
ترک عوام کی جانب سے رجب طیب اردوان کو تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب کرنے کے بعد ترکی کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے۔ گزشتہ پانچ برس وزیر اعظم اردوان کے ساتھ وزیر خارجہ کے فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اولو کو ترکی کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے اولو کی نامزدگی کا اعلان گزشتہ ماہ بر سر اقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (ای کے پی) کے چیئرمین رجب طیب اردوان نے پارٹی کے ایک اجلاس کے بعد کیا تھا۔ اس اجلاس میں اولو کو اردوان کی جگہ پارٹی کا چیئرمین بھی نامزد کیا گیا، کیوں کہ ترکی کے آئین کے مطابق بحیثیت صدر، اردوان کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھ سکتے۔
اولو کا نام پہلے ہی سے اردوان کے متوقع جانشینوں میں سرِ فہرست قرار دیا جارہا تھا، جو ترکی کے بارہویں صدر منتخب ہونے کے بعد ۲۸؍اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔وہ ترک جمہوریہ کے پہلے صدر ہیں جن کا انتخاب اراکین پارلیمان کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں سے عمل میں آیا ہے۔
اولو کی بطور وزیرِاعظم اور پارٹی سربراہ نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے اردوان نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ طویل مشاورت کے بعد کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ خارجہ اپنی سخت محنت اور کارکردگی کے باعث اولو اس انتخاب کے حق دار تھے اور انہیں ا مید ہے کہ وہ وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی ملک کی اس ’’باشعور خارجہ پالیسی‘‘ کو جاری رکھیں گے، جس پر وہ ماضی میں کاربند رہے ہیں۔ اپنے خطاب میں اردوان نے امید ظاہر کی کہ نئے وزیرِاعظم اے کے پارٹی کے ’’نئے ترکی‘‘ کے قیام کے خواب کو آگے بڑھائیں گے۔
نامزدگی کے اعلان کے بعد احمد اولو نے وزیرِاعظم بننے کے بعد اردوان کے کام اور مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ ترکی کی نشاۃِ ثانیہ کی ۱۲؍برس قبل شروع ہونے والی تحریک کو جاری رکھیں گے جس نے یورپ کے ’’مردِ بیمار‘‘ قرار دیے جانے والے ترکی کو ایک علاقائی طاقت بنادیا ہے۔ احمد اولو کا کہنا تھا کہ کامیابیوں سے بھرپور اے کے پارٹی کا سفر اپنی منزل تک پہنچے گا اور حقوق اور جمہوریت کے لیے پارٹی کی جدوجہد جاری رہے گی۔
ٔتجزیہ کار ۵۵ سالہ اولو کو اردوان کا قریب ترین اور قابلِ اعتماد ساتھی قرار دیتے ہیں، جو ترکی کی سیاست میں آنے والے اتار چڑھاو اور بطور وزیرِاعظم انہیں پیش آنے والے مختلف بحرانوں میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ سیاست کے میدان میں آنے سے قبل اولو استنبول کی مارمارا یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر تھے۔ وہ ۲۰۰۳ء میں وزیرِاعظم اردوان کے مشیر برائے خارجہ پالیسی کی حیثیت سے اے کے پارٹی میں شامل ہوئے، جس کے بعد ۲۰۰۹ء میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا۔
اولو کو ترکی کی نئی خارجہ پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے جس کا ہدف خطے کے ملکوں خصوصاً عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے، جو ماضی میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کا حصہ رہ چکی ہیں۔ عثمانی خلافت کی سابق نو آبادیات میں دلچسپی کے باعث ان کے بعض مخالفین انہیں ’’امپیریلسٹ‘‘ رہنما قرار دیتے ہیں لیکن اولو خود اس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔
بحیثیت وزیرِ خارجہ احمد اولو نے ترکی کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ’زیرو پرابلم‘ پالیسی اختیار کی تھی جو ابتدائی برسوں میں خاصی کامیاب رہی۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ مستقبل بینی میں ناکامی اور اندازوں کی غلطی کے باعث یہ پالیسی بتدریج ناکام ہوگئی ہے اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ خطے میں ترکی کا کوئی اتحادی نہیں رہا۔ لیکن ترکی کی قدامت پسند آبادی، جو اے کے پارٹی کا بنیادی حلقہء انتخاب ہے، دنیا میں ترکی کا نام اور مقام بہتر بنانے کا سہرا جناب اولو کے سر باندھتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ احمد اولو اپنے پیش رو کے برعکس ایک کمزور وزیرِاعظم ثابت ہوں گے کیوں کہ نہ تو وہ ایک روایتی سیاست دان ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی حلقہء انتخاب ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی یہی کمزوری ان کے انتخاب کی بنیاد بنی ہے، کیوں کہ رجب طیب اردوان صدر بننے کے بعد بھی بیش تر اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور وزارتِ عظمیٰ پر ایک کمزور شخص کو بٹھانے کے بعد یہ ہدف بآسانی حاصل ہوسکتا ہے۔
اردوان اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اے کے پارٹی ملک میں نیا آئین متعارف کرائے گی، جس میں ملک کا نظامِ حکومت پارلیمانی سے صدارتی کردیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہونے تک احمد اولو اردوان کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ایک طاقت ور صدر کے تحت کمزور وزیرِاعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
(مترجم: ابن ریاض )
“Foreign Minister Ahmet Davutoglu Nominated to Be Turkey’s Next Premier”. (“New York Time”. August 21, 2014)
Leave a Reply