
مسلح افراد کے حملے میں فرانسیسی رسالے ’’شاغلی ایبدو‘‘ کے دفتر اور کوشر شاپ پر ۱۷؍افراد کے مارے جانے اور اس کے بعد گستاخانہ خاکے ایک بار پھر شائع کرنے کے واقعہ نے مغرب، نیز بھارت میں بھی اظہارِ رائے کی آزادی پر زوردار بحث چھیڑ دی ہے۔ حادثے کے بعد اس رسالے کے لیے ہمدردی اور یکجہتی کی ایک رو بھی چلی۔ بھارت کے مختلف شہروں میں بھی حملوں کے خلاف ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ بعض ٹی وی اینکر تو اتنے پُرجوش دکھائی دے رہے ہیں کہ انہوں نے ناموسِ رسالتؐ کے حق میں اور فرانسیسی رسالے کے خلاف مسلمانوں کے ردعمل کو جمہوریت کے لیے خطرناک بتایا‘ لیکن یہی نام نہاد دانشور‘ ادیب‘ مصنفین اور ٹی وی اینکر اپنے ملک کے اندر اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹے جانے کے متعدد واقعات پر اس طرح چپ سادھ لیتے ہیں‘ گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ دو سال قبل فلم ساز نتیشا جین‘ صحافی پرینکا بورپوجاری اور ستین باردولائی کو جب چھتیس گڑھ کے دانتے واڑہ میں گرفتار کیا گیا‘ تو کسی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ وہ قبائلیوں پر ہونے والے مظالم اور نکسلی اور نکسل مخالف کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے یہ ’مجاہد‘ اُس وقت بھی خاموش رہے، جب ۲۰۱۰ء میں امریکی مصنف اور دانشور پروفیسر Richard Shapiro کو حکومتِ ہند نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں ہی جب مشہور براڈ کاسٹر David Barasmian اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انہیں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے ہی بیرنگ واپس لوٹا دیا۔ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر نندنی سندر کے بھی چھتیس گڑھ میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ۲۰۱۱ء میں حقوقِ انسانی کے مشہور کارکن گوتم نولکھا کا واقعہ شاید لوگ ابھی نہیں بھولے۔ گوتم جب اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے تو سری نگر ہوائی اڈہ پر انہیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
حال ہی میں بھارت میں ایک اور ادیب اور اس کا ناول موضوع بحث بن گیا ہے اور ناول پر پاپندی بھی لگا دی گئی ہے۔ یہ تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن ہیں۔ ان کے ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگا دی گئی ہے کہ اس میں موروگن نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’’نیوگ‘‘ پر نکتہ چینی کی ہے۔ نیوگ رسم کے مطابق کوئی بے اولاد عورت، بچہ پیدا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈت سے جنسی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اس رسم کو قدیم بھارت میں سماجی قبولیت حاصل تھی۔ موروگن نے اس ناول میں ذات پات پر مبنی طبقاتی کشمکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی ہے‘ جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی ازدواجی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ ان پر اتنی نکتہ چینی ہوئی اور فضا اس قدر خراب ہوئی کہ انہوں نے نہ صرف آئندہ قلم نہ اُٹھانے کی قسم کھالی بلکہ ناول کے ناشرین کو اس کی تمام کتابیں جلانے کی استدعا بھی کر دی۔ یہ تو صرف چند واقعات ہیں‘ جن کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے‘ ورنہ ایسے واقعات کی گنتی مشکل ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی کا سب سے بڑا عَلَم بردار‘ یورپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال ہولوکاسٹ ہے۔ یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قرار دینا، انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ بھی جاری کر رکھا ہے کہ ہولوکاسٹ کو غَلَط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے‘ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا‘ جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پر بھی کچھ لکھنا‘ گردن زدنی جرم قرار پایا گیا ہے۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، اُن میں آسٹریا‘ ہنگری‘ رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی آگے آگے تھے۔ ۱۹۸۹ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک بیس برسوں میں تقریباً پندرہ ادیبوں اور مصنفین کو اظہارِ رائے کی آزادی کے علم برداروں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کی ایک فہرست میں جَدوَل کی شکل میں دی جا رہی ہے۔
دنیا کے متعدد ممالک میں اس وقت مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن فرانس میں حال ہی میں اسلام مخالف جذبات میں مزید تیزی آگئی ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں دو کتابوں کا شائع ہونا‘ ایک منفی اور حوصلہ شِکن رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ پچھلے ہی سال سامنے آنے والی اِرک زمور کی کتاب ’’فرانسیسی خودکشی‘‘ (French Suicide) میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ فرانس میں مسلمان طبقہ ایک طاقت بن کر اُبھر رہا ہے جو کسی بھی وقت حکومت پر قبضہ کر سکتا ہے، اسی طرح میچل ہول بیک کے ایک ناول میں ۲۰۲۲ء میں فرانس میں کسی مسلمان سیاسی جماعت کو فرانسیسی حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہول بیک کا یہ ناول ’’شاغلی ایبدو‘‘ حادثے کے روز ہی شائع ہوا۔ تین سال پہلے ہول بیک نے بھی مذہب اسلام پر اِسی نوع کا جاہلانہ اور متعصبانہ حملہ کیا تھا۔ ایسے حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان قابلِ نفرین واقعات سے فرانس میں دن بہ دن اسلام مخالف جذبات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
آزادیٔ اظہار کے حق کے حوالے سے زیادہ دیر تک تعصب اور منافرت اور دُہرے معیار کی عینک نہیں لگائی جاسکتی۔ سب سے پہلے میڈیا کی آزادی کی حدود کا تعین کرنا لازمی امر ہے۔ صحافت کو محض اسلام کی تضحیک یا مسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر بقائے باہمی، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے بارے میں احترام کے جذبہ کو فروغ دیا جائے۔
’’اظہارِ رائے‘‘ کی آزادی کے علمبرداروں کے ہاتھوں اِسی اظہارِ رائے پر سزا پانے کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
تاریخ | نام | ملک | سزا |
---|---|---|---|
فروری ۱۹۹۸ء | جین میری لی پین راجر گراوڈی |
فرانس/ جرمنی فرانس |
جرمانہ دو لاکھ ۴۰ ہزار فرانک جرمانہ |
جولائی ۱۹۹۸ء | یورگن گراف | سوئٹزرلینڈ | پندرہ ماہ قید |
جولائی ۱۹۹۸ء | گیرہارڈ فوسٹر | سوئٹزرلینڈ | بارہ ماہ قید |
مئی ۱۹۹۹ء | جین پلانٹین | فرانس | چھ ماہ قید، جرمانہ |
اپریل ۲۰۰۰ء | گیسٹن ارمانڈ | سوئٹزرلینڈ | ایک سال قید |
فروری ۲۰۰۶ء | ڈیوڈ ارونگ | آسٹریا | ایک سال قید |
مارچ ۲۰۰۶ء | جرمار روڈولف | جرمنی | ڈھائی سال قید |
اکتوبر ۲۰۰۶ء | رابرٹ فائریسن | فرانس | ۷۵۰۰ یورو جرمانہ، تین ماہ نظربند |
فروری ۲۰۰۷ء | ارنسٹ زیونڈل | جرمنی | پانچ سال قید |
جنوری ۲۰۰۸ء | وولف گینگ فرولچ | آسٹریا | چھ سال قید |
جنوری ۲۰۰۸ء | سلویا اسٹالس | جرمنی | ساڑھے تین سال قید |
مارچ ۲۰۰۹ء | ہوسٹ مہلر | جرمنی | پانچ سال قید |
اکتوبر ۲۰۰۹ء | ڈیرک زمرمین | جرمنی | نو ماہ قید |
اکتوبر ۲۰۰۹ء | رچرڈ ولیمسن | جرمنی | بارہ ہزار یورو جرمانہ |
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۲۸ جنوری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply