ایسا لگتا ہے کہ فرانس کے صدر ایمانویل میخواں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ محمدؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت اور مجموعی طور پر اسلام کا تمسخر اڑانے سے مسلم دنیا میں جو شدید ردِعمل پیدا ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مسلم دنیا کے مقبول ترین رہنما رجب طیب ایردوان سے بھی مخاصمت مول لی ہے۔ یہ کہنا اس وقت ذرا مشکل ہے کہ صدر میخواں واقعی اپنے کہے اور کیے پر شرمندہ ہیں اور تلافی کرنا چاہتے ہیں یا پھر انہیں مسلم دنیا کی طرف سے بائیکاٹ کی صورت میں فرانس کی معیشت کو پہنچنے والے موجودہ اور ممکنہ نقصان کی زیادہ فکر لاحق ہے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے انتخابات میں اپنے امکانات کی بھی۔
فرانس کے صدر نے الجزیرہ ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ محمدؐ کے خاکوں کی اشاعت سے اسلامی دنیا میں جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ انٹرویو کے لیے الجزیرہ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے، تاکہ مسلم دنیا کو پیغام ملے۔
فرانس میں بحران اسکول ٹیچر سیمیوئل پیٹی کا سر تن سے جدا کیے جانے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے دو ہفتے قبل منظور کیے جانے والے ان قوانین کے بطن سے پیدا ہوا جن کے تحت علیحدگی پسند رجحانات کی مانیٹرنگ کے نام پر فرانس بھر کے مسلمانوں پر نظر رکھنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔
صدر ایمانویل میخواں نے عوام کا مزاج سمجھنے میں ایک بار پھر غلطی کردی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے معاشی ناہمواری اور ناانصافی کے خلاف شروع کی جانے والی پیلی جیکٹ تحریک کے دوران بھی عوام کا مزاج سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ بعد میں انہوں نے ووٹروں کے سامنے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری وہ قبول کرتے ہیں۔ عوام کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے تو اس کے لیے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ ابھی تین برس پڑے ہیں اور اس دوران معاملات درست کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ پیلی جیکٹ تحریک اصلاً ایندھن کے نرخوں میں اضافے کے خلاف تھی، مگر بہت جلد یہ تمام بنیادی معاملات پر محیط ہوگئی۔ فرانس کے محنت کشوں اور غریبوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ صدر میخواں صرف اشرافیہ کے نمائندے ہیں۔ فرانس میں انتخابات ۲۰۲۲ء میں ہوں گے۔ تب تک صدر میخواں کو دنیا بھر کے ایک ارب ۸۰ کروڑ مسلمانوں سے نمٹنا ہے۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر میخواں نے یہ بھی کہا کہ محمدؐ کے خاکوں کی اشاعت اور اسلام کے حوالے سے ان کے الفاظ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خاکے ایک آزاد و خود مختار میڈیا آؤٹ لیٹ نے شائع کیے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر تاسّف کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی اور ایسے ہی دیگر جرائم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔
اس انٹرویو کے دوران صدر میخواں نے غصہ دکھایا نہ مشتعل ہوئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردی پر مبنی واقعات کو دبادیا جائے۔ ان واقعات نے فرانس میں اور فرانس کے باہر ہر ذی فہم کو شدید الجھن سے دوچار کیا ہے۔ تیونس سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نائس شہر میں تین افراد کو کو قتل کیا۔ پیرس میں ایفل ٹاور کے نزدیک دو باحجاب بہنوں پر چُھریوں سے وار کیے گئے۔ پھر اسکول ٹیچر سیمیوئل پیٹی کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔ ایویگوں شہر میں پولیس نے شمالی افریقا سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار کو دھمکانے والے مسلح شخص کو گولی مار دی۔ کہا گیا کہ اللہ اکبر کا نعرہ سنا گیا تھا۔ منٹوں میں میڈیا نے اس معاملے کو مسلم انتہا پسندی سے جوڑ دیا۔ کچھ ہی دیر میں یہ بات طشت از بام ہوگئی کہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے دہشت گرد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ’’جنریشن آئڈینٹٹی‘‘ سے تھا۔ یہ تنظیم تارکین وطن کی آمد اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہ تنظیم سفید فام نسل کی برتری کی علم بردار ہے اور اس کا کہنا ہے کہ غیر سفید فام تارکین وطن کی آمد سے سفید فام نسل کی برتری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
اگر صدر میخواں اپنے کہے اور کیے کے حوالے سے واقعی سنجیدہ اور رنجیدہ ہیں اور معاملات کو تیزی سے درست کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ اب گستاخانہ خاکے فرانس کا کوئی بھی پبلشر نہیں چھاپے گا اور ملک بھر میں کسی بھی دیوار پر یہ خاکے نہیں لگائے جائیں گے۔ ایسا کرنا کسی بھی سطح پر اعترافِ جرم نہیں کہلائے گا بلکہ یہ سب کچھ یہ تسلیم کرنے کی خاطر ہوگا کہ فرانسیسی صدر کے ریمارکس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ اس سے اظہارِ رائے کی آزادی پر بھی کوئی حرف نہیں آئے گا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ فرانس کے سیاست دانوں نے ۲۰۰۹ء میں اس وقت بھی احتجاج کیا تھا جب اس وقت کے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے اور ایک مالدار یہودی خاتون کے تعلق کے حوالے سے چارلی ہیبڈو کے لیے خاکے بنانے والے فنکار مارس سنیٹ کو برطرف کردیا گیا تھا۔
انتہا پسند تو کم و بیش ہر مذہب کے پیرَو کاروں میں ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ سازش کے تحت فرانس میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اسلامی تعلیمات کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ ستمبر میں ایسے قوانین وضع کیے گئے، جن کے تحت ملک بھر میں مقامی انتظامیہ کو اختیار دیا گیا کہ کسی بھی مسلم تنظیم کو قانونی عمل کے بغیر تحلیل کردیں۔ صدر میخواں انقلاب مخالف منصوبوں کے لیے بہتر فنڈنگ کی خاطر فرانس سے حج پر جانے والوں سے اضافی ٹیکس وصول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نئے قوانین کے تحت مذہبی تنظیموں کو کسی بھی غیر مذہبی تقریب کے انعقاد سے روکا جاسکے گا۔
صدر میخواں کا منصوبہ ہے کہ ٹیکس، سلامتی اور قانون پسندی کے حوالے سے تمام مسلم تنظیموں پر نظر رکھی جائے۔ حکومت کا ساتھ نہ دینے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طور اسلامو فوبیا کی نشاندہی کرنے یا ایسے واقعات ریکارڈ کرنے والی تنظیموں کو بھی مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان سطور کے لکھے جانے تک فرانس بھر میں مسلمانوں کے ہاتھوں چلائی جانے والی ۵۰ خیراتی تنظیموں سے تفتیش کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی ۷۰ کمپنیاں اور اسکول بند کیے جاچکے ہیں۔ درجنوں مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور وزیر داخلہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ان چھاپوںکا سیمیوئل پیٹی کے قتل کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ چھاپے فرانس کے ۶۰ لاکھ مسلمانوں کو ’’پیغام‘‘ دینے کے لیے تھے۔
فرانسیسی صدر کے بھیانک ترین اقدام کا تعلق بنیادی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی دو تنظیموں کو ریاست کی دشمن قرار دینے سے ہے۔ ’’دی کلیکٹیو اگینسٹ‘‘ اسلامو فوبیا اِن فرانس (سی سی آئی ایف) سے متعلق واقعات ریکارڈ کرتی ہے۔ ’’برکہ سٹی‘‘ خیراتی ادارہ ہے، جو عطیات وصول کرکے کام کرتا ہے۔ سی سی آئی ایف کو اقوامِ متحدہ کے تحت بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم کے فریم ورک کے تحت یہ ایک اہم غیر سرکاری تنظیم ہے۔ یورپ بھر میں اس تنظیم کی معاونت کرنے والے موجود ہیں۔ اس تنظیم نے نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننے والے ہزاروں افراد کی مدد کی ہے۔ برکہ سٹی نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو افلاس کے دائرے سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور پینے کے صاف پانی تک انتہائی پس ماندہ طبقے کی رسائی ممکن بنائی ہے۔ برکہ سٹی کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
برکہ سٹی کے سربراہ ادریس سہامدی نے اعلانیہ طور پر ترکی سے کہا ہے کہ وہ انہیں اور ان کی تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کو پناہ دے۔ اس کے لیے انہوں نے ٹوئٹر کا سہارا لیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس کے طول و عرض میں اس تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ہراساں کرنے اور انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں انسداد دہشت گردی پولیس نے تین ہفتے قبل ادریس سہامدی کے گھر پر چھاپا مارا تھا۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں ترک صدر رجب طیب ایردوان سے گزارش کی کہ انہیں ترکی میں پناہ دی جائے کیونکہ ان کی بھی زندگی خطرے میں ہے اور ساتھیوں کی بھی۔
صدر میخواں کہتے ہیں کہ اسلام بحران کی زَد میں ہے۔ اسلام نہیں بلکہ صدر میخواں کی پالیسی کے ہاتھوں فرانس کے مسلمان بحران سے دوچار ہیں۔ اگر صدر میخواں واقعی شرمندہ ہیں اور اپنے ریمارکس کے ہاتھوں الجھ جانے والے معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے فرانسیسی مسلمانوں پر مشتمل مشاورتی گروپ تشکیل دینا ہوگا۔ انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلمانوں سمیت کسی کی بھی توہین محض اس لیے نہیں کی جانی چاہیے کہ توہین کی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا ایک بڑی جمہوریت کے صدر کے منصب کو زیبا نہیں۔
فرانس کے باشندوں سے نو آبادیاتی دور کے مظالم پر معافی مانگنے کا بھی یہی وقت ہے۔ الجزائر پر فرانس کے ۱۳۰ سالہ قبضے کے دوران وہاں کے باشندوں کو طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ صدر میخواں اور ان کے ساتھی آج جس آزادی کے گن گاتے نہیں تھکتے، اسی آزادی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں الجزائر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور پھر ان میں سے بہت سوں کے سر ’’ٹرافی‘‘ کے طور پر کاٹ کر محفوظ کیے گئے۔
آزادی اور اخوت فرانس کا ایک بنیادی نعرہ اور اصول ہے۔ اس نعرے کا اطلاق نسلی، ثقافتی اور سیاسی امتیاز کے بغیر کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہ کیے جانے کی صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ آزادی کا نعرہ غریبوں اور مظلوموں کو دبوچ کر رکھنے کے ہتھکنڈے کے طور پر لگایا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فرانس کی حکومت جمہوریت کے انتہائی بنیادی اصولِ آزادی کو سمجھے اور اس پر عمل بھی کرے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“France should grow up and apply liberte, eglite and fraternite to all of its citizen”. (“middleeastmonitor.com”. November 1, 2020)
Leave a Reply