۲۲دسمبر کو نریندرمودی نے علی گڑھ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے خطاب کیا، دارالحکومت دہلی میں جنوب مشرق کی جانب چند گھنٹوں کی مسافت پرواقع یہ یونیورسٹی مرکز کے زیر انتظام ہے۔دوسری اہم تقریبات کی طرح یہ تقریب بھی آن لائن ہی منعقد کی گئی لیکن مودی کی تقریر کوعوام نے بہت غور سے سنا اور دیکھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جوکہ اس وقت حکومت میں ہے اس کی اور بھارت میں مقیم ۲۰۰ ملین مسلمانوں کی نفرت اور دشمنی کی ایک تاریخ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وہ کھلے عام فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کی آگ بھڑکاتی ہے، مودی نے مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ رنگ و نسل اور فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر وہ تمام ہندوستانیوں کے وزیراعظم ہیں۔
اپنی تقریر میں مودی نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت مذاہب کے درمیان غیر امتیازی سلوک نہ کرنے کا عہد کرچکی ہے۔ تقریر میں مودی نے اعداد و شمار کے ذریعے یہ ظاہر کیا کہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں بہتری آئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ مسلمان طالبعلم بھارت کا ’’نرم رویہ‘‘ دنیا کو دکھائیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مودی کی یہ درخواست بھارت کے جارحانہ سفارتی رویے کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کی گئی تھی، تاکہ مسلم ممالک کے ساتھ بھارت کے اچھے سفارتی تعلقات قائم ہوسکیں یا کم سے کم مسلم دنیا کا بھارت کے معاملے میں یہ تاثر ختم کیا جاسکے کہ مودی کی حکومت ہندو قوم پرست یا مسلم دشمن حکومت ہے۔
بھارت کی سفارتی پالیسی میں مسلم ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا اہم ہے، حیرت انگیز طور پر دہلی اسی دوران اسرائیل کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات استوار رکھنا چاہتا ہے، مزید یہ کہ بھارت خلیجی ریاستوں مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرچکا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھارت خلیجی ممالک کے حریف ایران کے ساتھ بھی تعاون کررہا ہے بلاشبہ یہ ناممکنات میں سے ہے یا یہ کہ بھارت بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہاہے۔
آج کل مغربی مبصرین اس پر گفتگو کررہے ہیں کہ یہ دنیا یک قطبی ہے، دو قطبی ہے یا تین قطبی۔۔ لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ امریکا بھی دوسرے ممالک کے لیے ایک قطب اور ایک نمونہ ہے۔ عالمی سطح پر امریکا بہتر کام کرسکتا ہے لیکن علاقائی سطح پر بین الاقوامی معاملات کافی پیچیدہ ہوتے ہیں، جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں الجھاؤبھی ایک علاقائی الجھاؤ ہے جسے سمجھنے کے لیے بھارت کے پرانے بین الاقوامی نظریات کو سمجھنا زیادہ بہتر ہے بجائے یہ کہ ہم اسے مغربی نقطہ نظر سے دیکھیں۔
۱۹۱۹ء میں بنگالی سماجی سائنسدان بنے کمار سرکار نے ’’امریکن پولیٹیکل سائنس ریویو‘‘ میں اپنا ایک دلچسپ مضمون ’’بین الاقوامی تعلقات کا ہندو نظریہ‘‘ شائع کیا۔ مہا بھارت اور سنسکرت پر کام کرتے ہوئے انہوں نے بیرونی ممالک کو تین اقسام میں تقسیم کیا۔ آری (دشمن)،مدہاما(ثالث) دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ الجھا ہوا، اوڈیسینا (لاتعلق) اپنا وزن دوسروں پر ڈالنا۔ ان تینوں اقسام کو ملا کر منڈیلا یا ایک دائرہ بنتا ہے، کمار سرکار کی منڈیلا کے نظریے کو اگر بھارت کی مغربی سرحد پر لاگوکیا جائے تو پاکستان ’’دشمن‘‘ ملک ہے، ایران ’مدہاما‘ میں آتا ہے جو بھارت کے لیے اہم ہے، جب کہ خلیجی ریاستیں طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہیں۔
ایران پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت ایران کے ساتھ کام کرنے اور اس سے تعلقات رکھنے میں کامیاب رہاہے حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ نے چاہ بہار میں تعمیراتی بندرگاہ اور ریلوے کو پابندیوں میں شامل نہیں کیا تھا۔ ایران بھارت کا قریبی اتحادی نہیں ہے لیکن مدہاما نظریہ یہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔منڈیلا کے مطابق مدہامامیں رہ کر ایران یہ کرسکتا ہے کہ وہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالے کہ پاکستان ایران کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے اور ایران یہ دباؤ مسلسل ڈال رہا ہے۔
بھارت کے منڈیلا کے مطابق ’مدہاما‘ صحیح جگہ پر کام کر رہا ہے، ایسے میں اوڈیسینا پر کام کرنے کی ضرورت ہے خطے کی ایک ایسی طاقت جو دوسری طرف سے مدد فراہم کر سکے۔ بھارت خلیجی ممالک کی جانب بڑھ چکا ہے، ان میں سعودی عرب، دبئی اور بحرین شامل ہیں۔ یہ تینوں مذہبی، تاریخی اور سیکورٹی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے اوائل میں یہ ممالک بھارت کو صرف سستی لیبر، گھریلو خدمات اور تعمیراتی خدمات کی وجہ سے جانتے تھے، بیسویں صدی کے اختتام پر بھارت کی بڑھتی معاشی نمو نے ڈرامائی انداز میں اسے تبدیل کردیا۔
بھارت کے منڈیلا کے مطابق تیل کی بر آمدات اور سرمایہ کاری ان ممالک سے تعلقات کے لیے ناکافی ہے، بھارت عرب ممالک کے ساتھ طویل مدت کے سیکورٹی تعلقات چاہتا ہے۔ سنی مسلم مذہبی یکجہتی کے ساتھ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کی سیاست کا مقابلہ کامیابی سے کرتا آیا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں او آئی سی میں پاکستان نے بھارت کی شمولیت کو ناکام بنایا، سعودی عرب کی فوج کو بنانے میں مکمل کردار ادا کیا، حتیٰ کہ پاکستان نے سعودی عرب کی مدد کے لیے اور عراق کے خلاف ۱۹۹۱ء اور ۱۹۷۹ء میں اپنی فوجیں بھیجیں۔
خلیج فارس اور پاکستان کے آپس میں بہت اچھے تعلقات ہیں، تعاون کی نشاندہی اس سے بھی ہوجاتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے لیے مبینہ طور پر سعودی عرب کے تعاون کی حمایت کی تھی۔ مبصرین سعودی عرب کی مالی اعانت یا اس کی اہمیت پر متفرق رائے رکھتے ہیں لیکن اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے ایک طاقتور ملک بنا اور اس نیوکلیئر پروگرا م کو ’’اسلامک بم‘‘ یا ’’مسلم بم‘‘ کا نام بھی دیا گیا، یہ سارا انتظام پاکستان نے۱۹۷۰ء کے اواخر سے بڑے پیمانے پر پھیلے بھارت اور اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا تھا، پوری مسلم دنیا میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی جب ۱۹۹۸ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اپنے اوڈیسینا کو مکمل کرنے کے لیے بھارت نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو پاکستان کے ساتھ دلی تعاون اور حمایت سے روکنے میں کس طرح کامیاب ہوا۔ ۲۰۱۶ء کے اواخر تک مبصرین کی رائے یہی تھی کہ پاکستان کی ترقی صرف سعودی عرب کے ایک اہم شراکت دار کی حیثیت سے ہی ممکن ہوگی لیکن اصل صورت حال اس وقت سامنے آئی جب سعودی عرب نے امارات سے اتحاد کرتے ہوئے یمن میں مداخلت شروع کی۔سعودی عرب نے پاکستان سے یمن جنگ میں شرکت کے لیے ایئر کرافٹ، وار شپ اور فوجیوں کی درخواست کی تھی لیکن پاکستان نے یمن جنگ میں کسی بھی طرح کی شرکت یا تعاون سے معذرت کرلی۔
یمن جنگ میں اسلحے کی فراہمی اور فوجیوں کے ذریعے مدد سے پاکستان کے صاف انکار نے خلیجی ممالک اور سعودی عرب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات فائدے سے زیادہ نقصان میں ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے درمیانی عرصے میں خلیجی عرب ریاستوں نے پاکستان کے بجائے دوسرے ممالک سے فوجیوں کی خدمات اور جدید اسلحہ حاصل کیا، انہیں مزید پاکستان کی فوجی تربیت یا ٹیکنیکل تعاون کی ضرورت باقی نہیں رہی، اس کے برعکس بھارت نے ناصرف معاشی مواقع فراہم کیے ہیں بلکہ مل کر کام کرنے کو بھی ترجیحات میں شامل کیا ہے، بحیرہ عرب میں بحری اور فضائی افواج کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔
پاکستان کا یہ خیال تھا کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں ٹرمپ کارڈ رکھا ہوا ہے، تاریخی اعتبار سے کشمیر بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن جب بھارت نے کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا حصہ بناتے ہوئے بھارت کی ایک ریاست ظاہر کیاتو دوسرے مسلم ممالک یا او آئی سی کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا، جب کہ دوسری طرف کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے بھارت نے ظلم کا ہر طریقہ استعمال کیا اوربھاری اسلحے کو کشمیریوں کے خلاف ممکنہ تشدد روکنے کے لیے استعمال کیا، اس ساری صورتحال پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی ایک مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آسکا۔
بھارت صرف اوڈیسینا مکمل کرنے کے لیے عرب ممالک سے بہتر تعلقات کی کوشش کررہا ہے، اوراس کے لیے اپنے مسلم اقلیتی علاقوں کے حقوق کے ذریعے عرب ریاستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو مکمل نظر انداز کرنے کے باوجود او آئی سی بھارت کے مسلم اقلیتی علاقوں کے گیارہ مختلف مسائل پر سیخ پا ہے اور بھارت میں ’’سی اے اے‘‘ کے حوالے سے ہونے ولے احتجاج پر جواب طلب کررہی ہے۔ سی اے اے سے متعلق پانچ موضوعات یا مسائل ہیں جو او آئی سی کی نظر میں بھارت کو جلد ازجلد حل کرنے چاہییں، سی اے اے دراصل ایک راستہ ہے جو مسلم اکثریتی علاقوں کے غیر مسلم شہریوں کو بھارت میں پناہ گزین ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، اس قانون نے بھارت میں بڑے پیمانے پر مزاحمتی تحریک کو جنم دیا ان پُرامن مظاہروں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد کے ذریعے، پُر تشدد بھی بنایا گیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے مسلمان طلبہ سے درخواست کی کہ وہ جس بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔مودی نے مزید کہا کہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر صرف ملکی سلامتی اور اس کی بہتری کے لیے کام کریں۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مودی کی یہ تقریر اس وقت سامنے آئی ہے جب اس کے دست راست امیت شاہ نے سی اے اے کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ کوڈ۔۱۹ کی وبا کے اختتام تک سی اے اے کے نفاذ کو روک دیا گیا ہے۔
مودی، امیت شاہ یا بی جے پی کو یہ امید نہیں ہے کہ مسلم نوجوان طالب علم ان کی درخواست پر یا سی اے اے پر وقتی پابندی کی وجہ سے محب وطن ہونے کا ثبوت دیں گے لیکن انہیں یہ امید ضرور ہے کہ اس سے بی جے پی کے لیے سراسر دشمنی والے جو جذبات ہیں، ان کی شدت کم ہوجائے گی۔ مودی حکومت ہر وہ کام کرے گی جس سے وہ خلیجی ممالک کا اعتماد حاصل کرسکے، مودی حکومت اپنی پارٹی کے جارحانہ فرقہ وارانہ عناصر کو روکنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرے گی اور مسلم مظاہرین کوبھی دبانے کی کوشش کرے گی، مودی ہر قیمت پر یہ چاہتے ہیں کہ خلیجی ممالک اور بھارت کے تعلقات آسانی کے ساتھ تعاون کی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ تعلقات اب تک اس قدر بہتر ہوچکے ہیں کہ بھارت اور خلیجی ممالک آپس میں اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری مشترکہ مشقیں بھی کررہے ہیں، مودی حکومت بہت حد تک عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے لیکن معاشی طور پر کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت میں حکومت اور شہریوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“For Modi, Courting the Arab World Begins With India’s Muslims”.(“Foreign Policy “. January 19, 2021)
Leave a Reply