کیا پاکستانی اذیت پسند ہیں۔ پھر وہ بجلی کی طویل غیرحاضری پر احتجاج کیوں نہیں کرتے جس نے ان کی زندگیوں کو زندہ جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ارباب رحیم اور شیر افگن پر تشدد پر احتجاج کیا جائے جو حیرت انگیز طور پر جسمانی طور پر بحفاظت نکل آئے اور ایک ٹی وی اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو پر لڑھکائے جاتے رہے جیسے متاثرین کا تماشا ہو رہا ہے۔ عوام الناس کو حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ان پر توانائی کے عذاب کا فوری سدباب کیا جائے۔
سول سوسائٹی کہاں ہے؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں؟ وہ بھاری بھرکم غیرحکومتی ادارے (این جی اوز) کہاں ہیں جو مبینہ طور پر عام پاکستانی کی بہتری کے لیے سخت کوشاں ہیں۔ کیا ان سب کو باہم متحد ہو کر نئی حکومت سے مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے؟ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا مرض جو گزشتہ نو سال میں ہماری غذا کا اہم حصہ بن گیا ہے، ہمیں موٹا کر رہا ہے، الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے ہماری جذباتیت اور لرزہ خیزیت کی بھوک ہمیں زندگی کے حقیقی مسائل سے دور کرتی ہے۔
اُن پرجوش اوقات میں جب سابقہ اہم (وی۔آئی۔پی) شخصیات کی پٹائی کے مناظر جو جذباتی ہیجان انگیزی کی پیداوار تھے، بار بار دکھائے جارہے تھے تو کس دیکھنے والے کو پروا تھی کہ وہ ’’بجلی کا بحران‘‘ کے موضوع پر سنجیدہ اور اہم مباحثہ دیکھے؟
کیا ممبر قومی اسمبلی ایاز امیر واقعی سنجیدہ تھے جب وہ وزیراعظم کو بجلی کی بندش کے دوران موم بتی کی روشنی میں کام کرنے کا کہہ رہے تھے؟ مجھے اپنے ساتھی کالم نگار ایاز امیر کی اس تجویز کو ایک قدم اور آگے بڑھانے دیجیے کہ میں وزیراعظم کو کوئلے کا مشورہ دوں گا۔ تارکول کی اراضی حکومت کی اگلی ترجیح ہونا چاہیے۔ تمام پیٹرولیم کے ماہرین کو جمع کیا جائے اور انھیں کوئلے کی کانوں پر لے جایا جائے۔ ’’کوئلہ ٹھنڈا ہے‘‘ یہ ان کا یقین ہونا چاہیے۔
مشرف کے سابق وزیرِ پیٹرولیم نے کہا بجلی کی فراہمی میں موجودہ طویل تعطل ہماری چالیس فیصد توانائی میں کمی کی وجہ سے ہے اور کوئلہ اس کا جواب ہے۔
عثمان امین الدین نے مزید کہا: ’’امریکا کے بعد پاکستان میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ تھر پوری دنیا میں پانچویں بڑی کوئلے کی اراضی ہے‘‘۔ جیسا کہ مشرف کے وزیرِ پیٹرولیم عثمان تین مہینے سے زیادہ نہ چل سکے، سیاست اور مفادات کے سبب جس نے انھیں ڈسنا شروع کر دیا تھا، انھوں نے پریشان ہو کر چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ایک ٹیکنو کریٹ ہوں، سیاستدان نہیں‘‘۔ عثمان نے پاکستان میں سی این جی (CNG) کا بڑے پیمانے پر استعمال متعارف کروایا۔ صوبہ سرحد میں پہلی دفعہ تیل کی دریافت بھی ان ہی کے زیرِ نگرانی ہوئی۔ انھوں نے سینڈک کے مردہ پروجیکٹ کو کھود نکالا جو ۱۹۹۶ء میں سرمائے کی کمی کے باعث اچانک بند ہو گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں سینڈک جو سونے اور تانبے کے ذخائر سے مالا مال ہے، کی برآمدات سے ہم بلین کما سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ چلی کے بعد تانبے کے دوسرے بڑے ذخائر کا مالک پاکستان ہے۔ ہم دنیا کی ۱۶ بڑی معدنیات پیدا کرتے ہیں۔ ہم واحد ملک ہیں جس کے پاس گلابی پکھراج ہیں‘‘۔
یہ باتیں اس خیال کو مزید گرماتی ہیں کہ ’’وہ کیا ہے جو پاکستان کے پاس نہیں؟‘‘
