
اقوامِ متحدہ کے تقریباً متفقہ ووٹ کے نتیجے میں جب سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت دی گئی ہے تب سے اسرائیل یورپ اور دوسرے ممالک میں بالخصوص انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں اپنے سیاسی وسائل و ذرائع کے ذریعے اپنے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو جرم قرار دیے جانے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔
حال ہی میں ایک حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ نیویارک کے قریب واقع گرین وچ ولیج میں موساد نے اپنا ایک محفوظ ٹھکانہ بنایا ہوا ہے اور یہیں سے وہ سینڈی ہک جیسے دہشت گردانہ واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام کی نفی کی کوشش میں مصروف ہے جو کہ اسرائیل کے لیے ہلاکت خیز بدنامی کا سبب ہوا ہے۔ اب جب کہ فلسطین اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ہیگ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں اسرائیلی جرائم سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ کرے، تو اسرائیل بھی اس فکر میں ہے کہ کسی طرح اُس کے خلاف بلند ہونے والی ہر صدائے احتجاج کو خاموش کردے، خواہ وہ فلسطینیوں کی جا نب سے ہو یا کسی اور کی جانب سے۔ اسرائیل نے پہلے ہی یورپ اور دوسرے علاقوں میں پریس ٹی وی کو بند کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح غزہ میں ہونے والی شکست کے نقصانات اور سینڈی ہک میں ملوث ہونے کی بدنامی کا سدِباب کیا جاسکے۔ یورپی ممالک بالخصوص جرمنی، آسٹریا، فرانس، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا حتیٰ کہ امریکا میں اسرائیل نے پریس سے متعلق نئے قوانین پاس کرانے کی کوششوں میں مدد دی ہے تاکہ مستقبل میں اسرائیل کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناکام بنایا جاسکے۔ مثلاً جرمنی اس بات کے لیے آمادہ ہے کہ وہ ہرایک کے خلاف، خواہ وہ قانون دان ہو، سفارت کار ہو، صحافی ہو یا پروفیسر ہو، قانونی کارروائی کرے گا، اگر اُس نے ایسا کوئی بیان دیا ہو یا ایسی کسی معلومات کی اشاعت کی ہو جو اسرائیل کے مفاد اور اس کی سلامتی کے خلاف ہو۔
جرمنی میں اب یہ جرم ہے کہ کوئی ایسی دستاویز تیار کی جائے، خواہ اقوامِ متحدہ یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں پیش کرنے کی غرض سے ہی سہی، جس میں اسرائیلی جرائم کے خلاف ثبوت و شواہد موجود ہوں۔ وہ قانونی ماہرین جو فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اور جنہیں فلسطینی ریاست کی خودمختاری اور بالخصوص بین الاقوامی طور سے اب تسلیم شدہ فلسطین میں ’’نیتن یاہو کی یہودی آباد کاری کی نئی منصوبہ بندی‘‘ کے حوالے سے اسرائیل کی حالیہ خلاف ورزیوں کے خلاف مقدمہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس وقت اسرائیل کی جانب سے اُنھیں قید و بند کا سامنا ہے۔ ایسی رپورٹیں سامنے آئیں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اخبارکے مدیران ، مترجمین اور مصنفین حتیٰ کہ کمپیوٹر ماہرین کے خلاف بھی مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ اس معاملے میں عدالتی چارہ جوئی سے اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے ملازمین بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ایک طویل تاریخ ہے جنھوں نے ہولوکاسٹ کی تاریخی روداد کو چیلنج کیا ہے۔
