فی زمانہ ارض وطن کا تصور لوگوں کے ذہنوں پر کچھ زیادہ چھایا ہوا ہے۔ بہت سوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ یہ تصور کس قدر لچکیلا ہے اور اس حوالے سے انسان کا اپنا مزاج کس حد تک مبالغہ پالتا ہے۔ ارض وطن کو اصل سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اب لوگوں کی شناخت کے حوالے سے اہم ترین کیٹیگری شمار ہوتی ہے۔ مگر ایک مشکل یہ ہے کہ جسے ارض وطن قرار دیا جارہا ہے وہ ممکنہ طور پر گھر نہیں بھی ہوسکتی۔ بہت سے لوگ جس سرزمین کو اپنا گھر یا وطن قرار دیتے ہیں وہ گھر یا وطن نہیں بھی ہوسکتا۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو ان کے آبائی وطن یا آبائی سرزمین کی طرف لوٹنے پر مجبور کردیا جائے اور وہ اُسی سرزمین کے لیے ترستے رہیں جہاں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہو۔ اور اس عمل میں وہ لمبی مدت تک جذبات کے اتار چڑھاؤ کی منزل میں رہتے ہیں۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں بہاولپور میں میری ملاقات نادرہ سے ہوئی۔ بعد میں وہ نادرہ نائیپال بنیں۔ تب وہ نادرہ اقبال تھیں۔ ان کے شوہر اقبال مصطفی زمیندار تھے۔ وہ شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ تب میں نے اُن سے اُن کی آبائی سرزمین اور بنیادی شناخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایسا جواب دیا جو عام طور پر مجھے سنائی نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری فیملی کا تعلق کینیا سے ہے۔ وہ افریقی نسل کی نہیں تھیں مگر افریقا ان کی شناخت کا حصہ بن چکا تھا۔
وہ ان بہت سے خاندانوں کی طرح تھیں جنہیں یا تو مغرب میں سکونت اختیار کرنے یا پھر اپنی آبائی یا اصل سرزمین کی طرف لوٹنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ یہ لوگ ان لاکھوں افراد میں شامل تھے جنہیں ہنرمند یا غیر ہنرمند ورکرز کی حیثیت سے افریقا لے جایا گیا تھا۔ انہوں نے افریقی ممالک میں اپنے کاروبار بھی قائم کرلیے تھے۔ اور پھر افریقا میں آزادی کی لہر شروع ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ نوآبادیاتی دور کو خیرباد کہنے کا دور تھا۔ قوم پرستی کی لہر اٹھ چکی تھی۔ قومی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی گرم بازاری تھی۔ وہ عوام کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے ایسا طرز عمل اختیار کر رہے تھے جس میں ’’افریقنائزیشن‘‘ زیادہ نمایاں ہو۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور بھارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے گھرانوں کو افریقا چھوڑنا پڑا۔ یہ بہت دکھ دینے والا تجربہ تھا۔ اضافی المیہ یہ تھا کہ ان لوگوں نے جو کچھ کمایا تھا، بنایا تھا وہ بھی چھوڑنا پڑا۔ یوگنڈا میں عیدی امین نے برطانوی شہریت رکھنے والوں سے کہا کہ وہ یا تو اپنی برطانوی شہریت ترک کردیں یا پھر ۹۰ دن میں ملک چھوڑ دیں۔ جن لوگوں نے یوگنڈا میں رہنے کو ترجیح دی ان کے لیے بھی معاملات بہتر نہ رہے کیونکہ امتیازی پالیسی برقرار رہی اور وہ اس کے خلاف تھے۔
افریقی سرزمین سے نکالے جانے پر بہت سے لوگ امریکا اور یورپ کی طرف گئے۔ کچھ برصغیر کی طرف بھی آئے۔ اس نقل مکانی کے بارے میں زیادہ لکھا نہیں گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلادیش کے قیام کے بعد جن لوگوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا ان کے بارے میں بھی زیادہ نہیں لکھا گیا۔ بالکل اِسی طرح اب سعودی عرب سے نکلنے پر مجبور ہونے والے لاکھوں افراد کے بارے میں بھی نہیں سوچا جارہا۔ ان سب کو اب تک کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا گیا مگر انہیں اندازہ ہے کہ ملک چھوڑنا پڑے گا اور بہتر مستقبل کے لیے انہوں نے جو سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ بھی چھوڑنا پڑے گی۔
سعودی عرب نے ہر غیر ملکی پر ۲۰۰ ریال کا ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا اور جنوبی و جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے لوگوں کے لیے گھر والوں کو ساتھ رکھنا ممکن نہیں رہا۔ وہ اگر خود سعودیہ میں سکونت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں بھی تو کم از کم اہل خانہ کو گھر واپس بھیج رہے ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن ۲۰۳۰ء کے تحت ایک بار پھر لاکھوں افراد اپنے اہل خانہ سے الگ ہونے پر مجبور ہیں یعنی گھرانے منقسم ہو رہے ہیں۔
سعودی فنڈنگ سے قائم ہونے والے فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے گزشتہ برس پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اس فوجی اتحاد کے قیام سے پاکستان کو متعدد فوائد حاصل ہوں گے۔ ان میں ایک فائدہ یہ ہوگا کہ رکن ممالک کے باشندوں کو سعودیہ میں ویزا فری داخلہ مل سکے گا۔ ہوسکتا ہے کہ راحیل شریف ایسا ہی سمجھ رہے ہوں مگر حقائق تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان یا جنوبی ایشیا کے کسی اور ملک سے غیر ہنر مند افرادی قوت کی درآمد میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ ۲۰۱۷ء میں سعودی عرب سے ۶۴۶۸۹ پاکستانیوں کو نکال دیا گیا۔ ان میں بہت سے وہ تھے جو ویزا کی میعاد سے زائد قیام پذیر تھے یا غیر قانونی طور پر کام کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایک مدت سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اُن کے لیے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔
پاکستانیوں اور جنوبی ایشیا کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے سعودی سرزمین سے تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں متعدد علما نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حجاز مقدس میں سکونت اختیار کی۔ وہاں آج بھی ایسے مکانات دکھائی دیتے ہیں جن کے دروازوں پر ’’الہندی‘‘ اور ’’السندھی‘‘ لکھا ہوا ملتا ہے۔ بعد میں جب سعودی عرب میں تیل نکالنے کے سلسلے نے زور پکڑا تب سعودی معیشت کو اپ گریڈ کرنے میں پاکستانیوں نے انقلابی نوعیت کا کردار ادا کیا۔ ۱۹۵۷ء میں پاکستانی ماہر معاشیات انور علی سعودی عریبین مانیٹرنگ اتھارٹی کے سربراہ بنے۔ یہ ادارہ ملک کے تمام وسائل کے نظم و نسق کا مینڈیٹ رکھتا ہے اور ملک کے مرکزی بینک کا کردار ادا کرتا ہے۔ انور علی اس عہدے پر ۱۹۷۴ء تک فائز رہے۔ ہزاروں پاکستانی ہنر مندوں نے سعودی معیشت کو مضبوط بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سے بہت سوں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا جو ملک کے بہت سے حصوں میں فعال تھی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات برادرانہ رہے ہیں۔ ان تعلقات کو مضبوط بنانے میں امریکا اور برطانیہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۵۰ء، ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں بہت سے پاکستانیوں کو سعودی شہریت دی گئی۔ ویسے امریکا اور یورپ کے برعکس سعودی عرب میں اگر بچے ایک خاص مدت قیام نہ کریں تو شہریت نہیں ملتی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے عرب مشرق وسطیٰ اور بالخصوص سعودی عرب اور لیبیا سے تعلقات بہتر بنائے تو لاکھوں پاکستانیوں کو ان دونوں معیشتوں کے مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب میں کام کرنے کا دگنا فائدہ تھا۔ ایک طرف تو بہتر معاشی امکانات تھے اور دوسری طرف مقدس سرزمین پر قیام کا اعزاز۔ میں گزشتہ برس سعودی عرب گئی تو ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ملی۔ ان کی عمر ۷۵ سال ہے۔ محترمہ نے سعودی عرب میں ہیلتھ سروس کے قیام کے حوالے سے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں سعودی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ انہیں ریٹائر ہوئے زمانہ ہوچکا ہے مگر وہ چاہتی ہیں کہ زندگی کے آخری ایام مدینہ میں گزریں۔
سعودی معیشت کا مدار جب تیل پر ہوا تو ملک پر دولت برسنے لگی۔ سعودیوں کو محنت کرنے سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ محنت کرنا بھارت، پاکستان، بنگلادیش اور سری لنکا وغیرہ کے باشندوں کا کام تھا۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نے ایک سعودی سے پوچھا کہ ’’محبت‘‘ محنت کا معاملہ ہے یا لطف کا۔ وہ بولا یہ لطف ہی کا معاملہ ہوسکتا ہے کیونکہ محنت کا معاملہ ہوتا تو ہم کسی انڈین کی خدمات حاصل کرلیتے!