تاہم نقاد کہتے ہیں کہ ۲۰۰۲ء میں سینڈک کی کانوں کا ٹھیکا دس سال کے لیے چائنا کو دینا غلط تھا۔ تانبے اور سونے کا یہ سرمایہ چینیوں کے حوالے کرنے سے پہلے سونے، چاندی اور تانبے کی پیداوار اور برآمدات کے جائزے اور نگرانی کے لیے ایک ٹیکنیکل باڈی (ٹیم) مقرر کرنا چاہیے تھی۔ اور اب سینڈک پروجیکٹ سے قومی خزانے کو ۴۳۹ء۱۶ بلین روپے کا نقصان پہنچانے کے باعث آڈیٹر جنرل کی جانب سے شوکت عزیز کی حکومت قصوروار ٹھہرائی جارہی ہے۔
عثمان امین الدین جو پچاس سال تیل اور گیس کی صنعت میں گزار چکے ہیں، پُریقین ہیں کہ ’’پیٹرولیم اور معدنیات کی وزارت واحد وزارت ہے جو ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ وہ ان افراد سے رقم واپس نکلوا چکے تھے جنہوں نے وزارت سے رقم چرائی تھی۔ وہ مزید حاصل کر سکتے تھے مگر کیا وہ طاقت کے مراکز کی جانب سے روک نہ دیے گئے ہوں گے؟ وہ مشرف کی حکومت کو رسوا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں بلوچستان اور صحرائی علاقوں میں ہائیڈرو کاربن ایندھن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کھدائی پاکستان کو اس مقام پر پہنچا سکتی ہے جہاں وہ نہ صرف اپنی قومی ضروریات پوری کر سکے بلکہ باہر برآمد بھی کر سکے۔
تو کون ہے جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔۔۔؟ افسوس کے ساتھ، اس کے حکمران۔
چونکہ پاکستان کا آئین کان کنی کو صوبائی معاملہ قرار دیتا ہے۔ پوشیدہ سیاسی مقاصد نے کوئلے اور دیگر معدنی ذخائر کی تلاش کو یرغمال بنا لیا ہے۔
’’میری یہ خواہش نہیں تھی کہ میں آئین تبدیل کرنے والا فرد بن جائوں‘‘۔ تاہم انھوں نے ایک ٹاسک فورس ترتیب دی اور چینیوں کو دعوت دی کہ تھر کے لیے قابلِ عمل منصوبہ بنا کر دیں۔
’’چائنا نے ۲۶ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی مگر جب محصولات پر کام نہیں ہوا تو وہ مایوس ہو کر چلے گئے‘‘۔ تھر کا اختتام۔
’’میں پہیہ کی ازسرِ نو ایجاد کا دعویٰ نہیں کر رہا جو میں کہہ رہا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئلہ ہمارا مستقبل ہے۔ ہم اپنی بجلی کوئلے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ امریکا میں کوئلے سے ۵۲ فیصد توانائی کی ضرورت پوری کی جاتی ہے اور بڑھ رہی ہے۔ چائنا میں یہ شرح ۸۲ فیصد ہے اور بڑھ رہی ہے، انڈیا میں ۶۲ فیصد اور بڑھ رہی ہے مگر پاکستان میں صرف ۶ء۰ فیصد اور جامد‘‘۔
ٹھہریے!
مندرجہ بالا حقائق پر ہر پاکستانی کو دھچکا لگنا چاہیے، قطع نظر ان کی سمجھ بوجھ کے۔ مگر کیا ایسا ہو گا؟ کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتنے کے بجائے ہم کوئلے کو زندگی بچائو کے طور پر استعمال کرنے کی فریاد کیوں نہیں کرتے؟ ہر وقت سترہویں ترمیم یا آرٹیکل ۲۔۵۸ (بی) یا ججز کے بارے میں Nattering کرنے کے بجائے ہم یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ کوئلہ کو وفاقی معاملہ ہونا چاہیے؟ اس سے کون خوفزدہ ہے؟ کیا مقامی وڈیرے یا تھر کے تھانیدار؟؟ عثمان نے دیہی علاقوں میں مقامی اور کمرشل استعمال کے لیے چھوٹے گیس سازی کے منصوبوں کی تجویز دی اور اس کو بہترین حل قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے بکھر کے لیے ایسے ہی ایک پلانٹ کی منظوری دی جس پر کبھی پیش رفت نہیں ہوئی اگر یہ پلانٹ حقیقت کا روپ دھار لیتا تو یہ کئی دوسرے پلانٹس کے لیے راستے ہموار کرتا۔
عثمان کے تمام منصوبے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اپنی کابینہ کے افراد کو عمل اور تیز تر عمل پر قائل کرنے کے بجائے انھوں نے گولف کھیلنے کو ترجیح دی۔ ’’میں پہلے ہی پیش گوئی کر چکا تھا کہ ۲۰۰۰ء میں تیل کی قیمتیں ۱۰۰ ڈالر فی بیرل سے بڑھ جائیں گی مگر کسی نے نہ سنا۔ میں اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق اپنی قیمتیں ترتیب دیں مگر کسی نے اس تجویز کی حوصلہ افزائی نہ کی ہر کوئی سیاسی شکست سے ڈرتا تھا‘‘۔
