
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں شمولیت کے لیے پاکستان اور بھارت نے کیوں درخواست دی، اس بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ حقیقت البتہ قیاسات سے خاصی مختلف ہے۔
پہلی غلط فہمی: پاکستان اور بھارت زبردستی گھس آئے ہیں!
اگر کوئی میڈیا کی سرخیوں کا اعتبار کرتے ہوئے یہ مان لے کہ دونوں ملکوں، خاص طور پر پاکستان نے ہر قیمت پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کی کوشش کی اور تنظیم کے ارکان اس کی حمایت کرتے رہے، تو اس سے پاکستان اور بھارت کی حیثیت ضدی درخواست دہندگان کی سی ہوجاتی ہے۔ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں آتے ہی دونوں ممالک نے اس میں دلچسپی ظاہر کی تھی، لیکن قریبی روابط تنظیم کی اندرونی تبدیلیوں کے بعد ہی قائم ہوسکے۔ لہٰذا ۲۰۰۴ء میں ایس سی او نے ایک قرارداد منظور کی جس کے بعد پاکستان اور بھارت نے تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ۲۰۰۵ء میں انہیں یہ درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان نے باضابطہ رکنیت کے لیے ۲۰۰۶ء میں، اور بھارت نے ۲۰۱۰ء میں درخواست دی۔ ۲۰۱۰ء میں ایس سی او نے مزید ارکان کی شمولیت کے بارے میں نئے اصول وضع کیے اور ۲۰۱۱ء میں رکنیت کے خواہاں ممالک کی اہلیت سے متعلق دستاویز جاری کی تو دونوں ملکوں نے ایک بار پھر اس دروازے پر دستک دی۔ تاہم ان کی رکنیت سازی کا عمل رواں سال ہی شروع ہوسکا۔
بطور مبصر ۱۰ برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت ایس سی او میں مختلف سطحوں پر دلچسپی ظاہر کرتے رہے۔ دونوں ممالک کی جس سطح کی قیادت تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہی اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے: ۲۰۰۵ء میں پاکستانی وزیراعظم اور بھارتی وزیرخارجہ، ۲۰۰۶ء میں پاکستانی صدر اور بھارتی وزیر توانائی، ۲۰۰۷ء میں پاکستانی وزیرخارجہ اور بھارتی وزیر توانائی، ۲۰۰۸ء میں دونوں ممالک کے صدور، ۲۰۰۹ء میں پاکستانی صدر اور بھارتی وزیراعظم، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں پاکستانی صدر اور بھارتی وزیرخارجہ، اور ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر خارجہ اور بھارت کے وزیرخارجہ نے اجلاس میں شرکت کی۔ اوفا میں منعقدہ حالیہ اجلاس میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی شریک ہوئے۔ تنظیم کے اجلاسوں میں مختلف سطح کی نمائندگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکنیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہنے والے ان دونوں ممالک کی تنظیم پر حقیقی توجہ کبھی زیادہ تو کبھی کم ہوتی رہی۔
دوسری غلط فہمی: ایس سی او سے زیادہ پاکستان اور بھارت کو اس کی ضرورت ہے!
یہ گمان صحیح نہیں کہ پاکستان اور بھارت ایس سی او کی وسعت میں خود اس سے بھی زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یوریشیا کے بڑے حصے پر محیط یہ تنظیم اتنے برسوں میں اب تک افغانستان جیسے خطے کے انتہائی اہم مسئلے پر مشترکہ طویل مدتی حکمتِ عملی نہیں بناسکی۔ ۲۰۰۵ء میں افغانستان رابطہ گروپ بنانے اور ۲۰۱۲ء میں افغانستان کو مبصر کا درجہ دینے کا بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ یوریشیائی خطے کا یہ واحد مسئلہ نہیں ہے جو پاکستان اور بھارت کو شامل کیے بغیر حل نہ کیا جاسکتا ہو۔ اگر یہ دونوں ممالک باہر ہی رہے تو ایس سی او کے لیے افغانستان اور خطے کے دیگر معاملات پر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ افغانستان سمیت دیگر مسائل پر اسلام آباد اور نئی دہلی کے مؤقف متضاد رہے ہیں، لیکن ایس سی او کی تشکیل کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسائل کے ایسے حل تجویز کیے جائیں جن پر سب متفق ہوں۔
تیسری غلط فہمی: پاکستان اور بھارت ایس سی او کو تباہ کردیں گے!
ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی برائے خارجہ امور کے پروفیسر سرگئی لوزیانِن (Sergey Luzyanin) گمنام ماہرین کے حوالے سے کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان اور بھارت کی جوڑی پیچیدہ ہے، یہ اگلے ۵،۷ برسوں میں دیگر چھ ارکان کے ساتھ نتھی ہونے کے لیے لڑتے رہیں گے‘‘۔ کچھ ماہرین کے نزدیک اگر ایسا ہوا تو ایس سی او باقی نہیں رہے گی۔ یعنی پاکستان اور بھارت کا تنازع جلد یا بدیر تنظیم کے اندر ہی تباہی پھیلادے گا۔ لیکن بظاہر پاکستان اور بھارت کے زمینی تنازعات کو ایس سی او کے لیے مسئلہ نہیں بننا چاہیے کیونکہ اس کے موجودہ ارکان کے مابین بھی تنازعات رہے ہیں، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ روس اور چین نے ۲۰۰۵ء میں اور چین اور تاجکستان نے ۲۰۱۱ء میں کہیں جاکر اپنے تنازعات کا تصفیہ کیا۔ وسطی ایشیا میں کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے درمیان تصفیہ طلب تنازعات موجود ہیں۔ یہ تنازعات اگر ایس سی او کو نقصان پہنچاتے بھی ہیں تو بھی اتنے اہم نہیں ہیں کہ عوامی سطح پر زیرِبحث لائے جائیں۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایس سی او کو اچانک ٹکڑے ٹکڑے کیسے کردے گا۔ اس حوالے سے ایک اور مبصر کی یہ قیاس آرائی بھی سمجھنا مشکل ہے کہ ’’تنظیم میں شمولیت سے قبل تمام امیدوار ممالک کو اپنے تنازعات حل کرلینے چاہییں اور یہ ضمانت دینی چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ تنازعات کو ایس سی او میں نہیں لائیں گے‘‘۔ پاکستان اور بھارت سے کوئی ایسا مطالبہ کیسے کرسکتا ہے جبکہ یہ تو خود ایس سی او ارکان کے لیے لازم نہیں تھا۔ اگر تمام ممالک کے لیے تنظیم میں شمولیت سے قبل تنازعات حل کرنے کی شرط عائد کی جاتی تو ایس سی او شاید کبھی وجود میں ہی نہ آتی۔
چوتھی غلط فہمی: پاکستان اور بھارت جوہری مخاصمت ساتھ لائیں گے!
ایک تشویش یہ بھی ہے کہ ایس سی او کا رکن بننے کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت جوہری مخاصمت کو تنظیم میں متعارف کرادیں گے۔ لیکن یہ عنصر ایس سی او میں نیا نہیں ہے۔ یہ تنظیم کی ابتدا سے ہی اس کے ساتھ ہے اور کبھی اس کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ روسی صدارتی انتظامیہ کے سربراہ سرگئی ایوانوف (Sergey Ivanov) اور نائب وزیر دفاع اناطولی اینتونوف (Anatoly Antonov) نے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر معاہدے کے حوالے سے بارہا چین کو روس کے لیے باعثِ تشویش قرار دیا ہے۔ وزگلیاد (Vzglyad) نامی اخبار کے مطابق ایوانوف نے ۲۰۱۳ء میں کہا: ’’فوج اپنی منصوبہ بندی اور پیش بینی کے اعتبار سے ہمیشہ بدترین حالات کے لیے تیار رہتی ہے‘‘۔ اگر روسی اعلیٰ عہدیدار کے بقول ان کی فوج ایک اور ایس سی او رکن یعنی چین کی جانب سے لاحق جوہری خطرے کو ہمیشہ دھیان میں رکھتی ہے، لیکن پھر بھی تنظیم کے اندر بیجنگ اور ماسکو کا تعاون ماند نہیں پڑتا تو یہ مان لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین موجود جوہری مخاصمت بھی تنظیم کے اندر ان کی سرگرمیوں کو متاثر نہیں کرے گی۔
ایس سی او میں نئے ارکان کی شمولیت نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی اعتبار سے بھی خاصی اہم تبدیلیاں لائے گی۔ ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ تنظیم کا ارتقا آسان اور بے ضرر ہوگا۔ تاہم اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اگر تنظیمی استحکام کو مدنظر نہیں رکھتا تو وہ بھی قابلِ تقلید نہیں ہے۔ ایس سی او رکنیت کے امیدوار تمام ممالک میں پاکستان اور بھارت سب سے زیادہ تیار نظر آرہے تھے۔ تنظیم میں شمولیت سے نہ صرف جنوبی ایشیا کی ان دو ریاستوں کو فائدہ ہوگا بلکہ خود تنظیم بھی فائدہ اٹھائے گی۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Four myths about SCO expansion”. (“carnegie.ru”. July 9, 2015)
Leave a Reply