ولی عہد محمد بن سلمان بہت کچھ تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب تیل کی دولت پر انحصار نہ کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سعودی بھی کام کریں اور غیر ملکی محنت کشوں کے محتاج نہ رہیں۔ ان کا وژن ۲۰۳۰ء جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کے لیے امکانات کے دروازے بند کر رہا ہے۔
معاملہ صرف ٹیکس تک محدود نہیں۔ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے لیے اور بھی بہت سی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ مقامی اداروں کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ فرنٹ ڈیسک ملازمتوں کے لیے غیر ملکیوں یا اجنبیوں کی خدمات حاصل نہ کریں۔ غیر ہنر مند محنت کشوں کو کمانے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے دیگر بہت سے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک اور نیا رجحان متعارف کرایا ہے جس نے سعودی معاشرے میں تھوڑی بہت ہلچل تو مچا ہی دی ہے۔ یہ رجحان ہے کمزور نسلوں کے خلاف نسل پرستانہ رویہ۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کی دکانوں سے خریداری کا رجحان کمزور پڑتا جارہا ہے۔ لوگ دانستہ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ امتیازی رویہ بہت سے غیر ملکیوں کے لیے شدید کاروباری نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ نعیم قاضی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ ۱۹۸۰ء سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ایک دور تھا کہ وہ مارٹ چلاتے تھے مگر اب معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، اب ان کے پاس دو بڑی کاروں کے بجائے ایک پک اپ ہے۔ وہ اور ان کے اہل خانہ اپنی آبائی سرزمین (پاکستان) واپس جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
بہت سے پاکستانی سعودی عرب چھوڑ کر واپس آرہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے لیے مزید پریشانیاں پیدا ہوں گی، جو اب بھی وہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی اچھی قیمت نہیں ملے گی۔ سعودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جانے والے اپنی چیزوں کو اونے پونے داموں بیچ کر جائیں گے۔ اس کے باوجود بہت سے پاکستانیوں کے لیے اب بھی سعودی عرب بہت اچھی جگہ ہے کیونکہ وہ پاکستان سے موازنہ کرنے پر سعودی عرب کو بہتر پاتے ہیں۔ سعودی عرب میں مال معیاری ملتا ہے۔ کرپشن نہیں ہے۔ مگر خیر، سعودی عرب میں سب کچھ بہت مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ پہلے سعودی عرب میں پانچ ریال میں ایک گھرانہ ایک وقت کا کھانا کھالیا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اور بہت چھوٹے رقبے کے مکانات میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کسی کو پاکستان میں اُس کے آبائی مکان کے مقابلے میں سعودی عرب کے چھوٹے سے مکان کی طرف متوجہ کیا جائے تو وہ اس حوالے سے سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
اسماء اپنے اہل خانہ کی نسبت بہت پہلے کزن سے شادی کے بعد ڈیرہ غازی خان منتقل ہوگئی تھی۔ وہ اب بھی عبایا پہنتی ہے۔ وہ چالیسویں، برسی وغیرہ کو بدعت سمجھتی ہے۔ اسے اپنے سسرالیوں کا مزارات پر جانا پسند نہیں۔ اُسے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اُس کے کزن مختلف بدعات میں مبتلا ہیں۔ اس نے ایک کزن کو عمرے کے دوران خانہ کعبہ کا غلاف چھونے سے بھی روک دیا تھا۔ اُسے اس بات پر بھی بہت دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان میں خواتین پردہ نہیں کرتیں اور آزادانہ گھومتی پھرتی ہیں۔ اسماء کے بھائی بہن بھی اب وطن واپس آچکے ہیں مگر اب تک وہ یہاں سیٹل نہیں ہو پائے۔ ان کے ذہن میں سعودی عرب ہی کا ماحول ہے۔
نسرین کے دادا نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سعودی عرب میں سکونت اختیار کی تھی۔ اس کے شوہر نے سعودی شہریت نہیں لی۔ وہ سعودی عرب ہی میں پیدا ہوا اور مذہبی تعلیم حاصل کی۔ اُسے مدینہ میں قیام کا موقع دیا گیا جہاں اس نے ایک جنرل اسٹور چلایا۔ اب اُسے اور اُس کے اہل خانہ کو پاکستان میں بسنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اُسے عربی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی۔ اس حوالے سے وہ غیر معمولی مشکلات کا شکار ہے۔
جن پاکستانی گھرانوں کو وطن واپسی پر مجبور کردیا گیا ہے ان میں سے بیشتر کو امید ہے کہ محمد بن سلمان کو بہت جلد اندازہ ہوجائے گا کہ وہ مقامی آبادی کے ذریعے اپنے وژن پر عمل نہیں کرسکتے اور یہ کہ انہیں واپسی کا موقع دیا جائے گا! بہت سے سعودی بھی سمجھتے ہیں کہ نیا سسٹم کام نہیں کرسکتا اور یہ کہ کچھ دن انتظار کیجیے، پھر واپسی کی راہ ہموار ہوگی۔ ایسی سوچ کو جاگتی آنکھوں کے خوابوں کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں مذہبی ثقافت بہت مختلف ہے۔ سعودی عرب سے آنے والوں کے ذہن پر نجدی ثقافت ثبت ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“For Pakistanis used to Saudi Arabia, home is not a land any more”.(“The Fridaytimes”. April 6, 2018)
Leave a Reply