اپنی جان کا خطرہ مول لے کر مایوس وزیرِ پیٹرولیم ۱۱/۹ کے بعد تیل کی بھیک مانگنے بغداد گئے۔ عراقیوں نے ان کا غضب ناکی سے استقبال کیا۔ وہ مشرف پر لعنت ملامت کر رہے تھے کہ انھوں نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں بش کا ساتھ دیا۔
بہرحال آخر میں عثمان نے کام اچھا بنا لیا، انھوں نے عراق سے ایک ایسی ڈیل کی جس سے پاکستان کے لیے آئل فیلڈ کا ایک پورا بلاک عراق کی جانب سے مختص کر دیا گیا۔ امریکا کو اس کی بھنک مل گئی اور اس نے فوری طور سے ساری ڈیل کا خاتمہ کر دیا۔ پاکستانیوں کو امریکیوں نے نکال باہر کیا اور انھیں متنبہ کیا کہ خبردار جو آئندہ عراقی آئل فیلڈ پر حریصانہ نگاہ ڈالی۔ یہاں یہ داستان ختم ہوتی ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کی توانائی کی ۵۰% ضرورت قدرتی گیس سے پوری ہوتی ہے۔ سوئی گیس فیلڈ تنہا ۴۵% توانائی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں توانائی کے بہائو میں سنگین کمی واقع ہو جائے گی جیسا کہ عثمان کا کہنا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایران، پاکستان اور بھارت (IPI) گیس پائپ لائن کا معاملہ ابھی تک طے نہیں پایا ہے۔ ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان گیس پائپ لائن (TAP) پر کبھی کام آگے بڑھا ہی نہیں۔ بالفرض اگر یہ دونوں منصوبے شروع کیے جاتے ہیں تو پائپ لائن کی تکمیل میں پانچ سال لگ جائیں گے۔ عثمان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ہم کیا کریں گے۔ وہ مستقبل کا نقشہ بہت بھیانک پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آ پ تیل جتنا چاہیں خرید سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔ چنانچہ گیس متبادل نہیں ہے کیونکہ پائپ لائن کے بچھانے کا معاملہ ہمیشہ پریشان کن رہا ہے۔ ہمیں حل پر بات کرنا چاہیے۔ میں صرف عقدہ کشائی کی بات کرتا ہوں، اس لحاظ سے کوئلہ آپ کا مستقبل ہے۔ اس کی ترسیل اور قیمت دونوں آپ کے اختیار میں ہے، اس لیے کہ یہ آپ کی اپنی چیز ہے۔ اس کے لیے آپ کو بیرونی ممالک سے مدد کی درخواست نہیں کرنا ہو گی جو کہ ہمیشہ کا ایک کرب ہے۔ کول گیس اور کیمیائی عمل میں دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ آپ سبسڈی سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ آپ قیمت طے کیجیے اور کاروبار کے لیے دکان کھول لیجیے۔ آپ پہلے اس شخص کو دیجیے جو آپ کی مطلوبہ قیمت ادا کرے۔ دوسری صورت اس بحران پر قابو پانے کی یہ ہے کہ توانائی کم خرچ کر کے اسے محفوظ کیا جائے۔ یہ کام آسانی سے ہو سکتا اگر سیاسی قوتِ ارادی اس کی پشت پر کارفرما ہو۔
سب سے اہم ترین اور فوری حل یہ ہے کہ سعودی عرب سے ایک بلین ڈالر کی قیمت کے تیل کی گزارش کی جائے جیسا کہ ماضی میں کیا گیا جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو سعودیوں نے پاکستان کو تیل رعایتی قیمت پر مہیا کیا۔
تیل کی قیمت آج غریب آدمی کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں امیروں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ عثمان امین الدین کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر بھاری ٹیکس لگایا گیا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایندھن امیر آدمیوں کے استعمال میں ہے، اب یہ بات درست نہیں۔ امیر آدمی بڑی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں جو ڈیزل پر چلتی ہیں اور کاریں CNG پر چلتی ہیں۔ غریب عموماً موٹر بائیک اور ٹریکٹر استعمال کرتے ہیں جو کہ پیٹرول سے چلتے ہیں۔ کیا کوئی اس کے لیے اقدام کرے گا؟
(ترجمہ: نزہت منعم)
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۱۵ اپریل ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply