
میرین لی پین ((Marine Le Pen فرانس کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کے بانی،جین میری لی پین، کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔یہ ۱۳ سال کی عمر سے ہی اپنے والد کے ساتھ سیاسی مہمات میں حصہ لے رہی ہیں۔انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا، علاقائی کونسلر کی حیثیت سے انہوں نے اپنا پہلا انتخاب ۱۹۹۸ ء میں جیتا اور ۲۰۱۱ء میں سیاسی رہنما کے طور پر اپنے والد کی جگہ لی۔ انھوں نے جلد ہی والد کے سخت موقف سے فاصلہ اختیا ر کر لیا،پھر جب ان کے والد نے ہو لو کاسٹ کے حوالے سے اس موقف کو دہرایا کہ ’’یہ تاریخ کا حصہ ہے‘‘ تو میرین نے ان کو عہدے سے فارغ کردیا۔
ان دنوں کہ جب یورپ میں مہاجرین کا مسئلہ درپیش ہے، دہشتگردوں نے پیرس اور نیس میں حملہ کیا ہے اور بریگزٹ کے حوالے سے ووٹنگ ہو چکی ہے تو، لی پین کا قوم پرستی، یوروپ فوبیا، تارکین وطن کی مخالفت کا پیغام مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔حالیہ جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ لی پین۲۰۱۷ء کے صدارتی انتخابات کے لیے بہت مضبوط امیدوار ہیں،ہر دو میں سے ایک انھیںFrancois Hollande پر ترجیح دیتے ہیں۔
Foreign Affairs کے نائب مدیر Stuart Reid سے ستمبر کے مہینے میں میرین لی پین کی مختلف امور پر گفتگو ہوئی۔
س: ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘مخالف جماعتیں، نیشنل فرنٹ سمیت،پور ے یورپ میں اپنی ایک حیثیت بنا رہی ہیں اور نمایاں طاقت حاصل کر رہی ہیں۔ ایسا کیوں ؟
ج: مجھے اس بات پر یقین ہے کہ لوگ آزادی کے خواہشمند ہیں۔ عرصہ دراز سے یورپی یونین میں موجود ممالک کے لوگ اور شاید امریکیوں کو بھی یہ احساس ہوا ہوگا کہ سیاستدان ان کے مفاد کی نہیں بلکہ خاص طبقے کے لیے جدوجہد کر رہےہیں۔ یہ افراد کی جانب سے بغاوت ہے، اس نظام کے خلاف جو ان کی خدمت کے بجائے اپنی خدمت میں مصروف ہے۔
س : کیاامریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اور یہاں فرانس میں آپ کی کامیابی کے پیچھے مشترکہ عوامل ہیں؟
ج : جی ہاں، مجھے ڈونلڈ ٹرمپ اور برنی سینڈرز کے عروج میں وجوہات مشترکہ ہی نظر آتی ہیں۔دونوں ایسے نظام کو مسترد کرتے ہیں جو بالکل خود غرض اور انا پرست ہے اور لوگوں کی خواہشات کو نظر انداز کرتا ہے۔میں ان دونوں کے درمیان ایک لکیر کھینچتی ہوں، کیونکہ یہ دونوں کامیابی کی ایک کہانی ہے۔ حالانکہ برنی سینڈرز کامیاب نہیں ہوئے، لیکن ان کا ابھرنا بھی غیر متوقع تھا۔ بہت سے ممالک میں لوگ یہ جذبات رکھتے ہیں کہ قوم کے ساتھ منسلک رہا جائے ا ور نام نہاد عالمگیریت کو رد کردیا جائے،جو کہ جابرانہ نظام کی ایک قسم ہے۔اس نظام کو ہر قیمت پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ نظام کچھ لوگوں کے مفاد کی خاطر سب سے جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
س : جب آپ سے پوچھا گیا کہ امریکی صدارتی انتخاب میں آپ کس کا سا تھ دیں گی۔تو آپ نے جواب دیا کہ ـ’’ہیلری کے علاوہ کسی کا بھی‘‘، تو کیاآپ ٹرمپ کے ساتھ ہیں؟
ج : میرا موقف بہت واضح تھا،ہیلری کلنٹن کے سوا سب ہی بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔میرا مقصد فرانس کا صدر بننا ہے،تو میں خاص طور پر اسی ملک کے مفادات کے متعلق سوچتی ہوں۔ میں اپنے آپ کو کسی امریکی کی جگہ رکھ کر نہیں سوچ سکتی کہ کس امیدوار کی ملکی پالیسیاں امریکا کے لیے بہتر ہو سکتی ہیں۔ میری دلچسپی ہیلری اور ٹرمپ کے ان سیاسی فیصلوں سے ہے جس کے اثرات فرانس کی معیشت اور سلامتی پر مرتب ہوں گے۔
