اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘۔ (المائدہ: ۵۵۔۵۶)
قرآن و سنت نے لوگوں کی ایسی تربیت کی جس کے ذریعے وہ اللہ اور اس کے رسول کے شہدابالقسط بن گئے۔ اس سے ان کو نہ کسی رشتہ دار کے ساتھ محبت کا جذبہ روک سکتا ہے، نہ کسی دشمن سے بغض کا محرک۔ کیونکہ عدل تو ہر قسم کے جذبات سے بالاتر اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ وہ اپنے کسی محبوب کی بے جا طرف داری کرتا ہے، نہ کسی ناپسندیدہ شخص پر ظلم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘۔ (النساء:۱۳۵)
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔ (المائدۃ : ۸)
رسول اللہﷺ نے زمانۂ جاہلیت کے ایک مشہور مقولے کو دہرایا، مگر اسے ایک نیا مفہوم پہنایا جو لوگوں کے لیے نامانوس تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘۔ صحابہ نے پوچھا: اگر وہ مظلوم ہو تو ہم اس کی مدد کر لیں گے مگر جب وہ ظالم ہو تو پھر ہم اس کی کیسے مدد کریں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کو ظلم سے روکنا اس کی مدد کرنا ہے‘‘۔ (امام احمد، بخاری، ترمذی)
اس طرح آپﷺ نے ظالم کی مدد کرنے کا مفہوم بدل دیا۔ اب ضروری ہو گیا کہ آپ اس کی خواہشات نفسانی اور اغوائے شیطانی کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کریں اور اس کا ہاتھ پکڑیں تاکہ وہ ظلم کے گڑھے میں گرنے سے بچے۔ کیونکہ یہ دنیا میں وبال اور آخرت میں اندھیرا ہے۔
نبیﷺ نے عصبیت کی دعوت دینے اور اس کے پرچم تلے لڑنے کی ممانعت فرمائی۔ اگر کوئی اس جھنڈے کے نیچے لڑتے ہوئے قتل ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
ایک حدیث صحیح میں آپؐ سے یہ بات منقول ہے کہ: ’’جو شخص عُمِّیّۃ کے جھنڈے تلے لڑا، عصبیت کی دعوت دیتے ہوئے اور عصبیت کی حمایت کرتے ہوئے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘۔ (امام مسلم)
عُمِّیّۃ اس اندھے معاملے کو کہتے ہیں جس کی صحیح صورتحال آدمی کی سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’جو شخص اطاعت سے نکلا، جماعت سے الگ ہوا اور اس حالت میں مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ اور جو عُمِّیّۃ کے جھنڈے تلے لڑا، اس کا غصہ عصبیت کے لیے، اس کی دعوت عصبیت کی طرف اور اس کی مدد عصبیت کے ساتھ ہو اور اس حالت میں قتل ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘۔ (امام مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو جاہلیت کی طرف دعوت دے، وہ شخص ہم میں سے نہیں جو جاہلیت کے لیے جنگ کرے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو جاہلیت پر مرے‘‘۔ (ابودائود)
حضرت واثلہ بن اصقعؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! عصبیت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم ظلم میں اپنی قوم کی حمایت کرو‘‘۔ (ابودائود)
نبیﷺ نے جس طرح عصبیت کو ناپسند کیا، اس سے برأت کا اظہار کیا، اور ہر اس شخص سے جو عصبیت کی طرف دعوت دے، اس کی خاطر لڑے، یا اس کے لیے جان دے، لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ اسی طرح آپﷺ نے جماعت کے ساتھ رہنے کی دعوت دی اور اپنے قول و عمل اور کردار سے اس کی تاکید فرمائی۔ آپؐ نے تفرقے، اختلاف، تشتت اور الگ الگ ہونے سے منع فرمایا۔ اس طرح کے اقوال میں سے آپؐ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں:
جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (ترمذی)
جماعت رحمت اور تفرقہ عذاب ہے۔ (مسند احمد)
دوسری جگہ ہے: جماعت برکت اور تفرقہ عذاب ہے۔ (بیہقی)
جماعت کے ساتھ رہو اور تفرقے سے بچ کر رہو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دو آدمیوں سے دور رہتا ہے۔ جو شخص چاہتا ہو کہ جنت کے عین وسط میں اسے جگہ ملے تو وہ جماعت کے ساتھ رہے۔ (ابودائود، ابن ماجہ)
روحِ جماعت کی تخم ریزی:
جماعت اور امت کے ساتھ تعلق کا یہ جذبہ جو نبیﷺ نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام ہر اس معاملے کی طرف بھرپور توجہ دیتا ہے جس کا تعلق معاشرے اور امت سے ہو اور مصالح و مطالب کے درجات میں اسے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ شریعت اسلامی نے اپنی عبادات، معاملات، آداب اور باقی احکام میں معاشرتی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا۔ بلکہ وہ فرد کو اس مقصد کے لیے تیار کرتی ہے کہ وہ معاشرے کی عمارت میں پہلی اینٹ بن جائے یا اس کے زندہ جسم میں ایک فعال عضو کا کردار ادا کرے۔
فرد کے لیے عمارت میں اینٹ یا جسم میں عضو ہونے کی تعبیر میری گھڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ بلیغانہ نبوی تعبیر ہے جو حدیث صحیح میں آئی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومنوں کے لیے عمارت کی (اینٹوںکی) طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مومنوں کی مثال باہمی محبت اور رحمت و شفقت میں ایسی ہے جیسے وہ ایک جسم کے اعضا ہوں، جسم کے ایک عضو میں جب شکایت ہوتی ہے تو سارا جسم اس کے لیے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
اسلام اپنے تمام احکام اور تعلیمات میں قرآن و سنت کے ذریعے مسلمان کے دل میں اجتماعیت کے احساس کا بیج بوتا ہے۔ نماز با جماعت، جمعہ، عیدین، اذان اور مسجد میں حاضری کو لازم کیا گیا ہے۔ رسول اللہؐ نے اذان سننے کی صورت میں ایک اندھے کو بھی گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور آپﷺ نے ایسے لوگوں کے گھروں کو آگ لگانا چاہی جو جماعت سے غائب رہتے ہیں۔
پھر مسجد میں ایک مسلمان کے لیے یہ بات ناپسند کی گئی کہ وہ صفوں کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے۔ کیونکہ اس میں انفرادیت اور بظاہر جماعت سے الگ ہونے کی صورت نظر آتی ہے۔ حضرت وابصہ بن معبدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پچھلی صف میں اکیلے نماز پڑھ رہا ہے تو آپؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی نماز دہرائے۔ (ابودائود)
حضرت علی بن شیبانؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں: ہم اپنے علاقے سے چلے اور نبیؐ کے پاس آئے۔ ہم نے آپﷺ سے بیعت کی اور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر ایک اور نماز پڑھی۔ آپؐ نے جب نماز پوری کی تو دیکھا کہ ایک آدمی پچھلی صف میں اکیلے نماز پڑھ رہا ہے۔ آپؐ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اپنی نماز نئے سرے سے ادا کرو، اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو صف کے پیچھے (اکیلے) نماز پڑھے‘‘۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کو چاہیے کہ جب مسجد میں داخل ہو اور وہ دیکھے کہ صفیں پوری ہو گئی ہیں تو وہ ان میں خالی جگہ تلاش کرے اور اس میں گھس جائے۔ اگر خالی جگہ نہ ملے تو اگلی صف سے ایک آدمی کو پیچھے کھینچ کر اپنے برابر میں کھڑا کر دے، مگر اکیلے کھڑا نہ ہو۔ جس آدمی کو وہ کھینچتا ہے اس کو بھی چاہیے کہ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ پیچھے آجائے۔ اس میں اسے بھی ثواب ملے گا۔
بعض ائمہ نے اس حدیث کو ظاہری معنی میں لے لیا ہے اور انہوں نے اس شخص کی نماز کو باطل قرار دیا ہے جو صف کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ جبکہ بعض ائمہ نے اسے مکروہ کہا ہے۔
ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام شکل و صورت کے لحاظ سے بھی جماعت اور وحدت کو اہمیت دیتا ہے اور حقیقی اعتبار سے بھی اس کو اہم قرار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک مسلمان جب اکیلے نماز پڑھتا ہے اس وقت بھی وہ اپنے دل میں مسلمان جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ جب اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس سے مناجات کرتا ہے تو وہ جماعت کی طرف سے گفتگو کرتا ہے۔ مثلاً وہ پڑھتا ہے: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔)
اس میں وہ صرف اپنے لیے ہدایت کی دعا نہیں کرتا بلکہ اپنے لیے بھی مانگتا ہے اور اپنی جماعت کے لیے بھی۔
رمضان کے روزے بھی آدمی اکیلے نہیں رکھتا، وہ اکیلے عیدالفطر بھی نہیں کرتا، اگرچہ اس نے شوال کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ روزہ بھی وہ دوسرے کے ساتھ رکھتا ہے اور عید فطر بھی ساتھ کرتا ہے۔ یہی معاملہ وقوف عرفہ کا بھی ہے۔ یہ وقوف اسی وقت کیا جائے گا جب پوری مسلمان جماعت وقوف کرتی ہے۔
امام ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ ایک بستی کے بعض لوگوں نے ذوالحجہ کا چاند دیکھا مگر شہر کے ذمہ دار افسر کے نزدیک اس کا ثبوت نہیں ہوا تو کیا وہ نویں دن کا روزہ رکھ سکتے ہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں ان کے مطابق دسواں دن ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، مسلمانوں کی جماعت کے ہاں جو بظاہر نواں دن ہے تو اس دن وہ روزہ رکھیں، اگرچہ کہ ان کے چاند دیکھنے کی بنا پر حقیقت میں وہ دسواں دن ہو۔ اس کی دلیل حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے جس میں نبیﷺ نے فرمایا: ’’تمہارا روزہ اس دن ہوگا جس دن تم سب روزہ رکھو۔ تمہاری عید فطر اس دن ہوگی جس دن تم سب عیدِ فطر منائو اور تمہاری عیداضحی اس دن ہوگی جب تم سب عیدِاضحی منائو‘‘۔ (ابودائود، ابن ماجہ، ترمذی)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’عیدِ فطر کا دن وہ ہے جس دن لوگ فطر کرتے ہیں اور عیدِ اضحی کا دن وہ ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘‘۔ (امام ترمذی)
سارے ائمہ مسلمین کا عمل اسی پر ہے۔ اگر لوگ چاند کے معاملے میں غلطی کر جائیں اور یوں وہ غلطی سے دسویں دن عرفات پر کھڑے ہوں تو اس پر اتفاق ہے کہ ان کا وقوف درست ہوگا اور ان کے حق میں یہی دن عرفہ ہوگا۔
☼☼☼
Leave a Reply