
بارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی باتیں کی تھیں جن سے اشارہ ملتا تھا کہ ان میں بعض امور کے حوالے سے غیر معمولی بصیرت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے مسلم دنیا سے تعلقات بہتر بنانے، عالمگیر سطح پر جوہری پھیلاؤ ختم کرنے، افلاس کو ہر حال میں مٹانے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی راہ مسدود کرنے کی بات کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے دنیا بھر میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے پر بھی زور دیا تھا۔
جو کچھ اوباما کے ذہن میں تھا وہ ذہن ہی میں رہا۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں پہنچنے کے بعد اوباما پر مختلف امور کا دباؤ اس قدر رہا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی خواب کو اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی باتیں محض باتیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے آئیڈیلسٹ کی حیثیت سے جو باتیں کہی تھیں وہ حقیقت کی دنیا میں اپنا اثر کھوچکی ہیں۔
بارک اوباما اب دوبارہ امریکی صدر بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ انتخابی سال ہے۔ وعدوں اور دعووں کا سیلاب آنے والا ہے۔ آئیے، اوباما کے حوالے سے پانچ بڑی خوش گمانیوں یا مغالَطوں کا جائزہ لیں۔
٭ پہلا مغالطہ: اوباما پیچھے رہ کر رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ جملہ ۲۰۱۱ء میں مشہور جریدے نیویارکر کے ایک مضمون میں ریان لیزا (Ryan Lizza) نے تحریر کیا تھا۔ مقصود یہ ظاہر کرنا تھا کہ لیبیا، تیونس اور مصر میں امریکا نے پردے کے پیچھے رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔ بارک اوباما کی پالیسی یہ رہی ہے کہ امریکا کو کسی بھی معاملے میں براہ راست مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ اسے امریکی خارجہ پالیسی کی بنیادی اپروچ مان لیا گیا ہے۔
یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا ہے کہ اوباما اب پردے کے پیچھے رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا نے اگر لیبیا اور مصر کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کی تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ دونوں ممالک میں اس کا مفاد داؤ پر نہیں لگا ہوا تھا۔ لیبیا کا تیل یورپ کو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر فرانس اور برطانیہ نے مداخلت کی، فوج اتاری اور حملے کیے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اگر امریکی مفادات بھی داؤ پر لگے ہوتے تو امریکا بھی یلغار سے گریز نہ کرتا۔ یورپ کی مداخلت نے معمر قذافی کی حکومت کے تیز رفتار خاتمے اور ان کی موت کی راہ ہموار کی۔
جہاں امریکی مفادات براہ راست زد پر ہوں وہاں کوئی بھی کارروائی کرنے سے امریکا نے کبھی گریز نہیں کیا۔ اٹھارہ ماہ کے دوران ایشیا میں امریکا نے جو کچھ کیا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کی طاقت کو ایک حد میں رکھنا چاہتا ہے۔
٭ دوسرا مغالطہ: اوباما امریکی اقدامات کے لیے معذرت خواہ ہیں۔
بعض مبصرین کے نزدیک صدر اوباما ماضی کی چند غلطیوں کے لیے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے دکھائی دیے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں بھی انہوں نے جارج واکر بش کی پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ غلطیوں اور خامیوں کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران سے تعلقات کی خرابی کے لیے بھی انہوں نے بظاہر پالیسیوں کی خرابی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ قاہرہ میں صدر اوباما کی تقریر کو بھی مبصرین نے معذرت چاہنے کی ایک صورت قرار دیا۔
یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ اوباما امریکی پالیسیوں کے لیے معذرت چاہنے کے موڈ میں رہے ہیں۔ اوسلو میں امن کا نوبل انعام وصول کرتے ہوئے صدر اوباما نے اپنی تقریر میں واضح کردیا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ امریکی عوام اور مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے اور جو جنگیں جاری ہیں ان میں امریکی افواج کی قیادت کسی بھی قسم کی عذر خواہی کے بغیر کی جائے۔
قاہرہ کی تقریر میں اوباما نے کہا تھا کہ غلطیاں ہر طرف سے ہوئی ہیں۔ اس میں انہوں نے صرف امریکا کو غلط تسلیم نہیں کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنی تقریر میں امریکی اقدار اور مفادات کو مرکزی اہمیت دی تھی اور یہی ان کی تقریر کا بنیادی مقصد تھا۔
٭ تیسرا مغالطہ: اوباما نے اسلامی دنیا میں امریکا کے بارے میں تاثر درست کردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بارک اوباما نے قاہرہ میں تقریر کی، انڈونیشیا میں پرورش اور تربیت پانے کا تاثر بھی ساتھ ہے، اسرائیل پر نئی بستیاں بسانے سے باز رہنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا اور عراق سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان بھی کیا مگر ان تمام باتوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انتخابی مہم میں وہ اپنی ساکھ کی بنیاد پر داخل ہو رہے ہیں۔ اسلامی دنیا میں امریکا کے لیے آج بھی ویسے ہی مخاصمانہ جذبات پائے جاتے ہیں جیسے اوباما کے پیش رو جارج واکر بش کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔
اسلامی دنیا میں امریکا کو آج بھی شدید نفرت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے تو اس کی چند بنیادی وجوہ بھی ہیں۔ ایک طرف تو امریکا نے ڈرون حملے بند نہیں کیے جن میں خاصا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے اور دوسری طرف امریکیوں نے اب تک، بار بار وعدے کے باوجود، گوانتا نامو بے جیل بند نہیں کی اور قیدی رہا نہیں کیے۔
اسرائیل کے بارے میں اوباما کا رویہ تھوڑا سا مسلم نواز رہا ہے مگر خیر، اس سے اسلامی دنیا کو کچھ بھی نہیں ملا۔ اسرائیل کو چند ایک امور میں اوباما کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اسلامی دنیا کا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ اسرائیل سے چند ایک مراعات دلانے میں اوباما کامیاب نہ ہوسکے۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کرنا امریکا کا ایک اچھا اقدام تھا مگر پھر اس تجویز کو خود ہی ویٹو کرنا کوئی ایسا اقدام نہ تھا جس کی تعریف کی جائے۔ اس معاملے میں اوباما کی حکمت عملی یکسر ناکام رہی۔
٭ چوتھا مغالطہ: اوباما اپنے پیش رو (بش جونیئر) کی ضِد ہیں۔
کبھی کسی نے سوچا تھا کہ بارک اوباما نے اپنے پیش رو جارج واکر بش کی پالیسی اور حکمت عملی میں پائی جانے والی جن خامیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا انہی کو خود بھی اپنائیں گے؟ مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ جو کچھ بش جونیئر اور ڈک چینی نے کیا وہی کچھ اوباما بھی، تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ، کرتے آئے ہیں۔ بہت سے معاملات میں اوباما اور بش جونیئر کی سوچ کا فرق معمولی ہی رہا ہے۔
اوباما نے بش جونیئر کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو برقرار رکھا جو امریکا میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اوباما نے عراق سے سولہ ماہ میں افواج نکالنے کا وعدہ کیا تھا مگر تین سال لگ گئے۔ یہ وہی ڈیڈ لائن تھی جو نوری المالکی اور بش جونیئر نے طے کی تھی! کئی بار وعدہ کرنے کے باوجود اوباما اب تک گوانتا نامو بے جیل بند نہیں کرسکے ہیں۔ جیل میں مقدمہ چلائے بغیر رکھے گئے قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ایران اور شمالی کوریا کو رام کرنے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ دونوں کے خلاف پابندیاں مزید سخت کردی گئیں۔ چین اور بھارت کے معاملے میں امریکا کی اپروچ وہی ہے جو بش کی تھی۔ دونوں ممالک سے امریکا کے تعلقات زیادہ سے زیادہ ’’انگیجمنٹ‘‘ کے ہیں۔ کوئی انقلابی تبدیلی دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ عرب دنیا کے معاملے میں اوباما نے کم و بیش وہی کیا ہے جو بش جونیئر کرتے۔
٭ پانچواں مغالطہ: ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے اور اوباما تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ری پبلکن یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ اوباما نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی بظاہر آزادی دے رکھی ہے اور صرف تماشا دیکھتے رہنے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اوباما نے ایران کے خلاف عالمی برادری کو اتفاق رائے کی منزل تک پہنچایا اور اس کے خلاف پابندیاں سخت تر کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں غیرمعمولی اثرات کی حامل ہیں۔ اوباما نے کئی مواقع پر اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے۔
اوباما نے ایران کے خلاف آپشنز میں سے Containment کا آپشن ہٹالیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یا تو ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور حصول کے ارادے سے باز آئے یا پھر امریکا کی طرف سے عسکری کارروائی کے لیے تیار رہے۔
(“Five Myths about Obama’s Foreign Policy”… “Washington Post”. March 30th, 2012)
Leave a Reply