اس لیے میں اس بات پر غور کر رہی ہوں کہ ہیلری ’’ٹی ٹی آئی پی‘‘ (TTIP) ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انوسمنٹ پارٹنرشپ‘‘ کی حمایت کرتی ہیں جب کہ ٹرمپ اس کے مخالف ہیں، اور میں بھی اس کی مخالفت کرتی ہوں۔اس کے ساتھ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہیلری دنیا میں جنگی جنون کو پروان چڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔جس کی وجہ سے عراق، لیبیا اور شام آج اس حالت میں ہیں، اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور یورپی یونین کی طرف مہاجرین کی ایک لہر اٹھی ہے۔ان سب وجوہات سے میرا ملک عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ ٹرمپ امریکا کو اس کی اصل حالت میں لے کر جانا چاہتے ہیں۔
ہیلری امریکی قانون کو دنیا پر لاگو کرنا چاہتی ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہے جو آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ یہ سب باتیں مجھے ٹرمپ اور ہیلری کے ارادوں کا پتا دیتی ہیں اور موجودہ حالات میں ٹرمپ ہی فرانس کے لیے بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔
س: بے روزگاری کی شرح فرانس میں ۱۰فیصد کے قریب ہے، جوکہ جی ۷ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ فرانس کی معاشی خرابیوں کی کیا وجہ ہے اور اس کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے؟
ج: ان دنوں ہر کوئی نیشنل فرنٹ کے پیش کردہ حل ہی بیان کررہا ہے۔ ہم نے ایک نظریاتی کامیابی محسوس کی جب میں نے Montebourg (جو کہ ہالینڈ میں اشتراکی حکومت کے سابق وزیر معاشیات ہیں) کو ـ’’made in france‘‘ کی حکمت عملی پر زور دیتے سنا، جو کہ نیشنل فرنٹ کی پالیسی کا اہم ستون ہے۔
بے روز گاری کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جو بتائی جارہی ہے۔ یہ شماریاتی تکنیک ہے، جس سے بہت سے بے روزگار لوگوں کو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ بے روزگاری کی کچھ وجوہات ہیں، جن میں سے سب سے پہلی آزاد تجارت ہے۔ جو ہمیں غیر منصفانہ طور پر ان ممالک کے مقابلے پرلا کھڑا کرتی ہے جو معاشرتی اور ماحولیاتی ڈمپنگ میں شریک ہیں، اس سے ہمارے لیے اپنی کمپنیوں اور پالیسیوں کو متاثر ہونے سے بچانے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ فرانس میں کم تنخواہ پر کام کرنے والے مزدوروں کو لایا جارہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہماری اپنی کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں انتہائی معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق فرانس میں یورو کی قدر اس کے اصل سے ۶ فیصد زیادہ ہے، جبکہ جرمنی میں یورو کی قدر اس کے اصل سے ۱۵ فیصد کم ہے۔ اور یورپ میں یہ ہمارے حریف کے درمیان ۲۱ پوائنٹس کا بہت واضح فرق ہے۔
ان سب باتوں کا تعلق ریاست کی تزویراتی اہمیت کے خاتمے سے بھی ہے۔ جنرل ڈیگا ل کے اصولوں پر چلنے والی ہماری ریاست صنعتی ماہرین کی قدر کیا کرتی تھی، لیکن اب اس پالیسی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ فرانس انجینئرز اور تحقیق کرنے والوں کا ملک ہے۔ اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرانس کاروباری اشرافیہ کا ملک نہیں ہے۔ تاریخ میں ہمارے صنعتی ماہرین نے ہماری تزویراتی اہمیت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس پالیسی کو خیرباد کہنے کی وجہ سے ہم ترقی کے اہم کردار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
س :آپ ’’یورو‘‘کو ترک کردینے کی بات کرتی ہیں۔ اس کام کو عملی جامہ کیسے پہنائیں گی؟
ج: میں مذاکرات کے ذریعے یورپی یونین سے نکلنا چاہتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سب یورپی ممالک مذاکرات کی میز پر جمع ہوں اور دوبارہ ۱۹۷۰ء کے یورپ کی طرف لوٹ جائیں جہاں ہر ملک کو اپنی اقتصادی حالت کے مطابق مانیٹری پالیسی بنانے کا اختیار حاصل ہو۔ اور یہ سب کام بات چیت کے ذریعے بہترین طریقے سے ہوسکتا ہے۔
بیشتر ممالک اب اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ وہ یورو کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ اس میں کچھ ملک سادگی کی پالیسی اپناتے ہیں جس سے دوسرے ممالک میں کساد بازاری بڑھتی ہے۔ اس لیے یا تو ہم بات چیت کے ذریعے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں، یا پھر برطانیہ کی طرح ریفرنڈم کر وا لیں۔ تاکہ ہم اپنے ملک کی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر سکیں۔
س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ’’بریگزٹ‘‘ ریفرنڈم قابل فہم ہے؟
ج: میں اس کو ہر حال میں، قابل فہم سمجھتی ہوں۔ فرانسیسی عوام کو ۲۰۰۵ء میں دھوکا دیا گیا۔ انھوں نے یورپین آئین کو مسترد کیا اس کے باوجود دائیں اور بائیں بازو والے سیاستدانوں نے ان پر قوانین مسلط کیے۔ میں جمہوریت پسند ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ یہ حق عوام کو حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں، جس سے ان کی آزادی و خودمختاری کو نقصان نہ ہو۔ تو میں اس بارے میں ہونے والے مذاکرات کو بنیاد بنا کر ضرور ریفرنڈم کراؤں گی۔ میں عوام کو بتاؤں گی کہ ’’ہاں! جو ہم چاہتے تھے وہ ہمیں مل گیا ہے اور ہم یونین کا حصہ رہیں گے‘‘ یا پھر ’’نہیں جو ہم چاہتے تھے ویسا نہیں ہوا اور ہم یونین سے نکل جائیں گے‘‘۔
س: بریگزٹ مہم کی کامیابی سے آپ نے کیا سبق سیکھا؟
ج: بریگزٹ سے میں نے دو اہم سبق حاصل کیے۔ ایک تو یہ کہ عوام جب کچھ حاصل کرناچاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ہم سے جھوٹ کہا گیا۔انھوں نے ہم سے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ مندی میں چلی جائیں گی، معیشت تباہ ہو جائے گی اور بے روزگاری میں یک دم اضافہ ہوجائے گا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔آج بینک ہمارے پاس آکر کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم غلط تھے‘‘۔ نہیں! انھوں نے ہم سے جھوٹ کہا تھا تاکہ ووٹ پر اثرانداز ہو سکیں۔ مگر اب لوگ ان کے طور طریقے پہچان رہے ہیں، جس میں لوگوں کو خوف دلانا شامل ہے۔ برطانیہ کے عوام نے اس ووٹ کے ذریعے اپنے ارادوں کی پختگی کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
س : کیا آپ کو اس بات کی فکر نہیں کہ اگر فرانس یورو زون سے باہر نکل گیا تو اسے اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا؟
ج: یہ وہی تنقید ہے جو جنرل ڈیگال کے خلاف ۱۹۶۶ء میں کی گئی تھی جب وہ نیٹو کی مربوط کمانڈ چھوڑنا چاہتے تھے۔ آزادی کا مطلب اکیلے ہوجانا نہیں۔ مجھے جو بات چبھتی ہے وہ یہ کہ فرانس ہمیشہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے طاقتور رہا ہے، نہ کہ یونین کے ایک صوبہ کی حیثیت سے۔ میں اس طاقت کو بحال کرنا چاہتی ہوں۔
س: یورپی یونین کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امن برقرار رکھنے پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں غلط کیا ہے؟
ج: کیونکہ یہ یورپی یونین نہیں تھی جس نے امن برقرار رکھا، بلکہ امن تھا جس نے یورپی یونین کو کامیاب بنایا۔ اس پر بار بار بحث کی جاتی رہی ہے، اور اس میں کوئی سمجھداری کی بات نہیں۔ ویسے بھی یوکرائن اور کوسوو کے تنازعات کے بعد امن کی بات کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
حقیقت میں یورپی یونین نے اپنے آپ کو کچھ پیش قدمی کے بعد یورپی سوویت یونین میں تبدیل کرلیا ہے، کہ جو ہر چیز کا فیصلہ خود کرتی ہے اور اسے نافذ کرتی ہے، جس سے جمہوری عمل ختم ہوجاتا ہے۔ آپ صرف یورپی کمیشن کے صدر Jean Claude کو سنیں گے تو بات سمجھ آجائے گی کہ کیا معاملہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’یورپی معاہدوں کے خلاف کوئی جمہوری اقدام نہیں ہوسکتا‘‘۔ ہم نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لڑائی کر کے آزادی اس لیے نہیں حاصل کی تھی کہ ہم اپنے چند حکمرانوں کے فیصلوں کی وجہ سے غلامی کی زندگی گزاریں۔
س: گزشتہ سالوں میں جرمنی کے قائدانہ کردار کے حوالے سے آپ کے کیا خیالات ہیں؟
ج : یہ یورو کی بنیاد میں شامل ہے۔ حقیقت میں، یورو کرنسی کو جرمنی نے جرمنی کے لیے ہی بنایا ہے۔ یہ وہ لباس ہے جو صرف جرمنی ہی پہن سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ جب انجیلا (چانسلر) کو احساس ہوا کہ وہ یورپی یونین کی رہنما ہیں تو انہوں نے اپنے خیالات کونافذ کرنا شروع کر دیا۔ اقتصادی معاملات اور مہاجرین کے مسئلے پر وہ اپنی رائے تھوپ رہی ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ جرمنی ان مہاجرین کو چھانٹ کر قیمتی افراد کو رکھ لے گا اور باقی مہاجرین کو یونین کے دوسرے ممالک کی طرف بھیج دے گا۔ ہمارے ممالک کے درمیان کوئی اندرونی سرحدیں موجود نہیں ہیں، جو کہ ناقابل قبول ہے۔انجیلاکا پیش کردہ ماڈل جرمنی کے لیے تو مفید ہے، مگر وہ جرمنی کے پڑوسی ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔میں انجیلا کے خلاف ہوں۔
س: فرانس اور امریکا کے درمیان تعلقات کی صورتحال سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: فرانس کے رہنما بہت آسانی سے اوباما اور انجیلا کے مطالبات کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ فرانس اپنے مفادات کا دفاع کرنا بھول گیا ہے امریکا کی خاطر، بالخصوص صنعتی اور تجارتی مفاد میں۔ میں آزادی کے لیے برسرپیکار ہوں۔ میں اس فرانس کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں جو ان دونوں طاقتور ممالک کے درمیان اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے۔ نہ ان سے دشمنی کرے اور نہ ان کے آگے جھک جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ فرانس دوبارہ غیر اتحادی ممالک کی رہنمائی کرے، جس طرح اس نے ڈیگال کے دور میں کی تھی۔ جس طرح روس، امریکا اور جرمنی کو اپنے مفادات کے دفاع کا حق ہے، اس ہی طرح فرانس کو بھی یہ حق حاصل ہے۔
س: آپ ایسا کیوں سمجھتی ہیں کہ فرانس کو پوٹن کی صدارت میں روس سے قریب ہونا چاہیے؟
ج : سب سے پہلی بات تو یہ کہ روس بھی یورپ میں شامل ہے۔ فرانس اور روس کے درمیان مشترکہ تاریخی عوامل موجود ہیں اور ایک مضبوط معاشرتی ربط ہے۔تزویراتی لحاظ سے کوئی چیز ایسی نہیں جو ہمیں دور کرے۔ روس سے دور رہنے کی وجہ صرف اور صرف امریکا کی خوشنودی ہوسکتی ہے۔یہ میری خواہشات سے متضاد ہے۔میں مزید اس بارے میں کہوں گی کہ امریکا روس کے ساتھ سرد جنگ دوبارہ شروع کر کے غلطی کر رہا ہے۔ کیونکہ اس سے روس چین کے قریب ہوگا اور دو طاقتور ممالک کا یکجا ہونا امریکا کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی مفید نہیں ہوگا۔
س: تازہ ترین انتخابات میں، نیشنل فرنٹ کا صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جانا متوقع ہے۔ما ضی میں (غالباً ۲۰۰۲ء )دیگر جماعتوں نے نیشنل فرنٹ کو روکنے کے لیے دوسرے مرحلے میں اتحاد کیا تھا۔کیا آپ اتحاد کریں گی؟ اور اگر کریں گی تو کس سے؟
ج: اس کا فیصلہ میں نہیں کرسکتی۔ یہ صدارتی انتخاب فیصلہ کن ہوگا، یا ہم اپنی تہذیب کو بچاسکیں گے یا اسے تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیں گے؟ تو میں سمجھتی ہوں کہ سیاست میں ایسے لوگ ہوں گے، دائیں بازو سے بھی اور بائیں سے بھی جو میری بات سے اتفاق کریں گے۔
س : نیشنل فرنٹ پارٹی، جس کی آپ رہنما ہیں، اب ویسی جماعت نہیں رہی جیسی آپ کے والد صاحب اسے چلاتے تھے۔اپنے کیریئر کے کس حصے میں آپ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ اگر نیشنل فرنٹ کو مقابلے میں شامل ہونا ہے تو اسے اپنا انتہا پسندانہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا؟
ج : ماضی میں نیشنل فرنٹ ایک احتجاج والی پارٹی تھی۔یہ ایک حزب اختلاف کی جماعت تھی۔قدرتی طور پر اس کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ نے اسے حکومتی جماعت بنادیا۔ یعنی ایسی جماعت جو اپنے خیالات کے نفاذ کے لیے اونچے عہدوں پر فائز ہونے کی جدوجہد کرے گی۔یہ بات بھی درست ہے کہ سیاسی جماعت پر اس کے رہنما کا بہت اثر پڑتا ہے۔ میں نے وہ راستہ نہیں چنا جس پر میرے والدصاحب چل رہے تھے۔میری وہ شخصیت بھی نہیں جیسی ان کی تھی۔ وہ آدمی تھے، میں ایک عورت ہوں۔
س: فرانس نیس جیسے دہشت گرد حملوں سے کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گا؟
ج: ابھی تک تو فرانس نے کچھ نہیں کیا۔ فرانس کو مہاجرین کی آمد کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا،کیوں کہ ہم جانتے ہیں اس سے دہشت گرد ملک میں داخل ہوتے ہیں۔فرانس کو پیدائشی حق شہریت کے قانون کو ختم کرنا ہوگا، جس سے خود بخود فرانس کی شہریت مل جاتی ہے۔ نگرانی کا ایک طریقہ کار مرتب کرنا ہو گا۔ہمیں دوہری شہریت والے ان افراد کی شہریت ختم کرنی ہوگی جو کسی بھی دہشتگرد تنظیم سے رابطے میں ہیں۔
بالخصوص ہمیں بڑھتی ہوئی اسلامی بنیاد پرستی سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔ انتخابات کے پیش نظر، فرانسیسی سیاستدانوں نے اسلامی بنیاد پرستی کا خیرمقدم کیا اور مساجد (نام نہاد عبادت گاہیں) تعمیر کروائی گئیں، جن کے اخراجات فرانس اور اس کے علاوہ وہ ممالک جو اسلام کی بنیاد پرستانہ فکر کو فروغ دینا چاہتے ہیں، برداشت کیے۔ ہمیں دوبارہ اپنی سرحدوں پر اختیار حاصل کرنا ہوگاکیوں کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کھلی سرحدوں کے ساتھ کس طرح دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
س: آپ نے کہا تھا کہ اسلام کے علاوہ ــ’’کوئی مذہب مسائل پیدا نہیں کرتا‘‘۔ آپ کو یہ ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہی سچ ہے؟
ج :کیوں کہ تما م مذاہب فرانس میں سیکولرازم کے قوانین کے تابع ہیں۔واضح رہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس پر عمل کرتے ہیں،مگرکچھ ایسے بھی ہیں (بنیاد پرست) جو اسے قبول نہیں کرتے اوراس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ فرانسیسی آئین سے زیادہ اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے۔
ایک صدی قبل، جب سے یہ سیکولر قوانین کا نفاذ ہوا ہے کسی نے ان قوانین کی مخالفت نہیں کی۔لیکن یہ مسلم انتہا پسند گروہ ان قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اور ہمیں یہ بات کھل کر کرنی چاہیے کیوں کہ جب تک ہم اپنے دشمن کا نام نہیں لیں گے،تو اس کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ہمیں اپنے آئین کی پاسداری اور قوانین پر عملدر آمد کے معاملے میں سخت ہونا پڑے گا۔ایمانداری کے ساتھ کہا جائے تو ہماری سیاسی طبقے نے کینیڈین طرز پر ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی۔ہم اگر ان معاملات میں سختی سے نمٹیں گے تو ہی ہم اپنی آزادی برقرار رکھ سکیں گے اور حقوق کا تحفظ کر سکیں گے۔ان ہی وجوہات کی وجہ سے ہمیں خواتین کے حوالے سے رجعت پسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فرانس میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں خواتین اپنی پسند کا لباس نہیں پہن سکتیں۔
س: آپ برکنی پر پابندی کے حق میں ہیں، اس میں کیا مسئلہ ہے؟
ج :مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک اسلامی لباس ہے، نہ کہ تیراکی کا لباس۔ یہ ان طریقوںمیں سے ایک ہے جن سے اسلامی بنیاد پرستی اپنی جڑیں مضبوط کر سکتی ہے۔اگر ہم نے یہ قبول کرلیا تو آئندہ ہمیں پھرخواتین اور مردوں کے تیراکی کے تالاب بھی جداکرنے پڑیں گے۔ اور پھر دیگر عوامی جگہوں پر بھی اس تقسیم کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ اگر آپ یہ سب کچھ سوچنے سے قاصر ہیں، تو آپ اسلامی بنیاد پرستی کو نہیں سمجھ سکتے۔
س:مگر کیا اس عمل سے مسلمانوں کو فرانس کے اندر ضم کرنے میں مدد حاصل ہوگی؟
ج : ضم کرنا کسے کہتے ہیں؟یہ’’ایک ساتھ رہتے ہوئے اپنے طرز پر زندگی گزارنے‘‘ کا نام ہے۔ فرانس میں بھی یہی ماڈل ہے۔ لیکن شخصی آزادی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ فرانس کے متعین کردہ مجموعی تہذیبی قوانین پربھی بحث کی جائے۔
س: کیا آپ کو لگتا ہے کہ امریکا کا ضم کرنے والا ماڈل فرانس سے بہتر اور موثر ہے؟
ج: مجھے اس پر فیصلہ نہیں دینا۔ یہ امریکیوں کا مسئلہ ہے۔ ذاتی طور پر میں وہ ماڈل پسند نہیں کرتی۔ وہ ماڈل امریکا کی تاریخ کا اثر ہے۔ مختلف ممالک سے برادریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور پھر ایک قوم کی شکل اختیار کرنا۔یہ فرانس کا معاملہ نہیں ہے۔فرانس قدیم تاریخ رکھتا ہے اور مقامی آبادی کا حامل ہے۔اور یہاں کوئی بھی چیز معجزاتی طور پر نہیں ہوئی ہے۔اور سیکولرازم وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہم نے اپنے ملک میں جاری مذہبی تنازعات سے جان چھڑائی ہے، ان تنازعات کی وجہ سے ہم خونی جنگوں کا شکار رہے ہیں۔
میں اپنا ماڈل کسی پر تھوپنا نہیں چاہتی، اور نہ ہی کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہمارے ماڈل کے ٹھیک یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے۔ مجھے اکثر اس بات پر غصہ آجاتا ہے جب دوسرے ممالک فرانس کے نظام پر تنقید کرتے ہیں۔میں کسی کے نظام پر تنقید نہیں کرتی اور چاہتی ہوں کہ کوئی اور بھی ہمارے نظام پر تنقید نہ کرے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ’’Communitarianism‘‘ تنازعات کے بیج بوتا ہے، اور میں نہیں چاہتی کہ میرے ملک میں تنازعات ابھریں۔ تمام آزادی، خودمختاری اور حقوق فرد کو حاصل ہیں اور یہ فرد ہی ہے جو معاشرے میں ضم ہو جاتا ہے نہ کہ برادریاں۔
(ترجمہ : عبدالرحمن کامران)
“France’s Next Revolution”.
(“Foreign Affairs”. Nov-Dec. 2016)
اسلام کے حوالے سے کئے گئے سوالات کے جوابات سے میں اتفاق کرتا ہوں.