ڈاکٹر انیس خورشید ۴ جنوری ۲۰۰۸ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے علم کی جو شمع روشن کی تھی وہ آج پورے پاکستان میں اپنی روشنی پھیلا رہی ہے ۔ ان کی ۸۴ سالہ زندگی انتھک محنت اور جدو جہد سے عبارت ہے وہ پاکستان میں لائبریری اور انفارمیشن سائنس کے معماروں میں سے تھے۔
ڈاکٹر انیس خورشید ۲ دسمبر ۱۹۲۴ء کو انڈیا کے شہر کامنی (ناگ پور) میں پیدا ہوئے ۔ اس زمانے میں ان کے ہاں تعلیم حاصل کرنے کارواج نہیں تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو شروع سے ہی کتابوں کا شوق تھا اس دوران ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا تو دوسروں کی طرح ڈاکٹر انیس خورشید کو بھی اپنے اس نئے اسلامی ملک میں قیام کا جذبہ کشاں کشاں پاکستان کے شہر کراچی کھینچ لایا۔ گورنمنٹ کی نوکری، گھر بار، بیوی، بچوں، دوستوں اور رشتے داروں کو چھوڑ کر پہلے وہ خود اکیلے ۱۹۴۸ء کے شروع میں پاکستان آئے۔ یہاں پہنچ کر رنچھوڑ لائن کے فلیٹ میں چند دوستوں کے ساتھ مقیم رہے اور گزر اوقات کے لیے پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف میں ملازمت شروع کر دی۔ ۱۹۵۰ء انڈیا جا کر اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے آئے اور پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کی ملازمت کی وجہ سے پی اینڈ ٹی کالونی میں رہائش پذیر ہو گئے۔
ڈاکٹر انیس خورشید کو ادب سے بے حد لگائو تھا۔ اسی شوق کی بنیاد پر کراچی میں ایک ادبی حلقہ بن گیا تھا۔ جس کی با قاعدہ بیٹھک ہوتی تھی۔ جس میں مولوی عبد الحق، عزیز حامد مدنی، ابوللیث صدیقی، ابوالخیر کشفی اور جمیل اختر وغیرہ شریک ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ادبی مضامین اور افسانے بھی لکھے ہیں جو اس وقت کے اردو رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہتے تھے، لیکن بعد میں لائبریری سائنس کے شعبہ میں مصروف ہو جانے سے اس طرف وقت نہ دے سکے۔
ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنی پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کی ملازمت کے ساتھی بی۔ اے کی بھی تیاری شروع کر دی۔ اس طرح انہوں نے تعلیم کا ٹوٹ جانے والا سلسلہ دوبارہ جوڑ لیا۔ انہوں نے ۱۹۶۴ء میں اسلامیہ کالج سے بی۔ اے کیا۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۵۲ ء میں کراچی یونیورسٹی سے لائبریرین شپ میں سر ٹیفکیٹ کورس کر چکے تھے ۔ ۱۹۵۴ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں Classifier کی حیثیت سے ملازمت شروع کر دی اور پی اینڈ ٹی کی نوکری کو خیر باد کہہ دیا۔
لائبریری میں ملازمت کے ساتھ انہوں نے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کورس لائبریری کی تعلیم بھی جاری رکھی اور ۱۹۵۷ء میں ڈپلوما کورس مکمل کیا اور پہلی پوزیشن امتیاز کے ساتھ حاصل کی۔ ۱۹۵۹ء میں انہوں نے Ful Bright Asia Foundation کی اسکالر شپ پر Rutgers University امریکا سے MLS کیا۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے بہ حیثیت اسسٹنٹ لائبریرین۶۲۔۱۹۶۰ء کے درمیان کراچی یونیورسٹی میں کام کیا۔
۱۹۶۲ء میں انہوں نے لیکچرار کی حیثیت سے لائبریری سائنس پڑھانا شروع کی اور پاکستان میں پہلے MLS پروگرام کا اجراء کیا۔ ۱۹۶۷ء میں پیٹبرگ یونیورسٹی امریکا سے ایڈوانس سرٹیفکیٹ کورس کیا اور ۱۹۶۹ء میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں Pittsburgh University امریکا سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ڈاکٹر صاحب کے مقالے کا موضوع Standard for Library Education in Burma, Ceylon, India and Pakistan تھا۔ یہ ایک بہت بڑا موضوع تھا۔ جس کو مقالے کی شکل دینے کے لیے انہوں نے بے انتہا محنت کی ۔ اس محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان واپسی کے دوسرے ہی دن شدید بیمار ہو گئے اور چلنا پھرنا نا ممکن ہو گیا۔ اس بیماری سے سنبھلنے میں ایک عرصہ لگ گیا، لیکن کبھی بھی مایوس اور نا امید نہیں ہوئے۔