سیکڑوں دانشوروں اور ان کے مقدمے کی وکالت کرنے والے قانونی ماہرین حتیٰ کہ صحافی حضرات کو بھی محض اس بنا پر کہ انہوں نے یہودیوں سے متعلق مسائل میں قربانی کا بکرا بننے کے فلسفے (Victimization Dogma) کی پیروی نہیں کی، ۱۵؍ سالوں پر محیط طویل قید وبند کی سزا کاٹی ہے۔ مزید برآں ہزاروں اساتذہ کو اس جرم میں معلمی کے فرائض سے سبکدوش کیا جاچکا ہے اور بہتیرے صحافیوں کو اخبارات اور میڈیا چینلز سے برطرف کیا گیا ہے۔اسی طرح بہتوں پر سفر کی پابندی عائد کی گئی ہے اور مذکورہ بالا ممالک ان حضرات کے لیے پولیس اسٹیٹ ثابت ہوئے ہیںجہاں ان کی سرگرمیوں کی کڑی نگہداشت کی جاتی ہے۔انتہا یہ ہے کہ تاریخی روداد پر کسی نظرثانی کی بات کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں حتیٰ کہ انہیں شکنجے بھی دیے جاتے ہیں۔ یہ خیال بعید از امکان نہیں ہے کہ اسرائیلی پالیسیوں کے بہت سارے ناقدین کی غیر متوقع اور مشکوک اموات آزادیٔ اظہارِ بیان کا گلا گھونٹ دینے کی مہم کا حصہ ہوں۔اب جب کہ اسرائیل اقوامِ متحدہ میں رُسوا ہوگیا ہے اور امریکا نے بھی اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے لہٰذا اگر اسرائیل ایران کے خلاف اپنی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو اسے اپنے وجود کے لالے پڑ جائیں گے۔
فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ میں مزید اقدامات سے روکنے کے لیے نیز انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں آزادانہ اور یقینی رسائی سے باز رکھنے کے لیے رشوت ، بلیک میلنگ اور دھمکیوں سے کام لیا جارہا ہے۔یہ رکاوٹیں اب کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ بیشتر یورپی ممالک میں موثر ہو رہی ہیں۔یعنی واقعات اور حقائق پر مبنی ایسے مواد کی تیاری میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جنہیں اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میںپیش کرکے اسرائیلی جرائم کو برملا اور ثابت کیا جاسکتا ہو۔اس طرح کی کوشش بھی محض ان بہت ساری کوششوں کا ایک حصہ ہے جو اسرائیل اپنے دفاع کے لیے انجام دے رہا ہے۔وہ مواد جو اسرائیل کے جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو آشکار کرتے ہیں الیکٹرانک طریقے سے ان کی ترسیل کو اقوام متحدہ نے فلسطینی حکومت کا مسلمہ حق قرار دیا ہے، جب کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی نظر میںیہ ایک مستلزمِ سزا جرم ہے جس کی سزا پانچ سال سے لے کر بیس سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا کوئی شہری جوایسی قانونی سرگرمیوں میں شریک ہو جو ایسی معلومات کے انکشاف کا باعث ہوتی ہوں، جو اسرائیل کے لیے ضرررساں اور نقصان دہ ہیںتو ایسا ہرشخص نفرت کو جنم دینے والا مجرم خیال کیا جائے گااور وہ سزائے قید کا مستحق ہوگا۔اس طرح کے فیصلوں نے نہ صرف تاریخ کے غیر جانبدارانہ مطالعہ اور ہولوکاسٹ کی مروجہ روداد پر نظرثانی کو جرم بنادیا ہے بلکہ ان فیصلوں کی روشنی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری یا فلسطینی مظاہرین پر اسرئیلی فوجیوں کی فائرنگ کی رپورٹنگ بھی ایک جرم ہے۔ حتیٰ کہ امریکی بحری جہاز لبرٹی پر ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی حملے ،۱۱؍ ستمبر کے واقعہ میںاسرائیل کے ملوث ہونے کی رپورٹ یا حالیہ ’’سینڈی ہوک‘‘ دہشت گردانہ حملے میں اسرائیلی ہاتھ کا حوالہ دینا بھی جرم ہے۔
حالیہ برسوں میں سینڈی ہوک کا واقعہ اسرائیل کے لیے شاید سب سے زیادہ رسوائی کا سبب ثابت ہوا ہے۔ نیویارک میں واقع ’’دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے‘‘ سے ۲ جنوری کو دو اسرائیلی شہریوں کی گرفتاری اور پھر ان کے پاس سے اسلحوں اور دھماکا خیز مواد کا برآمد کیا جانا سینڈی ہوک سے متعلق تحقیق کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ان دونوں مشتبہ افراد کی شناخت ہپیوں (Hippies) کے طور پر ہوئی ہے لیکن ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والا ایک مضمون اس واقعہ کے مزید کچھ گوشوں کو واشگاف کرتا ہے۔ مسٹر گرین کے دو رشتہ دار تھے جو ہولوکاسٹ کی نظر ہوگئے تھے۔ ان کے وکیلوں چارلز کلے مین اور ایزابیل کشنر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں حیرت بھی ہوئی اور مایوسی بھی کہ واقعہ کی مکمل تحقیق اور پھر اسے ڈسٹرک اٹارنی کے سامنے لانے کے بجائے پولیس نے تمسخرانہ کنایوں، ادھوری حقیقتوں اور طنزیہ تبصروں کو برملا کرنے کو ترجیح دی‘‘۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پولیس تفتیشی افسران نے ایک ایسا لیٹر دریافت کیا جس پر کوئی تاریخ درج نہیں تھی۔ ان افسران کا خیال ہے کہ یہ لیٹر مسٹر گرین کا تحریر کردہ ہے اور اس میں ’’ تمام کو قتل کردو‘‘ کا جملہ شامل ہے جبکہ’’ قتل کردو‘‘ کاجملہ تکرار کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ اس لیٹر پر مسٹر گرین نے دستخط کیے تھے، اپنے علامتی نام ’’ایس ایس، نازی اسپیشل پولیس ‘‘کے ساتھ۔
بہرحال یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ دقت اور غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیلی گروہ نے ’’ جدید نازی‘‘ گروہ کے حاملینِ اسلحہ پر سینڈی ہوک دہشتگردی کا الزام عائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اوراسی وجہ سے نیویارک کے میئر بلوم برگ کی طرف سے قومی اسلحوں کو ضبط کیے جانے کے مطالبے کی حمایت کی۔ وہ دریافت شدہ دستاویزات جو اس دہشتگردانہ قتل کے ذمہ داروں کی نشاندہی کاتاثر دیتی ہیں اور ساتھ ہی دہشت گردوں کا تحریر کردہ خط بھی محض فریب اور پردہ پوشی پر مبنی اس کارروائی کا جز ہیں جو پریس کے تعاون سے انجام دی گئی تا کہ نیو ٹائون کے گھنائونے دہشتگردانہ واقعہ سے متعلق تحقیقات کو صحیح رخ سے منحرف کردیا جائے۔
ایسی شہادتیں بھی سامنے آئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیل اپنے ترجمان جولین اسانج کو پھر سے توانائی بخشنا چاہتا ہے جو کہ اسرائیل کا زور دار دفاع کرنے والا ہے اور ۱۱؍ستمبر کی اصل ماہیت و حقیقت کا انکاری ہے۔ اسانج نیتن یاہواور مرڈوچ نامی ادارہ سے دیرینہ وابستگی رکھتا ہے اور ایک طویل عرصے سے وکی لیکس پر ایران اور پاکستان کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ لیکن اس ہوشیاری کے ساتھ کہ حملوں کے مواد سے اسرائیل دشمنی کا تاثر ملتا رہے۔ بہت سارے تازہ مسائل کے سبب اسرائیل پر مزید دبائو بڑھ گیا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی خبر ہے۔ جنرل ڈیمپسی جو کہ چیئر مین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ہیں، اب امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی براہ راست ماتحتی میں کام کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ چک ہیگل وہ اہم امریکی سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اسرائیلی لابی سے دور کیا ہوا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق اگرچہ ہیگل کی نامزدگی ایوان کے جلسوں میں شرکت کی منتظر ہے تاہم ہیگل کے خلاف اسرائیلی سرگوشیاں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں جس کا نتیجہ دونوں ممالک کے تعلقات میںمزید تلخیاں پیدا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ کم ازکم اس وقت تک جب تک لیکوئڈ پارٹی کو اپنی آمرانہ روش سے باز رہنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔
یورپ ،کینیڈا اور آسٹریلیا میں برسہا برس جوکچھ ہوتا رہا ہے، ایسے اظہار بیان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہے، جسے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے ذریعے ۱۹۴۸ء میں تحفظ فراہم کیا گیا اور یہ اعلامیہ طویل عرصے سے ان ممالک میں دبائو اور سینسر شپ کا شکار ہے۔لیکن اب مزید یہ ہوا ہے کہ بے رحمانہ اور سیاہ قانون کے ذریعے دبائو اور سینسر شپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے اور اب یہ سیاہ قانون تمام بین الاقوامی اداروں تک رسائی نیز شکایتوں کے ممکنہ ازالہ میں سخت مزاحم ہے۔
مزید یہ کہ دہشت گردی ،جنگی جرائم ،جارحیت ،بینکنگ اور مالیات میں ناجائز دست و بر دو دھاندلی کا وسیع تر جال نیز منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ کی پشت پناہی مقصود ہے لہٰذا وہ تمام حکومتیں جو اسرائیل کے ساتھ اس معاملے میں تعاون کرتی ہیں، درحقیقت اس کے جرم میں پوری طرح شریک ہیں۔
☼☼☼
Leave a Reply