انہوں نے ہمیشہ آگے کی طرف ہی دیکھا، پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ہمیشہ گریز کیا اور زندگی میں کبھی ٹھہرائو نہ آنے دیا۔ انہوں نے اپنی علالت کے دوران بستر پر ہی ایک کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پاکستان واپسی پر ۱۹۷۰ء میں آپ کا اسسٹنٹ پروفیسر اور ۱۹۷۹ء میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی ۔ آج پاکستان میں ڈاکٹر انیس خورشید کی کوششوں سے لائبریریوں کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے ۔ انہوں نے لائبریری اور انفارمیشن سائنس کے شعبوں میں چیئر مین کی حیثیت سے دو میعادیں مکمل کیں۔ انہوں نے پہلے ۸۲۔۱۹۷۹ء تک اور دوسری مرتبہ ۸۶۔۱۹۸۴ء تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ ۱۹۸۶ء میں ڈاکٹر پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کا لائبریری سائنس کا کیریر آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے ۔ ۱۹۸۶ء میں اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے درس و تدریس کا سلسہ جای رکھا اور تقریباً دو سال تک کو آپریٹیو ٹیچر کی حیثیت سے یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر انیس خورشید کا ایک اہم کارنامہ قائد اعظم پر بائبلو گرافی مرتب کرنا ہے ۔ جو کہ دو سال کی انتھک محنت اور جاں فشانی سے مکمل ہوئی اور ۱۹۷۸ء میں چھپی۔ یہ بائبلوگرافی انگریزی اور اردو میں دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ ۱۹۸۶ء میں ڈاکٹر انیس کی حکومت پاکستان کی طرف سے ’’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا گیا ، جو کہ حکومت کی طرف سے ان کی بیش بہا خدمات کا اعتراف تھا ۔و ہ اب تک لائبریری سائنس کے شعبہ میں پہلی شخصیت ہیں جنہیں صدارتی تمغے سے نوازا گیا ہے ۔
انہوں نے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کے کنونیر کی حیثیت سے جسے حکومت نے ۱۹۸۳ء میں قائم کیا، ملک کی تمام پبلک لائبریریوں کا سروے کیا اور لائبریریوں کی بہتری کے لیے تجاویز اور قوانین مرتب کیے۔ تاہم یہ تجاویز اور قوانین اب تک عمل در آمد سے محروم ہیں۔یوں ایک مفید کام سرخ فیتے کی نظر ہو گیا ہے ۔ اگر ان تجاویز پر عمل در آمد کیا جاتا تو آج پبلک لائبریریوں کو جو مقام امریکا میں حاصل ہے وہی مقام پاکستان میں بھی حاصل ہو جاتا۔
یہ بات بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ اسلام آباد میں نئے قائم ہونے والے ملک کے سب سے بڑے قومی عجائب گھر Pakistan National Monument میں ڈاکٹر انیس خورشید کا عملی ورثہ محفوظ کیا جا رہا ہے ۔ اس میوزیم کا افتتاح صدر مملکت پرویز مشرف نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۷ء کو کیا تھا۔ اس عجائب گھر میں اعلیٰ ترین خدمات انجام دینے والے افراد کا عملی اور ثقافتی ورثہ محفوظ کیا جا رہا ہے ۔
ڈاکٹر انیس خورشید کو کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس ڈیپارٹمنٹ کی گولڈن جوبلی تقریبات ۲۰۰۶ء میں ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ انہوں نے اردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور ڈیڑھ سو سے زائد تحقیقی مضامین تحریر کیے جو ملکی وغیرہ ملکی و جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ابھی منظر عام پر آنا باقی ہیں۔ ان میںسے پہلی کتاب جس کے مولف سید ریاض الدین ہیں، اس کا نام ’’سوانحی تاریخ کاجائزہ، کچھ لکھی ان لکھی باتیں‘‘ ہے دوسری کتاب جس کے مصنف ڈاکٹر صاحب خود ہیں اس کا نام’’سیپ کے چندموتی ‘‘ ہے۔ یہ دونوں کتابیں طباعت کے مراحل میں ہیں۔
ڈاکٹر انیس خورشید نے ہمیشہ’’کام ، کام اور صرف کام‘‘ کے زریں اصول کو سامنے رکھا۔ زندگی میں انہوںنے کبھی بھی کسی کی برائی نہیں کی اور جس نے بھی ان سے راہنمائی مانگی ہمیشہ اس کی مدد کی ۔ اس کے باوجود کہ وہ پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصے سے بستر پر تھے، لیکن دوسروں کی مدد راہ نمائی میں ان کی یہ مجبوری کبھی آڑے نہ آئی۔
اس دنیا میں ایسے لوگ تو بے شمار ہیں جو کتابوں سے رشتہ جوڑ کر اپنی زندگی تعمیر کر لیتے ہیں، مگر ایسے لوگ کم کم ہیں جو اپنی زندگی کتابوں کے تحفظ اور بقاء کے لیے تج دیتے ہیں۔ ڈاکٹر انیس خورشید ایسے ہی شخص تھے جنہوں نے خود کو پاکستان میں لائبریریوں کی تعمیر و ترقی اور لائبریری سائنس کے فروغ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ یہ کتابوں سے دوستی اور محب ہی کا کرشمہ ہے کہ وہ گوشہ نشینی کے باوجود اعلیٰ سطحی اعزازات سے نوازے گئے اور علمی حلقوں میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔
(بحوالہ: سنڈے ایکسپریس کراچی۔ ۲ مارچ ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply